’’او ہلو… ہلو جہاں آرا ‘‘۔ اس نے بڑے اطمینان سے کہا۔
’’آداب رونو بھائی‘‘۔
کوئی بھونچال نہیں آیا۔ زمین نہیں ہلی۔ قیامت نہیں آئی۔ وہ اس کے سامنے موجود ہے اس رات، چار سال قبل، وہ اسی جگہ سے اسے خدا حافظ کہہ کر، اسے روتا بلکتا چھوڑ کر گیا تھا۔ اب سامنے موجود ہے۔ اور اس سے بات کررہا ہے۔
مالا چپکے سے کھسک کر درخت کی اوٹ میں ہوگئی۔
’’آپ کب آئے رونو بھائی‘‘۔ مضبوط، پُرسکون آواز۔
’’ابھی تھوڑے دن ہوئے‘‘۔
’’آج کل کہاں رہتے ہیں‘‘۔
’’بمبئی… تم، تم اب کس کلاس میں ہو؟‘‘
’’میں نے کالج چھوڑ دیا۔ کافی دن ہوئے… پھوپھا جان کیسے ہیں۔ آپ شونا پور گئے تھے؟‘‘
’’ہاں، ٹھیک ہیں‘‘۔
’’اور رابعہ؟‘‘
’’وہ بھی خیریت سے ہے۔ اچھا جہاں آرا اب ہم چلیں۔ بارش تیز ہوگئی تو مشکل ہوجائے گی۔ اچھا۔ خدا حافظ…‘‘اس نے کہا اور لمبے لمبے ڈگ بھرتا پھاٹک کی طرف روانہ ہوگیا۔
وہ آیا، اتنے برسوں، اتنی رات دن کی دعائوں کے بعد، اور دو منٹ میں چلا گیا۔ مگر دنیا ویسی ہی موجود تھی۔ درخت، پرندے، آسمان، زمین، بادل۔
مالا پیڑ کے پیچھے سے نکلی۔
وہ ہونقوں کی طرح مالا کی شکل تکنے لگی۔
’’بی بی اندر چلئے‘‘۔
اور تب جہاں آراء نے تخت پر زور کا مُکا مارا اور دوہری ہوگئی۔ ’’کیوں آئے تھے مالا۔ کیوں آئے تھے، جب میں ادھر بیٹھی تھی، تو کیوں آئے تھے۔ سیدھے کیوں نہیں چلے گئے۔ تجھے معلوم ہے مالا کیوں آئے تھے؟ کیا کہہ رہے تھے؟‘‘
’’اُٹھو بی بی۔ اُٹھو‘‘۔
’’کیوں آئے تھے‘‘۔
’’بی بی پاگل مت بنو۔ کوئی دیکھے گا تو کیا کہے گا۔ توبہ۔ توبہ…‘‘
اس نے جلدی سے آنچل سے اپنا چہرہ پونچھا۔ شاید مجھے ہسٹریا ہوجائے گا، اس نے لرز کر سوچا۔ امی کی طرح… اختلاجِ قلب کی مریضہ کہلائوں گی… لوگ مجھ پر ترس کھائیں گے… ہنسیں گے… اللہ… اللہ…
مالا نے اس کا ہاتھ تھام کر ’’راج سنگھاسن‘‘ کے نیچے سے بہتے ایک منّے سے برساتی نالے کو پھلانگنے میں مدد کی۔ پھر بارش کی تیز بوچھار میں وہ دونوں، سر پر آنچل ڈال کر جھکی جھکی تیزی سے کوٹھی کی طرف بھاگیں۔
(28)
رونگیلا نائیر مانجھی
ستمبر ۴۳ء کی ابر آلود شام کی نیم تاریکی میں دو آوازیں چندر کُنج کے پھاٹک کے ترچھے، نیم شکستہ ستون کے قریب۔
’’اچھا بھائی۔ یہ لو تینوں کتابیں۔ بہت سنبھال کر رکھنا۔ اس پر ہم نے سروجنی دیبی سے دستخط لئے ہیں۔ دیکھو انہوں نے تمہارے لئے کیا لکھا ہے‘‘۔
’’کہاں۔ کہاں…؟‘‘
ماچس جلانے کی آواز۔
’’یہ دیکھو…‘‘
’’ادماں… انہوں نے اپنے ہاتھ سے میرا نام لکھا ہے… ہائو… اِن کریڈبیل۔ آپ کو کہاں ملیں؟‘‘
’’یہ سب تفصیلات نہ پوچھا کرو‘‘۔
’’نہیں بتائیے‘‘۔
’’دہلی میں‘‘۔
’’اور آپ نے ان سے میرے متعلق کیا بتایا؟‘‘
’’کچھ نہیں۔ صرف یہی کہا تھا کہ ایک بائولی سی لڑکی ہے۔ اس کے لئے اپنی طرف سے اس مجموعے پر کچھ لکھ دیجئے‘‘۔
’’ادماں…‘‘
’’اور یہ لو…‘‘
’’اوہ… نوکشی کانتار ماٹھ! اور یہ …؟‘‘
’’رونگیلا نائیر مانجھی…!‘‘
’’ادماں…!‘‘
’’مولوی جشیم الدین سے بھی دستخط کروائے بھائی۔ دونوں کتابوں پر۔ اور یہ لو… مولوی منصور الدین احمد کی نئی جلد…‘‘
’’ہیرا مونی۔؟ دوسری جلد آگئی؟‘‘
’’ہاں، مع مصنف کے دستخط۔ اب تم بھی کیا یاد کرو گی۔ کس سُوپر انٹلیکچول چاہنے والے سے واسطہ پڑا ہے…‘‘
’’یاسمین ایک دن کہہ رہی تھی۔ ایک روز وہ اپنا ٹروپ بنائے گی۔ اور نوکشی کانتارماٹھ کا بیلے تخلیق کرے گی‘‘۔
’’وہ بھی تمہاری چیلی ہے؟‘‘
’’یاسمین؟ نہیں۔ دراصل وہ روزی بیچاری کی چیلی تھی۔ پھر میری چیلی بھی بن گئی‘‘۔
’’بس تو پھر اب اللہ اس پر رحم کرے۔ روزی کا حشر دیکھو تمہاری چیلی بن کر کیا ہوا۔ اچھا بھئی، اب ہم بھاگتے ہیں۔ تمہارے بابا آہی نہیں چکتے‘‘۔
’’وہ شاید مترا بابو کی طرف چلے گئے۔ آپ پھر کب آئیں گے؟‘‘
’’جب بھی تم بلائو گی… فوراً… اچھا… اب چلتے چلتے یہ بتادو کہ کیوں خفا تھیں‘‘۔
’’افوہ۔ وَن ٹریک مائینڈ‘‘۔
’’ہرگز نہیں بتلائو گی وجہ؟‘‘
’’نہیں‘‘۔
’’میں اُدما سے کہے جارہا ہوں کہ معلوم کر رکھیں۔ ان کو بتادو گی؟‘‘
’’ہرگز نہیں… دہلی میں ڈھاکہ صاف سنائی دیتا ہے؟‘‘
’’ہمیں بالکل صاف سنائی دے گا۔ ۲۹ تاریخ شام کے ساڑھ چھ بجے۔ پھر ساڑھے سات، پھر سوا داس، تمہارا ہندوستانی پروگرام کس وقت ہے؟‘‘
’’ساڑھے سات‘‘۔
’’کیا کیا گا رہی ہو؟‘‘
’’ہندوستانی پروگرام میں؟ مائی ری میں تو، والا بھجن‘‘۔
’’سنائو۔ سنائو‘‘۔
’’یہاں سڑک پر…؟‘‘
’’یہ سڑک ہے؟ سنسان، جنگل بیابان، ہُو کا عالم، آہستہ سے گنگنائو‘‘۔
خاموشی۔
’’مائی ری میں تو لیور میتو مول‘‘۔
’’ہاں۔ ہاں اور آگے‘‘۔
’’کوئی کہے چھانے، کوئی کہے چوڑے۔ لیو بنے بجنتا ڈھول‘‘۔
خاموشی۔
’’پھر رُک گئیں، ارے گائو بھائی‘‘۔
’’کوئی کہے کارو، کوئی کہے گورو۔ لیو ہے انکھیاں کھول‘‘۔
’’شاباش بالکل ٹھیک کہتی ہو‘‘۔
’’جائیے ہم نہیں گاتے‘‘۔
’’کیری اَون۔ کیری اَون۔ ایڈیٹ‘‘۔
’’کوئی کہے ہلکو، کوئی کہے بھارو۔ لیو ہے تراجو تول۔
تن کا گہنا مَیں سب کچھ دینا۔
دیو ہے باجو بند کھول‘‘۔
’’اور تین عدد بالُوچر ساڑیاں بھی‘‘۔
’’وِل یُو شٹ اَپ‘‘۔
’’آگے‘‘۔
’’آگے کیا۔ بس ختم۔ مائی ری میں تو لیور میتو مول‘‘۔
خاموشی۔ پتوں کی سرسراہٹ، بہت دور کوئی ڈھول یکسانیت سے بجے جارہا ہے۔ کیرتن اور کڑتال کی مدھم گونج۔
’’کیا آج منگل کی شام ہے؟‘‘
’’جی ہاں‘‘۔
’’افوہ۔ یاد ہے۔ وہ شام بھی اتنی ہی اندھیری تھی۔ جب ’’نورالرحمٰن میاں‘‘۔ پہلی بار اس پھاٹک پر آکر کھڑے ہوئے تھے۔ ۲۵ اکتوبر ۳۸ء‘‘۔
’’نہیں۔ ۲۴ اکتوبر‘‘۔
’’ہرگز نہیں ۲۵ اکتوبر۔ ہمارے تو دل پر نقش ہے بھائی۔ اچھا سنو، ابھی تمہارے میوزک کے کورس میں دو سال اور باقی ہیں؟‘‘
’’جی ہاں‘‘۔
’’اس کے بعد کیا کہلائو گی… لیکچرر…؟‘‘
’’جی جناب۔ لیکچرر۔ فیکلٹی آف میوزک۔ وشوا بھارتی انٹرنیشنل یونی ورسٹی!‘‘
’’افوہ۔ رعب پڑ گیا بہت سخت، مگر ساتھ ہی ساتھ اپنی ایم اے کی پڑھائی بھی شروع کردینا‘‘۔
’’بہت اچھا‘‘۔
’’گُڈ۔ تو تمہارے فوری مستقبل کی طرف سے تو اطمینان ہے، ویسے یہ یاد رکھو کہ جب تک میں زندہ ہوں تمہارا مستقبل محفوظ ہے… سنو گری راج کیا کہیں گے؟‘‘
’’گری راج؟‘‘
’’ہاں ان کی لاڈلی گوری ایک بے تُکے سنیاسی کے ساتھ چلی جائے گی تو بہت خفا ہوں گے؟‘‘
’’میرا خیال ہے کہ زیادہ خفا نہیں ہوں گے۔ آپ بابا کو نہیں جانتے۔ بس مجھے صرف اپنی پشی ماں کے غصے سے ڈر لگتا ہے۔ وہ ایک کٹر مذہبی خاتون ہیں۔ مگر بابا ان بے چاری کو سمجھا بجھالیں گے۔ وہ بابا کی UNCONVENTIONAL باتوں کی عادی ہیں۔ بابا خاصے قدامت پسند ہیں۔ مگر جہاں میرے رنج و راحت کا سوال پیدا ہو وہ سماجی قوانین کو بالکل نظر انداز کرسکتے ہیں۔ پہلے ہی انہیں اپنے سماج سے کیا سروکار ہے۔ برسوں سے گوشہ نشین بیٹھے ہیں‘‘۔
’’تو اب میں اطمینان سے پردیس جائوں؟‘‘
’’بالکل اطمینان سے‘‘۔
’’بھئی واہ۔ کیا چرّخ چوں گاڑی چلی آرہی ہے‘‘۔
’’کہاں…؟ ارے، ارے بھاگئے۔ پشی ماں آرہی ہیں‘‘۔
’’اس وقت کہاں گئی تھیں؟‘‘
’’ریس کورس کے قریب جو پرانا مندر ہے نا، وہاں ہر منگل کی شام کو کیرتن ہوتا ہے‘‘۔
’’تمہارے عبدالقادر میاں کس قدر چرّخ چوں گاڑی ہانکتے ہیں‘‘۔
’’بھاگئے‘‘۔
’’ہشت۔ میں ڈرتا ہوں تمہاری پشی ماں سے؟ مگر یہ گاڑی تو ادھر نہیں آرہی‘‘۔
’’پشی ماں سیدھی جا کر ڈیوڑھی پر اُتر جائیں گی۔ تھینک گوڈ‘‘۔
’’تو اب میں اطمینان سے کھڑا ہوں؟‘‘۔
’’نہیں۔ اب بھاگئے۔ تینوں لڑکے آتے ہوں گے۔ اور بعد میں طرح طرح کے سوال کریں گے۔ نہیں ابھی مت جائیے‘‘۔
’’بھائی فیصلہ کرلو‘‘۔
’’کیا آپ کے فیصلے کرنے مشکل نہیں لگتے؟‘‘
’’قطعی نہیں‘‘۔
’’مجھے بھی نہیں۔ میں کسی سے ڈرتی ہوں‘‘۔
’’اب کی بار میں تم کو شونا پور لے جائوں گا‘‘۔
تبسم
’’کیوں کیا خیال ہے‘‘۔
’’سادھو! میں تمہارے گھر ہرگز نہ آئوں گی‘‘۔
’’ہاہاہا… گوری…! میں نے تمہارے لئے تالاب کھودا ہے۔ سبزی باڑی بنائی ہے میں تمہارے لئے سیندور کی ڈبیا اور تیپشوری ساری لائوں گا۔ ڈھاکے سے سینگ کی چوڑیاں۔ تمہارے بالوں سے کھینچتا ہوا لے جاتا۔ مگر کیا کروں عورت کی عزت کرتا ہوں‘‘۔ (بنگلہ لوک گیت)
بشاش ہنسی۔
’’اچھا سنو۔ روزی کے متعلق کوئی اطلاع ملے تو مجھے ضرور لکھنا‘‘۔
’’بہت اچھا‘‘۔
(جاری ہے)