کسی بھی پس ماندہ معاشرے میں جو کچھ ہوسکتا ہے وہ ہمارے ہاں ہو رہا ہے۔ ہم بیشتر معاملات میں شدید ذہنی الجھنوں کا شکار ہیں۔ یہ الجھنیں ہمیں مایوسی کی طرف دھکیلتی رہتی ہیں۔ زندگی کی مجموعی روش اُداسی، بیزاری اور مایوسی کی ہے۔ اس کی وجوہ تلاش کرنے کے بجائے محض حالات کا رونا روتے رہنے کو کافی سمجھ لیا گیا ہے۔
پس ماندگی کسی بھی معاشرے کا مقدر اُس وقت بنتی ہے جب معاملات کو سمجھنے کی کوشش نہ کی جائے، عصری تقاضوں کو نظر انداز کرکے محض اپنی سوچ کو درست سمجھ لیا جائے۔ ہمارے ہاں یہی ہو رہا ہے۔ اور ایسا نہیں ہے کہ ایسا شروع سے تھا۔ قیامِ پاکستان کے بعد پہلے دو عشروں کے دوران پاکستان مجموعی طور پر خاصا متوازن معاشرہ تھا۔ تمام معاشرتی اور نفسی علتیں تھیں مگر چند حدود و قیود کے ساتھ تھیں۔ لوگ بگڑے ہوئے تھے مگر ایسے بھی بگڑے ہوئے نہ تھے کہ پوری زندگی ہی کو داؤ پر لگاتے پھرتے۔ آج ہم جن شعبوں کو انتہائی بگاڑ کی حالت میں دیکھ رہے ہیں یہ تمام شعبے ہمارے ہاں مثالی نوعیت کے ہوا کرتے تھے۔ اِسی ملک میں اساتذہ پوری توجہ، دیانت اور جاں فشانی سے پڑھایا کرتے تھے۔ جن پیلے اسکولوں کو آج لوگ حقارت بھری نظر سے دیکھتے ہیں اُنہی پیلے اسکولوں میں پڑھنے والے مینیجرز، سائنس دان، محقق اور رہنما بھی بنے۔
اب سوال یہ ہے کہ بگاڑ کیسے پیدا ہوا اور اِسے روکنے کی کوشش کیوں نہیں کی گئی۔ ہمارے ہاں ایک عمومی رجحان یہ بھی ہے کہ جب بھی اپنی خامیوں پر نظر ڈالو اور اپنے بگاڑ کو سمجھنے کی کوشش کرو تو معاملہ سازشیوں کے سر منڈھ دو۔ یہ کہہ دینا کافی سمجھ لیا گیا ہے کہ کوئی بڑی سازش ہوئی تھی جس نے معاشرے کو پلٹ کر رکھ دیا۔ یہ کہتے ہوئے جان چھڑانے کی کوشش کی جاتی ہے کہ بڑی طاقتوں نے بہت سوچ سمجھ کر سازشیں کی اور ہمیں ناکامی و مایوسی کے گڑھے میں گرادیا۔
کسی بھی سازش یا سازشی کو الزام دینے سے پہلے ہمیشہ یہ دیکھنا لازم ہوتا ہے کہ ہمارا اپنا کردار کیا رہا ہے، ہماری اپنی طرزِ فکر و عمل کہاں تک جواب دہ قرار دی جاسکتی ہے۔ پاکستانی معاشرے میں آج مایوسی کا گراف خطرناک حد تک بلند ہے۔ یہ مایوسی ہر شعبے میں رونما ہونے والی ناکامی کا فطری اور منطقی نتیجہ ہے۔ اگر ہم مایوسی کے گڑھے سے نکلنا چاہتے ہیں تو اس حوالے سے کوششیں کرتے وقت یہ سوچنا لازم ہے کہ ہم اِس گڑھے میں گرے ہی کیوں؟ جب ہم کسی بھی معاملے کی اصل وجوہ تک نہیں پہنچتے تب تک معاملات کی درستی کا راستہ نہیں نکلتا۔
کسی بھی معاشرے میں معاملات کی درستی کا راستہ بنیادی طور پر اعتماد اور یقین کی بدولت نکلتا ہے۔ اعتماد اپنی ذات پر بھی ہونا چاہیے اور دوسروں کے وجود پر بھی۔ معاشرے اِسی طور پنپتے ہیں۔ ایک دوسرے کو قبول کرنے کی روش ہمیں مل کر کام کرنے کی تحریک دیتی ہے اور یوں مسائل حل ہوتے چلے جاتے ہیں۔ اگر لوگ ایک دوسرے کو معقولیت کے ساتھ قبول کریں اور اشتراکِ عمل کی منزل سے بہ طریقِ احسن گزرتے رہیں تو بیشتر مسائل پیدا ہونے کا نام ہی نہ لیں۔
کسی بھی ترقی یافتہ معاشرے کی عمومی نفسیات کا تجزیہ کیجیے تو اندازہ ہوگا کہ اُن کی ترقی میں کلیدی کردار یقین اور اعتماد نے ادا کیا ہے۔ جب لوگوں میں ایک دوسرے کو قبول کرنے اور ایک دوسرے پر بھروسا کرتے ہوئے اشتراکِ عمل کی ذہنیت پیدا ہوئی تب معاملات کے درست ہونے کی راہ بھی ہموار ہوئی۔ یوں معاشرے پروان چڑھتے گئے۔ ہر ترقی یافتہ معاشرے کا بہت حد تک معاملہ رہا ہے۔ سوال دینی یا لادینی ہونے کا نہیں۔ جن معاشرے مجموعی طور پر لادین یا سیکولر ہیں اور خالص مادّہ پرستی پر یقین رکھتے ہیں وہ بھی بیشتر معاملات میں یقین کی منزل تک پہنچے بغیر ترقی نہیں کر پاتے اور جب وہ یقین و اعتماد کے تعامل اور تفاعل کو سمجھ لیتے ہیں تو اِس کی مدد سے بہت کچھ حاصل کرنے میں کامیاب رہتے ہیں۔
کسی بھی معاشرے کو شدید مایوسی اور اس کے نتیجے میں پیدا ہونے والی پستی اور تباہی کی دلدل سے نکالنے کے لیے ناگزیر ہے کہ بھرپور یقین اور اعتماد کو گلے لگانے کے بارے میں سوچا جائے۔ زندگی بسر کرنے کے دو بنیادی طریقے ہیں اور ان دو طریقوں کا فرق ہی معاشروں کی شناخت بنتا ہے۔ ایک طریقہ ہے کسی مذہب یا دین کو گلے لگاکر اُس کی تعلیمات کے مطابق کچھ کر گزرنے کا اور دوسرا طریقہ ہے دین و مذہب سے دوری اختیار کرتے ہوئے خالص مادّہ پرستانہ ذہنیت کے ساتھ جینا۔ جب انسان یہ سوچ لیتا ہے کہ اس کائنات کا کوئی خالق اور رب نہیں تو پھر اُس کے لیے پاس صرف اپنے ذہن سے کام لینے کا آپشن رہ جاتا ہے۔ یہ آپشن اُسے دنیوی امور میں بھرپور ترقی سے بھی ہم کنار کرسکتا ہے۔ سیکولر ذہنیت کے حامل بہت سے افراد کو آپ دنیوی ترقی سے ہم کنار پائیں گے۔ ڈھنگ سے جینے کے لیے جو کچھ درکار ہوتا ہے اُس کا یہ لوگ اہتمام کرتے ہیں اور اس کا صلا بھی اِنہیں مل کر رہتا ہے۔
یہاں دین سے مطابقت اور سیکیولر ذہنیت کے فرق پر بحث مطلوب نہیں۔ جنہیں اِس دنیا میں بہت کچھ پانا ہو وہ دین کے مطابق بھی پاتے ہیں اور دین کو زحمتِ کار دیے بغیر بھی۔ ہم اللہ کی قدرت پر یقین رکھتے اور ہمارے خالق و رب نے کسی بھی مرحلے پر یہ نہیں کہا کہ کوئی شخص اگر اللہ کی ذات، وحدانیت اور قدرتِ کاملہ پر یقین نہیں رکھتا تو اُسے دنیا نہیں ملے گی۔ دنیا تو ہر اُس انسان کے لیے ہے جو دنیا کو پانا چاہتا ہے اور اِس خواہش کے تقاضوں کے مطابق جینے کے لیے تیار ہے۔ دنیوی زندگی کے لیے جو کچھ درکار ہے اگر وہ پوری دیانت اور جاں فشانی سے کیا جائے تو اللہ کی طرف سے اِس کا پھل لکھ دیا گیا ہے۔ اس معاملے میں دینی اور لادینی مزاج کے فرق سے کچھ نہیں ہوتا۔ اگر کوئی شخص لادین ہو لیکن اپنا کام پوری دیانت سے کرتا ہو، کسی کو تکلیف اور دھوکا نہ دیتا ہو اور کسی کے لیے الجھن کا باعث نہ بنتا ہو تو اُسے اس ذہنیت کا پھل مل کر رہتا ہے۔
شدید ناکامی اور مایوسی ہر اُس معاشرے کا مقدر بنتی ہے جو کسی دین پر بھی یقین نہ رکھتا ہو اور سیکولر ازم کی بنیادی سوچ سے بھی ہم آہنگ نہ ہو۔ اصولی سی بات تو یہ ہے کہ اگر کوئی شخص دین سے شغف نہیں رکھتا تو پھر خالص دنیوی سوچ اپنالے یعنی کسی نہ کسی طور اپنی دنیوی زندگی کو کامیابی سے ہم کنار کرے۔ ہم دیکھتے ہیں کہ جن معاشروں میں دین کو بھی نہیں اپنایا جاتا اور خالص دہریت پسندی کو گلے لگانے سے بھی گریز کیا جاتا ہے وہ بیشتر معاملات میں تباہی، ناکامی اور مایوسی کی طرف سرکتے اور لڑھکتے رہتے ہیں۔
ہمارے معاشرے کا بنیادی المیہ یہ ہے کہ ہم نے دین کو بھی چھوڑ رکھا ہے اور خالص مادّہ پرستی کی راہ پر بھی ڈھنگ سے گامزن نہیں ہوسکے ہیں۔ ہم دنیا کو پانا چاہتے ہیں مگر دنیا کو پانے کے لیے جو کچھ کرنا ہوتا ہے وہ بھی نہیں کر رہے۔ دین ہمیں دنیا کو پانے کی جو راہ سُجھاتا ہے اُس پر چلنے کے لیے ہم تیار نہیں اور دنیا جو کچھ ہم سے چاہتی ہے وہ بھی ہم نہیں کرتے۔ ایسے میں صرف ناکامی ہی ہاتھ لگ سکتی ہے اور لگ رہی ہے۔
مایوسی اور بیزاری کی دلدل سے نکلنے کا بنیادی راستہ ہے اپنے وجود پر پورا بھروسا، دنیا میں کامیابی کے لیے درکار طریقوں کو اختیار کرنا اور سب سے بڑھ کر حال و حرام کی تمیز کا شعور پیدا کرنا۔ اس کے لیے منصوبہ ساز ذہنیت درکار ہوا کرتی ہے۔ جن معاشروں میں مذہب کو اہمیت نہیں دی جاتی یا سِرے سے قبول ہی نہیں کیا جاتا اُن میں بھی جائز اور ناجائز کی درجہ بندی بہرحال ہوتی ہے۔ ایسے معاشروں میں بھی وہ تمام افعال جرم کے درجے میں رکھے جاتے ہیں جن سے دوسروں کو پریشانی ہوتی یو یا وہ ذہنی الجھن محسوس کرتے ہوں۔ کسی کا حق مارنا خالص دہریت پسند معاشروں میں بھی ناپسندیدہ اور جرم ٹھہرتا ہے۔ ایسے میں ہم اندزہ لگاسکتے ہیں کہ ہم کہاں کھڑے ہیں جبکہ ہم دین کی بات بھی کرتے ہیں اور دوسرے کے معاملات میں خواہ مخواہ مداخلت بھی کرتے ہیں، اُن کے حق پر ڈاکے بھی ڈالتے ہیں، اُنہیں شدید ذہنی کوفت سے بھی دوچار کرتے ہیں اور اِس پورے کھیل میں کہیں بھی شرمندگی محسوس نہیں کرتے۔
آج کا پاکستانی معاشرے شدید ذہنی انتشار کا شکار ہے۔ اس کا بنیادی سبب یہ ہے کہ دین پر بھی یقین نہیں رہا اور دنیا کو بھی قابلِ اعتبار گردانا نہیں جاتا۔ دنیوی معاملات میں کامیابی کے لیے جو ذہنیت درکار ہے وہ بھی ہم پیدا نہیں کر پائے اور وہ منصوبہ ساز مزاج بھی ہم سے بہت دور ہے جو ہمارے وجود کا حصہ ہونا چاہیے، قدم قدم پر ہماری نفسی ساخت سے سَٹا ہوا ہونا چاہے۔
بات کریئر کی ہو یا معاشرتی تعلقات کی، ہر جگہ منصوبہ سازی ذہنیت لازم ہے۔ جو لوگ منظم زندگی بسر کرتے ہیں وہی جانتے اور سمجھتے ہیں کہ اُنہیں کب کیا کرنا ہے اور کس حد تک جانا ہے۔ یہ سب کچھ بہت چھوٹی عمر سے ہوتا ہے اور ہونا ہی چاہیے۔ بیس بائیس سال کے بندے کو کچھ سمجھانے کی کوشش کیجیے تو وہ مشکل ہی سے سمجھ پاتا ہے۔ تین چار سال کی عمر سے بچے کو کسی خاص مزاج کے سانچے میں ڈھالیے تو وہ آسانی سے ڈھلتا چلا جاتا ہے۔ ایسا نہیں کہ پختہ عمر والوں کو کچھ سکھایا نہیں جاسکتا۔ وہ بھی بہت کچھ سیکھ سکتے ہیں، خود کو بدل سکتے ہیں مگر اِس میں محنت بہت لگتی ہے۔
نئی نسل کو مایوسی کے گڑھے سے نکالنے پر زیادہ توجہ دی جانی چاہیے کیونکہ اُسی پر ملک کے مستقبل کا مدار ہے۔ نئی نسل ہی کو ملک و قوم کی تمام ذمہ داریاں سنبھالنی ہیں اِس لیے اُن میں شعور کی سطح بھی بلند ہونی چاہیے اور احساسِ ذمہ داری کا گراف بھی بلند ہونا چاہیے۔ نئی نسل کو قدم قدم پر یہ بتانے کی ضرورت ہے کہ ڈھنگ سے جینے کے لیے وہ سب کچھ سوچنا اور کرنا لازم ہے جن کا یہ وقت ہم سے تقاضا کرتا ہے۔ عصری تقاضوں کو سمجھے بغیر وہ لوگ بھی ترقی نہیں کرسکتے جو دین کی تعلیمات پائے ہوئے ہوں۔ دین بھی ہمیں دنیوی ترقی سے نہیں روکتا۔ سوال صرف یہ ہے کہ ہم دنیا کو پانے کے لیے دین کے تقاضوں کو سمجھنے اور اُن پر عمل کرنے کے لیے تیار ہیں یا نہیں۔ اگر ہم دنیا کے بنیادی تقاضوں کو سمجھنے اور نبھانے کے لیے تیار ہوں، منظم طرزِ زندگی اپنائیں، منصوبہ ساز ذہنیت کے ساتھ جئیں، کسی کے لیے مشکلات پیدا نہ کریں، دوسروں کے لیے زیادہ سے زیادہ مفید ثابت ہوں تو دین بھی ہمیں آگے بڑھنے اور دنیا کو پانے کی تحریک دیتا ہے کیونکہ اِس طور دنیا کو پانا بھی دین کو پانے ہی کے مترادف ہے۔
آج کے پاکستانی معاشرے کی نفسی ساخت پر غور کیجیے تو یہ دل خراش حقیقت بہت تیزی سے نمایاں ہو جاتی ہے کہ ہم ایک طرف تو تحمل کی دولت سے بے بہرہ ہیں اور دوسری طرف دینی تعلیمات کی روشنی میں تسلیم شدہ دنیوی تقاضوں سے بھی ہم آہنگ نہیں۔ منصوبہ سازی برائے نام ہے۔ وقت کی تطبیق عہدِ طفولیت میں ہے۔ ہم وقت کو معقول طریقے سے بروئے کار لانے کے بارے میں سنجیدہ ہونے کا نام نہیں لیتے۔
منصوبہ سازی میں بہت کچھ شامل ہے۔ ایک طرف تو کریئر ہے یعنی زندگی کا عملی، معاشی پہلو۔ اس پہلو کو کسی بھی قیمت پر نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔ جو لوگ ایسا کرتے ہیں وہ شدید نوعیت کا خمیازہ بھی بھگتتے ہیں۔ دوسری طرف معاشرتی اور نجی زندگی ہے۔ زندگی کے ان دونوں پہلوؤں کے حوالے سے بھی بے نیاز رہنے کی گنجائش نہیں۔ جو لوگ کریئر یعنی مال و دولت کے لیے نجی اور معاشرتی زندگی کو داؤ پر لگاتے ہیں وہ بھی خسارے میں رہتے ہیں اور جو لوگ نجی اور معاشرتی زندگی کو بالیدگی سے ہم کنار کرنے کے لیے معاشی جدوجہد کو خاطر خواہ اہمیت نہیں دیتے وہ بھی کبھی حقیقی اور ہمہ گیر کامیابی سے ہم کنار نہیں ہو پاتے۔ اُن کی زندگی میں بھی خلا رہ جاتا ہے۔ زندگی کے یہ دونوں بنیادی پہلو ہم سے توازن کا تقاضا کرتے ہیں۔
تمام پاکستانیوں کو بالخصوص اور نئی نسل کو بالخصوص مایوسی کے گڑھے سے نکلنے کی ضرورت ہے۔ ذہنی انتشار عمل سے دور لے جاتا ہے۔ عمل سے دوری کامیابی کی راہ میں رکاوٹ بنتی ہے اور پھر ناکامی کی صورت میں مایوسی ہم پر طاری ہونے لگتی ہے۔ یہ سب کچھ ہمارے لیے سوہانِ روح ہوتا ہے۔ ہم چاہیں یا نہ چاہیں، ہمارے لیے لازم ہے کہ مایوسی سے نکلنے کے لیے تگ و دَو کریں، دن رات منصوبہ سازی کریں، اپنے معاملات کو درست کریں اور دنیا کو دینی تعلیمات کی روشنی میں ڈھنگ سے اپنانے کی طرف متوجہ ہوں۔
منصوبہ ساز ذہنیت ہمیں ذہنی و فکری انتشار کے چنگل اور مایوسی کی دلدل سے نکال کر معقول، معیاری اور مفید زندگی کی طرف لے جاسکتی ہے۔ یہ وقت کا سب سے بڑا تقاضا ہے جسے نظر انداز کرنے کی صورت میں ہمہ گیر ناکامی ہمارا مقدر بنی رہے گی۔