مشاعرہ ہماری تہذیب اور ادوار کی عکاسی کرتے ہیں ۔دنیا بھر میں مشاعروں کا بڑھتا ہوا انعقاد اہل ذوق کی عکاسی کرتا ہے ۔گزشتہ دنوں ہمارے ہردلعزیز دوست اور معرف علمی ادبی اور سماجی شخصیت شیرافگن خان جوہر نے اپنے فن کے جوہر دیکھا کر اہل پاکستان ہی نہیں بلکہ پوری دنیا کو حیران کردیا۔ شیرافگن خان جوہر استاد الشعرا حضرت غضنفر علی خان غضنفرروہتکیؒ کے چشم وچراغ ہیں اور انہوں نے ادبی تنظیم غضنفراکیڈمی پاکستان کے زیراہتمام کل پاکستان وکل پنجاب بڑے بڑے مشاعروں کا انعقاد کیا ہے ۔
شیرافگن خان جوہر جو خود بھی معروف نعتیہ شاعر اورصاحب ِکتاب ہیں انہوں نے اپنے والد کی رحلت کے بعد ان کے ادبی مشن کو آگے بڑھایا۔ان کے والد حضرت غضنفر علی خان روہتکیؒکا کلام بلاشبہ اردو ادب اور عرفان ِانسانی کی خوبیوں کے منفرد اسلوب سے مزین ہے ۔ان کا دیوان دیوانِ غفران جو کہ پاکستان بننے کے بعد حروف ابجد کے لحاظ سے 1999میں چھپ کر منظر عام پر آیا اورپاکستان کا پہلا دیوان قرار پایااور اسے تاریخی اہمیت حاصل ہوئی ۔
حضرت غضنفر علی غضنفر ؒنے اپنے خون پسینے سے ادب کی آب یاری کی اور ان کے سیکڑوں شاگردپوری دنیا میں ادب کی خدمت میں مامور ہیں۔ ان کے برخودار شیرافگن خان جوہر نے اپنے والد کی وفات کے بعد ان کے ادبی اور سماجی مشن کو آگے بڑھایا اورمورخہ 23جون کو غضنفر اکیڈمی پاکستان کے زیراہتمام شہزاد نصیر ادبی سنگت وہوااور حلقہ اہل قلم میلسی کے تعاون پہ خان فروٹ فارم میلسی میں عالمی فالسائی مشاعرہ،،کا کامیاب انعقاد کر کے عالمی سطح پر اپنی خداد داد صلاحیتوں کو منوا لیا ہے ۔اس عالمی فالسائی مشاعرہ میں پاکستان کے علاوہ دنیا کے دیگر ممالک کے شعرائے کرام نے بھی کثیر تعداد میں شرکت کی ۔یہ مشاعرہ صبح گیارہ بجے شروع ہوا اور مغرب میں اختتام پزیر ہوا۔
مشاعرہ کی مجلس صدارت میں ڈاکٹر ریاض مجید (فیصل آباد)ڈاکٹر شکیل پتافی (ملتان)عباس عدیم قریشی (خانیوال )شامل تھے ۔مہمان خاص میں رانا انورعلی انور (قطر)طاہرصدیقی (فیصل آباد )عدنان منور (دبئی )محمد علی گوہر (کراچی )محمد ظہیر قندیل (حسن ابدال )شامل تھے جبکہ مہمان اعزازمیںپروفیسرمنیر این رزمی (چیچہ وطنی )ڈاکٹرشوذب کاظمی (ملتان )طاہرفاروق بلوچ (اسلام آباد)ریاض ندیم نیازی (سبی بلوچستان )ثاقب علوی( کامونکے )طاہرمجید طاہر( سمندری )سے شامل تھے ۔مشاعرہ کی نظامت کے فرائض راجاکوثر سعیدی (ملتان )عمرشاہد تگہ (لاہور)اور سروریحییٰ چوہان (کراچی )کے سپرد تھی ۔جبکہ میزبانی کے فرائض غضنفر اکیڈمی پاکستان کے چیئرمین شیرافگن خان جوہر،شہزاد نصیر ادبی سنگت وہواکے صدرسید طاہر اور حلقہ اہل قلم میلسی کے روح رواںعلی حسین جاوید کے حصے میں آئی ۔ مہمان شعرا کی آمد ایک روز پہلے سے ہی شروع ہوگئی تھی جن کے قیام وطعام کا انتظام یعقوب علی خان عرف منے خان کے ڈیرے فدہ بازارمیلسی میں کیا گیا ۔عالمی فالسائی مشاعرہ کے دوادوار تھے پہلے دور میں استاد الشعرا حضرت غضنفر علی خان روہتکی ؒکی ادبی اور سماجی خدمات پرانھیں خراج تحسین پیش کیا گیا جس میں عباس کریم قریشی ،پروفیسر منیر این رزمی ،مریدعباس خاور ،قاسم جمال ،علی حسین جاوید ،ڈاکٹر شوذب کاظمی ،یحییٰ چوہان نے اپنے منظوم کلام اور اظہار خیال پیش کیا۔
دوسرا دور مشاعرے کا تھا جس میں ڈاکٹر ریاض مجید (فیصل آباد) ڈاکٹر عدیم قریشی (خانیوال) طاہرصدیقی (فیصل آباد) ڈاکٹر شکیل پتافی (راجن پورملتان)عباس عدیم قریشی (خانیوال )طاہرصدیقی (فیصل آباد )انور علی رانا(قطر)عدنان منور(دبئی )محمد علی گوہر (کراچی) پروفیسرمحمد ظہیر قندیل (حسن ابدال )ڈاکٹر شوذب کاظمی (ملتان )ثاقب علوی (کامونکے) جوکہ موٹرسائیکل پرکامونکے سے میلسی شدید گرمی میں تشریف لائے تھے۔ طاہر فاروق بلوچ (اسلام آباد )طاہرمجید طاہر (سمندری) ریاض ندیم نیازی (سبی بلوچستان )یوسف چشتی (کراچی) افضل ہزاروی (کراچی) تاج علی رعنا (کراچی) صفی ہمدانی (ساہیوال) بدر سیماب (کویت) شبیر موج (جیکب آباد) سید طاہر (وہواتونسہ) ڈاکٹر مقبول گیلانی (ملتان) شاہین کہروڑی (کہروڑپکا) افسر علی افسر (کراچی) طارق ارسلان طارق، عمران آصف چوہدری(ٹوبہ ٹیک سنگھ) پروفیسر اقرار مصطفی (کمالیہ) عابد شہزاد، محمد رفیع اسد صدیقی (تلمبہ) یحییٰ سرورچوہان (کراچی) عمرشاہد تگہ (لاہور) راجا کوثر سعیدی (ملتان) عبدالمجید سالک (وہاڑی) مختارعلی ،شاہد ملک ،رائو وحید اسد (ملتان) امین ساجد، مبارک علی شمسی (حاصل پور) علی حسین جاوید، مریدعباس خاور، مشتاق ظفر، یاسر عباس، ڈاکٹرعابد کمال (میلسی) ڈاکٹر آدم اسحاق مہدی ،طاہر کمال جنجوعہ (تلمبہ) اظہرراشد(سرائے سدھو)یاسر نعیم ،محمد علی باہوش ،افضل علی افضل اور میزبان مشاعرہ شیرافگن خان جوہر نے کلام سنا کر داد وتحسین حاصل کی ۔
شرکائے مشاعرہ نے طویل مشاعرے کے باوجودکسی قسم کی اکتاہت کا مظاہرہ نہیں کیابلکہ اچھے اشعارپر دل کھول کر داددی ۔ ملتان کے قریب میلسی جیسے مضافاتی علاقے میں فالسے کے باغ سے متصل اتنا خوب صورت اور بھرپور مشاعرہ کا انعقادکر کے بلاشبہ شیر افگن خان جوہر نے کمال کردیا اور جنگل میں منگل کا سماں باندھ دیا۔ مشاعرہ کے انعقاد سے ان کے والد مرحوم کی روح کو بھی تسکین حاصل ہوئی ہوگی۔ اتنے بڑے مشاعرے کے اجتماع اور شعراء کرام کی میزبانی کرنا بھی بڑی ذمے داری کاکام ہے لیکن شیرافگن نے بڑی محنت ،خلوص اور جانفشانی کے ساتھ اس عالمی مشاعرے کو کامیاب بنایاکہ سب عش عش کر اٹھے۔مشاعرے کے دن کی صبح ہی سے کالونی چوک میلسی پر واقع علی حسین جا وید کی دوکان پرشعرائے کرام کے لیے ناشتے کااہتمام کیا گیا، جہاںحلوہ پوری ،لسی ،نان چنے اور چائے سے تواضع کی گئی۔ ناشتے کے بعد تمام شعرا کو فالسے کے باغ کے قریب مشاعرہ گاہ میں لے جایا گیا۔ مشاعرہ گاہ کوانتہائی خوب صورتی کے ساتھ چارپائیوںپرثقافتی چادروں،گائو تکیوں،درمیان میں آرام دہ کرسیوںاور گلدستوںسے اسٹیج سجایا گیا تھا۔ گرمی کی حدت کو کم کرنے کیلئے صبح آٹھ بجے سے شام تک ٹیوب ویل چلایاگیاجس کے ٹھنڈے پانی کے تالاب سے شعرائے کرام لطف اندوز ہوئے ۔مشاعرے کے پنڈال میں تمام شرکاء مشاعرہ کی تواضع فالسے کے شربت سے شروع ہوئی اور کھانے کے لیے بھی تمام شرکاء مشاعرہ کو فالسے کی ٹوکریاںاور پلیٹیں پیش کی گئیں۔ اور یہ سلسلہ مشاعرے کے اختتام تک جاری رہا ۔
مشاعرے کا آغاز تلاوت کلام پاک سے ہوا جس کی سعادت قاری حفیظ اللہ الزہری اور دوسرے سیشن میں محمد سبحان قاسم جمال کو حاصل ہوئی جنہوں نے بہت عمدہ اندازمیں تلاوت فرما کر سامعین کے قلوب کو گرما دیا۔ نعت مقبولؐ کراچی سے تشریف لائے ہوئے ثناء خوان مصطفی تاج علی رعنا نے سنا کر ذہن ودل کو سکون فراہم کیا ۔ میزبان شیرافگن خان جوہر نے سپاس نامہ پیش کیا جس میں انہوں نے قیام پاکستان سے لے کر اپنے اجدادکی ادبی خدمات پر روشنی ڈالی۔ مشاعرے کے درمیان نماز ظہر اور عصر کے لیے وقفہ کیا گیا اور صبح سے شروع ہونے والا عالمی فالسائی مشاعرہ غروب آفتاب کے وقت استاد الشعراء حضرت غضنفر علی خان غضنفر روہتکی ؒ کے لیے دعائے مغفرت اور بلندی درجات کی دعا پر اختتام پزیر ہوا۔