شہزادی زیب النساء اورچنکی دیو

40

’’ہا ہا ہا۔۔۔ہا ہا ہا ۔‘‘
’’میں تمھیں کھا جائوں گا۔‘‘
’’تم بہت صحت مند ہو۔‘‘
’’ہا ہا ہا۔۔۔۔ہا ہا ہا۔ ‘‘
ــ’’ کافی دنوں سے کسی انسان کو نہیں کھایاہے۔‘‘
کالے اوربدصورت چنکی دیو نے لمبے لمبے پیلے دانت نکالتے ہوئے خود کلامی کی تو عمرو عیار کے چہرے کے رنگ بدلنا شروع ہو گئے۔
چنکی دیو آہستہ آہستہ قریب آ رہا تھا اور عمرو عیار خوف زدہ دکھائی دے رہا تھا کہ اُسے مرنے سے کوئی نہیں بچا سکتا تھا۔
عمرو عیار سے بڑھ کراورکون چالاکی دکھا سکتا تھا۔
عمر و عیار بہترین اداکاری کرکے چنکی دیو کو سمجھا رہا تھا کہ وہ مرنے سے ڈرتا ہے۔
’’پیچھے تو دیکھو۔‘‘
’’پیچھے تو دیکھو۔‘‘
’’پیچھے تو دیکھو۔‘‘
عمرو عیار نے خوف زدہ لہجے میں چنکی دیو سے کہا۔چنکی دیو نے مڑ کر دیکھا تو اُس کے قدم وہیں جم کررہ گئے۔
اُس کی نظریں دھوکہ نہیں کھا رہی تھیں ۔
وہ واقعی ٹارزن کو اپنے دیس میں دیکھ رہا تھا۔جنگل کا بے تاج بادشاہ اب کوہ قاف میں موجود تھا۔
پریوں کے دیس میں ٹارزن اورعمرو عیار کی آمد کسی خطرے سے خالی نہیں تھی۔
چنکی دیو نے دیکھ لیا تھا کہ ایک پنجرہ ٹارزن کے ہاتھ میں ہے اور اُس پنجرے میں موجود سرخ طوطے میں اُس کی جان تھی۔
چنکی دیو کی زندگی میں آنے والے اگلے لمحات بہت قیمتی ہو چکے تھے۔
…٭…
شہزادی زیب النساء کو چنکی دیو نے اغوا کرلیا تھا۔جس روز یہ واقعہ ہوا تھااُس دن شہزادی زیب النساء چولستان کے جنگل میں کالے ہرن کے شکار کے لیے گئی ہوئی تھی۔
جب شاہی محل میں خبر پہنچی تو کہرام مچ گیا َ۔
جس کے بعد عمرو عیار اورٹارزن کو شہزادی زیب النساء کی واپسی کے لیے درخواست کی گئی۔عمرو عیار اپنی ذہانت اورٹارزن بہادری کی بنا پر شہرت رکھتے تھے۔ اس لیے انھوں نے فیصلہ کیا کہ وہ پریوں کے دیس ’’ کوہ قاف ‘‘ جائیں گے اور شہزادی زیب النساء کو زندہ سلامت واپس لائیں گے۔
نجومی بہرام نے حساب کتاب کرکے بتا دیا تھا کہ چنکی دیو کی موت کس طرح سے ممکن ہوگی۔
سات دن کے مسلسل سفر اور سات راتیں جاگنے کے بعد ٹارزن اور عمرو عیار ’’ کوہ قاف‘‘ پہنچ گئے تھے۔
انھوں نے کوہ قاف میں داخلے سے قبل تہجد کی نمازادا کی۔
وہ دونوں ایک تبلیغی جماعت کی بدولت مسلمان ہو چکے تھے اوراب کسی بھی مشکل مہم سے قبل نفل نماز ادا کرنا اپنا معمول بنا چکے تھے۔
…٭…
جوں ہی چنکی دیو نے ٹارزن کی طرف دیکھنا شروع کیا ۔عمرو عیار نے اپنے منصوبے پر عمل کرنے کا سوچا۔
اُسے علم ہو چکا تھا کہ چنکی دیوکی ساری طاقت سرپر لگے سینگوں میں ہے۔
اگر وہ ٹوٹ گئے توپھر چنکی دیو سے لڑنا آسان ہو جائے گا۔
عمروعیار نے عیاری سے کام لیتے ہوئے چنکی دیو کو ٹارزن کی جانب دیکھنے پر مجبور کر دیا تھا۔
عمرو عیار رفتہ رفتہ چنکی دیوکے قریب پہنچ رہا تھا۔
ٹارزن اور چنکی دیو کی گفتگو جاری تھی۔
’’یہ پنجرہ مجھے واپس کر دو، جو کہو گے وہی کر وں گا۔‘‘چنکی دیو نے ٹارزن سے کہا۔
’’تم شہزادی زیب النساء کو چھوڑ دو۔ ہم واپس چلے جائیں گے۔‘‘ٹارزن نے جواب دیا۔
’’وہ میری قید میں ہے۔ اب تم بھی میری دسترس میں آجائو گے ۔ہا ۔۔۔ہا ۔۔۔ہا۔‘‘
چنکی دیو نے ہنسنا شروع کیا۔ لیکن اُس کی ہنسی ادھوری رہ گئی تھی کہ عمرو عیار نے تیزدھار خنجر سے ایسا وار کیا تھا کہ دائیں سینگ کا آدھا حصہ کٹ کر نیچے گر گیا۔
چنکی دیو کو جب یہ محسوس ہوا کہ اس کی آدھی طاقت ختم ہو گئی ہے ۔
اُس نے ٹارزن سے پنجرہ چھیننے کی کوشش کی لیکن ٹارزن نے پنجرہ فوراََ عمرو عیار کی طرف اچھال دیا اورچنکی دیو کو دبوچ لیا۔دوسری طرف عمرو عیار نے پنجرے سے سرخ طوطا نکال لیا اورپھرچنکی دیو سے شہزادی زیب النساء کا پوچھا کہ اُسے کہاں قید کیا ہوا ہے۔
پہلے پہل چنکی دیو نے انکار کیا۔
پھر اُس کی جان پر بن آئی ،جب عمرو عیار نے سرخ طوطے کی گردن کو دبوچنا شروع کیا تو چنکی دیو کو یوں محسوس ہوا ،جیسے اُس کا سانس رک رہا ہے ۔اُس نے ہاتھ کے اشارے سے عمرو عیار کو روکا اورکراہتے ہوئے قیدخانے کی جگہ بتا دی۔
ٹارزن نے چنکی دیو کی بات پر اعتبار نہیں کیا اوراُسے ساتھ لے کر اُس مقام پر پہنچے ،جہاں شہزادی زیب النساء قید تھی ۔ٹارزن اورعمرو عیار نے شہزادی زیب النساء کو ساتھ لیا اورچنکی دیو سے کہا کہ وہ کوہ قاف سے باہر نکلنے والے راستے کی طرف چلے۔
چنکی دیو بے بس ہو چکا تھا ۔
اُس کے پاس ٹارزن کی بات ماننے کے سوا کوئی اورچارہ نہیں تھا۔ٹارزن اورعمرو عیار نے سوچے سمجھے منصوبے کے تحت شہزادی زیب النساء کو پہلے کوہ قاف کی حدود سے باہر نکالا اورپھردونوں خود بھی کوہ قاف کی دنیا سے باہر آگئے ۔
اس دوران سرخ طوطے والا پنجرہ چنکی دیو نے حاصل کرلیا تھا۔ٹارزن اورعمرو عیار نے چنکی دیو کی شرارت کی سزا اُس کی آدھی طاقت ختم کرکے دی تھی۔اس لیے جان بخشی کرتے ہوئے پنجرہ بمعہ طوطا واپس کر دیا۔
شہزادی زیب النساء کے شاہی محل پہنچتے ہی جشن منایا گیا۔
جس میں ٹارزن اورعمرو عیار کو شرکت کا موقع ملا اورخوب انعام و اکرام سے بھی نوازا گیا۔

حصہ