سندھ اور اسلام:
ہم سب جانتے ہیں، یکسو ہیں کہ صوبہ سندھ کی یہ دھرتی اسلام کے آفاقی پیغام سے نسبت رکھتی ہے۔ جس طرح پاکستان کا عرف اسلام ہے اُسی طرح سندھ کا عرف ’’باب الاسلام‘‘ یعنی اسلام کا دروازہ ہے۔ اس حقیقت سے انکار نہیں کہ محمد بن قاسم کی راجا داہر سے جنگ میں تاریخی فتح کے بعد یہاں اسلام کو ایک حکومتی غلبہ نصیب ہوا۔ اس لیے 10رمضان کو باب الاسلام سے منسوب کرلیا گیا۔ لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ محمد بن قاسم سے بہت پہلے اسلام یہاں پہنچ چکا تھا۔ اس موضوع پر ایک مفصل تحقیقی کتاب سابق جسٹس ڈاکٹر سید محمد انور نے مرتب کی ہے، جس کا مقصد نہ صرف مطالعہ پاکستان کے باب میں تصحیح ہے بلکہ پاکستان کے اسلامی تشخص کو بھی واقعاتی بنیادیں فراہم کرنا ہے۔ ڈاکٹر صاحب نے مستند تاریخی شواہد جمع کرکے بتایا ہے کہ حضرت معاویہ ؓ کے دور میں سب سے پہلے حضرت ابوسعید بن المہلب ؒبن ابی صفرۃ جیسے عظیم سپہ سالار کی سندھ میں آمد ہوئی۔ آپ کابل سے خیبر پختون خوا پہنچے، پھرجنوب میں ملتان سے ہوتے ہوئے سندھ اور قلات تک فتوحات کرتے ہوئے پہنچے۔ ڈاکٹر صاحب نے نقشوں اور کتب کے حوالوں سے بتایا ہے کہ موجودہ پاکستان کے صوبہ خیبر پختون خوا، پنجاب، سندھ، بلوچستان کے کئی خطوں میں اُن کی بدولت اسلام کسی نہ کسی شکل میں پہنچ چکا تھا۔ المہلب اپنی شجاعت، دانائی، قائدانہ اور انتظامی صلاحیتوں کے ساتھ عسکری مہارتوں کے باعث فارس، موشل، آرمینیا، آذربائیجان، خراسان کے گورنر بھی رہے۔ آپ کی خطہ پاکستان میں آمد 44 ہجری بتائی جاتی ہے، اور اسلامی تاریخ کی اُس دور کی تمام مستند کتب میں یہ حوالے موجود ہیں۔ ڈاکٹر سید محمد انور نے نہ صرف ان فتوحات کا اپنی کتاب میں ذکر کیا ہے بلکہ المہلب کی شخصیت کے ایسے پہلو بھی نمایاں کیے ہیں جو ہماری اجتماعی زندگیوں کے لیے رہنما اصول بن سکتے ہیں۔ ڈاکٹر سید محمد انور کی علمی کاوش بتاتی ہے کہ سندھ ہی نہیں بلکہ اس پورے خطۂ پاکستان میں ابوسعید بن ابی صفرہ المہلبؒ دراصل اسلام کے پہلے علَم بردار تھے۔
رواداری یا طرف داری:
حالیہ دنوں عمرکوٹ سے تعلق رکھنے والے گستاخ ڈاکٹر شاہنواز کی پولیس کے ہاتھوں موت کے بعد سندھی قوم پرستوں نے ’’رواداری‘‘ کے نام پر جس خطرناک ایجنڈے کا اظہار کیا ہے وہ انتہائی قابلِ تشویش ہے۔ سوشل میڈیا پر مہینے بھر سے خاصا شور مچا ہوا ہے۔ مستقل پوسٹیں، پوڈ کاسٹ، وڈیوز، تبصرے چل رہے ہیں۔ آپ نوٹ کریں کہ 13 اکتوبر کو ’رواداری‘ مارچ کو پولیس نے دفعہ 144 کی خلاف ورزی پر معمولی تشدد و گرفتاری تک ہی رکھا، جبکہ دوسری طرف ایک مذہبی جماعت کے کارکن کو اسی دفعہ 144کی خلاف ورزی کا لیبل لگاکر نہ صرف گولی مار دی بلکہ لاش بھی نہیں دی، اور زبردستی لاش صوبہ پنجاب میں اُس کے آبائی گائوں بھجوا دی۔ یہ خبر آپ کو کہیں نہیں ملے گی، مگر پیلے کپڑوں والی خاتون کی فوٹو ہر جگہ نظر آئے گی۔ ان لبرل قوم پرستوں کو گرفتار کرنے پر ایس ایچ او معطل ہوا، مگر دوسری جانب قتل کرنے پر کوئی کارروائی نہیں ہوئی۔ ایسے جانب داری والے افعال کرکے ریاست مزید جس طرف اپنا وزن ڈال رہی ہے اس سے حالات خراب ہی ہوں گے۔
غیرت مند سندھی مسلمان:
ہمارے دیرینہ دوست اور مدیر سندھی ماہنامہ ’وینجھار‘ مجاہد چنا نے اس حوالے سے ہمیں خاصی معلومات فراہم کیں۔ کئی غیرت مند سندھی مسلمانوں کی جانب سے سوشل میڈیا پر اسلام کا بھرپور دفاع کرنے اور سیکولر و لبرل طبقات کے منہ بند کرانے کی پوسٹیں مجھ سے شیئر کیں۔ دیکھ کر خوشی ہوئی کہ اُن کی زبانیں بند کرانے والے کئی قلمی محاربین کام کررہے تھے، تاہم ان کی تعداد مزید بڑھانے اور علمی و نظریاتی محاذ کو مزید مستحکم کرنے کی ضرورت ہے۔ الزامی جوابات تو بہت ہیں مگر نظریاتی دفاع کے لیے مزید محنت کی ضرورت ہے۔
شکاری کا جال:
حقیقت یہ ہے کہ جامی، خلیل چانڈیو، سندھو وغیرہ جیسے نام نہاد ’’قوم پرست‘‘ ایک خاص گروہ کے طور پر سامنے آئے ہیں جو بیرونی ایجنڈے پر چل رہا ہے۔ یہ بات میں اپنے کسی اندازے سے نہیں کہہ رہا، بلکہ اس کی پوری تصدیق کا مجھے موقع ملا۔ ابھی کچھ دن قبل ہی جماعت اسلامی سندھ کے نومقرر شدہ امیر کاشف سعید شیخ کی تقریبِ حلف برداری جو کہ کراچی میں ان کے صوبائی دفتر میں منعقد ہوئی، مجھے بھی اس میں شرکت کا موقع ملا۔ وہاں سندھ بھرسے لوگ آئے ہوئے تھے۔ میرپورخاص، عمرکوٹ، شہدادکوٹ، بدین سمیت کئی اضلاع کے مقامی افراد سے میں نے اِس موضوع پر الگ الگ تفصیلی بات کی۔ وہ سب یکسو ہیں کہ یہ لوگ اسلام اور پاکستان دشمن ہیں۔ اِن کے دل میں کوئی نامعلوم بغض اور نفرت بھری ہوئی ہے، جسے مقامی آبادی اچھی طرح محسوس کرتی ہے اور اِن سے دور ہی رہنا پسند کرتی ہے۔ ان لوگوں کا ہدف تعلیمی اداروں یعنی کالجوں اور یونیورسٹیوں کے طلبہ ہوتے ہیں جن پر یہ سب سے پہلے اسلام سے متعلق تشکیک کا جال ڈالتے ہیں، پھر سندھی قوم پرستی کا جوش دلاتے ہیں یوں سیدھے سادے سندھی طالب علم کو ’’ترقی پسندی‘‘ کی چمک دمک والی نئی لائن پر ڈالتے ہیں۔ اس کے بعد بیرونِ ملک کا لالچ دیتے اور پیسوں کی ریل پیل دکھاتے ہیں۔ کھانے پینے، موج مستی کے نام پر ’’جعلی فکری نشستوں‘‘ میں بٹھاکر اُن کی ’’گندی برین واشنگ‘‘ کرتے ہیں۔ میں نے پوچھا کہ یہ کیسے ہوجاتا ہے؟ تو کئی لوگوں نے اُن کے خاص جملے بتائے۔ نئے نوجوانوں کو پڑھا لکھا، عقلمند، ارے عقل سے کام لو، تم تو سمجھدار ہو… ایسا بول بول کر اُکساتے ہیں کہ اسلام، خدا، رسول، کتاب اللہ، نماز سمیت تمام شعائرِ دین کے خلاف اُن کا ایک خاص ذہن بن جائے۔ جب کوئی مسلمان جواب دیتا ہے تو ان کے فکس جملے ہوتے ہیں کہ ’’ارے یہ دین تو ’’ملا‘‘کا بنایا ہوا ہے‘‘۔ ’’یہ ساری کتابیں تو 1400 سال پہلے تھیں نہیں، یہ سب تو بعد میں ’’ملائوں‘‘ نے خود لکھی ہیں، تبھی تو یہ آپس میں لڑتے رہتے ہیں، سب ایک دوسرے کو کافر بولتے ہیں۔ سارے مذاہب ایسے ہوتے ہیں۔ خدا ہوتا تو یہ ہوتا؟ خدا ہوتا تو ایسا ہونے دیتا؟‘‘ ایسے تشکیک زدہ سوالات پیدا کرکے، نئے معصوم اذہان کو وہ اپنی گود میں پکے ہوئے پھل کی طرح گر اتے چلے جاتے ہیں۔ یہ ملحدین کے گروہ کا فکس طریقہ ہے، آپ کو ملک کی تمام جامعات میں ایسا ہی ملے گا۔ کوئی عام مسلمان دین سے محبت کے باوجود اِن بونگے سوالات کے جواب دے ہی نہیں سکتا، اس لیے وہ ’عقل‘ کے نام پر اِن کے ساتھ بہتا چلا جاتا ہے۔ اس بات کو آپ لوگوں نے ڈاکٹر ذاکر نائیک کے کراچی اور لاہور کے پروگرامات میں نوٹ کیا ہوگا کہ کئی نوجوانوں نے اپنا تعارف کراتے ہوئے کہا کہ وہ ’’اسلام چھوڑ چکے ہیں‘‘۔ یہ کوئی معمولی بات نہیں ہے، نہ ہونی چاہیے، نہ اس کو معمولی لینا چاہیے۔ یہ ہمارے مقدمے کے لیے صاف، روشن واقعاتی دلیل ہے کہ ہمارے نوجوان علی الاعلان ’’دینِ اسلام‘‘ سے مرتد ہورہے ہیں اور عَلانیہ ’’ملحد‘‘ یعنی خدا کے وجود کے انکاری ہورہے ہیں۔ دینی، مذہبی جماعتوں سے جو لوگ منسلک ہیں وہ محفوظ ہوں گے، لیکن ان کی وہ اولادیں جو اسکول، کالجوں، یونیورسٹیوں میں جا رہی ہیں وہ سب اس گروہ کے حملوں کا بھرپور شکار ہورہی ہیں۔ یہ ہے مسئلے کی اصل جڑ۔
مذموم حرکتیں:
اب اس ’رواداری مارچ‘ والے قوم پرست ملحد طبقے کی مذموم حرکتوں کی کچھ جھلک آپ کو بتاتے ہیں تاکہ آپ خود اندازہ کرسکیں کہ ان کے عزائم کیا ہیں۔ یہ ٹولہ حیدرآباد پریس کلب میں رواداری مارچ کی ناکامی کے بعد رونا گانا مچانے جمع ہوا۔ اس میں ایک مقرر کا مائیک بند ہوجاتا ہے، جو وڈیو میں نظر آرہا ہے کہ کسی تکنیکی وجہ سے ہے، لیکن اس کو تکلیف کچھ اور ہے۔ اتفاق سے اس وقت اذانیں بھی شروع ہوجاتی ہیں۔ اس کو لگتا ہے کہ اذان کی وجہ سے مائیک بند ہے۔ اس کے چہرے پر ناگواری کا اظہار صاف ظاہر ہوتا ہے، وہ کہتا ہے کہ ’’کتنی بانگ ہوں گی؟ ایک تو ہوچکی۔‘‘ اس کے الفاظ میں چھپا طنز بتا رہا ہے کہ اُسے کتنا ناگوار لگ رہا ہے مائیک کا نہ چلنا۔ اذان کا ہونا اس کے دل پر مزید تیر چلا رہا ہے۔ پھر اس کے ساتھ بیٹھی ایک خاتون ساتھی اس کو کہتی ہے کہ ’’تمہارا مائیک ملائوں نے بند کرایا ہے۔‘‘ جی، سُنا آپ نے۔
یہ ہے ان کے اندر کا بغض و عناد۔ پھر یہ شخص مائیک پر یہی بات دہراتا ہے کہ ’’یہ مائیک ملائوں نے بند کرایا ہے‘‘۔ اب میں کوئی تجزیہ نہ بھی کروں تب بھی اگر کوئی شخص وہ وڈیو دیکھے تو ان کے عمل سے، الفاظ سے، چہرے سے، سب سے ظاہر ہورہا ہے کہ اُن کے دلوں میں اسلام سے کیسی زبردستی کی نفرت پنپ رہی ہے۔
یہی نہیں، یہ خاتون جو یہاں مشورے دے رہی ہے، یہ خود ایک قوم پرست تنظیم کی سیکریٹری ہے۔ انہی دنوں میں سندھی قوم پرست رہنما ڈاکٹر عبدالقادر مگسی اپنے بیٹے کی صحت یابی و علاج کے لیے اپنے فیس بک پر اپیل کرتے ہیں۔ یہی نہیں، پھر وہ اپنے بیٹے کے علاج کی تفصیل بتاتے ہوئے اظہارِ تشکر میں لکھتے ہیں کہ دورانِ آپریشن اُن کے بیٹے نے سورہ رحمن کی تلاوت چلائی جس کی برکت سے خاصا افاقہ ہوا۔ یہ پوسٹ ان مخصوص قوم پرست طبقات پر بجلی بن کر گری۔ اس کے بعد ایک اور وڈیو وائرل ہوتی ہے جس میں یہی خاتون اپنے ساتھیوں کو سمجھا رہی ہے کہ ہماری قوم پرست تحریک میں ’مذہب‘ کا کوئی عمل دخل نہیں ہونا چاہیے، ہمارے ساتھ ہر مذہب والا شامل ہوسکتا ہے۔ وہ قادر مگسی کی پوسٹ پر تیر چلاتے ہوئے کہتی ہے کہ ’’قادر مگسی کا جو بیان آیاکہ دوسرے ملک میں اپنے بیٹے کا آپریشن کرایا مگر وہاں عربی ترانے چلائے۔ اگر ان کو عربی سے اتنی محبت ہے تو عربستان میں جاکر آپریشن کراتے۔ علاج انگریز کے پاس کراتے ہو اور ترانے عربی چلاتے ہو!‘‘
معاذ اللہ، یہ سورہ رحمن کے لیے کہہ رہی ہے ’’عربی ترانہ‘‘۔ یہ جانتی ہے کہ پوسٹ میں ڈاکٹر قادر نے سورہ رحمٰن کا نام لکھا، لیکن وہ یہ الفاظ زبان پر لانا نہیں چاہتی کیونکہ اس کے نزدیک وہ محض ’’عربی ترانہ‘‘ ہے۔ وہ کہہ رہی ہے کہ ’’عربی ترانے سے اتنی محبت تھی تو عرب ملک میں جا کر علاج کراتا، انگریز کے پاس کیوں علاج کے لیے گیا؟‘‘ اب یہ جملے صرف جملے نہیں، اُس نفرت، بغض و عناد کے عکاس ہیں جو ان کے دلوں میں بھرا ہوا ہے۔ اب بتائیں کہ ان کو دیکھ کر کون کہے گا کہ سندھی قوم پرستی کسی امن کی دعویدار ہے؟ کسی محبت کی دعویدار ہے؟ اس خاتون پر سورہ رحمٰن کی اہانت کا پرچہ بنتا ہے کہ نہیں؟ بات یہاں تک رُکی نہیں۔ اب میدان میں جواب دینے خود ڈاکٹر عبدالقادر مگسی وڈیو کی صورت آتے ہیں۔ وہ اس پورے گستاخ ٹولے کو ’مسترد‘ کردیتے ہیں۔ ڈاکٹر قادر مگسی نے جوابی وڈیو بنائی اور توازن قائم رکھتے ہوئے پہلے ڈاکٹر شاہنواز کے قتل کی تحقیقات اور اس پر گستاخی کے الزام کی بھی تحقیقات کا مطالبہ کیا، پھر صاف الفاظ میں سندھ کی قوم پرست تحریک کولبرل، سیکولرعناصر سے الگ کردیا۔ ڈاکٹرقادر مگسی نے سندھ کے ایسے کئی امور، کئی واقعات پر اس لبرل ٹولے کی خاموشی پر سوال اٹھاکر ان کو پاکستان پیپلز پارٹی کی پراکسی قرار دیا۔ ڈاکٹر قادر مگسی نے اسے این جی اوز کا پیسوں کا دھندا قرار دیا۔ یہ بات کوئی عام آدمی نہیں کہہ رہا۔ ہم نے دیکھا کہ سندھ پولیس نے رواداری مارچ کے مظاہرین پر کوئی پرچہ کاٹے بغیر ہی سب کو چھوڑ دیا تھا، یہی نہیں اس پورے واقعے میں سندھ حکومت مستقل اس پورے ٹولے کی سرپرستی کرتی نظر آئی۔
اس سارے گروہ کی آزادانہ نقل و حرکت اور موجودگی پاکستان کی سالمیت ہی نہیں بلکہ اسلام کے لیے بھی خطرہ ہے۔ ہم ریاست کے تمام اداروں سے درخواست کرتے ہیں کہ خدارا ان لوگوں کو قابو میں لائیں، عوام کو اشتعال میں آنے کا موقع مت دیں، اسلام و پاکستان کے بارے میں ان کے جملے، ان کے الفاظ قابلِ گرفت ہیں۔