آخر شب کے ہم سفر

100

’’اب واقعی چلوں۔ ورنہ ٹرین چھوٹ جائے گی۔ دیکھو میں ادما سے کہے جارہا ہوں کہ وہ میری غیر موجودگی میں تمہاری دیکھ بھال رکھیں۔ اور تمہارے بابا سے بھی ذرا خوب تعریف واریف کردیں۔ راستہ ہموار کرنے کے لیے۔ اور یہ یاد رکھو۔ ادما۔ فرشتہ خصلت بے مثال لڑکی ہے۔ اس سے بڑھ کر پُرخلوص دوست تمہیں اور کوئی نہ ملے گا۔ یہ بات میں تم سے پہلے بھی کہہ چکا ہوں۔ اچھا اب چلے۔ بہت لمبا سفر ہے۔ کلکتہ۔ دلّی۔ بمبئی‘‘۔

’’اپنا خیال رکھیے گا‘‘۔
خاموشی، کیلے کی ڈالیوں کی سرسراہٹ… دور ایک کتّا روئے جارہا ہے… اندر رسوئی گھر میں روشنی جل گئی۔
’’مسکرائو… لو ہم روشنی میں تمہارا چہرہ دیکھیں‘‘۔
ماچس جلانے کی آواز۔
’’اے لو وہ لب پہ آئی ہنسی۔ اے لو وہ مسکراتے ہیں‘‘۔
’’کیا مطلب؟ سُوں سُوں؟‘‘
’’ہم نے اردو کا ایک حسب موقع مصرعہ پڑھا تھا۔ بے وقوف‘‘۔
’’آپ نے اتنی فرفر اردو کہاں سے سیکھ لی‘‘۔
’’علی گڑھ میں بیوقوف‘‘۔
’’مجھے بھی سکھلا دیجئے؟ سُوں سُوں‘‘۔
’’ضرور سکھلا دیں گے‘‘۔
دُور گھنٹے کی آواز۔
’’ارے آٹھ بج گئے۔ اب چلوں۔ بائی۔ بائی…‘‘
آواز بازگشت
آواز بازگشت
آواز بازگشت

(29)
شریمتی رادھیکا سانیال

ڈیریسٹ دیپالی!
میں تم سے دلی معافی چاہتی ہوں۔ اگست کی اس طوفانی رات اپنی مہم پر جانے سے پہلے تمہارے گھر آکر میں نے تمہیں بہت بُرا بھلا کہا تھا۔ مگر ہم سب ایک زبردست قومی کرائسس سے گزرے ہیں۔ اور اتنی قربانیاں دے کر، محمود دا میری آنکھوں کے سامنے گولی کا نشانہ بنے۔ جیوتی دا کو پولس نے اتنا مارا کہ انہوں نے حوالات میں ہی دم توڑ دیا۔ جب ہمارے ساتھیوں نے پولس چوکی پر حملہ کیا میں بالکل نہتی تھی۔ اور صرف جلوس کی قیادت کررہی تھی۔ اسی وجہ سے میرے اوپر کوئی فرد جرم فوجداری کی عائد نہیں کی جاسکی۔ جب ہمارے ساتھیوں نے تھانے پر ہتھ گولے پھینکے پولس نے فوراً گولی چلا دی۔ ہجوم پر اشک آور گیس چھوڑی اور لاٹھی چارج کیا۔ جب مجھے ہوش آیا تو میری بائیں ٹانگ میں سخت تکلیف تھی۔ اور میں ہتھکڑی پہنے زنانہ حوالات کے فرش پر پڑی تھی۔ اور باہر شام ہوچکی تھی۔ بالکل سناٹا۔ کچھ دیر بعد کچھ سپاہی اندر آئے۔ مجھے پولیس کی لاری میں بٹھال کر جیل لے گئے۔ اور زنانہ وارڈ میں ڈال دیا۔ جہاں مچھر ہی مچھر تھے۔ ایک لالٹین میرے پاس رکھ دی گئی۔ باہر کھٹ سے تالا۔ جب میں زور زور سے کراہنے لگی تو ایک بڑھیا دارڈراندر آئی۔ اور بڑبڑاتی ہوئی پھر باہر نکل گئی۔ چند منٹ بعد جیلر آیا۔ اس نے گندا سا اسٹریچر منگوایا۔ مجھے پھر پولس کی لاری میں لادا گیا۔ دو مسلح سپاہی میرے ساتھ بیٹھے۔ لاری ہچکولے کھاتی اندھیرے شہر میں سے گزرتی سول ہسپتال پہنچی مجھے اُتار کر زنانہ جنرل وارڈ کے ایک میلے سے لوہے کے پلنگ پر ڈال دیا گیا۔ اس طرح ہتھکڑیوں سمیت وارڈ میں مجھے دیکھ کر ہنگامہ سا ہوگیا۔ ایک بوڑھی عورت زور زور سے بین کرنے لگی۔ اس کا لڑکا بھی چند روز قبل اندولن میں شہید ہوگیا تھا۔ خیر ڈاکٹر آیا۔ میری مرہم پٹی ہوئی۔ کھانا کھلایا گیا۔ سپاہی دروازے پر پہرے پر بیٹھ گئے۔

تین دن تک جنرل وارڈ میں رہی۔ مریض عورتیں ہمدردی سے ہر وقت میرے پاس گھری رہتیں۔ چنانچہ حکام نے میرا پلنگ ایک خالی کمرے میں منتقل کردیا۔

خوش قسمتی سے میری ٹانگ کی ہڈی پر ضرب نہیں آئی تھی۔ سر میں البتہ زیادہ چوٹ لگی تھی۔ ہسپتال کے ڈاکٹر توجہ سے میرا علاج کرتے رہے۔ رات کو جنرل وارڈ کی عورتیں سپاہیوں کی نظر بچا کر مجھے پھل اور مٹھائیاں دے جاتیں اور ہر طرح میری خدمت کو تیار رہتیں۔ اور میں سوچتی میں اس لائق نہیں ہوں کہ میری بے بس قوم کے افراد میرا اتنا خیال کررہے ہیں۔

اسی طرح ایک ہفتہ گزر گیا۔ تب ایک روز صبح صبح کمرے میں ایک میم صاحب داخل ہوئیں۔ سرہانے آکر میرے اوپر جھکیں اور آہستہ سے کہا۔ ’’روزی‘‘! ادھیڑ عمر کی خاتون۔ چھوٹا سا جوڑا باندھے۔ بھورے بال بھورے رنگ کا فراک۔ پائوں میں بھدّے بوٹ۔ یہ مس ایلس بارلو تھیں اور ان کو دیکھتے ہی باہر بیٹھے سپاہیوں نے انہیں فوراً اندر آنے دیا۔ مس بارلو چارلس بارلو کی بڑی بہن ہیں۔ مشنری۔ انہوں نے نرمی سے بتایا کہ میرے پاپا پریشان حال مسٹر بارلو کے پاس پہنچے تھے۔ اور مسٹر بارلو نے فوراً پبنہ کے انگریز بڑے پادری کو ٹرنک کال کیا تھا۔ جن کے ہاں مس بارلو آئی ہوئی تھیں۔ میں چپ چاپ لیٹی اس عجیب و غریب سچویشن کی تفصیل سنا کی۔ مس بارلو نے اسٹول پر بیٹھ کر مجھے سمجھانا بجھانا شروع کیا۔ جیزس کے رحم و کرم کی تبلیغ کی اور کہا کہ وہ اپنی گمشدہ بھیڑوں کی واپسی کا منتظر ہے اور یہ کہ اگر میں معافی نامے پر دستخط کردوں تو مجھے فوراً رہا کردیا جائے گا۔ اور پبنہ کے ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ سرکاری حفاظت میں ڈھاکے پہنچوادیں گے۔ (پبنہ کے ڈی ایم مسٹر پروفُل سین گپتا ہیں) میں نے صاف انکار کردیا۔ مس بارلو اُٹھ کر چلی گئیں۔ دوسرے روز صبح پھر آئیں۔ کیک، پھل، بسکٹ، چار کا فلاسک اٹھائے چپراسی ساتھ (میری یہ نئی شان و شوکت دیکھ کر ہسپتال کے عملے اور پہرے کے سپاہی بہت مرعوب ہوئے اور ان کا رویہ بدل گیا) مس بارلو نے پھر مجھے اس نرمی سے لیکچر پلانا شروع کیا گویا میں کوئی کم عقل ناگا قبائلی ہوں۔ میں نے ان سے کہا کہ وہ اپنا وقت ضائع کررہی ہیں۔ وہ مایوس ہو کر چلی گئیں۔

اس رات زنانہ جنرل وارڈ کی ایک مریض لڑکی خدیجہ چپکے سے میرے پاس آئی (اس کا باپ کچہری کا معمولی اہلکار تھا) اور کہنے لگی دیدی ہم سب عورتیں برابر آپ کی صحت کے لیے دعائیں مانگ رہے ہیں۔ لیکن آپ نے اگر معافی نامہ پر دستخط کردیئے تو ہم آپ کو کبھی معاف نہ کریں گے۔

میں نے اس سے کہا۔ خدیجہ۔ تم سب اطمینان رکھو۔ میں ہرگز معافی نہ مانگوں گی۔ اسی وقت باہر پہرے کے سپاہی نے ڈنڈا بجایا اور وہ چپکے سے کھسک گئی۔

ایلس بارلو تیسرے روز شام کو آئیں۔ اب کے اس ایک بنگالی افسران کے ساتھ تھے انہوں نے تعارف کرایا۔ مسٹر سین گپتا کے اسسٹنٹ، مسٹر ربی کمار سانیال۔ یہ تم سے بات کرنا چاہتے ہیں۔ میں نے کوئی جواب نہ دیا۔ مسٹر سانیال نے بھی مس بارلو کے الفاظ دہرائے۔ معافی نامے پر دستخط کردیجئے۔ میں نے دوسری طرف کروٹ بدل لی۔ مسٹر سانیال نے کہا۔ میں کل معافی نامہ لے کر آئوں گا۔ کل تک اچھی طرح سوچ لیجئے۔ ایلس بارلو کو شاید اُمید ہوچلی تھی کہ میں نرم پڑجائوں گی۔ چند منٹ بعد وہ اور مسٹر سانیال واپس چلے گئے۔

چوتھے روز صبح صبح مسٹر سانیال پھر آن موجود ہوئے۔ لیکن ان کے ہمراہ مس بارلو کے بجائے ان ہی کے ہم شکل ایک اور صاحب تھے۔ انہوں نے کہا کہ یہ ان کے کزن بسنت کمار سانیال ہیں۔ کلکتہ کے ایڈووکیٹ اور جرنلسٹ۔ اشروی کے معرکے کے بعد حالات ’’کور‘‘ کرنے کے لیے کلکتے سے آئے ہوئے ہیں۔ اور میرا انٹرویو کرنا چاہتے ہیں۔ میں نے ذرا حیرت سے سوچا کہ ایک سرکاری افسر اس قسم کے انٹرویو کی اجازت کس طرح دے رہا ہے۔ مگر یہ اندولن کا اب نارمل زمانہ تھا۔ ہر چیز ممکن تھی۔ کچھ پتا نہیں کون ہمارا ساتھی ہے کون دشمن۔

ربی کمار سانیال مسکرا رہے تھے۔ مسٹر بسنت کمار سانیال اب تک بُت کی طرح بیٹھے مجھے تکے جارہے تھے۔ میں ایک دم گھبرا گئی۔ میرا حلیہ بھی کیا رہا ہوگا۔ اس وقت ماتھے پر پٹی بندھی۔ سر جھاڑ منہ پہاڑ۔ جیسے برسوں کی روگی سات آٹھ دن سے آئینہ تک نہ دیکھا تھا۔ مجھے بڑا غصہ آیا۔ یہ انٹرویو کی کیا تُک ہے اور میں کون سی اتنی بڑی قومی ہیروئن ہوں۔ میری جیسی اَن گنت لڑکیوں نے کہیں زیادہ بہادری سے یہ اندولن چلایا ہے۔ میں تو پولس کی ایک لاٹھی سے ہی چکرا کر گر پڑی۔

خیر۔ تو بسنت کمار سانیال نے مجھ سے چند عام سے سوالات کئے۔ کہاں پڑھا ہے، تحریک میں کب سے ہوں، وغیرہ وغیرہ۔ اس کے بعد وہ ایک دم اُٹھ کھڑے ہوئے۔ اور نمسکار کرکے دونوں باہر چلے گئے۔

میں نے چونکہ معافی مانگنے سے قطعی انکار کردیا تھا اور میری ٹانگ اور سر کے زخم ٹھیک ہوچکے تھے اس لئے دس روز بعد مجھے ہتھکڑیاں پہنا کر پولس گاڑی میں سوار کروایا گیا اور دوبارہ جیل پہنچادیا گیا۔

اس روز رات بھر زنانہ وارڈ میں رت جگا رہا۔ مریض لڑکیاں چپکے چپکے قاضی نذرالاسلام کے گیت الاپتی رہیں۔ صبح کو جب میں اپنے کمرے سے نکل کر جارہی تھی بہت ساری مریض عورتیں برآمدے میں کھڑی رو رہی تھیں۔ ان سب کو معلوم تھا کہ اگر ہتھ گولے پھینکنے کا جرم مجھ پر ثابت ہو گیا تو عمر قید ہوسکتی ہے جو عورتوں پلنگ سے نہ اُٹھ سکتی تھیں وہ بھی نرسوں کے چلانے کی پرواہ کئے بغیر کھسکتی کھسکتی وارڈ کے دروازے میں آگئی تھیں۔

چنانچہ میں ڈسٹرکٹ جیل کے زنانہ وارڈ میں پہنچادی گئی۔ کوٹھری میں پہنچ کر مجھے پہلی بار احساس ہوا کہ اب میں واقعی قیدی ہوں۔

شام کو ملاقات کے وقت بسنت کمار سانیال آن پہنچے۔ انہوں نے کہا کہ میں قطعی فکر نہ کروں ان کے بڑے بھائی کلکتہ کے نامور بیرسٹر ہیں۔ اگر مجھ پر مقدمہ چلا تو وہ پیروی کریں گے۔

میں نے کہا آپ میرے لیے اتنی پریشان کیوں اُٹھا رہے ہیں۔ وہ ایک دم ہنسنے لگے۔

قصہ مختصر کرتی ہوں دیپالی بسنت کمار سانیال روزانہ شام کو جیل آکر مجھے قانونی صورت حال سے باخبر کرتے رہے۔ اشردی کے معرکے کے بعد ہم پینتالیس لوگوں کو بغیر مقدمہ چلائے جیل میں رکھا گیا تھا۔ سندھیا اور دوسری لڑکیاں کشتیہ جیل بھیجی جاچکی تھیں۔

اب دیپالی غور سے سنو۔ مجھے یہ انکشاف ہوا کہ بسنت کمار مجھے بے حد پسند کرنے لگے ہیں۔ اسی وجہ سے وہ جو صرف دو روز کے لیے پبنہ آئے تھے آج ایک مہینے سے یہاں ڈٹے ہوئے تھے۔ یہ صحیح تھا کہ وہ قومی ناتے میری مدد کرنا چاہتے تھے مگر اور بھی تو اتنی لڑکیاں جیلوں میں بھر دی گئی تھیں۔ صرف میری مدد ہی کیوں؟ اس کے جواب میں انہوں نے کہا کہ ان سب لڑکیوں کے گھر والے ان کے لیے دوڑ دھوپ کریں گے۔ میری مدد کرنے والا کوئی نہیں ہے۔ (میں ان کو پاپا کے متعلق بتا چکی تھی) مگر مجھے لگتا ہے یہ بھی گپ تھی۔ دراصل ان کو مجھ سے عشق ہوگیا تھا۔ لو ایٹ فرسٹ سائیٹ گپ نہیں ہے۔

ایک روز وہ خوش خوش آئے اور کہنے لگے مجھے دس ہزار کی ضمانت پر رہا کیا جاسکتا ہے۔ میری اتنی بھاری ضمانت کون دے گا۔ میں نے کہا۔ اس کے متعلق سوچنا ہی بیکار ہے۔ دراصل دیپالی میں نے اپنے آپ کو تیار کرلیا تھا کہ ایک نامعلوم مدت تک جیل میں پڑی رہوں گی اور پاپا میرے غم میں روتے روتے اندھے ہوجائیں گے یا مرجائیں گے۔ (ایلس بارلو ہسپتال کے بعد ایک مرتبہ جیل بھی آئیں تھیں۔ مگر میرے ارادہ کی مضبوطی کا اندازہ لگا کر دوبارہ نہ آئیں۔ گارو ہلز واپس چلی گئیں)۔

دوسری صبح دروازہ کھلا۔ جیلر نے اندر آکر کہا آپ کو رہا کیا جاتا ہے۔ ضمانت مسٹر بسنت کمار سانیال نے دی تھی۔ میں بالکل ہی بھونچکی رہ گئی۔

جیل کے پھاٹک پر بسنت کمار اپنے بھائی بھاوج ربی اور رنجنا سانیال کے ساتھ موٹر لئے منتظر تھے۔ مجھے اپنے ساتھ گھر لے گئے۔ ربی کمار سانیال کی کوٹھی سول لائنز میں تھی۔ وہاں پہنچ کر افوہ دیپالی مجھے ایسا عجیب لگا۔ زنانہ جیل اور ہسپتال کے زنانہ جنرل وارڈ کے بھیانک، افسردہ ماحول کے بعد یہ دوسری دنیا معلوم ہوئی۔ میں نے سوچا۔ میں خوش قسمت ہوں۔ میں جو اکثر اپنی لِلی کاٹج کی محدود سی زندگی سے شاکی رہا کرتی تھی۔ میں نے دیکھا کہ اِسی دُنیا میں بیشتر انسان کتنی تکلیفوں میں زندہ رہتے ہیں۔ کیسی کیسی ذلتیں اور اذیتیں اٹھاتے ہیں۔ مجھے وہ سب زنانہ جنرل وارڈ کی غریب، میلی کچیلی لیکن باہمت عورتیں یاد آئیں۔ اور مجھے پتا چلا کہ ہماری جنتا، ہماری عورتیں واقعی کتنی بہادر ہیں۔ کیسی بہادری سے زندہ رہتی ہیں۔ اور کیسی بہادری سے مرتی ہیں۔

اتنے دنوں بعد اچھے سے غسل خانے میں اچھی طرح نہائی، صاف ساری پہنی، میز پر بیٹھ کر کھانا کھایا اور برابر یہ احساس رہا کہ کروڑوں انسانوں کو زندگی کی یہ بنیادی آسائشیں ہی میسر نہیں۔ یہ احساس مجھے سچ مچ پہلی بار ہوا۔
(جاری ہے)

حصہ