نعمت خانہ

75

’’امی! کل میرا آخری پرچہ تھا، تیاری بھی بھرپور تھی مگر ٹی وی پر خبر آئی ہے کہ کل ہڑتال ہے۔‘‘ رضا نے نہایت افسوس کے ساتھ ماں کو بتایا۔

’’اوہو…! پرسوں اتوار ہے، اب دو دن بعد پرچہ ہوگا، میں تو سوچ رہی تھی کہ کل تم پرچہ دے کر آؤ تو ہم سب نانو کے گھر چلیں گے اور ایک دن رہ کر آئیں گے۔‘‘ صائمہ بھی یہ خبر سن کر افسردہ ہوگئی۔

روز روز کے احتجاج اور ہڑتالوں نے صائمہ کو بہت کچھ سوچنے پر مجبور کردیا تھا۔ اُس کے بچپن میں تو دور دور تک کسی احتجاج اور ہڑتال کا ذکر نہیں تھا۔ کیا دن تھے کہ اس کے بابا صبح اپنے کام پر نکل جاتے اور امی گھر کے کاموں میں لگ جاتیں، اور چھ بہن بھائی اپنے اپنے اسکول کی راہ لیتے۔ ناشتے میں سب کے لیے امی پراٹھے بناتی تھیں اور ایک ایک اٹھنی سب کو اسکول کے لیے ملتی تھی، جس سے کبھی بھٹے، کبھی بن کباب اور کبھی چھولوں کی چاٹ کھائی جاتی تھی۔

اسکول گھر سے دو میل دور تھا، پیدل جانا اور آنا ہوتا تھا، نہ تو ٹریفک اتنا بے ہنگم تھا کہ اسکول کے بچے سڑک پار نہ کرسکیں، اور نہ ہی اغوا کاروں اور دہشت گردوں کا خوف تھا۔ آرام سے موسم کی سختی سے بے نیاز اپنے سنگی ساتھیوں کے ساتھ سفر طے ہوجاتا تھا۔

گھر پر امی نے جو دال سبزی بنائی ہوتی تھی وہ خوب رغبت سے کھاتے تھے، دونوں وقت ایک ہی سالن ہوتا مگر مجال ہے کہ کسی کے ذہن میں باہر سے تکہ یا کباب منگوانے کا خیال بھی آئے۔ کیوں کہ اُس وقت باہر کے کھانوں کا رواج ہی نہ تھا۔ ہوٹل پر صرف وہی لوگ کھانا کھاتے تھے جن کے گھر شہر میں نہیں تھے… فاسٹ فوڈ، پاستا اور پیزا کس بلا کا نام ہے کوئی جانتا ہی نہ تھا۔

ہر گھر میں ایک نعمت خانہ ضرور ہوتا تھا جس کی دیواریں جالی کی ہوتی تھیں۔ اس میں رات کا بچا ہوا کھانا، دودھ، دہی اور پھل رکھے جاتے تھے۔ نعمت خانے میں اللہ کی عطا کردہ نعمتیں کچھ زیادہ وقت کے لیے محفوظ ہوجاتی تھیں۔ فریج بھی کسی کسی کے گھر میں آچکا تھا مگر اُس وقت اسٹیٹس کی دوڑ اتنی شدید نہیں تھی کہ لوگ اپنے وسائل سے تجاوز کرکے اس مشین کو حاصل کرنے کی دھن میں لگ جاتے۔ زیادہ تر نعمت خانے یا چھینکے سے ہی کام چلایا جاتا تھا۔

ٹی وی بھی جب نیا نیا آیا تو شام سات بجے ’’فرمانِ الٰہی‘‘ سے شروع ہوکر رات دس بجے قومی ترانے پر اختتام پذیر ہوجاتا۔ لوگ جلدی سوتے اور فجر میں تازہ دم اٹھتے۔ آج کی طرح نہیں کہ رات رات بھر ٹی وی دیکھ کر راتیں کالی کی جاتی ہیں اور صبح دیر سے اٹھنے کے باوجود سارا دن تھکن ہی رہتی ہے۔

صائمہ لائٹ جانے پر حال کی دنیا میں واپس آئی تو خیال آیا کہ یہ لوڈشیڈنگ کی وبا بھی اُس وقت نہیں تھی۔ ہاں کبھی کبھار لائٹ چلی بھی جاتی تھی مگر کھلے صحن میں ٹھنڈی ہوا میں چارپائیوں پر سب گھر والے مل بیٹھ کر گفتگو اور ہنسی مذاق کرتے، اور وقت بآسانی گزر جاتا، اور موبائل نہ ہونے کی وجہ سے آپس میں بات چیت اور روزمرہ کے واقعات کا تذکرہ بھی لازمی ہوتا۔

ماں باپ بڑھاپے میں تنہا نہ ہوتے تھے، اُس وقت والدین کو چھوڑ کر دیارِ غیر جانے کا رواج بھی نہ تھا۔ اخلاقی قدریں انتہائی مضبوط تھیں، والدین کے علاوہ دُور کے رشتے داروں تک کی خبر گیری کی جاتی تھی… مگر آہ! صائمہ کی آنکھوں کے آگے اپنے بزرگ والدین اور اکلوتا بھائی آگیا، جسے امریکا گئے نو سال گزر چکے ہیں اور وہ پلٹ کر ایک دفعہ بھی نہیں آیا۔ دو آنسو خاموشی سے اس کے دوپٹے میں جذب ہوگئے۔

موسم کا ہر پھل وافر مقدار میں گھر آتا، سردیوں میں خشک میوے کھانا بھی کچھ مشکل نہ تھا۔ ایسا نہ تھا کہ چلغوزوں کی شکل دیکھنا بھی مشکل ہوجائے، حالانکہ ہم لوگ کچھ ایسے امیر بھی نہ تھے مگر موسم کی ہر سوغات سے لطف اندوز ہوتے تھے۔

صائمہ آخر اس نتیجے پر پہنچی کہ بے شک اُس زمانے میں زیادہ آسائشیں میسر نہ تھیں مگر وہ دور قناعت اور اعلیٰ ظرفی کے لحاظ سے آج کے دور سے بہتر تھا۔ اب تو بغیر کسی مقصد کے صبح ہوتی ہے، شام ہوتی ہے اور عمر یونہی تمام ہوتی ہے۔ بس کولہو کے بیل کی طرح ہم سب چکر کھا رہے ہیں اور اپنی گم گشتہ جنت کو تلاش کررہے ہیں۔

حصہ