رواج نہیں اعزاز

72

’’بتایا تھا کہ کوئی فریج دیکھنے آرہا ہے۔ جا، اندر جاکے مر اور سُن، اندر سے تیرے ہنسنے کی آواز نہ آئے ذرا بھی۔‘‘ ناصر نے افشین کو کمرے کے اندر دھکیلتے ہوئے کہا۔

’’یہ کیا بدتمیزی ہے بھائی! اماں سمجھا لیں انہیں، بات کرنے کا طریقہ سکھائیں، ایسی کیا قیامت آرہی تھی! اور یہ دوپٹہ تو میں نے لیا ہوا ہے۔ وہاں سے اِدھر اندر ہی تو آرہی تھی۔‘‘وہ جیسے رو دینے کو تھی۔

’’ارے بیٹا! بڑا بھائی ہے، جانتا ہے نا باہر کی دنیا کتنی خراب ہے، بس تمہارے ہی بھلے کو کہہ رہا ہے۔‘‘ اماں بھی اسے ہی قصور وار ٹھیرانے لگیں۔

بے شک موبائل کی دنیا ایک گندا سمندر تھا، یا بے شمار غلاظتوں کا ڈھیر… جس نے باپ، بھائیوں کو دہلا دیا تھا، اس پر احتیاط سختی کی حد میں جاکر ایک زندان بن گئی تھی۔ بڑی دونوں بہنوں کی میٹرک اور انٹر کے بعد شادی ہوگئی تھی۔ افشین انٹر میں تھی، پڑھنے کا بہت تو نہیں مگر بہرحال واجبی سا شوق تو تھا کہ آج کل کے ٹرینڈ کے مطابق ارننگ ہینڈ بن سکے، کچھ نہ کچھ ہی سہی، ایمپاور ہوجائے۔ بہرحال اماں کے پاس بیٹھی افشین اس خوامخواہ کی بے عزتی پہ شکوہ کررہی تھی جو بجا تھا۔

’’دیکھو بیٹا! ہم سفید پوش لوگ ہیں، سفید کپڑے پہ ہلکا سا داغ سب کی نظروں میں آجاتا ہے، یہ عزت ہی تو ہے ہمارے پاس، بس اللہ پردہ رکھ لے ہمارا… دل چھوٹا مت کرو، بھائی ہے۔‘‘

’’اماں! آپ ہی اسے سر چڑھاتی رہتی ہیں، آپ کی بیٹی ہوں اس کی قیدی نہیں ہوں کوئی۔ اُس دن بھی شادی میں جاتے ہوئے بھائی نے دھتکارا تھا۔ چادر کافی نہیں آپ کا پرانا والا عبایا لے جاؤں۔ جیسے میں بدھ بازار جارہی ہوں۔ میک اَپ بھی میں نے لائٹ سا کیا تھا۔ محلے کی ساری لڑکیاں کتنا تیار ہوکر آئی تھیں۔‘‘

واقعی ایسی سختی کے ساتھ دھتکارنا کسی جانور کو بھی برداشت نہیں ہوتا، وہ تو ایک لڑکی تھی اپنی ماں جائی… انسانیت کا نصف۔

آج چھٹی کا دن تھا، رات سے حنا خالہ دونوں بچوں سمیت آئی ہوئی تھیں، نلکا بہہ رہا تھا، ناصر نے پلمبر کو بلانے سے پہلے ایک بار پھر ڈھٹائی سے افشین کو دھتکارا تھا۔ حنا خالہ خود پردہ کرتی تھیں لیکن یوں بدتمیزی انہیں بہت بری لگی۔

پلمبر کے جانے کے بعد ناصر کی ٹھیک ٹھاک کلاس لے ڈالی ’’یہ کون سا طریقہ ہے ناصر میاں! خدا کے حکم کی پابندی خدا بن کے نہیں، بندہ بن کے کراؤ۔ اتنا خراب رویہ! یاد رکھو حجاب ذلت نہیں، عزت اور ناز ہے، اللہ کے حکم کو ایسا رواج بناکر کیوں دکھاتے ہو بیٹا جہاں شک اور تکبر سے لڑکیوں کو محصور کردیا جاتا ہے!‘‘ وہ بول پڑیں۔

’’خالہ! یہ ابھی ناسمجھ ہے۔ باہر کی دنیا میں لڑکے کیسے کیسے لڑکیوں کے ایکسرے لیتے ہیں، موبائل بھی اسی سے بھرے پڑے ہیں۔‘‘ ناصر کے پاس اپنا جواز تھا۔

’‘پہلی بات تو یہ ہے کہ بیٹا! تم ایسے دوستوں میں بیٹھتے ہی کیوں ہو؟ مجبوری پڑے تو ایسی باتوں سے ناگواری ظاہر کرو۔ حجاب تو ایک پاکیزہ حصار ہے، جو رشتوں اور دلوں کو جوڑنے کے لیے ہے، توڑنے کے لیے نہیں۔ بہن کا دل مت دُکھاؤ، اعتماد دے کر سمجھاؤ۔ پیارے نبیؐ کی حدیث یاد کرو عورت کے بارے میں کہ یہ نازک آبگینے ہیں۔ یہ پوری تہذیب انسانی سماج میں امن اور گھروں میں سکون لاتی ہے۔‘‘ وہ سمجھا رہی تھیں۔

’’جی خالہ! آپ بھی اسے سمجھائیں عبایا لیا کرے، نازک پری بنتی ہے اور چادر پہ ٹرخاتی ہے۔‘‘ وہ اب بھی اسے نشانہ بنارہا تھا۔

’’بہرحال تم تھانے داری بند کرو، قرآن وحدیث سے حجاب سے متعلق آیات نکال کر پڑھو اور سمجھو۔ افشین! تم بھی آپا کو سنایا کرو، پتا چلے گا کہ یہ رواج کا جبر نہیں بلکہ رب کا بندیوں کے لیے حفاظتی حصار ہے، اک ناز کے ساتھ بڑا اعزاز، جس کی حفاظت میں آج لڑکیاں کہاں کہاں آگے جارہی ہیں حدود کو اپناتے ہوئے۔ پھر حیا کی ضرورت لڑکوں کو بھی ہے، یہ سب قرآن و سنت کے علم سے پتا چلے گا۔‘‘
’’بالکل حنا! تم ٹھیک کہہ رہی ہو…‘‘ اب اماں نے بھی تائید کی۔
’’آپا! مردوں کی اپنی بہن، بیٹیوں کے لیے ایسی غیر انسانی غیرت تو زمانۂ جاہلیت میں تھی جہاں پیدا ہوتے ہی حقارت سے گاڑ دیا جاتا تھا۔ اسلام نے ظلم کے اس رواج کو یکسر ختم کرکے جو تہذیب دی وہ تو اعزاز اور عزت ہے اعتدال سے آمادہ کرکے۔‘‘ خالہ جیسے اندھیروں سے اجالے میں لارہی تھیں۔ ناصر نے خالہ کی بات غور سے سنی۔

حصہ