آخری قسط
-136 ازمنہ وسطیٰ میں Personality کا لفظ خدا کی ’’ذات‘‘ کے بعد استعمال ہوتا تھا۔ بعد میں اس کا اطلاق انسان کی ’’شخصیت‘‘ پر ہونے لگا۔ اب مغربی مفکر انسانی’’شخصیت‘‘ کا اطلاق ’’خدا‘‘ پر کر رہے ہیں۔ نعوذباللہ۔ اور اس بات پر زور دیتے ہیں کہ ’’خدا‘‘ کا تصور ’’شخصی‘‘ ہے۔ا س طرح بعض مغربی مفکر نعوذباللہ ’’خدا‘‘ کو انسان کے سانچے میں ڈھال رہے ہیں۔ (Anthropomorphism)
-137 تصوف کے رموز اور علامات کے مستند مطالب کو رد کرکے ان کی لفظی یاحسی نفسیاتی یا اخلاقی تعبیر کرنا۔
-138 لفظ ’’اصول‘‘ کا دینی مطلب نہ سمجھنا اور ہر اچھے یا برے نظریے کو ’’اصول‘‘ کا نام دینا۔
-139 کمیت (Quanitity) کی پرستش اور ’’کیفیت‘‘ (Quality) کو نظر انداز کرتا۔
-140 روایتی چیزوں کو ’’داستان‘‘ (Myth, Legend) کہنا‘ کبھی تحقیر کے لیے اور کبھی تحسین کے لیے۔
-141 ہر دینی مسئلے کے متعلق مختلف نظریوں کی اتنی بڑی تعداد کہ نظریوں کے اژدھام میں حقیقت غائب ہو جائے۔
-142 اس بات سے قطعی بے خبری کہ اسلام کے دینی علوم کے مماثل علوم مغرب میں موجود نہیں۔ دینی علوم کو مغربی علوم‘ خصوصاً علوم کے دائرے میں بند کرنے کی کوشش۔
-143 یہ نہ سمجھنا کہ ہر دائرے میں مسائل کے مطالعے کے طریقے الگ ہوتے ہیں اور تاریخی یا عمرانی یا سائنسی طریقہ ہر جگہ کام نہیں دیتا۔
-144 مغربی علوم کا طریقہ تجزیاتی اور تحلیلی ہے‘ یہاں تفصیلات جمع کرکے کسی نتیجے تک پہنچنے کی کوشش کرتے ہیں۔ دینی علوم وحی کے ذریعے قائم ہونے والے اصولوں سے استنباط کرتے ہیں‘ مگر مغربی مفکر اس لازمی فرق کو نہیں سمجھتے۔
-145 تلاوت کے روحانی فیض کا انکار۔ یہ اصرار کہ سمجھے تلاوت سے کوئی فائدہ نہیں۔ یہیں سے انفرادی رائے کو تفسیر کی آزادی ملتی ہے۔
-146 جدیدیت الفاظ کے جادو سے کام لیتی ہے اور لوگوں کے ذہنوں کو مسحور کرکے سوچنے سمجھنے کی طاقت کو معطل کرنا چاہتی ہے۔ چنانچہ کسی چیز کی تحسین کے لیے اسے ’’جدید‘‘ یا ’’سائنٹفک‘‘ کہہ دینا کافی سمجھا جاتا ہے۔ اسی طرح کے الفاظ ہیں آزادی‘ انسانی مسرت‘ خوش حالی‘ زندگی کا معیار بلند کرنا‘ روز مرہ کی زندگی‘ عام آدمی۔
-147 انیسویں صدی کی ’’تشکیک‘‘ (Scepticism) اور ’’لاادریت‘‘ (Agnosticism) بھی ابھی تک ختم نہیں ہوئی ہے اور وقتاً فوقتاً سر ابھارتی ہے۔ یہی حال انیسویں صدی کی عقلیت پرستی کا ہے۔
-148انسان کی مادی خوش حالی کو ہر چیز کا معیار بنانا‘ قناعت سے انکار۔
-149 ’’صحت مند جانور‘‘ کو انسانی زندگی کا معیار بنانا۔
-150 ’’انسانی وحدت‘‘ کا یہ تصور کہ سب انسانوں کی مادی ضروریات ایک سی ہیں‘ اس لیے ان کا ذہن بھی ایک جیسا ہونا چاہیے۔ اس سے یہ نتیجہ نکالنا کہ مغرب نے مادی ضروریات پوری کرنے کا سب سے زیادہ سامان فراہم کیا ہے‘ اس لیے سب کو مغربی اقدار قبول کرنی چاہئیں۔
-151 مذہب کی صریح مخالفت کا زمانہ پہلی جنگ عظیم کے بعد سے ختم ہو چکا ہے۔ اب زیادہ رواج نئے جعلی مذہب اور ’’روایتیں‘‘ بنانے کا ہے۔
-152 زمان و مکان کے نئے فلسفے‘ خصوصاً وقت کے نئے تصورات۔ (ان پر تفصیلی بحث درکار ہے۔)
-153 استناد کا مسئلہ:
یہ مسئلہ دورِ جدید میں بہت پیچیدگی اختیار کر گیا ہے بلکہ دراصل ’’جدیدیت‘‘ کی بنیاد ہی یہ مسئطہ ہے۔ یورپ میں ’’اصلاح دین کی تحریک‘‘ کے بانی مارٹن لوتھر نے پوپ کو سند ماننے سے ہی انکار کیا تھا اور یہ دعویٰ کیا تھا کہ ہر دینی معاملے میں پہلی اور آخری سند انجیل ہے اور ہر شخص کو یہ حق حاصل ہے کہ خود انجیل پڑھے اور خود سمجھے۔
یہ اسی ذہنیت کا نتیجہ ہے کہ تجدد پسند لوگ کسی امام کی سند تسلیم نہیں کرتے‘ بلکہ قرآن شریف سے ثبوت مانگتے ہیں۔
لیکن مستشرقین اور ان کے پیرو نے اپنے نظریات پیش کرتے ہوئے الٹا ہی اصول برتتے۔ اسناد اور حوالوں کے سلسلے میں وہ کسی قسم کے مرابط کا لحاظ نہیں رکھتے‘ بلکہ حدیث‘ فقہ‘ فلسفہ‘ تاریخ‘ یہاں تک کہ داستانوں کی بھی ایک ہی سطح پر لے آتے ہیں اور یہ بھی نہیں دیکھتے کہ کوئی مصنف دینی لحاظ سے بھی مستند ہے یا نہیں۔
جہاں تک مغربی علوم کا تعلق ہے‘ یہاں استناد اور حوالے کا معاملہ بہت ہی ٹیڑھا ہے‘ کیوں کہ جدیدیت کی روح ہی یہ اصول ہے کہ کسی کتاب یا فرد کو آخری اور حتمی سند نہ سمجھا جائے۔ چنانچہ اگر مغربی علوم کے کسی مسئلے پر بحث کرنی ہو تو سند اور حوالہ پیش کرنے میں بہت سی دشواریاں اور پیچیدگیاں سامنے آتی ہیں۔ ان میں سے چند یہ ہیں:
-1ایک علم سے تعلق رکھنے والا آدمی عموماً دوسرے علم سے تعلق رکھنے والے کی سند قبول نہیں کرتا اور اپنے ہی علم کے دائرے میں سند مانگتا ہے۔
-2 بیسویں صدی کے مغربی علم میں تخصص (Specialization) واقعی اتنا بڑھ گیا ہے کہ ایک علم کا بڑے سے بڑا عالم دوسرے علم کے مسائل اچھی طرح نہیں سمجھ سکتا۔
-3 نظریہ ارتقا کی رو سے علم بھی ترقی کر رہا ہے اس لیے کتابیں پرانی پڑ جاتی ہیں۔ عموماً یہ دیکھا جاتا ہے کہ کب لکھی گئی۔ اگر کتاب پرانی ہے تو غیر معتبر ہے‘ اگر نئی ہے تو اعتبار کے لائق ہے۔ پہلے تو تیس‘ چالیس سال تک ایک کتاب مستند رہتی تھی لیکن دوسری جنگِ عظیم کے بعد سے تو یہ حال ہو گیا ہے کہ کتاب دس سال بعد‘ بلکہ پانچ سال بعد مستند نہیں رہتی۔
-4 کتابوں میں بھی فیشن کا اصول چلتا ہے۔کتاب پرانی ہو یا نئی‘ بغیر کسی وجہ کے یکایک مستند بن جاتی ہے۔ تھوڑی دن بعد غیر مستند ہو جاتی ہے اور کوئی دوسری کتاب فیشن میں آجاتی ہے۔
-5 پڑھنے والوں کے الگ الگ طبقے بن گئے ہیں‘ ہر طبقہ ایک خاص قسم کی کتابوں کو باوقعت سمجھتا ہے او صرف انہی کو سند مانتا ہے اور عموماً دوسری قسم کی کتابوں سے بے خبر رہتا ہے۔
-6 مغربی علوم سے متعلق کتابوں کو دو قسموں میں بانٹا جاسکتا ہے۔ ایک طرف تو وہ کتابیں ہیں جو کسی علم کے بڑے عالم اور ماہر اپنے جیسے ماہروں کے لیے لکھتے ہیں عام پڑھنے والے ایسی کتابوں سے بے خبر ہوتے ہیں اور ان کی سند تسلیم نہیںکرتے۔ دوسری طرف وہ کتابیں ہیںجو عام پڑھنے والوں کے لیے لکھی جاتی ہیں اور لاکھوں کی تعداد میں چھپتی ہیں۔ ایسی کتابوں کے مصنف عموماً اپنے علم پر پوری طرح حاوی نہیں ہوتے اور اگر ماہر ہوتے بھی ہیں تو مسائل کو اس انداز سے پیش کرتے ہیں کہ عام آدمی کا ذہن انہیں قبول کرسکے۔ایسی کتابوں کو ذی شعور لوگ سند کے قابل نہیںسمجھتے۔ پھر یہ بھی ہے کہ ان دو قسم کی کتابوں میں بعض دفعہ مسائل بالکل متضاد طریقے سے بیان کیے جاتے ہیں۔ آج کل امریکہ کے ایک مشہور پروفیسر‘ مورخ اور ادبی نقاد ہیں ژاک بارزاں (jaques Barsun) انہوں نے موجودہ علمی فضا کا نقشہ اپنی کتاب The House of Intellect میں کھینچا ہے۔ اس میں انہوں نے یہ واقعہ سنایا ہے کہ ایک مصنف نے سائنس کی تاریخ پیش کرتے ہوئے یہ لکھا تھا کہ انیسویں صدی میں اسپنسر نے ’’بقائے اصلح‘‘ کا اصول نکالا۔ جب ناشر کے یہاںسے کتاب کے پروف آئے تو اس نے دیکھا کہ اسپنسر کے بجائے ڈارون کا نام لکھ دیا گیا ہے۔ مصنف نے احتجاج کیا اور شہادتیں پیش کیں تو ناشر نے جوابدیا کہ عام پڑھنے والے اس نظریے کو ڈارون ہی سے منسوب کرتے ہیں اس لیے اگر انہیں صحیح بات بتائی گئی تو ان کے ذہن پر بار پڑے گا۔ مغرب میں ہر دلعزیز اور مقبول ’’علمی‘‘ کتابیں آج کل اسی طرح لکھی جا رہی ہیں۔ اس لیے مقبول کتابوں پر بھروسہ کرنا مشکل ہو گیا ہے۔
-7 بعض علمی کتابوں میں بھی کسی قسم کی سیاست یا نظریئے کو زبردستی فروغ دینے کی کوشش کی جاتی ہے۔ ’’انسائیکلو پیڈیا برٹانیکا‘‘ دنیا کی ایک مشہور کتاب ہے‘ لیکن ہر معاملے میں اعتبار کے لائق بھی نہیں۔ کچھ دن پہلے تک یہ ادارہ انگریزوں کی ملکیت میں تھا‘ اس لیے انگریزوں کے سیاسی مفادات پیش نظر رکھتا تھا اور رومن کیتھلک مذہب سے تعصب بھی اس کتاب میں نمایاں رہتا تھا۔ اب اس ادارے کو امریکہ کے لوگوں نے خرید لیا ہے‘ اس لیے اب امریکہ کے سیاسی مفادات پیش نظر رہتے ہیں اور رومن کیتھلک مذہب کے بارے میں بھی رویہ نرم اور مصالحت آمیز ہو گیا ہے کیوں کہ امریکہ کے صدر کے انتخاب میں اس مذہب کے لوگوں کا ووٹ خاص قدر و قیمت رکھتا ہے۔ غرض جب مالکوں کی سیاسی اور مذہبی پالیسی بدلتی ہے تو اس کتاب کے بہت سے مضامین بھی بدل دیے جاتے ہیں۔
-8 آج کل کتابوں کی اتنی بھرمار ہے کہ انہیں پڑھنا تو الگ رہا‘ ان کی مکمل فہرست بھی نہیں بن سکتی اس لیے بعض دفعہ تو ماہرین بھی نہیں بتا سکتے کہ کوئی کتاب مستند ہے یا نہیں اس لیے سند اور حوالہ عموماً برائے وزن بیت رہ گیا ہے۔
-9 آج کل مغرب میں عموماً اور امریکہ میں خصوصاً اسناد اور حوالے پیش کرنے ہی کو ’’علم‘‘ سمجھ لیا گیا ہے۔ چنانچہ آج کل کتابوں میں حوالوں کی بھرمار ہوتی ہے بلکہ بعض کتابیں تو اقتباسات کا مجموعہ ہوتی ہیں ا سے کوئی غرض نہیں ہوتی کہ یہ حوالے درکار بھی ہیں یا نہیں اور ان حوالوں کی قدر و قیمت کیا ہے۔ چنانچہ سند‘ حوالے اور شہادتیں پیش کرنا محض ایک بے معنی رسم بن کے رہ گیا ہے۔
-10 ہر مغربی علم کے دائرے میں ’’ماہرین‘‘ اور غیر ماہرین‘‘ کے درمیان رقابت چل رہی ہے۔ ’’غیر ماہر‘‘ نے خواہ کتنی ہی اچھی کتاب لکھی ہو‘ لیکن ’’ماہرین‘‘ اس کی سند قبول نہیں کرتے۔
-11 ان حالات کا نتیجہ یہ ہوا کہ چاہے جتنے حوالے اور سندیں پیش کی جائیں‘ ان کا کوئی اثر نہیں ہوتا اور لوگ وہی بات مانتے ہیں جسے ماننا چاہتے ہیں یا پھر لکھنے والے کو یہ دیکھنا پڑتا ہے کہ میرے پڑھنے والے کس قسم کے ہوں گے اور وہ کس قسم کی سند قبول کریں گے۔
کسی تصور یا لفظ کی سند پیش کرنے کے لیے بعض دفعہ اس کی پوری تاریخ سنانی پڑتی ہے کہ یہ لفظ یا تصور کس زمانے میں سامنے آیا اور پھر کس‘ کس دور میں اس کے معانی کس ‘ کس طرح بدلتے رہے۔ بعض دفعہ نہیں بلکہ عموماً یہی کرنا پڑتا ہے۔