فالج سے آگاہی کا عالمی دن

63

آغا خان یونیورسٹی اسپتال کے تحت سیمینار پروفیسر محمد ڈاکٹر واسع و دیگر کا خطاب

پاکستان میں فالج کا مرض تیزی سے پھیل رہا ہے اور وطنِ عزیز میں یہ بیماری چوتھے نمبر پر آنے کو ہے۔ یہ صورتِ حال نہایت تشویش ناک ہے، کیونکہ فالج کے روز بروز بڑھتے ہوئے کیس صحتِ عامہ کے لیے ایک بڑا چیلنج بن رہے ہیں۔ اس سنگین بیماری پر قابو پانے کے لیے فوری اقدامات اور عوام میں آگاہی پھیلانا نہایت ضروری ہے۔ کیونکہ فالج ایک ایسی بیماری ہے جس میں دماغ کی طرف خون کی فراہمی رک جاتی ہے یا دماغ کی شریان پھٹ جاتی ہے، جس کے نتیجے میں دماغ کے متاثرہ حصے کو آکسیجن نہیں ملتی اور اس کے خلیے مُردہ ہونا شروع ہوجاتے ہیں۔

ماہرین یہ بات بتاتے رہتے ہیں کہ فالج کی ابتدائی علامات میں چہرے کا ایک طرف ڈھلک جانا، بولنے میں مشکل ہونا، ٹانگ یا بازو میں کمزوری یا ان کا سُن ہوجانا، چکر آنا، اچانک بینائی متاثر ہونا، یادداشت کا کھونا، شدید سر درد یا بے ہوشی شامل ہیں۔ یہ علامات فوری طبی امداد کا تقاضا کرتی ہیں، کیونکہ بروقت علاج سے اس کے منفی اثرات کو کم کیا جا سکتا ہے۔

پاکستان میں فالج کے بڑھتے ہوئے کیسز کی بڑی وجوہات میں ہائی بلڈ پریشر، ذیابیطس، تمباکو نوشی، اور غیر صحت مند طرز زندگی شامل ہیں۔ عالمی سطح پر ہر سال تقریباً 60 لاکھ اموات فالج کی وجہ سے ہوتی ہیں، جس میں پاکستان بھی شامل ہے۔ یہاں فالج کے مریضوں کی تعداد میں ہر سال اضافہ دیکھنے کو مل رہا ہے۔ فالج کے بڑھتے ہوئے رجحان پر قابو پانے کے لیے حکومتی سطح پر خصوصی اقدامات اور عوامی آگاہی کی ضرورت ہے۔

اسی پس منظر میں 28 اکتوبر کو آغا خان یونیورسٹی اسپتال میں ورلڈ اسٹروک ڈے کے موقع پر ایک سیمینار منعقد کیا گیا جس کا اہتمام پروفیسر ڈاکٹرمحمد واسع نے کیا۔ سیمینار کی صدارت نیورو ویسکیولر ریسرچ اور کلینکل سروسز پروگرام کی ڈائریکٹر پروفیسر عائشہ کمال نے کی، جبکہ پاکستان اسٹروک سوسائٹی کے صدر شریک چیئرمین ڈاکٹر عبدالمالک بھی موجود تھے۔

اس سیمینار میں فالج سے متعلق ماہرین، معالجین اور میڈیکل طلبہ نے شرکت کی، جہاں پاکستان میں فالج کی روک تھام کے حوالے سے اہم موضوعات پر گفتگو کی گئی اور خاص طور پر نوجوانوں میں فالج کے بڑھتے ہوئے کیسز اور ان کے علاج کی حکمت عملیوں پر زور دیا گیا۔

ماہرین نے سیمینار کے دوران اس بات پر زور دیا کہ پاکستان میں فالج کے مریضوں کی تعداد کو کم کرنے کے لیے کارڈیولوجی، نیورولوجی، اور کمیونٹی ہیلتھ سائنسز جیسے مختلف شعبوں سے ماہرین کی مشترکہ کاوشیں ضروری ہیں۔ ماہرین نے ہائی بلڈ پریشر، ذیابیطس، تمباکو نوشی، اور غیر صحت مند خوراک کو فالج کے بنیادی اسباب کے طور پر اجاگر کیا اور کہا کہ ان عوامل کو کنٹرول کرکے فالج سے بچاؤ ممکن ہے۔

سیمینار میں اس بات پر زور دیا گیا کہ حکومت کو دل کی بیماریوں کی طرح فالج کو بھی ایمرجنسی کی بیماری قرار دے کر ملک بھر میں برین و فالج اٹیک سینٹر قائم کرنے چاہئیں۔ یہ سینٹر فوری طبی امداد فراہم کریں گے، جس سے فالج کے مریضوں کے علاج میں بہتری آئے گی۔ مقررین نے مزید کہا کہ حکومت کو تمباکو نوشی کے خاتمے، متوازن غذا، اور باقاعدہ ورزش کے فروغ کے لیے پالیسیاں بنانی چاہئیں تاکہ عوام کو صحت مند زندگی گزارنے میں مدد مل سکے۔

پروفیسر محمد واسع، جو پاکستان کے پہلے نیورولوجسٹ ہیں جنہیں امریکی یونیورسٹی سے اعزاز مل چکا ہے، نے کہا کہ فالج کی وجوہات میں مٹاپا، ورزش کا نہ کرنا، غیر متوازن غذا، اور بلڈ پریشر اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ فالج کی صورتِ حال ترقی یافتہ ممالک میں کم اور درمیانی آمدنی والے ممالک میں زیادہ خراب ہے، اور ان ممالک میں فالج کے کیسز کو کنٹرول کرنے کے لیے زیادہ حکومتی توجہ کی ضرورت ہے۔

آغا خان یونیورسٹی اسپتال میں ہونے والے اس سیمینار نے پاکستان میں فالج کے بڑھتے ہوئے رجحان کے تدارک کے لیے ایک مؤثر پلیٹ فارم فراہم کیا، اس کام کو آگے بڑھانے کی ضرورت ہے، اور اس کے لیے ایک اور ادارہ نارف کے نام سے بھی موجود ہے جو یہ کام بخوبی کررہا ہے۔ سیمینار کے دوران یہ بات واضح ہوئی کہ حکومت اور عوام کو مشترکہ طور پر اقدامات کرنے کی ضرورت ہے۔ سیمینار میں سفارش کی گئی کہ ملک بھر میں فوری طور پر ایسے مراکز قائم کیے جائیں جو فالج کے مریضوں کو بروقت طبی امداد فراہم کر سکیں۔ عوام کو صحت مند طرزِ زندگی اپنانے، باقاعدگی سے ورزش کرنے، اور تمباکو نوشی ترک کرنے کے حوالے سے آگاہ کیا گیا۔اسی طرح صحت مند خوراک اور عوامی صحت کو فروغ دینے کے لیے پالیسیاں بنانے اور اسپتالوں میں طبی ماہرین کو فالج کے علاج کے لیے مزید تربیت فراہم کرنے کی سفارش کی گئی تاکہ مریضوں کی بہترین دیکھ بھال ممکن ہو سکے۔

وطنِ عزیز میں فالج ایک اہم اور بڑا مسئلہ بنتا جا رہا ہے، جس پر قابو پانے کے لیے حکومت، ماہرین اور عوام کو مل کر کام کرنا ہوگا۔ صحت مند طرزِ زندگی، بروقت طبی امداد، اور عوامی آگاہی کی مہمات کے ذریعے فالج کے کیسز میں کمی لائی جا سکتی ہے۔ اگر ان سفارشات پر عمل کیا جائے تو پاکستان میں فالج کے بڑھتے ہوئے کیسز کو روکنے اور صحت مند معاشرے کی تشکیل میں مدد مل سکتی ہے۔

حصہ