مہک کا راز

44

تینوں نے دیکھا کہ جیسے ان کی باتیں سن سن کر چوہدری صاحب کے بدن سے پسینے کے سوتے پھوٹ رہے ہوں۔ ان کو جیسے ایک چپ سی لگ گئی ہو۔

تینوں حقیقت میں کون ہو؟، اس مرتبہ چوہدری ایاز علی کی آواز کہیں دور سے آتی محسوس ہوئی۔ میں آج تک ان باتوں کو کیوں نہ سمجھ سکا۔

کچھ دیر بعد جیسے وہ سنبھل سے گئے ہوں۔ کچھ توقف کے بعد انہوں نے ان تینوں کی جانب دیکھتے ہوئے کہا کہ اب مجھے سمجھ میں آ گیا کہ میرا سب سے لائق بیٹا چین میں نہیں ہے بلکہ وہ کہیں یرغمال ہے کیونکہ جب بھی میں چینی اور جیل حکام سے اپنے بیٹے کے متعلق فکر مند ہوتا ہوں تو میری بات ایسے نمبر والے فون سے کرادی جاتی ہے جس کے متعلق جب جب بھی میں نے اپنے ذاتی ذرائع سے یہ معلوم کرنے کی کوشش کی کہ یہ کس ملک کے نمبر ہیں تو ہمیشہ یہی جواب ملا ہمارے کسی ریکارڈ میں یہ نمبر کسی بھی ملک کے کھاتے میں موجود نہیں۔ اطمنان بس اس لیے ہوتا رہا کہ بیٹے کو ہمیشہ بہت ہی خوش دیکھا۔ بات چیت پر بھی کوئی پابندی نہیں دیکھی اور کئی مرتبہ تو بہت بہت دیر بھی بات چیت جاری رہی۔ ظاہر ہے کہ اغوا کنندگان اپنوں سے کبھی اتنی دیر اور ہر قسم کی بات چیت کرنے کی کب اجازت دیتے ہیں لیکن اب شک ہو رہا ہے کہ بات شاید کچھ اور ہے۔

در اصل میں تم لوگوں کو یہ بات بتانا بھول ہی گیا تھا کہ تم لوگ جو بھی ہو، اس مقام پر نہ جانا جہاں مقتول کے خون کے نشانات محفوظ کئے گئے ہیں۔ اول تو وہ ایک ویران سی جگہ تھی جہاں ایسے طالبعلموں کو وہاں جانے کا خیال بھی نہیں آ سکتا دوئم یہ کہ ڈرائیوروں کو بھی وہاں جانے کی اجازت نہیں ہے اس لیے خیال یہی تھا کہ اگر اس سمت گاڑی مڑ بھی گئی تو شاید ڈرائیور ٹھیک اس مقام پر کبھی بھی بریک نہیں لگائے گا لیکن بعض اوقات سارے اندازے کبھی کبھی غلط بھی ہو جاتے ہیں۔ چوہدری صاحب نے مزید وضاحت کی۔

انکل! چھوڑیں ان باتوں کو۔ کمال نے کہا۔ اب جو ہونا تھا ہو چکا۔ مہمان بھی کچھ دیر بعد آنے ہی والے ہیں۔ دیکھتے ہیں اس کے بعد کیا ہوگا۔ اگر آپ نے ہمیں اپنی توقع سے زیادہ بڑا اور سمجھ بوجھ والا پایا ہے تو پیش آنے والے حالات کے مطابق ہی آپ ہمارا ردِ عمل پائیں گے۔

یہ سب باتیں کمال نے چوہدری صاحب کا حوصلہ بڑھانے کے لیے ہی کہی تھیں تاکہ ملاقات کے وقت کوئی ایسا ردِ عمل چوہدری صاحب کا سامنے نہ آجائے جو مزید مشکلات کا سبب بن سکے۔

چوہدری ایاز علی بھی جیسے ہر بات کو اچھی طرح سمجھ چکے تھے۔ پریشان سے ضرور نظر آ رہے تھے لیکن جیسے انہوں نے اپنے آپ کو ذہنی طور پر ہر قسم کے حالات سے نمٹنے کے لیے تیار کر لیا تھا۔

فاطمہ، جمال، کمال، چوہدری ایاز علی اور ان کے ساتھ چوہدری صاحب کے دیگر اہلکار، مہمانوں کے استقبال کے لیے ایک ہی قطار میں کھڑے ہوئے تھے۔ کھانے کا ہال انواع و اقسام کی ڈشوں سے سجا دیا گیا تھا۔ پورے ہال کو بہت عمدگی سے سجا دیا گیا تھا۔ تین گاڑیاں ایک ہی قطار میں ہال کے پارکنگ ایریا کی جانب جانے سے پہلے ہال کے دروازے کے قریب آکر رک چکے تھیں اور ان میں سے مہمانانِ گرامی نیچے اتر رہے تھے۔ مہمانوں میں دو شخصیات چینی بھی تھیں۔ آج دراصل ان سے چوہدری صاحب کی بڑی ڈیل ہونے والی تھی جس کی کامیابی کی صورت میں توقع تھی کہ ان کو تو بڑے پیمانے پر فائدہ ہوگا ہی ہوگا، ملک کا نام بھی کافی روشن ہوگا۔ ایسا سب کچھ انھیں مہمانوں اور مہمانوں کو ارینج کرنے والوں نے بریف کیا تھا۔

دور سے مہمانوں کو دیکھنے پر ہی جمال اور کمال کے ذہنوں میں ’’ٹیں پوں ٹیں پوں‘‘ کا ہلکا ہلکا سا شور بلند ہونے لگا لیکن اس شور میں یقینی و بے یقینی کی سی کیفیت تھی۔ انہوں نے اشاروں اشاروں میں ایک شخصیت کے لیے فاطمہ کو ہوشیار کیا جس کا مطلب تھا کہ وہ اب اپنی صلاحتوں کو ہوشیار کرے جس پر غیر محسوس طریقے سے فاطمہ نے بتایا کہ وہ پہلے ہی سے ہر معاملے میں الرٹ ہے۔

سارے مہمانانِ گرامی چوہدری صاحب کی معیت میں ایک ایک کرکے ان کے قریب سے گزرتے ہوئے ڈائینگ ہال میں داخل ہونے لگے۔ جس شخصیت کے متعلق فاطمہ سے کہا گیا تھا کہ وہ اس پر خاص نظر رکھے، تینوں کے قریب سے گزرتے ہوئے وہی شخص ان تینوں کو دیکھ کر جیسے ایک سیکنڈ کے سویں حصے کے برابر ٹھٹکاہو لیکن سنبھل کر ہال کی جانب بڑھتا چلا گیا۔ اس کا ٹھٹکنا بنتا تھا اس لیے کہ وہ بنا کسی چہرے کی تبدیلی استقبالی قطار میں کھڑے تھے لیکن جو شخصیت جمال اور کمال کی توجہ کا مرکز بنی تھی وہ اپنے وقت کے بہترین میک اپ میں مہمان بن کر آئی تھی جو جمال اور کمال کو اندر سے ہلا دینے کے لیے کافی تھی۔ اب صرف جمال اور کمال کو فاطمہ کی جانب سے تصدیق کا انتظار تھا۔

ہال میں کھانے کی میزوں کو اس انداز میں سجایا گیا تھا کہ آنے والے مہمان اور میزبان ایک دوسرے کے آمنے سامنے بیٹھ سکیں۔ مہمانوں اور میزبانوں کی میزوں کے درمیان اتنا فاصلہ رکھا گیا تھا کہ سروس کرنے والا عملہ ان کے درمیان سے بآسانی گزر سکے۔

اب یہ فاطمہ، جمال اور کمال کی بد قسمتی یا خوش بختی تھی کہ ان تینوں کے سامنے وہی شخصیت تھی جو ان کو دیکھ کر اور وہ اسے دیکھ کر چونک سے گئے تھے۔ برابر ہی میں چوہدری صاحب تھے جو چین سے آنے والی اہم شخصیت کے سامنے بیٹھے تھے۔ چینی شخص اپنے چہرے کی بناوٹ کے اعتبار سے تو سو فیصد چینی ہی لگتا تھا لیکن باقی جسم جمال اور کمال کو چین کی نمائندگی کرتا نظر نہیں آتا تھا مگر یہ بات شاید ہی دنیا کا کوئی فرد نوٹ کر سکتا ہو۔

بہت ساری باتیں خداداد ہوتی ہیں۔ جمال اور کمال نہ جانے کیوں اس بات پر یقین رکھتے تھے کہ کوئی بھی انسان جو زبان بھی بولتا ہے اس کے اثرات اس کے جسم کے ایک ایک عضو پر پڑتے ہیں۔ اس بات کے ثبوت کے لیے وہ دلیل دیا کرتے تھے کہ اگر کسی بڑے اور اعلیٰ آرٹسٹ سے کہا جائے کہ وہ کسی عربی، ایرانی، انگریز، یا اپنے ملک کے مختلف صوبوں میں رہنے والے نمائندہ فرد کی تصویر بنائے تو وہ جو شکل کسی کے سامنے پیش کرے گا، دیکھنے والا واضح طریقے سے بتادے کا کہ اس میں انگریز، جاپانی، چینی، ایرانی، عربی اور اپنے ملک میں بسنے والوں میں سے کس کس صوبے یا کس کس ملکوں کی نمائندہ تصاویر ہیں۔ ان کے ذہنوں میں یہ بات رچ بس گئی تھی کہ زبان کے اثرات صرف چہرے تک ہی محدود نہیں ہوا کرتے بلکہ وہ اس کے پورے جسم کا احاطہ کرتے ہیں۔ بس یہی بات جمال اور کمال کے ذہنوں میں سوئی کی طرح چبھ رہی تھی اور انھیں یقین تھا کہ مہمانِ خصوصی خالص چینی نہیں ہے بلکہ وہ چین اور بر صغیر انڈ و پاک کے ملاپ کا کوئی شاہکار ہے۔ اس کے علاوہ بھی اس کی شخصیت میں انھیں کچھ ایسا کیا محسوس ہو رہا تھا جو ان کے ذہنوں میں چبھ سا رہا تھا لیکن وہ اس کو کوئی معنیٰ نہیں پہنا پا رہے تھے۔(جاری ہے)

حصہ