امریکا میں انتخابات نومبر میں منعقد ہورہے ہیں جن پر دنیا کی نظر ہے۔ ہم امریکا کے انتخابات، اہم شخصیات ،ایشوز ، وہاں کے نظام اور اس کے عالمی اثرات پر روشنی ڈالنے کے لیے ایک خصوصی سلسلہ شروع کیا ہے۔ اس سلسلے میں ہر ہفتے امریکا میں مقیم معروف تجزیہ نگار مسعود ابدالی کے مضامین ”سنڈے میگزین“ میں شایع کیے جارہے ہیں۔ ان مضامین کے ذریعے قارئین کو عالمی تناظر میں امریکی سیاست کو سمجھنے اور اہم معاملات کی تفہیم حاصل کرنے کا موقع ملے گا۔آپ کے تبصروں اور آراء کا انتظار رہے گا۔
سارے امریکا میں قبل از وقت یا earlyووٹنگ کا آغاز ہوچکا ہے۔ اس بار فیصلہ کن یا swing ریاستوں میں ووٹ ڈالنے کا رجحان زیادہ نظر آرہا ہے۔ ریاست جارجیا میں پہلے دو دن کے دوران 15 لاکھ رائے دہندگان نے اپنے ووٹ بھگتا لیے۔ چار سال پہلے یہاں کُل 24 لاکھ 74ہزار ووٹ ڈالے گئے تھے۔ تقریباً ہر ریاست میں اِس بار یہی حال ہے۔
سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ اقتصادی خرابیوں اور غیر قانونی تارکین وطن کا خوف دلاکر ووٹ مانگ رہے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ امریکا کو میکسیکو کی سرحد پر تارکینِ وطن کی شکل میں جارحیت کا سامنا ہے۔ ساری دنیا سے جرائم پیشہ افراد اور منشیات فروش امریکا آرہے ہیں جس کی وجہ سے شہری سہولتیں دبائوکا شکار ہیں۔ یہ تارکینِ وطن بازار سے بہت کم اجرت پر کام کو تیار ہیں، اس لیے امریکیوں کی بے روزگاری کی شرح بڑھتی جارہی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ گنوار تارکینِ وطن امریکی شہریوں کے پالتو کتے اور بلیاں ذبح کرکے کھا رہے ہیں۔ رئوسائے شہر نے اس بات کی سختی سے تردید کی ہے لیکن جناب ٹرمپ یہ الزام ہر جگہ دہرا رہے ہیں۔
کملا ہیرس کی مہم کا بنیادی نکتہ اسقاطِ حمل ہے۔ کچھ عرصہ پہلے صدر ٹرمپ کے تعینات کردہ سپریم کورٹ کے ججوں نے استقاطِ حمل کا معاملہ ریاستوں کے حوالے کردیا جس کے بعد ریپبلکن گورنروں کے زیرانتظام ریاستوں میں اسقاطِ حمل غیر قانونی اور اسے قتل جیسی واردات کا درجہ دے دیا گیا ہے۔ خواتین کے لیے یہ پابندیاں قابلِ قبول نہیں۔ ایک جائزے کے مطابق امریکا کی 56 فیصد خواتین ’’میرا جسم میری مرضی‘‘ کی قائل ہیں، اور اُن کے خیال میں اسقاط پر پابندی خواتین کے بنیادی حقوق کی خلاف ورزی ہے۔ اسی بنا پر خواتین میں کملا ہیرس کی مقبولیت بڑھ رہی ہے جس کا اعتراف خود ڈونلڈ ٹرمپ بھی کررہے ہیں۔ ایک انتخابی جلسے سے خطاب کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ ’’امریکی خواتین مجھ سے پیار کرتی ہیں لیکن اسقاط کے معاملے پر اُن کے تحفظات مجھے نقصان پہنچا رہے ہیں۔‘‘
کملا ہیرس، ڈونلڈ ٹرمپ سے ناراض ریپبلکن پارٹی کے حامیوں سے بھی رابطے میں ہیں۔ گزشتہ دنوں ریپبلکن پارٹی کی سینئر رہنما اور سابق نائب صدر ڈک چینی کی صاحب زادی لز چینی نے ان کے لیے ریپبلکن پارٹی کے حامیوں کا ایک اجتماع منعقد کیا جس میں لزچینی صاحبہ نے ’’محب وطن‘‘ ریپبلکن ارکان پر زور دیا کہ وہ پارٹی وابستگی سے بالاتر ہوکر ریاست کو جماعت پر ترجیح دیں۔ جناب ٹرمپ نیٹو کے بارے میں بہت زیادہ پُرجوش نہیں۔ اس کے علاوہ قدامت پسندوں کا خیال ہے کہ وہ روس اور شمالی کوریا کے لیے نرم گوشہ رکھتے ہیں۔ جناب ٹرمپ نے 2020ء کے انتخابات کے نتائج کو تسلیم نہیں کیا اور نتائج تبدیل کرنے کی کوششوں کے الزام میں اُن پر مقدمات بھی قائم ہیں۔ محترمہ لزچینی اور اُن کے ہم خیال ریپبلکن ان معاملات پر ڈونلڈ ٹرمپ کے شدید مخالف ہیں۔
ہرگزرتے دن کے ساتھ مقابلہ سخت ہوتا جارہا ہے۔ تازہ ترین جائزے کے مطابق سات میں سے تین فیصلہ کن ریاستوں میں ڈونلڈ ٹرمپ کو برتری حاصل ہے۔ تین میں کملا، ڈونلڈ ٹرمپ سے آگے ہیں، جبکہ نواڈا میں دونوں 49 فیصد کے ساتھ بالکل برابر ہیں۔ جارجیا اور اریزونا میں ڈونلڈ ٹرمپ کی برتری دو فیصد ہے، باقی ریاستوں مں فرق اتنا کم ہے کہ نتیجے کے بارے میں کچھ کہنا آسان نہیں۔ تاہم سیاسی پنڈتوں نے ڈونلڈ ٹرمپ کی کامیابی کی پیشگوئی شروع کردی ہے۔
سرگرمیوں میں تیزی آنے کے ساتھ زبانی جنگ بھی شدت اختیار کرگئی ہے۔ ٹرمپ صاحب کی بے ساختگی اور بذلہ سنجی نے نوک جھونک کو دلچسپ بنادیا ہے۔ کسی جلسے میں کملا ہیرس نے بتایا کہ دورانِ طالب علمی وہ میکڈونلڈ میں آلو کے قتلے المعروف French Fries تلا کرتی تھیں۔ یہ سن کر جناب ڈونلڈ ٹرمپ نے ہانک لگائی کہ یہ کام وہ اپنی حریف سے اچھا کرسکتے ہیں۔ اپنے دعوے کو درست ثابت کرنے کے لیے سابق صدر نے پنسلوانیا کے ایک میکڈونلڈ جاکر نہ صرف آلو کے قتلے تلے بلکہ Drive Thruکھڑکی پر آکر صارفین کو یہ کہہ کر دیے کہ ’’دیکھو میں کملا ہیرس سے اچھی فرنچ فرائز بناسکتا ہوں‘‘۔ جب ایک کرم فرما نے پوچھا ’’کیا آپ انتخاب جیت جائیں گے؟ تو جناب ٹرمپ بے دھڑک بولے ’’ہاں اگر شفاف ہوئے تو‘‘۔
اسرائیل کی غیر مشروط حمائت کی بنا پر مسلمانوں کی ڈیموکریٹک پارٹی سے دوری بڑھتی جارہی ہے۔ مشیگن، وسکونسن، جارجیا،پینسلوانیہ اور ایریزونا میں کملا ہیرس کی مہم سخت دباو میں ہے۔ محترمہ مسلمانوں سے رابطے میں تو ہیں اور نجی نشستوں میں اہل غزہ کی مشکلات پر تشویش کا اظہار بھی کردیتی لیکن سرکاری و عوامی سطح پر وہ اپنے موقف میں نرمی کو تیار نہیں
پیر 21 اکتوبر کو جب کملا ہیرس نے جامعہ واسکونسن، ملواکی میں خطاب کرتے ہوئے دعویٰ کیا کہ ان کی حکومت اعلیٰ تعلیم کے لیے بھاری سرمایہ کاری کررہی ہے تو فلسطینی کفیہ گلے میں ڈالے ایک نوجوان کھڑا ہوگیا اور بولا ‘جی نہیں آپ نے نسل کشی کے لیے سرمایہ کاری کی ہے آپ کی حکومت نے بچوں کے قتل عام کے لیے اسرائیل کو اربوں ڈالر دیئے ہیں’۔ کملا ہیرس نے تردید کرتے ہوئے کہا ہم غزہ میں فوری جنگ بندی کیلیے کام کررہے ہیں۔ پولیس نے اس لڑکے کو ہال سے نکال دیا۔ معاملہ یہاں تک رہتا تو بھی ٹھیک تھا۔ شام کو ایک بیان میں کملا ہیرس انتخابی مہم کے ترجمان نے وضاحت کی کہ ہیرس صاحبہ طالب علم کے اس الزام سے متفق نہیں کہ اسرائیل غزہ میں نسل کشی کررہا ہے۔
دوسرے دن جامعہ منیسٹوٹا، منیاپولس (University of Minnesota, Minneapolis) میں غزہ نسل کشی کے خلاف مظاہرہ کرنے والے درجنوں طلبہ گرفتار کرلیے گئے۔ ڈیموکریٹک پارٹی کے امیدوار برائے نائب صدارت ٹم والز اس ریاست کے گورنر ہیں۔
آپ مسعود ابدالی کی پوسٹ اور اخباری کالم masoodabdali.blogspot.comاور ٹویٹر Masood@MasoodAbdaliپربھی ملاحظہ کرسکتے ہیں۔