وہ تینوں گاڑی کی جانب بڑھے اور گاڑی انھیں لے کر چوہدری صاحب کی رہائش گاہ کی جانب روانہ ہو گئی۔
وہ اپنے ڈرائینگ روم میں اکیلے ہی تھے۔ ان تینوں کو دیکھ کر وہ کھڑے ہو گئے۔ ان کا یہ عمل تینوں کو اضطراریہ سا لگا۔ یہ محسوس کرتے ہی ان تینوں نے چوہدری صاحب کو بولتے دیکھ کر فوراً ہی بولنے سے منع کرتے ہوئے ان کو باہر کی جانب جانے کا اشارہ کیا۔ وہ ایک لمحے کو جیسے جھجکے ہوں لیکن شاید ان کو جیسے خود ہی کسی خطرے کا اشارہ ملا اور وہ گھبرائے ہوئے انداز میں باہر کی جانب جانے لگے۔ ان کے پیچھے وہ تینوں بھی خاموشی کے ساتھ باہر نکل آئے۔ رہائش گاہ کے باہر بہت ہی خوبصورت لان تھا۔ وہ لان کے اس حصے کی جانب لگے جہاں کل ان سے پہلی بار ملاقات ہوئی تھی تو تینوں نے ان کا رخ اس کی مخالف سمت موڑ دیا۔ وہ نہ جانے کیوں نہایت خاموشی کے ساتھ بالکل مشینی انداز میں اس سمت جانے لگے جہاں وہ تینوں ان کو لے جانا چاہتے تھے۔ یہاں بھی سیمنٹ سے بنی خوبصورت میز کے گرد سیمنٹ سے ہی بنی بینچیں تھیں جس پر ایسی فنکاری کی گئی تھی جیسے وہ سب اعلیٰ قسم کی لکڑی سے تیار کی گئی ہوں۔
چوہدری صاحب کے ساتھ جب وہ سب بیٹھ گئے تو چوہدری صاحب نے کہا کہ تم لوگوں نے انھیں ڈرائینگ روم سے باہر آنے کا کہنے کے بعد یہاں تک آنے کا کیوں کہا۔
کمال نے کہا کہ آپ بس اتنا بتا دیں کہ آپ نے ہمیں خود بلایا تھا یا کسی نے کہا تھا کہ وہ ہم تینوں کو اپنے پاس بلائیں۔
نہیں کسی نے ایسا نہیں کہا تھا۔
در اصل میں کل سے آج تک ایک بات آپ لوگوں سے کہنا چاہتا تھا لیکن کسی خوف نے مجھے ایسا کہنے سے روک دیا تھا لیکن جب مجھے معلوم ہوا کہ آپ اس مقام پر بھی رکے ہیں جہاں ایک مقتول کا خون موجود ہے تو پھر یہ ضروری ہو گیا تھا کہ میں آپ کے سامنے وہ بات رکھوں جو مجھے رات رات بھر نہیں سونے دیتی۔ چوہدری ایاز علی نے اپنے بیان کو جاری رکھتے ہوئے تینوں کو جیسے چونکا کر رکھ دیا۔
بس یہی وجہ تھی کہ ہم آپ کو آپ کے ڈرائنگ روم سے نکال کر یہاں لے کر آئے ہیں اور ہم نے لان کے اس حصے کی جانب بھی آپ کو نہیں جانے دیا جہاں کل ہم سب وہاں موجود تھے۔
ایسا کیوں؟ چوہدری صاحب نے کہا۔
کیا آپ یہ بتانا پسند کریں گے کہ آپ تک یہ اطلاع کس نے پہنچائی کہ ہم وہاں بھی گئے تھے جہاں مقتول کے خون کے نشانات ہیں۔ جمال نے سوال کیا۔
مجھے اندازہ ہو رہا ہے کہ تم تینوں ہو تو کم عمر لیکن عقل کسی بھی کہنہ مشق جاسوسوں سے کم نہیں۔ کل بھی مجھے تم لوگوں سے بات چیت کے دوران ایسا ہی خیال آ رہا تھا۔ بہر کیف اب تم نے پوچھ ہی لیا ہے تو مجھے یہ بتانے میں کوئی عار نہیں کہ کہ مجھے فون پر سینٹرل جیل حکام ہی کی جانب سے ملی تھی۔ جب پہلی بار وہ اس جگہ کا معائینے کرنے آئے تھے اور اس جگہ کو محفوظ رکھنے کے لیے اس کے چاروں جانب اینٹیں لگانے نے اور چونے کی مدد سے دائرہ کھینچنے کے بعد ہدایت کر گئے تھے کہ یہاں ان کی اجازت کے بغیر کبھی کوئی اور نہ آئے۔ چوہدری ایاز علی نے بتا یابات پولیس کے احکامات کی نہیں ہو رہی، ہم بصد احترام یہ جاننا چاہتے ہیں کہ ہماری وہاں موجودگی کا علم جیل حکام کو ہوا تو کیسے ہوا۔ جمال نے پھر سوال کیا۔
کچھ دیر کے لیے چوہدری صاحب جیسے سوچ میں پڑ گئے ہوں۔ پھر خود ہی سے جیسے گویا ہوئے ہوں کہ یہ بات خود انھوں نے کیوں نہیں سوچی۔ پھر جیسے وہ چونک سے پڑے ہوں جیسے چند سیکنڈ قبل وہ ذہنی طور پر وہاں موجود نہیں رہے ہوں اور جیسے ہی واپس آکر ان کی نظر ان تینوں پر پڑی ہو تو وہ ان تینوں کو اپنے سامنے دیکھ کر چونک جانے پر مجبور ہو گئے ہوں۔ زمین کے وزٹ سے واپس آنے کے بعد چوہدری صاحب کے چہرے پر پریشانی کے آثار وہ پہلے ہی دیکھ چکے تھے اور پریشانی کی وجہ دریافت کرنے پر ان کی وضاحت کے اوپری پن کو محسوس کرنے کے بعد وہ پہلے ہی بہت کچھ سمجھ چکے تھے اس لیے اس پر مزید بات کرنے کی بجائے جمال نے چوہدری صاحب سے کہا کہ بس اسی لیے ہم آپ کو ڈرائینگ روم سے نکال کر یہاں لائے اور آپ کو لان کے اس حصے کی جانب بھی نہیں جانے دیا جہاں ہماری پہلی ملاقات ہوئی تھی۔
مزید بات جاری رکھتے ہوئے جمال پھر بولا کہ جب آپ کو ہمارے اس جگہ جانے کی اطلاع مل سکتی ہے جہاں پولیس حکام نے جانے سے سختی سے منع کیا ہوا ہے تو کیا ہماری رہائشی عمارت، آپ کا ڈرائنگ روم اور لان کا وہ حصہ جس میں ہماری آپ سے پہلی ملاقات ہوئی تھی، ان کے جدید آلات سے مزین نہیں ہو سکتا۔ بھروسہ تو اس جگہ کا بھی نہیں لیکن پھر بھی ایک امکان ضرور ہے کہ شاید یہاں کی جانے والی بات چیت کو کہیں اور نہ سنا جا سکتا ہو۔(جاری ہے)