ہم جب بھی پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں سوچتے ہیں تو ہمارے دل میں یہ خیال ضرور آتا ہے کاش ہم بھی دورِ محمدؐ میں پیدا ہوئے ہوتے، کاش ہم بھی صحابہ کرامؓ کی فہرست میں شامل ہوتے، کاش ہم بھی غزوات میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے شانہ بشانہ لڑتے اور شہید یا غازی کا رتبہ پاتے، وغیرہ وغیرہ۔
اس طرح کی باتیں ہم بہت سوچ لیتے ہیں لیکن یہ معلوم نہیں کہ ہمارا ایمان کتنا مضبوط ہے، کیا ہم ایمان کی اس بلندی پر موجود ہیں؟ اُس وقت جب کفار کے بیچ صرف چند لوگ ہی مسلمان ہوکر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی جماعت میں شامل ہوئے تھے، کیا آپ نے کبھی سوچا کہ ہم بھی اس مشکل گھڑی میں ایسی سخت جدوجہد کا راستہ چن سکتے تھے؟ کہیں ایسا تو نہیں کہ ہم خدانخواستہ کفار کے راستے کے راہی بن جاتے؟ کیوں کہ اگر ہمارا ایمان مضبوط ہوتا تو مواقع تو ابھی بھی اللہ رب العزت نے بہت دیے ہیں۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا ساتھ ہونے کے لیے ضروری نہیں کہ ہم اُس دور میں ہی ہوتے، وہ تو ہم اُن کے مشن یعنی جس مقصد کے لیے نبی صلی اللہ علیہ وسلم اِس دنیا میں تشریف لائے، اُسے اپنی زندگی کا مقصد بنالیں اور اِس وقت ہم جس دور سے گزر رہے ہیں کہ جب تمام کفار متحد ہوکر اسلام کے خلاف صف آراء ہیں اور جس طرح کھل کر غزہ، لبنان اور شام کے مسلمانوں کی نسل کُشی کررہے ہیں اگر ہمارے اندر ذرا بھی ایمان موجود ہے تو ہمیں اُن کے خلاف کھڑا ہونا چاہیے۔ لیکن کہیں ایسا تو نہیں کہ ہم بھی مشرکینِ مکہ کی طرح بہانے بنانے میں مصروف ہیں؟
اپنا جائزہ لینا بہت ضروری ہے، کیوں کہ آخرت میں اس نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی منہ دکھانا ہوگا جس کی محبت کا ہم بہت دَم بھرتے ہیں۔ ہمیں اسرائیل اور امریکا کے عزائم بالکل سامنے نظر آرہے ہیں، پھر ہم بس یہ سوچ کر خاموشی سے اپنی زندگی کی رنگینیوں میں مگن ہیں کہ ہم تو کچھ کرنہیں سکتے، یہ کام تو حکمرانوں کا ہے۔ لیکن یہ سوچ کر ہم اپنی ذمہ داری سے بری الذمہ نہیں ہوسکتے، کیوں کہ اللہ کی عدالت میں ہم سے اپنے حصے کے کاموں کے بارے میں سوال ہوگا۔
ایک مالی تعاون جو ہم ان کی مصنوعات کا استعمال کرکے کرتے ہیں، اسے بند کرنا اتنا مشکل محسوس ہوتا ہے کہ اکثر لوگ چند دن کچھ چپس، برگر، کولڈڈرنک وغیرہ کا استعمال ترک کرکے بس یہ سمجھ بیٹھے کہ ہماری ذمے داری پوری۔ نہ اس سے آگے بڑھتے ہیں اور نہ یہ دیکھتے ہیں کہ ہم کیا کرسکتے ہیں! جب کہ ہم تو بائیکاٹ کرکے بھی تھک گئے اور بلاجھجک یا کچھ شرمندگی کے ساتھ دوبارہ تمام اشیا کا استعمال شروع کردیا۔
دوسری طرف غزہ اور لبنان میں مسلمان اللہ کی راہ میں اپنی جان و مال کا نذرانہ بہ خوشی پیش کررہے ہیں۔ یہ ہیں وہ مسلمان جو اصل میں امتِ محمدیؐ کہلانے کے لائق ہیں۔ وہ جرأت کا نشان بنے ہوئے ہیں، جدید اسلحے سے لیس فوج کا مقابلہ اپنے دیسی اور کمزور اسلحے سے کررہے ہیں لیکن ان کا ایمان ہے جس کی وجہ سے آج بڑی تعداد اور جدید اسلحے کے باوجود دشمن ان کو شکست نہیں دے سکا، اور پھر اللہ نے جو وعدہ تمام مسلمانوں سے کیا ہے کہ میں راہِ خدا میں لڑنے والوں کی مدد فرشتوں کے ذریعے کروں گا تو اللہ کی مدد و نصرت سے جب مجاہدین ان پر حملہ کرتے ہیں تو کفار کی سوچ اس کا مقابلہ نہیں کرپاتی۔
اس تمام صورتِ حال کو دیکھتے ہوئے اس وقت ہم سب مسلمانوں پر بہت بڑی ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ اپنی تمام تر طاقت اور مال و اسباب استعمال کرتے ہوئے کفار کے مقابلے میں مسلمانوں کا ساتھ دیں تاکہ آخرت میں اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو منہ دکھا سکیں اور ہمارا شمار صرف باتیں بنانے اور خواب دیکھنے والوں میں نہیں، بلکہ خوابوں کو سچا کردکھانے والوں میں ہو۔