استقامت

68

’’میری والدہ کہتی ہیں کہ بیٹا! تمہارا بڑا بھائی ایسی جگہ پہنچ گیا ہے جہاں چہار طرف پھول پودے ہیں اور وہ وہاں سے واپس آنے کا کبھی خواب میں بھی نہیں سوچے گا۔‘‘

چھوٹا سا ننھا منا سا احمد ایک صحافی کو انٹرویو دیتے ہوئے ایک ہاتھ سے اپنے آنسو صاف کررہا تھا جب کہ دوسرے ہاتھ میں ایک بڑا سا کالے رنگ کا تھیلا تھا جسے اُس نے اپنے ننھے سے کندھے پر اٹھایا ہوا تھا۔

صحافی اس چھوٹے سے فلسطینی بچے کو اس بڑے سے تھیلے کو اٹھائے دیکھ کر اس کے پاس پہنچ گیا۔

’’اچھا تو بیٹے! یہ تو بتاؤ تم کتنے بہن بھائی ہو؟‘‘

صحافی عبدالاحد نے اس گیارہ سالہ گلابی گڈے سے سوال کیا، جو اس تھیلے کو پکڑے پکڑے ہلکان ہوا جارہا تھا۔

’’انکل جی! ہم تین بہن بھائی تھے، دو بھائی اور ایک بہن۔‘‘ ضبط کرتے کرتے اس کا گلابی چہرہ مزید سرخ ہوا جارہا تھا۔

’’تھا سے مراد؟‘‘ عبدالاحد نے سوال کیا، کہ صحافی کا کام ہی سوال کرنا ہوتا ہے۔

’’میں، میری بڑی بہن اور اس سے بڑا بھائی۔ وہ دونوں اب جنت کی وادیوں کی سیر کررہے ہیں۔‘‘ یہ کہتے کہتے بچے کی آنکھوں سے آنسو ٹپکنے لگے۔

عبدالاحد کو اپنے الفاظ کی سنگینی کا پورا احساس تھا، لیکن وہ ایک صحافی تھا لہٰذا اسے صورت ِحال کی ساری کڑواہٹ دنیا کے سامنے لانی تھی۔

’’اوہ… بیٹا! لیکن تمہارے والدین کہاں ہیں؟‘‘ عبدالاحد کا ایک اور سوال فلسطینی بچے کی سماعت پر پھر تازیانہ برسا گیا۔

’’جی، وہ میرے دونوں بہن بھائی کو جنت کے پھولوں کی خوشبو سنگھا رہے ہیں۔‘‘ سر جھکا کر اس استقامت کے پیکر نے جواب دیا۔

عبدالاحد ششدر کھڑا دیکھتا رہ گیا۔ ’’اچھا بیٹا! تم کم ازکم اس بھاری بھرکم تھیلے کے وزن کو تو مجھ سے شیئر کرلو نا۔‘‘ بڑی ہی مشکل سے اس کے منہ سے یہ الفاظ ادا ہوئے۔

’’نہیں… نہیں انکل! یہ میرے لیے بہت آسان ہے، میں جب چھوٹا تھا تو میرا بھائی مجھے گود میں اٹھائے پھرتا تھا، آج… آج میں اپنے بھائی کو اٹھانے میں، اپنے بھائی کے ٹکڑوں کو چننے میں کوئی دشواری محسوس نہیں کررہا۔‘‘

عبدالاحد کے سر میں جیسے کسی نے دھماکا سا کردیا۔

حصہ