سوشل میڈیا پھر جیت گیا

220

شیطان ایکشن میں:
پنجاب کالج کیس کی گونج ابھی ختم نہیں ہوئی تھی کہ کراچی کے علاقے الیون بی نارتھ کراچی میں واقع بلال مسجد کے بالکل پڑوس میں نئی تعمیر ہونے والی انڈس یونیورسٹی نے بھی توجہ حاصل کرلی۔ یہ ایس ٹی پلاٹ کہا جاتا ہے مگر یہاں عین رہائشی علاقے میں ایسی یونیورسٹی کا قیام بھی سوالیہ نشان ہے۔ بہرحال انہوں نے اپنے اس نئے کیمپس میں داخلوں کے نام پر ایک ’ویلکم پارٹی‘ رکھی۔ اس پارٹی میں جو کچھ ہوا، دو دن بعد وہ سوشل میڈیا پر ڈسکس ہونے لگا۔ تصاویر کیا تھیں بم کا گولہ تھیں۔ ایک تصویر پر لکھا ہوا تھا ’’شیطان تمہاری کارکردگی سے خوش ہے‘‘۔ اب یہ کیا کارکردگی ہوگی؟ یہ جاننے کے لیے میں نے ذرا سا سرچ کیا تو معلوم ہوا کہ ’’شیطان اپنے پیروکاروں کو فحاشی کا حکم دیتا ہے‘‘۔ تو اُس ویلکم پارٹی کی مزید تصاویر ہی نہیں وڈیوز بھی چیخ چیخ کر بتا رہی تھیں کہ جو کچھ وہ نوجوان لڑکے لڑکیاں وہاں کررہے تھے وہ سب خالص شیطان کے احکامات کی پیروی یعنی اُس کی پرستش ہی کہلائے گا۔ مجھے تو وہ فحاشی سے بھی آگے کا کوئی قدم لگ رہا تھا۔ امریکا میں واقع ’’شیطانی چرچ‘‘ ہی نہیں الیومناٹی سمیت دیگر تمام شیطانی علامات کو اسکرین پر چلایا جاتا رہا۔ موسیقی کی دھن پر جو کچھ وہاں ہورہا تھا، اہلِ علاقہ پر تو جو گزری وہ گزری، مگراب سوشل میڈیا کی وجہ سے مزید بھونچال آیا۔ لڑکے لڑکیاں اس شیطانی علامت کے سامنے کھڑے ہوکر تصاویر بناتے رہے۔

اب جو ردعمل آیا تو یونیورسٹی انتظامیہ کے ہاتھ پائوں پھولے اور انہوں نے ایک معذرت اپنے فیس بک پیج پر ڈال دی۔ اس میں انہوں نے لاکھوں روپے کے خرچ سے ہونے والی پارٹی کو ’’حادثہ‘‘ قرار دیا۔

نیون لائٹ میں لکھی گئی تحریر کو اپنی انتظامی غلطی قرار دیتے ہوئے لکھا کہ ہماری نیت ایسی نہیں تھی۔ ہم نے تھرڈ پارٹی وینڈر سے کام کرایا تھا، وہ بھی اور ہم بھی اس کی ذمہ داری میں برابر کے شریک ہیں۔ انہوں نے لکھا کہ ہم تو بڑے مذہبی ہیں اور خیال رکھتے ہیں کہ ایسے حادثے نہ ہوں، ہم آئندہ اس کا خیال رکھیں گے۔ کہنے کو بات ختم ہوگئی، مگر یہ بات اتنی ہلکی نہیں ہے۔ وڈیوز تو سوشل میڈیا پر چلتی رہیں گی، ان کی معذرت کوئی نہیں دیکھ رہا۔ میں نے یونیورسٹی رابطہ کیا، دونوں کیمپس کا دورہ کیا۔ ان کے ڈپٹی رجسٹرار اور مارکیٹنگ منیجر سے ملاقات ہوئی، یونیورسٹی کے حالات دیکھے۔ ان سے وینڈر کا نام معلوم کیا جو کہ ڈی جے ہنی تھا۔ ڈی جے سے بات ہوئی تو انکشاف ہواکہ وہ تو یہ کام پارٹی کے آرڈر پرکرتا رہتا ہے، یہ تمام چیزیں اس کے پاس موجود ہیں اور لوگ شوق سے کرا رہے ہیں۔ اس نے کراچی کی مزید کئی نجی جامعات کے نام بھی لیے۔

اب اگر شیطان کا نام لے کر، اس کی علامتی تصاویر لگاکر یہ کام کراچی میں نوجوان لڑکے، لڑکیاں اپنا تن، من، دھن نچھاور کرکے انجام دے رہے ہیں تو اس کا مطلب کیا محض تفریح ہے؟یہ لوگ محسوس یا غیر محسوس طور پر شیطان کاگروہ نہیں بن رہے؟ کیا ان پارٹیوں میں لوگ یہاں سے نوجوانوں کو مختلف لالچ دے کر نہیں ’’گھیرتے‘‘ ہوں گے؟ پس خاموش تماشائی بننے والوں کو اُس عذابِ الٰہی کی دعوت ہے جس میں اللہ نے بستی کے سب سے بڑے عابد و زاہد پر پہلے الٹنے کا حکم دیا تھا۔ اتفاق سے یہ یونیورسٹی ایونٹ بھی بالکل مسجد کے برابر میں ہوا۔ مسئلہ یہ بھی ہے کہ پاکستان ایک ریاست بنا ہوا ہے، اس کا آئین ہے، قانون ہے، عدالتیں ہیں، تھانے ہیں، جیلیں ہیں۔ اگر سنگین جرائم کے بعد سب ایسی معذرتیں کرنا شروع کردیں توپھر ملک کیسے چلے گا!

انڈس یونیورسٹی بھی پاکستان کی دیگر نجی یونیورسٹیوں کی لسٹ میں شامل ایک نام ہے جہاں نوجوان نسل کو مخلوط،آزادانہ،لبرل،سیکولر اقدار کی طرف راغب کرنے کا مشن بخوبی انجام دیا جاتا ہے۔نئے داخلوں کے لیے یا پاس آئوٹ ہونے والوں کے لیے یا کسی اوربہانے سے یہاں ’ناچ گانے‘ کے ویسے ہی بے ہودہ ایونٹ منعقد ہوتے ہیں جو دیگر یونیورسٹیوں میں ہوتے ہیں۔ان میں سرکاری اورغیر سرکاری کی کوئی تفریق نہیں۔

آئینِ پاکستان کے آرٹیکل 31 کے مطابق ریاست کو اسلامی طرزِ زندگی کو فروغ دینے، اور فحاشی اور غیر اخلاقی حرکات کو روکنے کا حکم دیا گیا ہے۔ اب ظاہر ہے کہ شیطان کی عبادت اسلامی طرزِ حیات تو ہو نہیں سکتی، لہٰذا یہاں سے صاف ظاہر ہے کہ ملکی آئین توڑا گیا ہے۔ اب چلتے ہیں پینل کوڈ یعنی سزائوں کی کوڈنگ کی طرف۔واضح رہے کہ اس میں معذرت، معافی وغیرہ نہیں ہوتے۔

پاکستان پینل کوڈ (PPC) 1860، سیکشن 294 ۔ یہ دفعہ عوامی جگہوں پر فحاشی یا غیر اخلاقی سرگرمیوں پر پابندی لگاتی ہے، اور تعلیمی ادارے بھی عوامی مقامات میں شمار ہوسکتے ہیں اگر وہاں ایسی سرگرمیاں ہوں جو فحاشی کے زمرے میں آئیں۔ اس دفعہ کے تحت کوئی بھی عمل یا مواد جو عوامی ناراضی کا باعث ہو، قابلِ سزا ہے۔ اب ظاہر ہے کہ شیطان کی عبادت تو عوامی خوشی کا باعث نہیں ہوسکتی۔

یہی نہیں تعلیمی اداروں کے داخلی قوانین سے لے کر پی ٹی اے تک بے شمار قوانین توڑے گئے ہیں۔ تو سوال یہ ہے کہ قانون کب حرکت میں آئے گا؟ کیا والدین اپنی اولاد کو شیطان کا ایسا پیروکار بننے کے لیے بھیجتے ہیں؟ یہ ناچتے گاتے لڑکے لڑکیاں آپس میں کیا ہیں؟ کیا ان کے والدین اتنے آزاد ہوچکے ہیں؟ اگر ایسا ہی چلتا رہا تو کیا ہوا؟

میڈیا ہتھیار ہے:
ڈاکٹر ذاکر نائیک سمیت یہ جملہ کئی میڈیا ماہرین نے بھی کہا ہے کہ ’میڈیا ایک خطرناک ہتھیار ہے‘۔ ہم نے بھی زمانۂ طالب علمی میں ایسا ہی کچھ پڑھا ہے۔ مگر اس کے ساتھ ہمارے اساتذہ نے اس کی یہ حقیقت بھی بتائی تھی کہ اس کی قدر خالص ’منفی‘ ہے، یہ قطعی ’نیوٹرل‘ نہیں ہوتا اس لیے اس کو خطرناک کے لاحقے کے ساتھ پکارا جاتا ہے۔ ہمارے ایک معززاستاد سلیم مغل تو صاف مثال دیتے ہوئے سمجھاتے تھے کہ سگریٹ نوشی مانندِ زہر نقصان پہنچاتی ہے، بالوں کے لیے تیل ہزارہا سال سے آزمودہ ہے، روزہ افطار کے وقت پانی یا دودھ مؤثر ترین مشروب ہے۔ یہ سب باتیں جاننے، ماننے، ایمان رکھنے کے باوجود آپ محض میڈیا کے اثر میں جاکر اپنے ایمان، یقین، تجربے، حتیٰ کہ اپنی صحت کے بھی برخلاف عمل کرتے ہیں، اور ایسا کرکے بڑا فخر محسوس کرتے ہیں۔ تیل کے بجائے کیمیکل زدہ شیمپو کا استعمال ہو، افطار کے وقت زہریلی کولڈ ڈرنک یا سگریٹ نوشی و دیگر… یہ سب آپ فخر سے انجام دیتے ہیں اور بھول جاتے ہیں کہ یہ کام کرنے کے لیے آپ کو کس نے مجبور کردیا۔ اخبار، ریڈیو، ٹی وی، سوشل میڈیا کے بعد تو صورتِ حال مزید بھیانک اور ہولناک ہوچکی ہے اور بہت آگے جاچکی ہے۔ بہرحال بطور ایک مسلمان صحافی ایک بنیادی،لازمی کام خبردار کرنا ہے، حق بات بتانا ہے، وہ ہم بتاتے رہیں گے۔ اب بات یہ ہے کہ سوشل میڈیا کے زمانے میں کیس کوئی ایک نہیں، مستقل بڑھتے جا رہے ہیں۔ ان میں ہربار سوشل میڈیا اپنی ویسی ہی جیت کا اعلان کررہا ہے جیسا وہ پہلے کررہا تھا۔ جب یہ ہتھیار ہے تو ہتھیار کا کام ہے قابو کرنا، زیرکرنا، وہ یہ کام انجام دے رہا ہے۔

احسن العلوم:
اس ہفتے کراچی کے ایک معروف دینی مدرسے جامعہ عربیہ احسن العلوم کے درس حدیث کی دو منٹ کی ایک وڈیو سوشل میڈیا پر آئی اور اپنا کام کرگئی۔ وڈیو کے بارے میں بنیادی بات، اصل بات، اصل سوال، اصل حقیقت کو سمجھے بغیر لوگ وہی کام کرگئے جیسا وہ سگریٹ نوشی، شیمپو کے استعمال اور کولڈڈرنک پیتے ہوئے کرتے ہیں۔

وڈیو کوئی بھی ہو، یہ جان لیں کہ وہ کبھی بھی holistic یعنی ’کلیّت‘ میں کوئی بات بیان نہیں کرے گی۔ آسان لفظوں میں سمجھنے کے لیے ’’سیاق و سباق‘‘کہہ لیں، پس منظر کہہ لیں، سکے کا دوسرا رُخ کہہ لیں… یہ سب کوئی وڈیو بیان نہیں کرسکتی۔ پھر ایک کلپ ہو یعنی ٹکڑا ہو تو مزید محال ہوجاتا ہے۔

وڈیو میں یہ دکھائی دے رہا ہے کہ ایک استاد اپنے درس کے دوران ایک طالب علم کو عمامہ پہننے کا حکم دیتا ہے، پھر کسی قریبی طالب علم سے کہتا ہے کہ وہ اس کو تھپڑ مارے۔ وہ طالب علم شاید عمامہ پہننے کے حکم پر عمل نہیں کرتا تو وہ جلال میں آکر فون کرکے اپنے والد کی تدریسی روایت کا حوالہ دے کر جلاد نامی عہدے پر فائز کسی کو بلاتا ہے جو وڈیو میں بالکل نظر نہیں آرہا ہوتا۔ استاد طالب علم کو سزا کے طور پر دس ڈنڈے لگانے کا کہتا ہے۔ وہ استاد صاف کہتا ہے کہ میں کئی بار سمجھا چکا ہوں، تم لوگ باتوں سے نہیں سمجھتے، جملے کہتاہے کہ تم منکر سنتِ رسول ہو۔ شکر کرو کہ ہم نے کفر تک نہیں پہنچایا۔ وہ طالب علم بدتمیزی کا ردعمل دیتا ہے، جس پر وہ استاد کہتا ہے کہ اس کو انتظامیہ کے پاس لے جائو اور اگر ہاتھ لگائے تو بتانا۔ اس کے بعد دعا کا منظر ہے جس میں استاد صاف کہتا ہے کہ طالب علم نے جس طریقے سے بدتمیزی کی ہے اس کو اللہ ساری زندگی ذلیل کرے اور کتے سے بدتر زندگی کرے اور ایسے گندے لوگوں سے ہمیں محفوظ رکھے۔ اس دوران وہ طلبہ کو آمین کہنے کا بھی کہتا ہے، اور نہ کہنے پر بے غیرت بھی کہتا ہے۔

ہولسٹک ویو:
وڈیو سوشل میڈیا پر آئی اور تمام لبرل کے پیٹ میں مروڑ اُٹھی۔ ستم یہ ہوا کہ جو مذہبی اور دین دار سمجھے جاتے ہیں وہ بھی وڈیو کو دیکھ کر ان کے ساتھ ہم آواز ہوگئے۔ ساری دینی تاریخ، واقعاتی حقیقت، سب کچھ بھلا بیٹھے۔ یہ تک بھول گئے کہ خود ان کے اپنے بچوں کے اسکولوں میں محض فیس کی ادائیگی نہ ہونے پر کیا کچھ ہوتا ہے، یونیفارم کی درست پابندی نہ ہونے پر کیا معمول ہے۔ فوجی بھرتی کے ٹیسٹ سمیت دسیوں معاملات ہیں جہاں جسمانی طور پر ایذا دینا معمول ہے۔

اس وڈیو کو دیکھ کر کبھی بھی یہ تاثر قائم نہیں ہوسکتا کہ اُس لڑکے کو ساڑھے سات سال سے یہی مدرسہ وقت پر کھانا دیتا رہا، آرام و رہائش الگ۔ اس وڈیو سے یہ بھی نہیں معلوم ہورہا کہ عمامہ پہننا مدرسے کی روایت کا کتنا اہم حصہ ہے (جیسا کہ اسکولوں میں یونیفارم سمجھ لیں، مگر ہم جانتے ہیں کہ یونیفارم تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی سنتِ مطہرہ نہیں ہے۔ تاہم عمامہ کے بارے میں کسی کو ابہام نہیں ہوگا)۔ اس وڈیو کو دیکھ کر کوئی یہ بھی نہیں بتا سکتا کہ استاد جس عمامے کا کہہ رہا ہے وہ اس شاگرد سے محض ایک گز کی دوری پر اس کی ٹیبل پر ہی تھا جسے وہ بار بار کہنے کے باوجود نہیں پہن رہا تھا۔ ایسا نہیں تھا کہ عمامہ کہیں دکان سے خرید کر لانا تھا۔ اس وڈیو میں باوجود اس کے کہ استاد کہہ رہا ہے کہ میں نے کئی بار سمجھایا ہے، کئی بار زبان سے سمجھایا ہے… مگر وہ جملہ کوئی نوٹ نہیں کرسکا،کیوں؟ جب ڈنڈے مارنے والا آیا تو شاگرد نے جس طرح کا عمل دیا وہ بھی وڈیو میں کسی کو نظر نہیں آرہا۔ یہ اور اس طرح کے کئی امور ہیں جو وڈیو میں ظاہر نہیں ہورہے، وڈیو کو کئی جگہ سے کاٹ کر جوڑ کر بنایا گیا ہے، یہ بات بھی شاید لوگ نہیں سمجھے۔ رہی بات دعا کی، تو کم علم لوگ شاید نہیں جانتے کہ وہ بھی کوئی خلافِ شرع عمل نہیں ہے۔ بہرحال ان سب کے باوجود سوشل میڈیا یوں جیت گیا کہ اگلے دن ہی معافی مانگ لی گئی اور بات اپنے تئیں ختم کردی گئی۔

اس ضمن میں دوسری سب سے بڑی حقیقت یہ ہے کہ جب تک علمائے کرام میڈیا کے ڈسکورس کا حصہ بنے رہیں گے،جو اُن کا نہیں ہے، جس کو انہوں نے سخت انکار کے بعد نامعلوم وجوہات پر اپنایا ہے، تو لازم ہے کہ اکابرین کے فتاویٰ کے مطابق زہریلے نتائج ہی برآمد ہوں گے۔ گزشتہ نصف صدی چیخ چیخ کر بتا رہی ہے کہ یہ سارا میڈیا… سوشل ہو یا غیر سوشل… کسی بھی دین کے فروغ کے لیے نہیں بنا ہے۔ اس کو علمائے کرام کسی بھی نیت سے استعمال کریں گے وہ اسی طرح (سیکولر و مذہب دشمن عوام کے نزدیک) ذلیل و رسوا ہوتے رہیں گے، چاہے کتنے بڑے بڑے’’پھنے خان‘‘ کیوں نہ ہوں۔ میڈیا ڈسکورس میں جانے کے بعد سب کے کپڑے ایک ہی طرح سے اُترتے ہیں۔ پھر سوشل میڈیا تو اور زیادہ خطرناک ہے۔ سیکڑوں سالہ تہذیبی علمی روایت کو اس طرح میڈیا پر جب لایا جائے گا تو یہی نتائج بھگتنے ہوں گے۔ ایک نہیں کئی مثالوں کے ڈھیر جمع ہوچکے ہیں جو یہی بتا رہے ہیں کہ جس مصلحت کے لیے تصویر اور وڈیو کی گنجائش نکالی گئی وہ انتہائی بھیانک صورت اختیار کرچکی ہے۔ عمامے کی اہمیت سے زیادہ موبائل، تصویرکشی کی حرمت پر ڈنڈے برسانے کی ضرورت ہے۔

مسئلہ یہ ہے کہ استعماریت کا غلبہ لوگوں کو تو دور کی بات، ہمارے علما کو بھی سمجھ میں نہیں آتا۔ وہ تو ترقی اور ہیومن رائٹس ڈسکورس کو دینی سمجھ کر دل سے قبول کرنا شروع ہوگئے ہیں۔ ایک جواب نہیں دے پاتے، منہ چھپاتے پھرتے ہیں۔ اِس لیے اصل معاملہ وڈیو، تصویر کا ڈومین ہے۔ اِس حقیقت کو سمجھے، جانے بغیر لٹی ہوئی عزت واپس نہیں آسکتی، بلکہ مزید لٹتی ہی رہے گی۔

حصہ