مظلوم

52

اسے اپنا آپ بڑا مظلوم لگتا تھا، وہ خود کو دنیا کی سب سے مسکین عورت سمجھتی تھی، اسے لگتا تھا کہ اس پر بہت ظلم ہوتا ہے۔ بہت ساری خواہشات کی تکمیل اس کے لیے ناممکن تھی۔ وہ بہت کچھ کرنا چاہتی تھی لیکن اس کے لیے وہ ناممکن تھا۔ اسے لگتا تھا کہ اس کے اوپر بہت ساری پابندیاں ہیں جو نہ ہوتیں تو وہ بھی معاشرے کی بہت سی عورتوں کی طرح آزادی کی زندگی جی سکتی تھی اور سُکھ کا سانس لے سکتی تھی۔

اور ان سب میں وہ ظلم کرنے والی اسے اپنی ’’ساس‘‘ محسوس ہوتیں۔ اسے لگتا تھا کہ وہ اس پر بے جا پابندیاں عائد کرتی ہیں اور انہیں اس سے محبت ہی نہیں۔ وہ اسے صرف بہو سمجھتی ہیں، اس کے سوا کچھ نہیں، اور اِس کا ذکر وہ کبھی کبھار باتوں باتوں میں اپنے شوہر سے بھی کردیا کرتی تھی، جو اس کی بات سن کر کبھی تو برہم ہوجاتے اور کبھی کہتے کہ ’’وقت سمجھائے گا کہ تمھیں میری امی کیا سمجھتی ہیں۔‘‘

اور وہ کہتی ’’دیکھتے ہیں، میں بھی یہیں ہوں اور آپ کی امی جان بھی۔‘‘ اور یوں بات ختم ہوجاتی۔

اس پر لگنے والی بہت سی پابندیوں میں سے ایک پابندی یہ تھی کہ باورچی خانہ صاف کرکے، برتن دھوکر سونا ہے، ساتھ ہی شوہر کے آنے سے پہلے کپڑے بدل لیے جائیں، دھلا جوڑا پہنا جائے۔ تیسرا یہ کہ فریج میں پیالوں میں چمچہ نہ رکھا جائے۔ اور بھی کئی پابندیاں تھیں جن پر عمل پیرا ہونا لازم تھا، لیکن اُن پر وہ بہ خوشی عمل کرلیا کرتی۔ لیکن روز روز کپڑے بدلنے سے اسے سستی آتی تھی کہ وہ تو شادی سے پہلے ایک جوڑے کو دو کیا، تین دن تک بھی پہنے رہتی تھی۔ اسے لباس تبدیل کرنے میں بڑی کوفت ہوتی تھی کہ کیا پہنوں…؟ لان کا جوڑا یا پھر کاٹن کا؟ لان کا پہنوں تو پانی ڈال کر بغیر استری کیے بھی چل جائے گا اور کاٹن پر کون استری کرے…! جارجٹ کا پہنوں تو دوپٹہ سنبھالنا مشکل۔ لہٰذا کپڑے بدلنا اسے مشکل کام ہی لگتا۔

اور رات کو برتن دھوکر باورچی خانہ صاف کرنا تو اس سے بھی مشکل، حالانکہ بچوں کی پیدائش، یا بچوں کے چھوٹے ہونے پر تو کبھی اس کی اتری شکل دیکھ کر رات کے آدھے سے زیادہ برتن ساس خود دھو دیتیں یا پھر صاف برتنوں کو جگہ پر رکھنے میں مدد کرتیں، لیکن پھر بھی یہ بہت بڑی پابندی لگتی اور اسے لگتا کہ انھیں اس سے پیار ہی نہیں۔

انہی پابندیوں میں جکڑی، مہینے ڈیڑھ مہینے بعد وہ اپنے میکے میں دو، تین دن کے لیے جاتی تو وہاں صرف سوتی یا پھر اپنا کوئی کام نپٹا لیتی۔ شاید اسی لیے وہ میکے جاتی تھی۔ وہاں کے کیا معاملات ہیں؟ کس بھابھی کی کیا ذمے داری ہے؟ وہاں باورچی خانے میں رات کے وقت کیا حالت تھی اسے اس سے کوئی سروکار نہ تھا۔ اسے تو بس بیٹھے بٹھائے کھانا مل جاتا۔ امی، بھابھیوں کو یا تو وہ خود ہی بتادیتی کہ یہ کھانا ہے، یا یہ کہ جو مرضی آئے پکا لیں مجھے بس نیند پوری کرنے دیں۔

اس کی امی اور بھابھیاں بھی کہتیں کہ سسرال سے تھک ہار کر آئی ہے اسے آرام کرنے دو … اور ان دو یا زیادہ سے زیادہ تین دن میں اس کے جانے کا وقت آجاتا اور وہ اپنی امی کے گلے لگ کر اور بھابھیوں کا شکریہ ادا کرکے واپس سسرال آتی اور پھر سے اس کو اپنا آپ مظلوم لگنے لگتا۔

اور اب اس کی شادی کو دس سال ہوگئے تھے۔ ساس کی لگائی پابندیوں کو اس نے طوعاً و کرہاً قبول کر ہی لیا تھا، اور یہ پابندیاں اب اس کی زندگی کا حصہ بھی بن گئی تھیں، لیکن پھر بھی ابھی تک اسے ساس سے گلہ ہی تھا کہ کیوں ہیں یہ پابندیاں؟ اور اتنے برسوں بعد بھی وہ ان سے چھٹکارا حاصل کرنا چاہتی تھی۔

ایک دن اس کے میاں آئے اور کہنے لگے کہ چلو لاہور چلتے ہیں۔ اس نے کہا کہ ایسے کیسے بیٹھے بٹھائے؟کیوں بھئی کیا کراچی سے لاہور جانا اتنا ہی آسان ہے؟ پھر امی کا کیا ہوگا؟ اور ان تین بچوں کے ساتھ جانا کیا آسان ہے؟

کہنے لگے کہ دراصل مجھے دفتر کے کچھ کام سے جانا ہے، لہٰذا تم لوگ بھی چلو… وہاں میری ایک کزن بھی ہے، وہیں رہ لیں گے ہم لوگ۔ امی کے پاس بڑی آپا رہ لیں گی… بس تم پیکنگ کرو، دو دن بعد نکلنا ہے۔ باقی بڑی آپا اور اپنی کزن وغیرہ سب سے میں نے بات کرلی ہے… تم بس تیاری پکڑو۔

اب اس نے چیزیں سمیٹیں اور ایک ہفتے کے لیے بچوں کو لے کر میاں کے ساتھ کزن کے گھر لاہور پہنچ گئی۔

وہاں رہتے ہوئے دو دن اس نے مہمان بن کر گزارے اور تیسرے دن کی صبح وہ باورچی خانے میں پہنچ گئی کہ میاں اور باقی گھر والوں کے لیے ناشتہ تیار کرلے… لیکن یہ کیا؟ وہاں تو برتن گندے پڑے ہوئے تھے، سلیپ پھیلا ہوا تھا۔ اس نے فریج کھولا تو اس میں بھی کھلے سالن کے پیالوں میں چمچے بھی تھے۔ پہلے پہل تو اس نے سوچا کہ کیبنٹ سے آٹا نکالے اور گوندھ کر پراٹھے بنالے، لیکن وہاں تو آٹے کا میلا تسلہ سنگ میں تھا کہ جس پر پپڑیاں جمی ہوئی تھیں جسے دھونے کے لیے اچھا خاصا وقت درکار تھا۔

پھر اس نے سوچا کہ ڈبل روٹی سینک کر انڈے فرائی کرلے، لیکن گندے برتن اور اَدھ کھلی تیل کی بوتل دیکھ کر اس کی تو ہمت ہی نہ ہوئی کچھ بنانے کی، بلکہ عجیب ہی محسوس ہوا کہ رات بھر یہ گندے برتن سلیپ پر ہی پھیلے رہے اور اب جب کہ اسے ناشتہ بنانا ہے تو استعمال میں آنے والی چیزیں ہی درست حالت میں موجود نہیں۔
اب اسے اپنی ساس کی شدت سے یاد آئی اور اُن کی لگائی گئی پابندیوں کی حکمت بھی۔ اور میاں کا کہا یہ جملہ کہ ’’وقت سمجھائے گا کہ میری امی تم سے محبت کرتی ہیں یا ظلم کرنے کے لیے یہ اصول تم پر لاگو کرتی ہیں۔‘‘
اور اسے بہ خوبی سمجھ میں آگیا تھا کہ یہ قوانین تو اسی کے بھلے کے لیے تھے۔
nn

حصہ