نام کتاب: ’’عکسِ ذات ‘‘
مصنفہ: عقیلہ اظہر
پبلشر: مکتبہ خواتین میگزین، منصورہ ملتان روڈ،لاہور
قیمت: 500روپے
تبصرہ: قانتہ رابعہ
محترمہ عقیلہ اظہر اصلاحی ادب کے حوالے سے پرانا اور معتبر نام ہے، میں نے مطالعے کا آغاز کیا تو گنتی کے چند ناموں میں ایک نام عقیلہ اظہر کا بھی تھا۔ مجھے ان کی تحریر کی سادگی، شستگی اور فطری پن نے ہمیشہ مسحور کیے رکھا۔ عقیلہ اظہر نے کم کم ہی لکھا مگر جب بھی لکھا، خوب لکھا۔ بلاشبہ وہ اُن معدودے چند لکھنے والوں میں شامل ہیں جن کا لکھا ناقابلِ فراموش ہوتا ہے۔
’’عکسِ ذات‘‘ ایک طرح سے مختلف النوع تحریروں کا مجموعہ ہے جس میں افسانے بھی ہیں، انشائیے اور آپ بیتیاں بھی، لیکن سچ پوچھیں تو ان کے افسانے بہترین، انشائیے عمدہ اور ان کی اپنی زندگی کے بارے میں یادداشت قاری کو چاروں طرف سے جکڑ لیتی ہے۔
ان کی زندگی کے بارے میں جو دو، تین مضامین کتاب میں شامل ہیں اُن میں افسانے کی سی دل چسپی اور انشائیے کی روانی ہے۔
قاری بے اختیار اُس دور میں پہنچ جاتا ہے جس کی وہ عکاسی کرتی ہیں اور وہ دور مجسم شکل لیے واضح دل نشیں انداز میں تصویر بن کر سامنے آجاتا ہے۔ وہی سادگی اور اخلاص کا پیکر لوگ، محبتوں کی فراوانی اور میل جول سے رہنا۔
مجھے ذاتی طور پر ان کی تمام آپ بیتیاں پسند آئیں اور میرا دل چاہ رہا ہے کہ میں ان سے فرمائش کروں کہ سب کام دھندے چھوڑ کر بس اُس زمانے کی یادیں آنے والی نسلوں کے سپرد کریں جو ماضیِ بعید تو نہیں لیکن تیزی سے بدلتے حالات نے اسے قصہ پارینہ بنا دیا ہے۔
قارئین! اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ عقیلہ اظہر کے افسانے یا ہلکے پھلکے مضامین افسانوں سے کم ہیں۔ ہرگز نہیں۔ وہ افسانوں میں بہت بڑی بات ہلکے پھلکے انداز میں چلتے پھرتے یوں آسانی سے کہہ دیتی ہیں کہ پڑھنے والا ہکا بکا رہ جاتا ہے۔ ان کے افسانوں میں عام گھریلو موضوعات بھی ہیں اور معاشرے کے سنگین مسائل بھی۔
’’سہہ لے گی ماں‘‘، ’’شوق کا بار اوپر والوں کے نام‘‘ وغیرہ… یہ وہ افسانے ہیں جو انتہائی سفاک اختتامیہ رکھتے ہیں، لیکن عقیلہ اظہر کے قلم کی خوبی یہ ہے کہ وہ قلم کو تیز دھار والی تلوار کے بجائے مسیحا کا نشتر رکھتی ہیں، اس لیے افسانوں کے اختتام بوجھل محسوس نہیں ہوتے۔
’’پہلے امی‘‘ گو کہ بہت نازک موضوع پر لکھا ہے لیکن انجام متوقع ہونے کی وجہ سے فطری لگتا ہے۔ ’’عکسِ ذات‘‘خوب صورت افسانہ ہے جو ظاہری شخصیت کے صاف ستھرا ہونے کا عملی زندگی کی صفائی ستھرائی ہونے کو لازم قرار دینے والوں کے منہ پر طمانچہ ہے۔
’’شکار‘‘ اور ’’نیوٹریشن، ہائی جین‘‘ عورت کی نفسیات کی بہترین عکاسی کرتے ہیں، جب کہ ’’خمیازہ‘‘ رزائل اخلاق میں سرفہرست غصے جیسی عادت کے بدترین بلکہ بھیانک انجام کی کہانی ہے۔
کہتے ہیں نام کا شخصیت پر گہرا اثر ہوتا ہے، یہ بات ان کو جاننے والوں سے معلوم کی جائے تو سو فیصد متفق ہوں گے۔ ان کی شخصیت کی بہت سی خوبیاں ان کی تحریر میں نمایاں ہیں۔
وہ بہت باکمال آرٹسٹک ذہن رکھتی ہیں۔ دھیمے مزاج کی مدبر اور نفیس خاتون، جن کا دل انسانیت کی محبت سے بھرا ہوا ہے۔ یہی انسانیت سے محبت، معاشرے میں موجود برائیوں سے اپنے حلم اور قلم سے نبرد آزما ہونا، باتوں ہی باتوں میں گھر گرہستی کے طور طریقے سمجھانا اور کمالِ عمدگی سے سمجھانا… یہ مصنفہ کا اضافی ہنر ہے۔
ان کے عقائد کی مضبوطی کی جھلک افسانے ’’چیلنج‘‘ میں دیکھی جاسکتی ہے۔ خواتین کے لیے 70ء کی دہائی میں اصلاحی ادب کی نمائندہ ادیبوں میں محترمہ ام زبیر بہت بڑا نام تھا۔
’’مہک اخلاص و الفت کی‘‘ ام زبیر کی بے مثال اور ہمہ جہت شخصیت کی پَرتوں کو کھولنے کی کہانی ہے، ایسے کردار جو ماضی کا حصہ بن چکے ہیں لیکن ہر کردار اپنی ذات میں انجمن تھا جس کے بارے میں آج کی نسل کچھ نہیں جانتی۔ میں سمجھتی ہوں یہ قرض ہے جو ادا ہونا چاہیے اور عقیلہ اظہر صاحبہ کو ان سب کے بارے میں خاکے لکھنے چاہئیں۔ میری پیش گوئی ہے کہ ان کا قلم بہترین اور بے مثال خاکے تخلیق کرے گا۔ اسی طرح قیصر آپا کے بارے میں تحریر بہت سبق آموز اور ایمان افروز ہے۔
کتاب کی طباعت عمدہ، قیمت انتہائی مناسب اور کاغذ ستھرا، سرِورق حسین اور رائے دینے والوں نے حق ادا کیا ہے۔ میں ناشر اور مصنفہ دونوں کو دلی مبارک باد پیش کرتی ہوں۔ نگار سجاد صاحبہ نے صحیح تجزیہ کیا ہے کہ ’’یہ کتاب ایک گل دستہ ہے‘‘۔
میں اس میں اضافہ کرتی ہوں کہ اس گل دستے کا ہر پھول دوسرے سے منفرد اور خوب صورت ہے جس کی خوشبو تادیر قاری کے دل و دماغ میں بسی رہتی ہے۔