امریکی انتخابات :مغرور ہاتھی اور مجبور گدھا

51

امریکا میں انتخابات نومبر میں منعقد ہورہے ہیں جن پر دنیا کی نظر ہے۔ ہم امریکا کے انتخابات، اہم شخصیات ،ایشوز ، وہاں کے نظام اور اس کے عالمی اثرات پر روشنی ڈالنے کے لیے ایک خصوصی سلسلہ شروع کیا ہے۔ اس سلسلے میں ہر ہفتے امریکا میں مقیم معروف تجزیہ نگار مسعود ابدالی کے مضامین ”سنڈے میگزین“ میں شایع کیے جارہے ہیں۔ ان مضامین کے ذریعے قارئین کو عالمی تناظر میں امریکی سیاست کو سمجھنے اور اہم معاملات کی تفہیم حاصل کرنے کا موقع ملے گا۔آپ کے تبصروں اور آراء کا انتظار رہے گا۔

امریکی انتخابات کے لیے قبل ازوقت (early) ووٹنگ جاری ہے۔ گفتگو کے آغاز سے پہلے سرنامہِ کلام کی وضاحت:

جناب ڈونلڈ ٹرمپ کی ریپبلکن پارٹی کا امتیازی (انتخابی نہیں) نشان ہاتھی ہے، جبکہ کملا ہیرس کی ڈیموکریٹک پارٹی گدھے سے پہچانی جاتی ہے۔ ’قصرِ مرمریں‘ امریکی ایوانِ صدر المعروف وہائٹ ہائوس کا اردو مترادف ہے، عرب صحافیوں نے اس کا ترجمہ ’قصرِ الابیض‘ کیا ہے۔ امریکی کانگریس (پارلیمان) کی پہچان گنبد یا Rotunda ہے۔ ریاستی قانون ساز ایوانوں کی عمارتیں بھی گنبد سے مزین ہیں۔

انتخابی جائزوں کے مطابق مقابلہ خاصا سخت ہے، لیکن قبل از وقت ووٹنگ کے دوران جو جائزے آرہے ہیں اس سے لگتا ہے کہ گھمسان کی لڑائی والی ریاستوں میں جناب ڈونلڈ ٹرمپ کو معمولی سی برتری حاصل ہوگئی ہے۔ تاہم یہ فرق اتنا خفیف ہے کہ متوقع نتائج کے بارے میں کچھ کہنا ابھی قبل از وقت ہوگا۔

امریکا میں صدارتی نتائج کا فیصلہ انتخابی یا electoralووٹوں سے ہوتا ہے، جس کا تفصیلی ذکر ہم گزشتہ نشست میں کرچکے ہیں۔ اس بات پر تمام سیاسی پنڈت متفق ہیں کہ آنے والے انتخابات کا فیصلہ سات ریاستوں ایریزونا، جارجیا، مشی گن، شمالی کیرولائنا، نیواڈا، پینسلوانیا اور وسکونسن میں ہونا ہے۔ ان ریاستوں کے مجموعی انتخابی ووٹ 94 ہیں۔ چار سال پہلے صدر بائیڈن نے شمالی کیرولائنا کے سوا یہ تمام کی تمام ریاستیں جیت کر 79 انتخابی ووٹ اپنے نام کرلیے تھے۔ ان 6 ریاستوں میں مسلمان ووٹروں نے صدر بائیڈن کی کامیابی میں کلیدی کردار ادا کیا۔ جناب بائیڈن کو 2020ء میں پورے ملک سے 306 اور ڈونلڈ ٹرمپ کو 232 انتخابی ووٹ ملے تھے۔

مسلمان غزہ نسل کُشی کے لیے اسرائیل کی سہولت کاری پر بائیڈن اور کملا ہیرس سے پہلے ہی ناراض تھے، اور اب لبنان پر وحشیانہ بمباری نے جلتی پر مزید تیل چھڑک دیا۔ ایران کے خلاف اسرائیلی کارروائی اب دنوں کی بات معلوم ہورہی ہے اور اس میں عملی معاونت کے لیے واشنگٹن نے جدید ترین دفاعی نظام THAAD کے 6 یونٹ کے ساتھ سو سے زیادہ تجربہ کار امریکی ماہرین اسرائیل بھج دیے ہیں۔ ٹھاڈ کے ان چھ یونٹوں کی مجموعی لاگت 138 ارب ڈالر اور حملہ آور میزائلوں کو روکنے کے لیے ٹھاڈ سے جو گولے یا Interceptorsداغے جاتے ہیں ان کے ایک رائونڈ کی قیمت 25 لاکھ ڈالر ہے۔ مسلمانوں کی ناراضی سے کملا ہیرس پریشان تو ہیں لیکن ہونٹوں پر اسرائیل نواز امریکی میڈیا اور ترغیب کاروں (Lobby)کے خوف کا تالا لگا ہے۔

ریت بن کر مری مٹھی سے پھسل جاتی ہے
اب محبت بھی سنبھالی نہیں جاتی مجھ سے

گزشتہ ہفتے عرب امریکی سیاسی مجلس عمل یا AAPACنے اپنے اجلاس میں دونوں بڑی جماعتوں کو مسترد کردیا۔ بیٹھک کے بعد جاری ہونے والے بیان میں کہا گیا ہے کہ ’’اس سال دونوں بڑی پارٹیوں کے امیدوار امریکا میں عرب و مسلم برادریوں اور آبائی علاقوں میں ہمارے خاندانوں اور دوستوں کو نقصان پہنچا رہے ہیں۔ ہم ڈیموکریٹ کملا ہیرس یا ریپبلکن ڈونلڈ ٹرمپ میں سے کسی کو بھی اپنا ووٹ نہیں دے سکتے جو وزیراعظم نیتن یاہو اور مجرم انتہا پسند اسرائیلی حکومت کی اندھا دھند حمایت پر کمربستہ ہیں‘‘۔

رائے عامہ کے تازہ ترین جائزوں کے مطابق ایریزونا اور جارجیا میں ڈونلڈ ٹرمپ کی برتری بہت واضح ہے۔ ان دو ریاستوں میں شکست کے باوجود بھی کملا ہیرس کے انتخابی ووٹوں کی مجموعی تعداد 279 ہوگی جو کامیابی کے نشان 270 سے زیادہ ہے۔ لیکن اگر وہ نیواڈا، پینسلوانیا، وسکونسن اور مشی گن میں سے ایک بھی ریاست ہار گئیں تو معاملہ چوپٹ ہوسکتا ہے۔ وسکونسن اور مشی گن میں مقابلہ بہت سخت ہے جہاں مسلمانوں کی اکثریت ڈاکٹر جل اسٹائن کے نام پر ٹھپہ لگانے کے لیے پُرعزم نظر آتی ہے۔ مسلمانوں کو قانونی مدد فراہم کرنے والے رفاہی ادارے CAIRکے مطابق مشی گن کے صرف 12 فیصد مسلمان کملا ہیرس کے حامی ہیں۔

قبل ازوقت انتخابات میں اِس بار غیر معمولی جوش و خروش نظر آرہا ہے۔ 15 اکتوبر کو جب جارجیا میں ووٹنگ کا آغاز ہوا تو پہلے ہی دن چار لاکھ افراد نے اپنا حقِ رائے دہی استعمال کیا۔ سیاہ فام علاقوں کے پولنگ اسٹیشنوں پر لمبی قطاریں بنی تھیں جو کملا ہیرس کے لیے حوصلہ افزا ہے۔

مسلمانوں کی ناراضی سے سینیٹ کے لیے بھی ڈیموکریٹک پارٹی کے امیدوار مشکل میں ہیں۔ وسکونسن میں سینیٹر ٹیمی بالڈون (Tammy Baldwin) صاحبہ کو اپنے ریپبلکن حریف کی طرف سے سخت مقابلہ درپیش ہے۔ کچھ ایسا ہی معاملہ مشی گن میں ہے جہاں اسرائیل نواز سینیٹر ایلیسا سلوٹکن (Elissa Slotkin) صاحبہ دبائو میں ہیں۔ محترمہ سلوٹکن خیر سے یہودی بھی ہیں، اس لیے مسلمانوں کے لیے مزید ناقابلِ قبول ہیں۔ پینسلوانیا کے سینیٹر باب کیسی (Bob Casey)کی نشست بھی قدرے غیر محفوظ نظر آرہی ہے۔ جناب کیسی 2006ء میں پہلی بار 59 فیصد ووٹ لے کر منتخب ہوئے، 2012ء میں انھوں نے 54 فیصد کے ساتھ اپنی نشست برقرار رکھی، اور 2018ء میں انھیں 55.7 فیصد ووٹ ملے۔ لیکن اِس بار فاضل سینیٹر کو ریپبلکن پارٹی کی جانب سے سخت مزاحمت کا سامنا ہے۔ جبکہ مغربی ورجینیا اور مونٹانا میں ڈیموکریٹک پارٹی کی شکست یقینی نظر آرہی ہے۔

اس وقت سینیٹ میں 51 ڈیموکریٹس کے مقابلے میں ریپبلکن کی تعداد 49 ہے۔ اگر وہ مونٹانا اور مغربی ورجینیا کے ساتھ مشی گن اور وسکونسن کی نشست جیتنے میں بھی کامیاب ہوگئے تو 100 رکنی سینیٹ میں ریپبلکن پارٹی کا پارلیمانی حجم 53 ہوسکتا ہے۔ مسلمانوں نے اب تک سینیٹ اور ایوانِ نمائندگان کے بارے میں فیصلہ نہیں کیا لیکن عام تاثر یہ ہے کہ ووٹر Top of The Ballotیعنی صدر کے لیے جس جماعت کو ووٹ دیتے ہیں دوسرے مناصب کے لیے بھی اُسی جماعت کے امیدواروں پر صاد کردیتے ہیں۔

جیسا کہ ہم نے پہلے عرض کیا، ڈونلڈ ٹرمپ کی برتری بہت خفیف اور فی الحال غیر فیصلہ کن ہے۔ اسقاطِ حمل کا معاملہ امریکی خواتین کے لیے بہت اہم ہے، اور کملا ہیرس کی مہم کا سارا زور ’’میرا جسم میری مرضی‘‘ پر ہے۔ ایک جائزے کے مطابق 36 فیصد خواتین کا کہنا ہے کہ ان کے لیے اسقاطِ حمل کی آزادی فیصلہ کن حیثیت رکھتی ہے۔ آنے والے دوہفتوں میں اگر کملا جی اس نکتے پر خواتین کو اپنے ساتھ ملانے میں کامیاب ہوگئیں تو وہ امریکی تاریخ کی پہلی غیر مسیحی خاتون صدر بن سکتی ہیں۔

آپ مسعود ابدالی کی پوسٹ اور اخباری کالم masoodabdali.blogspot.com اور ٹویٹر Masood@MasoodAbdali پربھی ملاحظہ کرسکتے ہیں۔

حصہ