عدلیہ اور دستور پر ظلم

92

پاکستان کے ساتھ بدقسمتی کا کھیل مسلسل کھیلا جارہا ہے، اور اس میں سفاکی کا پہلو یہ ہے کہ یہ کھیل کھیلنے والے اپنے مفاد کے اسیر بن کر اصول، اداروں اور قوم کا مذاق بناتے ہیں۔کبھی یہ کھیل سیاست دان کھیلتے ہیں، پھر چند مقتدر جرنیل اس کا کنٹرول سنبھالتے ہیں اور بیورو کریسی اپنی پیشہ ورانہ ’نیازمندی‘ میں اسے انتہا تک پہنچانے کے راستے سُجھاتی اور گُر سکھاتی ہے۔

پاکستان میں رائج جمہوریت کا تصور برطانوی پارلیمانی جمہوریت سے اخذ کیا گیا ہے۔ وہ برطانیہ ، کہ جس کی پارلیمنٹ کے بارے میں یہ کہا جاتا رہا ہے: ’’پارلیمنٹ کچھ بھی، یا سب کچھ کرسکتی ہے، سوائے اس کے کہ مرد کو عورت یا عورت کو مرد بناد ے، یا سوائے اس کے کہ جسے فطری طور پر کرنا ممکن نہ ہو‘‘۔ قانون سازی کے اس مادرپدر آزاد تصوّر کے، تلخ تجربوں سے سبق سیکھ کر یکم جنوری ۱۹۷۳ء کو مغربی دُنیا ایک قدم پیچھے ہٹنا شروع ہوئی، اور یہ تسلیم کیا کہ ’’بہرحال قانون سازی کی کچھ حدود ہیں، جنھیں عدالت ہی واضح کرسکتی ہے‘‘۔

اس مغربی تجربے سے بہت پہلے، پاکستان کی دستور ساز اسمبلی نے ۱۲مارچ ۱۹۴۹ء کو ’قرارداد مقاصد‘ منظور کرکے، پارلیمنٹ کی مطلق العنانیت کو یہ کہہ کر ایک حد میں رکھا کہ مقننہ، پارلیمنٹ اور حکومت کے پاس قانون سازی کے جو اختیارات ہیں، وہ ایک مقدس امانت ہیں، کوئی بے لگام اختیار نہیں، اور یہ اختیارات حدودِ الٰہی کے پابند ہیں۔ ’قرارداد مقاصد‘ ملک کے تمام دساتیر کا حصہ چلی آرہی ہے، لیکن افسوس کہ اس کی روح کو ہرحکومت نے کچلنے اور ہرپارلیمنٹ یا قومی اسمبلی نے نظرانداز کرنے کی پے درپے کوشش جاری رکھی ہے۔

حکومت اور پارلیمنٹ کے ایسے قانونی و دستوری تجاوزات کو نمایاں کرکے حد کا پابند بنانے کا واحد اداراتی ذریعہ عدالت ہی ہوسکتی ہے۔ جب کہ ہماری سیاسی اور فوجی حکومتوں نے اکثر عدالت کے اس اختیار کو نہ صرف چیلنج کیا، بلکہ اس سے آگے بڑھ کر مداخلت کرنے اور اپنی مرضی کے افراد کے تقرر کے ذریعے عدل کی راہ میں کانٹے بچھائے جاتے رہے ہیں۔ ۲۱؍اکتوبر ۲۰۲۴ء کو دستور میں کی جانے والی ۲۶ویں ترمیم اسی منفی اور غیرعادلانہ سوچ کی ایک بدنُما مثال ہے۔ جبر، دھونس اور شاطرانہ ڈرامے کے ذریعے رُوبہ عمل آنے والی یہ ترمیم ایک رجعت پسندانہ قدم ہے اور کھلا فائول پلے۔ جس میں یہ کوشش کی گئی ہے کہ دستوری عمل میں اور اعلیٰ عدالتی مناصب یعنی چیف جسٹسوں (سپریم کورٹ اور ہائی کورٹوں) کے تقرر کا معاملہ سیاسی اور انتظامی انگوٹھے تلے دبائے رکھا جائے۔

سیاسی مداخلت کی اسی روش کو ۴۹ برس تک برداشت کرنے کے بعد ۲۰مارچ ۱۹۹۶ء کو سپریم کورٹ آف پاکستان کے چیف جسٹس سجاد علی شاہ کی سربراہی میں بنچ نے فیصلہ دیتے ہوئے، حکومت کی آمریت اور قانون شکنی اور عدلیہ میں مداخلت کا دروازہ بند کیا اور طے کیا کہ آیندہ سپریم کورٹ کے چیف جسٹس سینیارٹی کی بنیاد پر مقرر ہوں گے۔اس فیصلے پر تب وزیراعظم بے نظیر نے سخت ردعمل کا اظہار کیا۔ حکومتی کیمپ سے وابستہ صحافیوں نے انتہائی گھٹیا اور رکیک لب و لہجے کے علاوہ غیرمعیاری الفاظ میں سپریم کورٹ اور چیف جسٹس کو نشانہ بنانا شروع کیا۔ اس زمانے کے اخبارات دیکھیں تو یہ جارحیت صاف طور پر نظر آتی ہے۔

وزیراعظم بے نظیر بے جا طور پر ایک ہیجانی ردعمل کا شکار ہوگئی تھیں۔ دراصل وہ یہ سمجھتی تھیں کہ اگر عدلیہ نے حکومت کے غیرمنصفانہ فیصلوں کو انصاف کی میزان پر جانچنا شروع کر دیا تو پھر حکومت کو اُوپر سے لے کر نیچے تک قانون کی پابندی پہ مجبور ہونا پڑے گا۔ اس لیے کبھی تو انھوں نے پہلے صدر فاروق لغاری صاحب سے فرمایا کہ ’’چیف جسٹس کو برطرف کرنے کے لیے کچھ کریں‘‘۔ پھر فرمایا کہ ’’۲۰مارچ کا فیصلہ آرڈی ننس کے ذریعے کالعدم قرار دے دیں‘‘۔ پھر یہ بھی فرمایا: ’’یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ حکومت پیپلزپارٹی کی ہو، مگر جج جماعت اسلامی لگائے؟‘‘

سپریم کورٹ کی بے بسی اپنی جگہ قابلِ رحم ہوتی ہے کیونکہ سوائے قلم کی طاقت کے، نہ اُس کے پاس فوج ہوتی ہے نہ پولیس، نہ دھونس جمانے کے لیے سوشل میڈیا، اور نہ وہ صحافی، جو قلم کی حُرمت کو بیچنے کے لیے ہردم تیار ہوتے ہیں۔ اس بے بسی کا مشاہدہ ۲۰۲۲ء میں اُس وقت باربار کیا گیا، جب پنجاب اور خیبرپختونخوا اسمبلی کے الیکشن کرانے کے واضح دستوری حکم اور عدالتی فیصلے کو پامال کیا گیا، اور الیکشن کمیشن، فوج اور بیوروکریسی ماننے سے مسلسل انکار کرتے رہے۔

چیف جسٹس سجاد علی شاہ کے فیصلے نے ۱۹۹۷ء سے ۲۰۲۳ء کے دوران چیف جسٹس کے تقرر کی بحث کا خاتمہ کر دیا تھا، کہ اس میں ’’میرا بندہ چیف بنے گا، اُس کا بندہ چیف نہیں بنے گا‘‘ اور یہ کہ وہ ’’بندہ ہمیں تنگ کرسکتا ہے، اس لیے اس کا راستہ روکنا ہمارا حق ہے‘‘۔ ۲۶ویں ترمیم ہونے کے دوسرے روز سے حکومت کے ذمہ داران نے تسلیم کیا ہے کہ ’’ہم نے یہ ترمیم جسٹس منصور علی شاہ کا راستہ روکنے کے لیے کی ہے‘‘۔ درحقیقت یہ ترمیم صرف ایک آدمی کا راستہ روکنے کی دھاندلی نہیں بلکہ اعلیٰ عدلیہ کے سینئر ججوں کو خوف اور دبائو کا شکار کرکے، اپنے من پسند ججوں کے تقرر کا اختیار لینے کا شیطانی کھیل بھی ہے۔ ۴۹برس کے دوران دھکے کھانے کے بعد عدالت اور قوم نے جو سُکھ کا سانس لیا تھا، اسے ’معزز‘ ارکان نے سیاہ دھبہ بنا کر دستور اور عدلیہ کے چہرے پر تھوپ دیا ہے۔

اس عرصے میں چند غیرمعمولی چیزیں مشاہدے میں آئی ہیں:

lمارچ کے بعد سے حکومت نے ترمیم آرہی ہے، ترمیم نہیں آرہی کا نفسیاتی حربہ اختیار کیا اور پھر ستمبر کی ایک رات اچانک ترمیمی بلّی تھیلے سے نکالنا شروع کی۔

lحکومتی ارکان اور وزرا نے کھلے لفظوں میں تسلیم کیا کہ اس کا ’مسودہ تیار شدہ‘ ملا ہے۔

l’کالے ناگ‘ کا جھانسا دیا گیا، عملاً ’سنپولیا‘ پیش کیا جسے ’سفید‘ بنا کر دستور کا حصہ بنا لیا گیا۔

lاس ترمیم سے پہلے سپریم کورٹ کے فیصلے کے برعکس حق دار پارٹی کو خصوصی نشستیں دینے سے انکار کیا، تاکہ اعداد و شمار پر حکومت اور مقتدر حلقوں کو کنٹرول حاصل ہوسکے۔

l افراد کو خریدنے، اغوا کرنے اور جبر کے ذریعے ووٹ حاصل کرنے کے واقعات۔

اس سب کے باوجود دہائی یہ دی گئی: ’’ہم نے دستور لکھنے کی عدالتی مداخلت کا خاتمہ کیا ہے‘‘۔ حالانکہ عدلیہ کی جانب سے اِکا دُکا ناپسندیدہ اقدامات اور فیصلوں کے باوجود، مجموعی طور پر قانون اور ضابطے کے تحت ہی عدالتی عمل چلتا رہا ہے۔

معاملہ درحقیقت یہ ہے کہ پارلیمنٹ مادر پدر آزاد ہے اور نہ ہوسکتی ہے، اسے دستور کو قتل کرنے کا کوئی حق اور اختیارنہیں۔ مثال کے طور پر بنیادی انسانی حقوق کو سلب کرنے کا کوئی پارلیمنٹ اختیار نہیں رکھتی اور اگر ایسا کرے گی تو عدالت ہی اسے چیک کرے گی۔ اس ایک مثال سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ عدالت بہرحال بنیادی اخلاقی، تہذیبی اور آفاقی اصولوں کے تابع ہے۔

ذرا ۱۹۷۴ء کا انڈیا دیکھیے، وزیراعظم اندرا گاندھی نے دوتہائی اکثریت سے ترمیم کرکے کچھ بنیادی حقوق حذف کر دیئے، جس پر انڈین سپریم کورٹ نے وہ پوری دستوری ترمیم ہی کالعدم قرار دیتے ہوئے لکھا: ’’یہ حقوق، دستور کی بنیادیں ہیں، جن میں ترمیم نہیں کی جاسکتی‘‘۔

ممتاز برطانوی قانون دان سر ولیم ویڈ نے لکھا: ’’ایک قانون ایسا ضرور ہے، جو پارلیمنٹ سے بھی بالاتر ہے، اور اس قانون کی حفاظت عدالت ہی کے ذمے ہوتی ہے، جسے پارلیمنٹ کا کوئی قانون نہیں چھین سکتا‘‘ (کرنٹ لا جنرل، ۱۹۵۵ء، ص ۱۷۲، بحوالہ خرم مراد، پاکستان کے قومی مسائل، ص ۱۷۹)۔ اور جسٹس سرجان لاز کے بقول: ’’جمہوریت کی بقا کا تقاضا ہے کہ جو سیاسی جمہوری اختیارات استعمال کرتے ہیں، وہ اپنی حدود سے تجاوز نہ کریں… ہرآمرِ مطلق حکمران یہ کہتا ہے کہ میرا ہر لفظ قانون ہے، اور پھر اگر ایک منتخب ادارہ پارلیمنٹ بھی یہ دعویٰ کرنے لگے تو وہ کیوں آمرِمطلق نہیں کہلائے گی؟ اس لیے لازم ہے کہ دستور کی بنیادیں حکومت کی تحویل میں نہ ہوں، اور کوئی حکومت اپنی اکثریت سے ان کو تباہ نہ کرسکے، اور وہ عدالت کی تحویل میں ہوں۔ قانون کی حکمرانی کے لیے یہ ناگزیر ہے‘‘۔ (پبلک لا جنرل، ۱۹۹۵ء، ص۸۱-۸۵، بحوالہ ایضاً)

جب ہم ۲۶ویں ترمیم کو دیکھتے ہیں تو یہی نظر آتا ہے کہ اقتدار اور اختیار کی ہوس میں اندھے حکمران، عدل و انصاف کو بالکل اسی طرح اپنا تابع فرمان دیکھنا چاہتے ہیں، جس طرح عام ملازمینِ ریاست کے بارے میں وہ سوچتے ہیں۔ ولیم بلیک سٹون نے کمنٹریز آن لاز آف انگلینڈ (شکاگو یونی ورسٹی) میں برلیگ کا قول درج کیا ہے: ’’انگلستان کسی کے ہاتھوں برباد نہیں ہوسکتا، مگر پارلیمنٹ کے ذریعے‘‘۔ کیا واقعی ہماری پارلیمنٹ قوم، تہذیب اور عمرانی معاہدہ تباہ کرنے پر تُلی ہوئی ہے؟ حالانکہ خود اس اسمبلی کی انتخابی شفافیت حدد رجہ مشکوک ہے!

حصہ