سوچتی ہوں۔۔۔

108

وہ ہستی جو ہمارے دلوں میں رہتی ہے، ہمارے احساس میں رہتی ہے، ہمارے جذبوں میں رہتی ہے، ہمارے عمل میں رہتی ہے… ہم اس کا خوب ذکر کرتے ہیں۔ لیکن میں سوچتی ہوں اِسی زبان سے نام لیتے ہیں اس ہستی کا، اور اسی زبان سے جھوٹ بول لیتے ہیں، غیبت کرلیتے ہیں، گالی دیتے ہیں، ایک دوسرے کو طعنہ دیتے ہیں… کیسے ہوسکتا ہے ایسا؟

نبی صلی اللہ علیہ وسلم تو مہربان تھے، لیکن ان کے ماننے والے لوگوں پر رحم نہیں کرتے۔ حق معاف کرنا تو دور کی بات ہے، کوئی چھوٹی سی خطا بھی معاف نہیں کرتے۔ ٹریفک جام ہوجاتا ہے تو جو منہ میں آتا ہے کہہ جاتے ہیں… ہر ایک آگ بگولہ ہوجاتا ہے۔ وہ جو صبر کی مثال تھے ہم اُن کے ماننے والے صبر نہیں کرتے۔

وہ جو اخلاق کے بلند ترین مقام پر تھے ان کے چاہنے والے بداخلاقی کی ہر حد پار کر جاتے ہیں۔ ہر ایک سے جھگڑا… ہر کسی سے منہ زوری۔ نہ مسکرا کر درگزر… نہ پلٹ کر گلے لگانا۔

وہ جو اپنے دشمنوں کو معاف کرنے والے تھے، خون کے پیاسوں کا خون معاف کرنے والے تھے، اُن کے لیے چراغاں کرنے والے اعلیٰ اخلاق کی سب شمعیں بجھا کر خوش رہتے ہیں۔

وہ جو شرم و حیا کا پیکر تھے، اُن پر جان نثار کرنے کی باتیں کرنے والے اس پر ہی خوش رہتے ہیں کہ ہم تو آپؐ کے گنبدِ خضرا کے رنگ کے کپڑے پہنتے ہیں۔ اب یہ کون پوچھے کہ وہ کپڑے حیا دار ہیں یا نہیں؟

وہ جو وعدہ وفا کرنے کے لیے تین دن کھڑے انتظار کرتے رہے، اُن کے ماننے والے کہتے ہیں وہ وعدہ ہی کیا جو وفا ہوجائے؟ جانتے بوجھتے ہم جھوٹے وعدے کرلیتے ہیں… پتا نہیں کیوں!

میں سوچتی ہوں وہ جو بچوں سے پیار کرتے تھے، اُن پر فدا ہونے والے بچوں کو پیدا ہونے سے پہلے ہی مار دیتے ہیں کہ کم بچے ہی خوش حال گھرانے کا رستہ ہے… پھر چھوٹے بچوں سے جابرانہ سلوک۔

وہ جو خادموں کو اُف نہ کہتے تھے، آج اُن کے کہلائے جانے والے، خادموں کو غلام سمجھتے ہیں، بے عزت کرتے ہیں۔

وہ نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم جو لڑکیوں کو سنبھال کر رکھنے کا حکم دیتے تھے، اُن کو سب سے پہلے حصہ دیتے تھے، ہم آج ان کے آبگینوں کو ایک بوجھ سمجھتے ہیں… ان کی پیدائش پر مائوں کو طعنے دیتے ہیں… اُن سے شادی کے لیے ڈھیروں جہیز مانگتے ہیں… ماں کے گھر بیٹھے ہی اُن کے بالوں میں چاندی اتر آتی ہے… دفتروں میں، راستوں میں ان پر ہولناک نگاہیں اُٹھتی ہیں… جن کے لیے بل پاس ہوتے رہتے ہیں مگر انہیں کہیں امان نہیں ملتی۔

وہ جو بیویوں کو دن میں چھ چھ بار معاف کرتے تھے، اُن کا اچھا برا سنتے تھے، انہیں پیار سے دین سکھاتے تھے… آج ان کے ماننے والے بیویوں کو گالیاں دیتے، مارتے پیٹتے ہیں… غیرت کے نام پر ان کا قتل عام کرتے ہیں۔

جینے کی اجازت نہیں، مرنے نہیں دیتے
ظالم کسی رستے سے گزرنے نہیں دیتے

خود گھر میں بیٹھے رہتے ہیں اور بیویوں کی کمائی کھاتے ہیں۔ نشے کو حرام کرنے والے پیارے نبیؐ کے ماننے والے بیئر کے نام پر شراب خانے کھولتے ہیں۔

اے میرے پیارے نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم آپ پر دل و جان قربان… مگر سوچتی ہوں آپؐ سے سامنا کیسے کر سکوں گی؟

دل خون کے آنسو رونے لگتا ہے… پھر آواز آتی ہے:

ہم تیری یاد میں رو لیتے ہیں
اور کیا ہم سے عبادت ہو گی؟

وہ جو رہبر کامل تھے… پیکرِ محبت تھے… اُن کی چاہت کا دعویٰ کرنے والے ہیں مگر دل کِبر سے بھرے ہیں۔ عداوتوں، شکایتوں کے ڈھیر لیے پھر رہے ہیں۔ درگزر کرنے اور معاف کرنے کا تو کلچر ہی نہیں ہے۔ روٹھوں کو مناکر سینے سے لگانے کا فیشن نہیں… ماں باپ سے محبت پیار کہاں؟ بس شکوے ہی شکوے ہیں۔ جنہیں آپؐ نے اُف نہ کہنے کی ہدایت دی تھی، وہ آج ان پیاروں کے وجود سے بھی نالاں ہیں۔ زبان ہے کہ رکتی ہی نہیں۔ بحث بحثیاں رواں ہیں… اُف نہ کہنے والے نہ جانے کہاں ہیں؟

دل چاہتا ہے اپنے رب سے کہوں ’’یا اللہ میرا حساب کا وقت ہو تو میرے نبیؐ اور میرے درمیان پردہ ڈال دینا۔‘‘ مگر اس کی بھی مجال کہاں! رب راضی ہوجائے تو زباں یہ کہہ پائے۔ نہیں تو پھر زندگی ٹھوکریں کھائے یہاں، اور بے وقعت ہوجائے وہاں۔ معبود نہیں تُو تو بڑا معاف کرنے والا ہے۔

ربِ مہربان! اس گناہ گار امت پر رحمت کا سایہ کردیجیے گا… جس میں ساری خطائیں چھپ جائیں، عمل کی سیاہ کاریاں معدوم ہوجائیں… اور اگر کرم نہ ہوا تو پھر ہم تو لٹ ہی گئے شیطان کے ہاتھوں، اور خوب لوٹے گئے۔

حصہ