جب خدا کی بارگاہ میں اپنے خطا کار ہونے کا احساس خدا کی عظمت کا احساس دلاتا ہے تو ایک بندے کی آنکھیں آنسوؤں سے تر ہو جاتی ہیں اور جب سچائی کو پسند کرتے کرتے انسان یہ محسوس کرتا ہے کہ اب سچائی اس کی نس نس میں روح بن کر سما چکی ہے تو ٹھیک اسی دم وہ یہ بھی محسوس کرتا ہے کہ خدا کی زمین پر شیطانی جھوٹ کا ہر ایک وجود اس کے دل میں کانٹے کی طرح کھٹکنے لگا ہے جس کو نکالے بغیر اس کو چین آہی نہیں سکتا۔ ہائے یہ زندگی کا بلند ترین اور حسین ترین مقام!… کہ جہاں تلواروں کی چھاؤں میں سونے کی آرزو و زندگی کو موت کی تلاش میں آبلہ پا لیے بھرتی ہے۔ جب زبان سے ’’اللہ اللہ‘‘ کرانے والا بے چین ہوتا ہے کہ اس کے لہو کی ہر بوند سے یہی آواز آئے اور اسی حسین ’’نام ‘‘کو اس کے خون حیات کے قطرے زمین کے ایک ایک ذرے کے سینے پر نقش کر ڈالیں۔
آہ!… یہ دو قطرے!
کتنے قیمتی ، کس قدر مقدس !!
جن میں سے ایک پانی ہے اور دوسرا لہو، مگر دونوں میں ایک ہی بندگی کا سوز اور ایک ہی سپردگی کا گداز شعلہ نور کی طرح کپکپا رہا ہے۔ شاید اسی لیے خدا نے دونوں کی قیمت ایک ہی ٹھہرا دی۔ مرحبا یہ دو محبوب ترین قطرے!… دو عظیم ترین تحالف جن سے خدا کو پیار ہے اور…
کیسا قسمت کا دھنی تھا وہ عمار بن یا سرکہ جس نے اللہ کی بارگاہ جمال و جلال میں یہ دونوں ہی محبوب تھے نذر کیے !
ان کی زندگی اشک و خون کے اس دو آتشہ جذب و جنون میں والہانہ وجد کرتی ہوئی اٹھی۔ صراط مستقیم کے نقوش اپنے خونیں اشکوں سے نکھارتی ہوئی چلی اور پھر ہمیشہ کے لیے ایک سجدہ شوق بن کر اللہ کے سنگ آستاں میں جذب ہو گئی۔
وہ حضرت یا سرؓ کے بیٹے تھے۔ وہی بوڑھے یا سرؓ جنہوں نے اللہ اور اس کے رسولؐ کے لیے جوانوں کی طرح زخم پر زخم کھائے تھے۔ ہائے وہ بوڑھی کھال جس کو بنی مخزوم کے ظالمانہ کوڑوں کی شائیں شائیں نے ادھیڑ ڈالا تھا، مگر اللہ اکبر! وہ بوڑھا ضعیف چہرہ جس کی اشک آلود خونچکاں جھریوں نے غیرت ایمانی کی آبرو پر حرف نہ آنے دیا تھا… ہاں… عمارؓ اسی باپ کے بیٹے تھے اور انھوں نے اس سمیہ کا دودھ پیا تھا جس نے نسوانیت اور بڑھاپے کی دہری کمزوریوں کے درمیان کھڑے ہو کر اسلام میں سب سے پہلے نقد جان کا نذرانہ بارگاہ ربانی میں پیش کرنے کی مقدس رسم نکالی تھی!
سوچئے تو سہی!…
کتنا پاکیزہ اور ستھرا تھا وہ خون جو عمار بن یا سرؓ کی رگوں میں گردش کر رہا تھا؟
ظلم و قہرمانیت نے جب حق و صداقت کے نام لیواؤں کے خلاف آگ اور خون کے طوفان اٹھا رکھے تھے تو عمارؓ نے ان ہی آندھیوں میں اپنے ایمان کی شمع جلائی تھی۔ یہ آندھیاں اور یہ بگولے اس چراغ کو گل نہ کر سکے۔ انہوں نے نوخیز جوانی کی سینے پر خدا کے لیے زخم پر زخم کھائے، انتہائی بے رحم اور خون آشام انسانوں کی بھیڑ میں حضرت عمارؓ وہی بات کہہ چلے جا رہے تھے جسے سننا خدا کے باغیوں نے کبھی پسند نہیں کیا اور جس کے جواب میں ہمیشہ پتھر ہی برسے۔
… کوئی بھی معبود نہیں… معبود تو فقط اللہ ہے۔
آخر ظلم بڑھتے بڑھتے ’’قیامت‘‘ میں بدل گیا۔ مصائب و آفات کی حشر سامانیوں نے حواس و ہوش کی بساط ہی الٹ کر رکھ دی۔ انہیں کھولتے ہوئے پانی میں غوطے پر غوطے دیئے گئے اور… آہ! کرب و اضطراب کا وہ آخری موڑ آپہنچا۔ جب قوت برداشت اپنی ساری توانائی ختم کر کے خشک لکڑی کی طرح ٹوٹ جاتی ہے۔ یہی تھا وہ مقام جہاں قطعاً بے اختیار حضرت عمارؓ کے منہ سے کچھ ایسے الفاظ کہلائے گئے جن کے اوپر تو کفر تھا مگر اندر ایمان ہی ایمان۔
ان الفاظ کے ساتھ وہ قیامت تو اچانک رک گئی جو جسم پر ٹوٹ رہی تھی، لیکن اب عمارؓ کی روح کے اندر سے ایک عظیم ماتم کا شور قیامت اٹھا۔ یہ خوف اپنی خوف ناکی اور زہرہ گدازیوں میں سکرات موت سے بھی آگے نکل گیا تھا کہ کیا یہ جبریہ کہلائے گئے بے اختیار الفاظ ان کی متاع ایمانی کا گلا تو نہیں گھونٹ گئے ؟ کیا انسانی عقوبت سے نکلنے کے بعد وہ اب خدائی عذاب کے آتشیں غار میں گر کر پاش
پاش ہو جانے والے تو نہیں ؟
وہ رو دیئے، روتے رہ گئے۔ ہچکیوں اور سسکیوں میں ہچکولے کھاتے ہوئے وہ جب غم و اندوہ سے پارہ پارہ ہو رہے تھے تو اچانک انہیں حضورؐ کا خیال آیا… وہ بے تابانہ اٹھے اور افتاں خیزاں اس ہستی کی طرف دوڑے جو آدمی کو دوزخ کے الاؤ سے نجات دلانے کے لیے آئی تھی۔ وہ دوڑے جا رہے تھے اور ان کا بے قرار رونا صبور دل ان سے بھی آگے اس اضطراب میں سینے سے باہر نکلا جا رہا تھا کہ خدا جانے بارگاہ رسالت میں ان کی زندگی کے اس نازک ترین مقدمے کا کیا فیصلہ صادر ہوتا ہے!
آنحضرتؐ کو اپنی نظروں کے سامنے… اپنے اس قدر نزدیک پاکر یکا یک ان کا کلیجہ منہ کو آنے لگا، دونوں طرف خاموشی طاری تھی۔ ایک طرف شفقت، تشویش اور استعجاب میں ڈوبی ہوئی خاموشی! دوسری طرف وہ خونچکاں اور اشک آلود خاموشی جو ایک ایسے سینے کے اندر سے ابلتی ہے جس میں دل ٹکڑے ٹکڑے ہو گیا ہو… یہ عمار کی خاموشی تھی… ندامت و انفعال سے پسینہ پسینہ… درد و اضطراب سے لہو لہو… خوف و اندیشہ سے اشک اشک! … وہ اس طرح رو دیئے جیسے ان کی ساری دنیا لٹ چکی ہو جیسے اب ان کے پاس آنسوئں کے سوا کچھ بھی نہ رہا ہو۔ انہیں خدا کے قہر کا خوف رلا رہا تھا۔ مگر انھیں کیا خبر تھی کہ ٹھیک اسی دم رحمت کے ہزارہا فرشتے ان آنسوئوں کو اپنی پلکوںسے چن لینے کے لیے پر افشانیاں کر رہے ہیں۔ کتنا خوش قسمت ہے وہ رونے والا جس کے آنسوؤں پر خدا کی رحمت کو پیار آجائے!
دل کا حال کیا ہے ؟…عمارؓ کا فسانہ غم سن کر دکھیاروں کے بہترین مونس و غم خوارؐ نے پوچھا ’’ تم اپنے دل کو کیسا پا رہے ہو ؟‘‘
’’ میرا دل؟‘‘ عمارؓ نے سسکتے ہوئے سینے کو لرزتے ہوئے ہاتھوں سے تھام کر والہانہ جذب و جنون کے انداز میں کہا’’میرا… دل… ایمان پر قطعاً مطمئن ہے ،اے خدا کے رسولؐ !… میرا دل… ایمان پر…بالکل مطمئن ہے …‘‘
اور… دوسرے ہی لمحے عمار رحمت للعالمینؐ کی آغوش میں تھے۔ بے تابانہ حضورؐ نے ان کو اپنی مقدس بانہوں میں لے لیا تھا اور اپنے دامن سے ان کے آنسو پونچھ ڈالے تھے۔ وہ آنسو یقینا خدا کے محبوب قطرے ہی ہوں گے، جنھیں محمدؐ کے دامن نے خشک کیا اپنے اندر جذب کیا۔
’’کوئی بات نہیں !…کوئی بات نہیں !!… حضورؐ آنسو پونچھ رہے تھے اور دل فگار مومن کو تسلی پر تسلی دے رہے تھے جسے اس وقت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سوا دنیا کا کوئی انسان تسلی نہیں دے سکتا تھا۔
……٭٭٭……
یہ اشک ہائے انفعال… خدا کے یہ محبوب قطرے انہوں نے عہد شباب میں پیش کیے تھے۔ اس کے بعد ان کے باطن پر رحمت الٰہی کی گھٹائیں جھوم جھوم کر اس طرح برسیں کہ ان کا ایمان ہمیشہ جوان و تازہ دم رہا… وہ اس وقت بھی جوان رہا جب عمارؓ خود بالکل بوڑھے ہو چکے تھے۔
یمامہ کے معرکہ جنگ و جہاد میں ان کے ایمان کی یہ جواں سال شان دیدنی تھی۔ نفاق و ارتداد کی ناپاک طاقتوں کے انتہائی خوف ناک ریلے میں جب مجاہدین اسلام کے قدم اکھڑنے لگے تو عمارؓ کے ایمان کی عظیم حرارت چنگاریاں اڑاتی ہوئی اٹھی اور سینکڑوں سینوں کو اچانک جوالا مکھی بنا چھوڑا۔ حضرت عبداللہ بن عمرؓ نے یہ منظر اپنی آنکھوں سے دیکھا تھا کہ عمارؓ جن کا ایک کان کٹ کر محض لٹکتا رہ گیا تھا،وہیں کھڑے پکار رہے ہیں:
’’ میں عمار بن یا سر ہوں!… کیا تم لوگ جنت سے بھاگ رہے ہو! میں عمار بن یا سر ہوں… کیا تم خدا کی جنت سے بھاگتے ہو…‘‘
حضرت عبد اللہ بن عمرؓ کا کہنا ہے کہ یہ منظر ایک عجیب منظر تھا! میں کبھی ان کا نعرۂ مستانہ سنتا تھا اور کبھی ان کا خونچکاں کان دیکھتا تھا۔ جو بس ذرا سی کھال سے لٹک رہا تھا… اور جس کی کوئی پروا اس سرفروش مجاہد کو اس وقت نہیں تھی جب کہ اسلام کی آبرو خطرے میں تھی۔
94 سال کی عمر تھی جب عمارؓ نے خدا کی بارگاہ میں خدا کے دوسرے محبوب قطرے…خون حیات کے آخری قطرے بھی پیش کر دیئے۔ یہ بات تو ان کو ہجرت کے بعد ہی حضورؐ کی زبانی معلوم ہو چکی تھی کہ ان کے نامہ اعمال میں ان کی شہادت کا عظیم باب بھی ہے۔ لیکن اس شرف تک پہنچنے میں کیسی عظیم آزمائشذہنی و روحانی آزمائش کی گھائی پیش آئے گی اس کا کوئی علم انہیں نہیں تھا۔ یہ بات انہیں اس وقت معلوم ہوئی جب حضرت علیؓ کے دور خلافت میں جنگ جمل کا میدان گرم ہوا جہاں ایک طرف ام المومنین حضرت عائشہؓ جیسی عظیم ہستی تھی تو دوسری طرف امیر المومنین حضرت علیؓ جیسے سابقون الاولون اور دونوں طرف مسلمان!
حضرت عمارؓ جو حضرت علیؓ کے حامیوں میں تھے اس وقت ایک لرزہ خیز ذہنی کش کش کے گرداب میں پھنس کر رہ گئے۔ وہ کیا کریں آخر؟ کیا حضرت علیؓ کا ساتھ چھوڑ کر گویا اس مؤقف کا ساتھ چھوڑ دیں جو ان کے نزدیک حق تھا؟… یا اس حق کے دفاع میں اس ہستی کے خلاف تلوار اٹھائیں جو رسولؐ اللہ کی محبوب ترین بیوی اور ساری امت اسلامیہ کی محسنہ ماں تھی۔ کتنے ہی ایسے لوگ تھے جن کے دل و دماغ کو یہ جانکاہ کش مکش پیسے ڈال رہی تھی اور کتنے ہی لوگ تھے جو کوئی راہ نجات نہ پاکر گوشہ عزلت میں جا چھپے تھے ’’تو کیا میں بھی میدان عمل سے ہٹ جاؤں؟ اور کسی کونے میں جا کر منہ چھپا لوں ؟‘‘ حالانکہ میرے نزدیک علیؓ کی حمایت اس وقت حق کی حمایت ہے اور ام المومنینؓ کا مؤقف ایک اجتہادی غلطی ہے؟ حضرت عمارؓ نے سوچا اور فیصلہ کیا کہ وہ ہرگز حق کی حمایت سے نہیں ہٹیں گے۔ خواہ یہ جذباتی عقیدت کی دو دھاری کشمکش ان کے دل و روح کو پارہ پارہ کر ڈالے جو ام المومنین کے لیے ان کے مومنانہ سینے سے اہل رہی ہے۔
وہاں جہاں اصول اور جذبات کا ٹکراؤ لوہے کے ہتھیار کی جھنکار سے زیادہ جاں گداز بن کر رہ گیا تھا۔ حضرت عمارؓ کے سینے میں کیا عالم بپا تھا اسے تو خدا کے سوا کوئی نہیں جانتا… ہاں ہمیں تاریخ کی نشرگاہ سے ابھی تک ان کی وہ آواز سنائی دے رہی ہے جو اس نازک موڑ پر ان کے زبان و دل سے بلند ہوئی تھی اور جس میں آج بھی ہم ان کے دل کی دھڑکنوں کی آواز سن سکتے ہیں۔ وہ پکار اٹھے تھے :
’’ لوگو! میں جانتا ہوں کہ عائشہؓ دنیا و آخرت میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حرم محترم ہیں لیکن… لیکن اس وقت خدا تم سب کو جانچ رہا ہے کہ تم خدا کی اطاعت کرتے ہو یا حضرت عائشہؓ کی ؟‘‘
اللہ اللہ !!
کیسی جاں نثارانہ ادا سے حضرت عمارؓ نے جمل میں حق کی قربان گاہ پر اپنے زبر دست جذبات کا ذبیحہ پیش کیا تھا۔
حضرت عائشہؓ ان کی نظر میں کتنی قیمتی، کس قدر مقدس اور کس درجہ عظیم تھیں، اس کا اندازہ خود عمارؓ کی سوا بھلا کون کر سکتا تھا…؟ رسولؐ اللہ کو وہ اور ان کو رسول اللہ کس قدر دل و جان سے چاہتے تھے! ظاہر ہے حضرت عائشہؓ ان کے لیے محض مومنین کی ماں ہی نہیں تھی، بلکہ ایک محبوب ترین ہستی کی شریک حیات بھی تھیں۔ مگر ادھر یہ سب کچھ تھا، اور ادھر یہ تنہا احساس کہ حق اس وقت حضرت علیؓ کی طرف ہے۔ جذبات کے پرشور منجدھار میں کھڑے ہو کر انہوں نے ساحل کی طرف سفینہ چھوڑ دیا… چاہے یہ سفینہ موجوں کے تھپیڑوں سے ٹکڑے ٹکڑے، ریزہ ریزہ کیوں نہ ہو کر رہ جائے۔ میں یہ نہیں کہتا کہ حق پر کون تھا اور اجتہادی غلطی کس کی تھی۔ یہ بات نہ میرے کہنے کی ہے اور نہ خدا مجھ سے کہلانا چاہتا ہے… ہاں میں یہ ضرور سوچتا ہوں کہ شخصیت پرستی اور حق پرستی کی جنگ میں حضرت عمارؓ نے جو قربانی پیش کی، آخر اس سے بڑی قربانی اور کیا ہو سکتی ہے؟
وہ اگر چہ اس جنگ میں شہید نہیں ہوئے بلکہ جنگ صفین میں جام شہادت نوش کیا جس میں ایک طرف حضرت علیؓ تھے اور دوسری طرف حضرت معاویہ لیکن حق یہ ہے کہ جنگ جمل میں ان کی’’ روح‘‘ شہید ہو چکی تھی اور جنگ صفین میں جسم نے شہادت پائی۔ جنگ جمل میں حق کے لیے اپنے جذبات کا خون کر لینے کے بعد وہ جنگ صفین میں زخم پر زخم کھا رہے تھے کہ ان کو شدید پیاس لگی، پانی مانگا تو کسی نے دودھ پیش کر دیا۔ دودھ کی صورت دیکھتے ہی انہیں ماضی کی ایک حسین یاد آئی اور خوشی کے جوش میں آنکھیں تر ہو گئیں… یہ دودھ… یہ ان کی شہادت کا پیش خیمہ تھا۔ ’’شہادت ‘‘ جس کی تلاش میں ان کی ایک عمر بیت گئی تھی اور ان کے شوق کے پاؤں میں چھالے پڑ گئے تھے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا: ’’ولولہ ایمانی اور جذبہ شہادت سے وجد کناں حضرت عمارؓ کی آواز آئی کہ:’’ جو آخری گھونٹ تم پیو گے وہ دودھ ہوگا‘‘۔
خدا سے ملاقات کے تصور نے ان کے دل میں خوف اور امید کی عظیم ایمانی ہلچل برپا کر دی۔ انہیں محسوس ہوا کہ تلواروں کی دھار ان کی گردن کو مقناطیسی کشش سے کھینچ رہی ہے۔ اللہ کی رحمت اور بندہ نوازیاں ان کی طرف بانہیںپھیلا رہی ہیں اور ان کے ہر ہر بن موسے، خون حیات کے ہر ہر قطرے سے ان کے فرض کی آخری پکار بلند ہو رہی ہے۔
’’نامہ اعمال کے آخری ورق پر جو کچھ لکھنا ہو اپنے خون سے لکھ دے!…اے عمر بھر خدا کو یاد رکھنے والے!
جلدی کر!… کہ خود خدا تجھے اب اپنی بارگاہ خاص میں یاد فرما رہا ہے‘‘۔
عمارؓ والہانہ اٹھے اور جہاد و عزیمت کے شعلہ زار میں بے تابانہ اپنے بال و پر جلانے لگے۔ آخر ایک سب سے حسین زخم لگا… ’’ ایک زخم‘‘ جو شہادت کا جاں نواز پیغام لاتا ہے… ’’ایک زخم‘‘… جس کے بعد انسان کے خون کا پہلا قطرہ ٹپکتے ہی جنت خود سامنے آکھڑی ہوتی ہے ایک زخم جس کے لہو کی ہر بوند پر خدا کوبے انتہا پیار آتا ہے۔ وہی عمارؓ جو کبھی نعمت ایمانی کھو جانے کے موہوم خوف سے حضور کے قدموں میں پھوٹ کر روئے تھے۔ آج خود اپنے لہو میں نہائے ہوئے اللہ کے قدموں میں اس طرح پڑے تھے کہ اب ان کے لیے نہ کوئی خوف خوف تھا اور نہ کوئی غم غم!… آنسوؤں کا تحفہ پیش کرنے والے نے آج اللہ کو اپنے خون حیات کا آخری تحفہ پیش کر دیا تھا۔ ہائے کتنا خوش بخت تھا وہ خدا کا بندہ جس نے خدا کو اس کے دونوں محبوب ترین قطرے پیش کیے تھے اور پھر حقیقی معنے میں خدا کو پیارا ہو گیا تھا… خدا کو کتنا پیارا ہوا تھا یہ شخص۔ اس عظیم حقیقت کا کچھ اندازہ حضرت معاویہؓ کے ایک سپہ سالار اور ایک جلیل القدر صحابی رسولؐ حضرت عمرو بن العاصؓ کے الفاظ سے کیجئے!…یہ الفاظ ان کے ہونٹوں سے اس وقت جدا ہوئے جب نامعلوم کے دو آدمی باہم جھگڑتے ہوئے ان کے پاس آئے اور ان میں سے ہر ایک نے حضرت عمرو بن العاصؓ کو یہ یقین دلانے کی کوشش کی کہ حضرت عمارؓ کو اس نے شہید کیا ہے۔ ان لوگوں کو یہ دھوکا تھا کہ حضرت عمرو بن العاصؓ جو اس وقت حضرت معاویہؓ کی طرف سے حضرت علیؓ کی فوجوں سے مصروف جنگ تھے، اس اطلاع پر بہت خوش ہوں گے کہ حضرت علیؓ کے اتنے بڑے ایک حمایتی کو ختم کر ڈالا گیا ہے، لیکن یہ دیکھ کر ان کے دل و دماغ پر بجلی سی گر گئی کہ اس اطلاع کو سنتے ہی حضرت عمرو بن العاصؓ کا چہرہ شدید نفرت سے تمتما اٹھا اور پھر خوف و غم سے پیلا پڑ گیا۔ انتہائی دل فگار نیم مدہوشی کے سے عالم میں وہ بڑبڑا رہے تھے۔
’’قسم اللہ کی… یہ دونوں… دوزخ کے لیے لڑ جھگڑ رہے تھے… قسم اللہ کی! میرا جی چاہتا ہے کہ… میں… اب کسی میں برس پہلے … مر گیا ہو تا!‘‘
کتنے قیمتی اور کس قدر نورانی الفاظ تھے یہ!… جو ایک طرف عمارؓ کی عظمت پر روشنی ڈالتے ہیں تو دوسری طرف اس عظیم تاریخی معمے کے حل کی طرف اشارہ بھی کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عمارؓ کو شہید کرنے والی جس ’’باغی گروہ‘‘ کا ذکر فرمایا تھا۔ کیا وہ حضرت معاویہؓ کا گروہ تھا یا وہ پر اسرار و نامعلوم گروہ تھا جس سے عمارؓ کے قتل کو اپنا کارنامہ بنانے کے لیے یہ دونوں لڑنے جھگڑنے والے خون آشام گروہ سےتعلق رکھتے تھے۔ ظاہر ہے حضرت معاویہؓ کے گروہ کے جذبات کی ترجمانی تو حضرت عمرو بن العاصؓ کے ان الفاظ سے ہو جاتی ہے اور اس نامعلوم باغی گروہ کی خوں آشام ذہنیت کے آئینہ دار یہ دونوں اجنبی آدمی تھے۔
……٭٭٭……
خدا سے ہمیں بھی ضرور ملاقات کرنی ہے۔
خدا جانے کب ؟… خدا جانے کہاں؟
کتنی بڑی ہو گی وہ ملاقات۔ جب ایک عبد ذلیل اپنے معبود اکبر سے ملے گا… جب مخلوق یہ دیکھے گی کہ خود اس کا خالق اکبر اس کے سامنے ہے!
خدا کی قسم !… اے لوگو!… کیسے اچھے تھے وہ لوگ جو اس جلوہ گاہ کی طرف اس شان سے گئے کہ اس ملاقات کے موقع پر خدا کو نذر کرنے کے لیے خدا کا کوئی محبوب تحفہ ان کے کفن میں موجود تھا!، ہائے ان کفنوں کی جھولیاں جن میں بدن کی بھی لاش ہو اور ایمان و عمل کی بھی !، کاش ہمیں بھی اس ملاقات، یقینی ملاقات کا کوئی خیال آتا، آتا اور تڑپا دیتا۔ کاش کبھی ہم بھی تو اسی خوف کا احساس کر سکتے۔ جس اندیشہ نے اس دن حضرت عمارؓ کی جان ہی نکال دی تھی۔ جس دن ان کی زبان کی محض نوک کو جبریہ کہلائے گئے چند کفریہ الفاظ کی آنچ چھو گئی تھی۔ حالانکہ ان کا دل ایمان پر بالکل مطمئن تھا اور ہمارے دل !…ہائے ہمارے دل …!! شاید یہاں تو زبان و دل دونوں ہی طرف اس ہولناک اندیشے کی آتشیں لپٹ اٹھ رہی ہے کہ کیا… ہم مسلمان…ہیں ؟‘‘