گدڑی کا لال نور خان

134

لوگ بادشاہوں اور امیروں کے قصیدے اور مرثیے لکھتے ہیں۔ نامور اور مشہور لوگوں کےحالات قلم بند کرتے ہیں۔ میں ایک غریب سپاہی کا حال لکھتا ہوں، اس خیال سے کہ شاید کوئی پڑھے اور سمجھے کہ دولت مندوں، امیروں اور بڑے لوگوں کے ہی حالات لکھنے اور پڑھنے کے قابل نہیں ہوتے بلکہ غریبوں میں بھی بہت سے ایسےہوتے ہیں کہ ان کی زندگی ہمارے لیے سبق آموز ہو سکتی ہے۔ انسان کا بہترین مطالعہ انسان ہے اور انسان ہونے مںک امرا اور غریب کا کوئی فرق نہیں آ ہے۔

پھول میں گرآن ہے کانٹے میں بھی ایک شان ہے

نور خاں مرحوم کنٹنجنٹ کے اول رسالے میں سپاہی سےبھرتی ہوئے۔ انگریزی افواج میں حیدرآباد کی کنٹنجنٹ خاص حیثیت اور امتیاز رکھتی تھی۔ ہر شخص اس میں بھرتی نہیں ہو سکتا تھا، بہت دیکھ بھال ہوتی تھی، بعض اوقات نسب نامے تک دیکھے جاتےتھے تب کہیں جاکر ملازمت ملتی تھی۔ کوشش یہ ہوتی تھی کہ صرف شرفا اس میں بھرتی کیے جائیں۔ یہی وجہ ہے کہ کنٹجنٹ والے عزت کی نظر سےدیکھے جاتے تھے لیکن بعد میں یہ قید اٹھ گئی اور اس میں اور انگریزوں کی دوسری فوجوں میں کوئی فرق نہیں رہا۔ پہلے زمانہ میں سپاہ گری بہت معزز پیشہ سمجھاتا تھا اب اس میں اور دوسرے پیشوں میں کوئی فرق نہیں رہا۔ بات یہ ہے کہ اشراف کا سنبھالنا بہت مشکل کام ہے۔ اس میں ایک آن بان اور خودداری ہوتی ہے جو بہادری اور انسانیت کااصل جوہر ہے ہر کوئی اس کی قدر نہیں کر سکتا۔ اس لیے شریف روتا اور ذلیل ہنستا ہے۔ یہ جتنا پھیلتا ہے وہ اتنا ہی سکڑتا ہے۔ کرنل نواب افسرا لملک بہادر بھی نور خاں مرحوم ہی کے رسالے کے ہیں، کنٹنجنٹ کے بہت سے لوگ اکثر تو کرنل صاحب موصوف کے توسط سے نواب، کرنیل، میجر، کپتان اور بڑے بڑے عہدیدار ہیں۔ لیکن دیکھنا یہ ہے کہ کوئی نور خاں بھی ہے؟

اول رسالے کے بعض لوگوں سےمعلوم ہوا کہ خان صاحب مرحوم فوج میں بھی بڑی آن بان سے رہے اور سچائی اور فرض شناسی میں مشہور تھے، یہ ڈرل انسٹکرٹر تھے یعنی گوروں کو جو نئے بھرتی ہوکر آتے تھے، ڈرل سکھاتے تھے۔ اس لیے اکثر گورے افسروں سے واقف تھے۔ وہ بڑے شہسوار تھے اور گھوڑے خوب پہچانتے تھے، بڑے بڑے سرکش گھوڑے جو پٹھے پر ہاتھ نہ دھرنے دیتے تھے انہوں نے درست کیے گھوڑے کو سدھانے اور پھیرنے میں انہیں کمال تھا۔ چونکہ بدن کے چھریرے اور ہلکے پھلکے تھے۔ گھوڑ دوڑ میں گھوڑے دوڑاتے تھے اور اکثر شرطیں جیتتے تھے۔ ان کے افسر ان کی مستعدی اور خوش تدبیری اور سلیقے سے بہت خوش تھے۔ لیکن کھرے پن سے وہ بعض اوقات ناراض ہو جاتے تھے۔ ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ ان کے کمانڈنگ افسر نےان سے کسی بات پر خفا ہوکر جیسا کہ انگریزوں کا عام قاعدہ ہے انہیں ڈیم کہہ دیا۔ یہ تو گالی تھی۔ خاں صاحب کسی کی ترچھی نظر کے بھی روادار نہ تھے انہوں نے فوراً رپورٹ کر دی۔ لوگوں نے چاہا کہ معاملہ رفع دفع ہو جائے اور آگے نہ بڑھے۔ مگر خاں صاحب نےایک نہ سنی، معاملے نے طول کھینچا اور جنرل صاحب کو لکھا گیا۔ کمانڈنگ افسر کا کورٹ مارشل ہوا اور اس سے کہا گیا کہ خاں صاحب سے معافی مانگے، ہر چند اس نے بچنا چاہا مگر پیش نہ گئی اور مجبوراً اسے معافی مانگنی پڑی۔ ایسی خودداری اور نازک مزاجی پر ترقی کی توقع رکھنا عبث ہے۔ نتیجہ یہ ہے کہ دفعداری سے آگے نہ بڑھے۔

اچھے برے ہر قوم میں ہوتے ہیں۔ شریف افسر خاں صاحب کی سچائی اور دیانت داری اور جفاکشی کی بڑی قدر کرتے تھے اور ان کو اپنی اردلی میں رکھتے تھے۔ مگر بعض ایسے بھی تھے کہ جن کے سر میں خنّاس سمایا ہوا تھا۔ انہیں خاں صاحب کے یہ ڈھنگ پسند نہ تھے اور وہ ہمیشہ ان کے نقصان کے درپے رہتے تھے۔ ایسے لوگ اپنی اور اپنی قوم والوں کی خودداری کو جوہر شرافت سمجھتے تھے۔ لیکن اگر یہی جوہر کسی دیسی میں ہوتا تو اسے غرور اور گستاخی پر محمول کرتے ہیں۔ تاہم ان کے اکثر انگریز افسران ان پر بہت مہربان تھے۔ خاص کر کرنل فرن ٹین ان پر بڑی عنایت کرتے تھے اور خاں صاحب پر اس قدر اعتبار تھا کہ شاید کسی اور پر ہو۔ جب کرنل صاحب نے اپنی خدمت سے استعفیٰ دیا تو اپنا تمام مال و اسباب اور سامان جو ہزارہا روپے کا تھا خاں صاحب کے سپرد کرگئے۔ یہ امر انگریز افسروں کو بہت ناگوار ہوا۔ اس وقت کے کمانڈنگ افسر سے نہ رہا گیا اور اس نے کرنل موصوف کو لکھا کہ آپ نے ہم پر اعتماد نہ کیا اور ایک دیسی دفعدار کو اپنا تمام قیمتی سامان حوالے کر گئے۔ اگر آپ یہ سامان ہمارے سپرد کر جاتے تو اسے اچھے داموں میں فروخت کرکے قیمت آپ کے پاس بھیج دیتے۔ اگر اب بھی لکھیں تو اس کا انتظام ہو سکتا ہے۔ کرنل نے جواب دیا کہ مجھے نور خاں پر تمام انگریز افسروں سے زیادہ اعتماد ہے۔ آپ کو زحمت کرنے کی ضرور نہیں ہے۔ اس پر یہ لوگ اور برہم ہوئے۔ ایک بار کمانڈنگ افسر یہ سامان دیکھنے آیا اور کہنے لگا کہ فلاں فلاں چیز میم صاحب نے ہمارے ہاں سے منگائی تھی۔ چلتے وقت واپس کرنی بھول گئے۔ اب تم یہ سب چیزیں ہمارے بنگلے پر بھیج دو۔

خاص صاحب نے کہا میں ایک چیز بھی نہیں دوں گا۔ آپ کرنل صاحب کو لکھئے وہ اگر مجھے لکھیں گے تو مجھے دینے میں کچھ عذر نہ ہوگا۔ وہ اس جواب پر بہت بگڑا اور کہنے لگا کہ تم ہمیں جھوٹا سمجھتے ہو؟ خاں صاحب نے کہا میں آپ کو جھوٹا نہیں سمجھتا، یہ سامان میرے پاس امانت ہے اور ہمیں کسی کو اس میں سے ایک تنکا بھی دینے کا مجاز نہیں۔ غرض وہ بڑبڑاتا ہوا کھسیانا ہوکر چلا گیا۔ خاں صاحب نے ایک انگریزی محرر سے اس سامان کی ایک مکمل فہرست تیار کرائی اور کچھ تو خود خریدی اور کچھ نیلام کے ذریعہ بیچ کر ساری رقم کرنل صاحب کو بھیج دی۔

نہ معلوم یہی کرنل تھا یا دوسرا کوئی افسر، جب ملازمت سے قطع تعلق کرکے جانے لگا تو اس نے ایک سونے کی گھڑی، ایک عمدہ بندوق اور پانسو روپے نقد بطور شکرانے کے خاں صاحب کو دیے۔ خاں صاحب نے لینے سےانکار کیا اور اس کی بیوی نے بہتیرا اصرار کیا مگر انہوں نے سوائے بندوق کے دوسری کوئی چیز نہ لی اور باقی سب چیزیں واپس کر دیں۔

کرنل اسٹوارٹ بھی جو ہنگولی چھاؤنی کے کمانڈگ افسر تھے، ان پر بہت مہربان تھے، رسالے کے شریف انگریزوں سے کہا کرتے تھے کہ ہمارے بعد انگریز افسر تم کو نقصان بہت پہنچائیں گے۔ وہ ان کی روش سے خوش نہ تھے اور خوش کیوں کر ہوتے خوشامد سےانہیں چڑ تھی اور غلامانہ اطاعت آتی نہیں تھی۔ ایک بار کا ذکر ہے کہ اپنے کرنل کے ہاں کھڑے تھے کہ ایک انگریز افسر گھوڑے پر سوار آیا۔ گھوڑے سے اتر کر اس نے خاں صاحب سے کہا کہ گھوڑا پکڑو۔ انہوں نے کہا میں سائیس نہیں ہوں۔ اس نے ایسا جواب کا ہے کو سنا تھا، بہت چیں بہ جبیں ہوا مگر کیا کرتا۔ آخر باگ درخت کی ایک شاخ سےاٹکاکر اندر چلا گیا۔ اب نہ معلوم یہ خاں صاحب کی شرارت تھی یا اتفاق کہ باگ شاخ سے نکل گئی اور گھوڑا بھاگ نکلا۔ اب جو صاحب باہر آئے تو گھوڑا ندارد، بہت جھنجھلایا، بڑی مشکل سے تلاش کرکے پکڑوایا تو جگہ جگہ سے زخمی پایا۔ اس نے کرنل صاحب سے خاں صاحب کی بہت شکایت کی۔ معلوم نہیں کرنل نے اس انگریز کو کیا جواب دیا لیکن وہ خاں صاحب سے بہت خوش ہوا اور کہا تم نے خوب کیا۔

خاں صاحب نے جب یہ رنگ دیکھا تو خیر اسی میں سمجھی کہ کسی طرح وظیفہ لے کر الگ ہو جائیں، وہ بیمار بن گئے اور اسپتال میں رجوع ہوئے۔ کرنل اسٹوارٹ نے ڈاکٹر سے کہہ کر ان کو مدد دی اور اس طرح وہ کچھ دنوں بعد ڈاکٹر کی رپورٹ پر وظیفہ لے کر فوجی ملازمت سے سبکدوش ہو گئے۔ سچ ہے انسان کی برائا ں ہی اس کی تباہی کا باعث نہیں کی ہوتیں۔ بعض اوقات اس کی خوبا ں بھی اسے لے ڈوبتی ہں۔

کرنل اسٹوارٹ نے بہت چاہا کہ ہو مسٹرہنکن ناظم پولیس سے سفارش کرکے انہیں ایک اچھا عہدہ دلادیں مگر خاں صاحب نے اسے قبول نہ کیا اور کہا کہااب میں اپنے وطن دولت آباد میں ہی رہنا چاہتا ہوں۔ اگر آپ صوبے دار صاحب اورنگ آباد سے سفارش فرمادیں تو بہت اچھا ہو۔ کرنل صاحب بہت اصرار کرتے رہے کہ دیکھو تمہیں پولیس میں بہت اچھی خذمت مل جائےگی انکار نہ کرو مگر یہ نہ مانے۔ آخر مجبور ہوکر نواب مقتدر جنگ بہادر صوبے دار صفدر اورنگ آباد سے سفارش کی۔ صوبے دار صاحب کی عنایت سے وہ قلعۂ دولت آبادی کی جمیب کے جمعدار ہو گئے اور بہت خوش تھے۔

نواب مقتدر جنگ کے بعد نواب بشیر نواز جنگ اورنگ آباد کی صوبے داری پر آئے، وہ بھی خاں صاحب پر بہت مہربان تھے۔ اسی زمانہ میں لارڈ کرزن وائسرائے دولت آباد تشریف لائے۔ خاں صاحب نے سلامی دینے کی تیاری کی، کئی توپیں ساتھ ساتھ رکھ کر سلامی دینی شروع کی۔ لارڈ کرزن گھڑی نکال کر دیکھ رہےتھے۔ جب سلامی ختم ہوئی تو نواب صاحب سے خاں صاحب کی تعریف کی۔ سلامی ایسے قاعدے اور انداز سے دی کہ ایک سکنڈ کا فرق نہ ہونے پایا۔ نواب صاحب نے اس کا تذکرہ خاں صاحب سے کیا اور کہا کہ میاں اب تمہاری خیر نہیں معلوم ہوتی۔

لارڈ کرزن جب قلعہ کے اوپر بالا حصار پر گئے تو وہاں سستانے کے لیے کرسی پر بیٹھ گئے اور جیب سے سگرٹ دان نکال کر سلگایا ہی تھا کہ یہ فوجی سلامی کرکے آگے بڑھے اور کہا کہ یہاں سگرٹ پینے کی اجازت نہیں ہے۔ لارڈ کرزن نے جلتا ہوا سگرٹ نیچے پھینک دیا اور جوتے سے رگڑ ڈالا۔ یہ حرکت دیکھ کر نواب بشیر نواز جنگ بہادر اور دوسرے عہدیداران کا رنگ فق ہو گیا۔ مگر موقع ایسا تھا کہ کچھ کہہ نہیں سکتے تھے۔ لہو کے گھونٹ پی کر چپ رہ گئے۔ بعد میں بہت لے دے کی، مگر اب کیا ہو سکتا تھا۔ خاں صاحب نے قاعدے کی پوری پاندی کی تھی، اس پر چون و چرا کی گنجائش نہ تھی۔

اب اسے اتفاق کہیے یا خاں صاحب کی تقدیر کہ لارڈ کرزن نے جانے کے بعد ہی فنانس کی معتمدی مسٹر واکر کا انتخاب کیا۔ ریاست کے مالیے کی حالت اس زمانے میں بہت خراب تھی۔ مسٹر واکر نے اصلاحیں شروع کیں۔ اس لپیٹ میں قلعۂ دولت آباد بھی آ گیا۔ اوروں کے ساتھ خاں صاحب بھی تخفیف میں آگئے۔

دولت آباد میں ان کی کچھ زمین تھی۔ اس میں باغ لگانا شروع کر دیا۔ مسٹر واکر دورے پر دولت آباد آئے تو ایک روز ٹہلتے ٹہلتے ان کے باغ میں آپہنچے۔ خاں صاحب بیٹھے گھاس کھرپ رہے تھے۔ مسٹر واکر کو آتے دیکھا تو اٹھ کر سلام کیا۔ پوچھا کیا حال ہے کہنے لگے آپ کی جان و مال کو دعا دیتا ہوں، آپ کی بدولت گھاس کھودنے کی نوبت آ گئی ہے۔ مسٹر واکر نے کہا کہ یہ بہت اچھا کام ہے، دیکھو تمہارے درخت انجیروں سے کیسے لدے ہیں، ایک ایک آنے کی انجیر بیچو تو کتنی آمدنی ہو جائےگی۔ خاں صاحب گھبرائے کہیں ایسا نہ ہو کہ یہ کمبخت انجیروں پر بھی ٹیکس لگا دے، تڑ سے جواب دیا کہ آپ نے انجیر لدے ہوئے تو دیکھ لیے اور یہ نہ دیکھا کہ کتنے سڑگل جاتے ہیں، کتنے آندھی ہوا سے گر پڑتے ہیں، کتنے پرندے کھا جاتے ہیں۔ اور پھر ہماری دن رات کی محنت۔ مسٹر واکر مسکراتے ہوئے چلے گئے۔

اسی زمانے میں ڈاکٹر سید سراج الحسن صاحب اورنگ آباد کے صدر مہتمم تعلیمات ہوکر آئے تھے۔ ڈاکٹر صاحب بلا کے مردم شناس ہیں۔ تھوڑی ہی دیر میں اور چند باتوں میں آدمی ایسا پرکھ لیتے تھے کہ حیرت ہوتی ہے پھر جیسا وہ آدمی کو سمجھتے ہیں ویسا ہی نکلتا ہے۔ کبھی خطا ہوتے نہیں دیکھی۔ ڈاکٹر صاحب ایسےقابل جوہروں کی تلاش میں رہتے ہیں۔ فوراً ہی خاں صاحب کو اپنے سایۂ عاطفت میں لے لیا۔ ڈاکٹر صاحب کا برتاؤ ان سے بہت شریفانہ اور دوستانہ تھا۔ نواب بزور جنگ اس زمانے میں صوبے دار تھے، مقبرہ کا باغ ان کی نگرانی میں تھا۔ ڈاکٹر صاحب نےسفارش کرکے باغ سے پانچ روپے ماہانہ الاؤنس مقرر کرا دیا۔

نواب برزور جنگ کے پاس ایک گھوڑا تھا۔ وہ اسے بیچنا چاہتے تھے۔ کلب میں کہیں اس کا ذکر آیا۔ ڈاکٹر صاحب نے کہا مجھے گھوڑے کی ضرورت ہے اسے میں خرید لوں گا۔ مگر پہلے نور خاں کو دکھالوں، وہاں سے آکر ڈاکٹر صاحب نے خاں صاحب سے یہ واقعہ بیان کیا اور کہا کہ بھئی اس گھوڑے کو دیکھ آؤ۔ کوئی عیب تو نہیں، خاں صاحب نے کہا آپ نے غضب کیا میرا نام لے دیا۔ گھوڑے میں کوئی عیب ہوا تو میں چھپاؤنگا نہیں اور صوبیدار صاحب مفت میں مجھ سے ناراض ہو جائیں گے۔ ڈاکٹر صاحب نے کہا تم خواہ مخواہ وہم کرتے ہو، کل جاکے ضرور گھوڑا دیکھ لو۔ خاں صاحب گئے۔ گھوڑا نسل کا تو اچھا تھا مگر پانچوں شرعی عیب موجود تھے۔ انہوں نے صاف صاف آکے کہہ دیا اور ڈاکٹر صاحب نے خریدنے سے انکار کر دیا۔ صوبےدار آگ بگولا ہو گئے۔ دوسرے روز مقبرے میں آئے اور باغ کا رجسٹر منگایا اور نور خاں کے نام پر اس زور سے قلم کھینچا کہ اگر حرفوں اور لفظوں میں جان ہوتی تو وہ بلبلا اٹھتے۔ ڈاکٹر صاحب کو معلوم ہوا تو بہت افسوس کیا مگر انہوں نےاس کی تلافی کر دی، یہ سُن کر صوبے دار صاحب اور بھی جھنجھلائے۔

ڈاکٹر صاحب ترقی پاکر حیدرآباد چلے گئے۔ ان کی خدمت کا دوسرا انتظام ہو گیا۔ کچھ دنوں بعد ڈاکٹر صاحب ناظم تعلیمات ہو گئے اور میں ان کی عنایت سے صدرِ مہتمم، تعلیمات ہوکر اورنگ آباد آیا۔ ڈاکٹر صاحب ہی نے مجھے نور خاں سے ملایا اور ان کی سفارش کی۔ ڈاکٹر صاحب نے انیں عارضی طور پر دولت آباد میں مدرس کر دیا تھا، میں نے عارضی طور پر اپنے دفتر میں محرر کر دیا۔ وہ مدرسی اور محرری تو کیا کرتے مگر بہت سے مدرسوں اور محرروں سے زیادہ کارآمد تھے۔ ڈاکٹر صاحب نے جب باغ کی نگرانی میرے حوالے کی تو خاں صاحب کا الاؤنس بھی جاری ہو گیا۔

اعلیٰ حضرت و اقدس بعد تخت نشینی اورنگ آباد رونق افروز ہوئے تو یہاں کی خوش آب و ہوا کو بہت پسند فرمایا اور ایک عظیم الشان باغ لگانے کا حکم دیا۔ یہ کام ڈاکٹر صاحب کے سپرد ہوا اور ان سے بہتر یہ کام کوئی کر بھی نہیں سکتا تھا۔ ڈاکٹر صاحب کی مہربانی سے آخر اس باغ کے عملے میں خاں صاحب کو بھی ایک اچھی سی جگہ مل گئی جو ان کی طبیعت کے مناسب تھی اور آخر دم تک وہ اسی خدمت پر رہے اور جب تک دم میں دم رہا اپنے کام کو بڑی محنت اور دیانت داری سے کرتے رہے۔

یوں محنت سے کام تو اور بھی کرتے لیکن خاں صاحب میں بعض ایسی خوبیاں تھیں جو بڑے بڑے لوگوں میں بھی نہیں ہوتیں۔ سچائی، بات کی اور معاملے کی، ان کی سرشت میں تھی اور خواہ جان ہی پر کیوں نہ بن جائے، وہ سچ کہنے سے کبھی نہیں چوکتے تھے اسی میں انہیں نقصان بھی اٹھانے پڑے مگر وہ سچائی کی خاطر سب کچھ گوارا کر لیتے تھے۔ مستعد ایسے تھے کہ اچھے اچھے جوان ان کا مقابلہ نہیں کر سکتے تھے دن ہو، رات ہو، ہر وقت کام کرنےکو تیار۔ اکثر دولت آباد سے پیدل آتے جاتے تھے۔ کسی کام کو کہیے تو ایسی خوشی سے کرتے تھے کہ کوئی اپنا کام بھی اس قدر خوشی سے نہ کرتا ہوگا۔ دوستی کے بڑے پکے اور بڑے وضعدار تھے، چونکہ ادنی اعلیٰ سب ان کی عزت کرتے تھے اس لیے ان کے غریب دوستوں سےبہت سے کام نکلتے تھے۔ ان کا گھر مہمان سرائے تھا۔ اورنگ آباد کے آنے جانے والے کھانے کے وقت بے تکلف ان کے گھر پہنچ جاتے اور وہ ان سے بہت خوش ہوتے تھے۔ بعض لوگ جو مسافر بنگلے میں آکر ٹھہر جاتے تھے ان کی دعوت بھی کر دیتے تھے، بعض اوقات ٹولیوں کی ٹولیاں پہنچ جاتی تھیں اور وہ ان کی دعوتیں بڑی فیاضی سے کرتے تھے۔ اس قدر قلیل معاش ہونے پر ان کی یہ مہمان نوازی دیکھ حیرت ہوتی تھی۔ ان کی بیوی بھی ایسی نیک بخت تھی کہ دفعتاً مہمانوں کے پہنچ جانے سے کبھی کبیدہ خاطر نہ ہوتی تھی بلکہ خوشی خوشی کام کرتی اور کھلاتی تھی۔ خوددار ایسے کہ کسی سے ایک پیسے کے روادار نہ ہوتے تھے۔ ڈاکٹر سراج الحسن ہرچند طرح طرح سے ان کے ساتھ سلوک کرنا چاہتے تھے مگر وہ ٹال جاتے تھے۔ مجھ سے انہیں خاص انس تھا،میں کوئی چیز دیتا تھا تو کبھی انکار نہ کرتے تھے، بلکہ کبھی کبھی خود فرمائش کرتے تھے، مٹھاس کے بےحد شائق تھے۔ ان کا قول تھا کہ اگر کسی کو کھانے کو میٹھا ملے تو نمکین کیوں کھائے۔ وہ کہا کرتے تھے کہ نمکین کھانا مجبوری سے کھاتا ہوں مجھ میں اگر استطاعت ہو تو ہمیشہ مٹھاس ہی کھایا کروں اور نمکین کو ہاتھ نہ لگاؤں۔’’ انہیں مٹھاس کو کھاتے دیکھ کر حیرت ہوتی تھی۔ اکثر جیب میں گڑ رکھتے تھے۔ ایک بار میرے ساتھ دعوت میں گئے، قسم قسم کے تکلف کے کھانے تھے۔ خاں صاحب نے چھوٹتے ہی میٹھے پر ہاتھ ڈالا۔ ایک صاحب جو دعوت میں شریک تھے یہ خیال کرکے کہ خاں صاحب کو دھوکا ہوا کہنے لگے کہ ‘‘حضرت یہ میٹھا ہے۔’’ مگر انہوں نے کچھ پروا نہ کی اور برابر کھاتے رہے، جب وہ ختم ہوگیا تو دوسرے میٹھے پر ہاتھ بڑھایا۔ ان حضرت نے پھر ٹوکا کہ حضرت یہ میٹھا ہے، انھوں نےکچھ جواب نہ دیا اور اسے بھی ختم کر ڈالا۔ جب کبھی وہ کسی دوست کے ہاں جاتے وہ انھیں ضرور میٹھا کھلاتے اور یہ خوش ہوکر کھاتے۔

خاص صاحب بہت زندہ دل تھے۔ چہرے پر ہمیشہ مسکراہٹ رہتی تھی جسے دیکھ کر خوشی ہوتی تھی، وہ بچوں میں بچے، جوانوں میں جوان اور بوڑھوں میں بوڑھے تھے۔ غم اور فکر کو پاس نہ آنے دیتے تھے اور ہمیشہ خوش رہتے تھے اور دوسروں کو بھی خوش رکھتے تھے۔ ان سے ملنے اور باتیں کرنے سے غم غلط ہوتا تھا۔ آخر دم تک ان کی زندہ دلی ویسی ہی رہی۔

ڈاکٹر سراج الحسن صاحب جب کبھی اورنگ آباد آتے تو اسٹیشن سے اترتے ہی اپنا روپیہ پیسہ سب ان کے حوالے کر دیتے تھے اور سب خرچ ان ہی کے ہاتھ سے ہوتا تھا۔ جانے سے ایک روز قبل وہ حساب لے کر بیٹھتے، بعض وقت جب بدھ نہ ملتی تو آدھی آدھی رات تک لیے بیٹھے رہتے۔ ہرچند ڈاکٹر صاحب کہتے کہ خاں صاحب یہ تم کیا کرتے ہو، جو خرچ ہوا ہوا باقی جو بچا وہ دے دو یا زیادہ خرچ ہوا ہو تو لے لو۔ مگر وہ کہاں مانتے تھے، جب تک حساب ٹھیک نہ بیٹھتا انہیں اطمینان نہ ہوتا۔ چلتے وقت کہتے کہ لیجیے صاحب یہ آپ کا حساب ہے اتنا خرچ ہوا اور اتنا بچا۔ یا کچھ زیادہ خرچ ہو جاتا تو کہتے کہ اتنے پیسے ہمارے خرچ ہوئے یہ ہمیں دلوائیے۔ کبھی ایسا ہوا کہ انہیں کچھ شبہ ہوا تو جانے کے بعد پھر حساب لے کر بیٹھتے اور خط لکھ کر بھیجتے کہ اتنے آنے آپ کے رہ گئے تھے، وہ بھیجے جاتے ہیں، یا اتنے پیسے میرے زیادہ خرچ ہوگئے تھے، وہ بھیج دیجیےگا، ڈاکٹر صاحب ان باتوں پر بہت جھنجھلاتے تھے۔

وہ حساب کے کھرے، بات کے کھرے، اور دل کے کھرے تھے۔ وہ مہرو وفا کے پتلے اور زندہ دلی کی تصویر تھے۔ ایسے نیک نفس، ہمدرد، مرنج و مرنجان اور وضعدار لوگ کہاں ہوتے ہیں۔ ان کے بڑھاپے پر لوگوں کو رشک آتا تھا اور ان کی مستعدی دیکھ کر دل میں امنگ پیدا ہوتی تھی۔ ان کی زندگی بے لوث تھی اور ان کی زندگی کا ہرلمحہ کسی نہ کسی کام میں صرف ہوتا تھا۔ مجھے وہ اکثر یاد آتے ہیں اور یہی حال ان کے دوسرے جاننے والوں اور دوستوں کا ہے۔ اور یہ ثبوت ہے اس بات کا کہ وہ کیسا اچھا آدمی تھا۔ قومیں ایسے ہی لوگوں سے بنتی ہیں۔ کاش ہم میں بہت

حصہ