مٹی میں کھیلنا اچھا ہے؟

94

کسی زمانے میں ’ گندے نہ ہونا ‘ گھروں میں بولا جانے والا عام جملہ تھا، خاص طور پر تب جب والد یا والدہ اپنے بچوں کو اپنے بہترین کپڑوں کو گندا کرتے دیکھتے تھے۔ چاہے وہ کھیتوں میں بھاگ دوڑ رہے ہوتے، درختوں پر چڑھ رہے ہوتے یا پھر مینڈک پکڑ رہے ہوتے، بچوں کے سفید کپڑوں کا رنگ دن ختم ہونے سے پہلے پہلے بھورا ہو جانا لازمی تھا۔

آج کئی والدین کی چھپی چھپی خواہش ہوتی ہے کہ ان کے بچے کاش مٹھی بھر مٹی اٹھا کر اس سے کھیل ہی لیں۔ شہری طرزِ زندگی کے دور میں سوشل میڈیا اور ویڈیو گیمز کی بدولت اب بچے فطرت سے کم ہی رابطے میں آتے ہیں۔ کئی بچوں کو کبھی بھی مٹی میں کھیلنے کا موقع نہیں ملتا۔

شاید اس سے آپ کا کپڑوں کی دھلائی پر خرچہ کم ہو لیکن اس کا نتیجہ بچے کی صحت اور بہبود کی خرابی میں نکلتا ہے۔ ایک حالیہ تحقیق کے مطابق مٹی میں ایسے دوستانہ جراثیم ہوتے ہیں جو بچوں کے نظامِ مدافعت کو تربیت دے کر اْنھیں کئی طرح کی الرجیز، دمے اور دیگر بیماریوں سمیت ڈپریشن اور اینگزائٹی تک سے تحفظ فراہم کر سکتے ہیں۔

ان نتائج سے معلوم ہوتا ہے کہ ایسی جسمانی سرگرمی نہ صرف اس لیے فائدہ مند ہے کیونکہ اس میں آزادی سے گھومنے کا موقع ملتا ہے بلکہ کچھ قدرتی مادوں مثلاً مٹی اور کیچڑ میں ایسے حیران کن حد تک طاقتور خردبینی جراثیم موجود ہوتے ہیں جن کے بچوں کی صحت پر پڑنے والے مثبت اثرات کو ہم نے سمجھنا ابھی صرف شروع ہی کیا ہے۔

ذہنی نشوونما
گھر سے باہر کھیلنے کے کئی نفسیاتی فوائد اب ایک ٹھوس حقیقت ہیں۔ ہماری ذہنی ارتقا قدرتی جگہوں پر ہوئی اور ہمارا احساس کا نظام قدرتی لینڈسکیپ سے سب سے زیادہ ہم آہنگ ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ قدرتی مناظر ہمارے ذہن کو بالکل درست سطح کا تحرک فراہم کرتے ہیں جو تھکے ہوئے اور آسانی سے بھٹک جانے والے ذہن کو نئی توانائی فراہم کرنے میں مدد دیتا ہے۔

2009 میں ہونے والی ایک تحقیق نے اس نظریے کے حق میں ثبوت فراہم کیے۔ اس تحقیق میں پایا گیا کہ اٹینشن ڈیفیسٹ ہائپر ایکٹیویٹی ڈس آرڈر (اے ڈی ایچ ڈی) کے حامل بچے پارک میں 20 منٹ کی چہل قدمی کے بعد اپنے کام پر بہتر انداز میں توجہ دے سکتے تھے جبکہ اس کے مقابلے میں صاف ستھری شہری سڑکوں پر 20 منٹ چہل قدمی کرنے والے بچوں میں یہ صلاحیت کم رہی۔

گھاس اور درختوں سے قربت کا بظاہر ان کے ذہنوں پر مثبت اثر پڑا۔ ماہرین کی تجویز ہے کہ ’فطرت کا ایسا ڈوز‘ اے ڈی ایچ ڈی کے حامل بچوں میں بہتری کے لیے دیگر طریقوں کے ساتھ ساتھ ایک محفوظ اور آسانی سے دسترس میں موجود ذریعہ ہے۔

ذہنی بحالی کے علاوہ باہر کھیلنا سیکھنے کا ایک بیش بہا ذریعہ بھی ہو سکتا ہے۔ مثال کے طور پر اٹلی کی یونیورسٹی آف پیلرمو میں بچوں کے ماہرِ نفسیات فرانچیسکو ویٹرانو کہتے ہیں کہ مٹی گوندھنے اور اس سے مختلف چیزیں بنانے سے بچے اپنے احساسات اور اپنی حرکات کے آپسی تعلق کو پروان چڑھا سکتے ہیں۔

جسا سینسری موٹر ڈویلپمنٹ کہتے ہیں کہ اس سے بچے آہستہ آہستہ اپنے جسم میں پیدا ہونے والے سگنلز کو سمجھنے لگتے ہیں۔

گھروں اور کلاس رومز سے باہر ہونے والی ایسی سرگرمیوں سے بچوں کو اپنے جذبات سمجھنے کا موقع بھی فراہم کر سکتی ہیں جو کہ دیگر ماحول نہیں کر سکتے۔

مثال کے طور پر سینڈ ٹرے تھیراپی میں مٹی اور اس سے بنائے جانے والے چھوٹے چھوٹے پتلوں کی مدد سے اپنے احساسات اور خیالات کا اظہار کیا جاتا ہے۔ اس طریقے کو اب ان بچوں کے لیے کارآمد کونسلنگ تصور کیا جاتا ہے جو اپنی جذباتی حالت کو الفاظ فراہم کرنے میں مشکل کا سامنا کر رہے ہوں۔

جب بات بچوں کی جسمانی صحت کی آتی ہے تو باہر کھیلنے کا سب سے بہترین فائدہ ورزش ہو سکتا ہے۔ امریکہ کی یونیورسٹی آف ٹیکساس آسٹن میں انسانی ترقی اور خاندانی سائنسز کی پروفیسر الزبتھ گرشوف اور ان کی ٹیم کی تحقیق کے مطابق ایک وسیع و عریض کْھلی جگہ پر کھیلنے والے بچوں کے لیے جسمانی قوت حاصل کرنا زیادہ آسان ہو جاتا ہے جس سے ان میں موٹاپے کا خطرہ کم ہو جاتا ہے۔

مگر تازہ ترین نتائج سے اندازہ ہوتا ہے کہ فطری ماحول میں کھیلنے کے مزید کئی فوائد ہو سکتے ہیں اور اس کا راز شاید مٹی میں ہی ہو، زندہ ہو اور کلبلا رہا ہو۔

پرانے دوست
نئی تحقیق ’ہائجین ہائپوتھیسز‘ یا صفائی کے مفروضے پر نئی روشنی ڈالتی ہے جو کہ سب سے پہلے 80 کی دہائی کے اواخر میں پیش کیا گیا تھا۔

اس تصور کے تحت 20 ویں صدی میں بچپن کے انفیکشنز میں زبردست کمی کی وجہ سے لوگوں کے قوتِ مدافعت پر منفی اثر پڑا ہے جس کی وجہ سے یہ کم سے کم بیرونی اثر پر بھی انتہائی ردِعمل دینے لگتا ہے۔ نتیجتاً یہ خیال کیا جاتا ہے کہ دمے، پولن الرجی اور غذاؤں سے ہونے والی الرجیز کی وجہ یہی ہیں۔

اب کئی سائنسدان ’ہائجین ہائپوتھیسز‘ کی اصطلاح ناپسند کرتے ہیں کیونکہ یہ ہاتھ دھونے جیسے اہم رویوں کی بظاہر حوصلہ شکنی کرتا ہے۔ اور وہ اس تصور کو بھی ناپسند کرتے ہیں کہ انفیکشنز بچوں کے لیے کسی نہ کسی صورت میں فائدہ مند ہوتے ہیں۔

امریکہ کی یونیورسٹی آف کولوریڈو میں فزیولوجی کے پروفیسر کرسٹوفر لاؤری کہتے ہیں کہ ’عوامی صحت کے نکتہ نظر سے دیکھیں تو اس میں کئی مسائل تھے۔ اس کے بجائے اب یہ تصور کیا جاتا ہے کہ اہم کردار ایسے جرثومے ادا کرتے ہیں جو انفیکشن نہیں پھیلاتے۔ یہ ’پرانے دوست‘ ہماری ارتقائی تاریخ کے ایک بڑے عرصے سے ہمارے ساتھ ہیں۔

یہ عمومی طور پر بے ضرر ہوتے ہیں اور ہمارے نظامِ مدافعت کی تربیت کرتے ہیں تاکہ اس کی سرگرمی معتدل رہے اور کسی ممکنہ حملہ آور کے خلاف حد سے زیادہ ردِ عمل نہ دینے لگے۔

اہم بات یہ ہے کہ جب ہم فطرت میں وقت گزارتے ہیں تو ہمارے جسم ان پرانے دوستوں سے ملتے ہیں۔ شہری طرزِ زندگی میں اضافے اور باہر کھیلنے میں کمی کی وجہ سے کئی بچے اب ان اچھے جراثیم سے تعلق میں نہیں آتے چنانچہ ان کے مدافعتی نظام بے حد حساس ہو جاتے ہیں اور ممکنہ طور پر ضرورت سے زیادہ سرگرم ہو سکتے ہیں۔

کئی تحقیقی مطالعوں سے اس خیال کو تقویت ملتی ہے۔ کھیتوں اور باڑوں میں پلنے بڑھنے والے لوگوں میں دمے، الرجیز یا مدافعتی نظام کی بیماریوں مثلاً کرونز ڈزیز کے شکار ہونے کا امکان کم ہوتا ہے، بظاہر اس لیے کیونکہ دیہی ماحول میں وہ کئی طرح جراثیم سے رابطے میں آتے ہیں جس کے باعث ان کے مدافعتی نظام کو مؤثر اور معتدل انداز میں کام کرنے میں مدد ملتی ہے۔

ان جراثیم کا فراہم کردہ سب سے زیادہ صحتمند تحرک ممکنہ طور پر نظامِ انہضام سے آتا ہے۔ اب یہ بات سائنسدانوں کو اچھی طرح معلوم ہے کہ نظامِ انہضام میں موجود دوستانہ جراثیم کئی طرح سے ہماری صحت بہتر بنا سکتے ہیں مگر اٹلی کے شہر ریجیو ایمیلیا میں مٹی سے علاج پر تحقیق کرنے والے ڈاکٹر مشیل انٹونیلی کے مطابق یہ ہماری جلد پر بھی موجود ہو سکتے ہیں اور اس کے ذریعے بھی ہمیں فائدہ پہنچا سکتے ہیں۔

وہ کہتے ہیں کہ ہمارے جسم کی باہری تہہ پر کئی انواع کے جراثیم موجود ہوتے ہیں اور بظاہر ایکزیما کی ایک عام شکل ایٹوپک ڈرماٹائٹس اور سورائیسس کے شکار لوگوں کے جلد ایسے جراثیم کی کم تعداد اور تنوع کی حامل ہوتی ہے۔

جراثیم کے تنوع کا بظاہر جوڑوں کی سوزش یا آرتھرائٹس سے بھی تعلق ہے۔ ’یہ خردبینی جراثیم کئی سنگین بیماریوں میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔‘

صحت مند جسم، صحت مند ذہن
حیرت انگیز طور پر ، فطرت دوست کیڑے تناؤ کی صورت میں جسم کے ردعمل کو معتدل رکھنے میں مدد کرتے ہیں۔ جب ہم کمزور اور خطرہ محسوس کرتے ہیں تو، مدافعتی نظام جسمانی سوزش کو بڑھانا شروع کر دیتا ہے۔ چونکہ سوزش انفیکشن کے خلاف پہلے دفاع میں سے ایک ہے۔

لہٰذا یہ ردعمل جسم کو اس خطرے سے ممکنہ جسمانی چوٹ کے لیے تیار کرنے کے ایک طریقے کے طور پر تیار ہوا جس کا ہم سامنا کر رہے تھے۔ لیکن یہ اس قسم کے تناؤ کے لیے کم مفید ہے جس کا سامنا آج زیادہ تر لوگوں کو کرنا پڑتا ہے۔

قابل ذکر بات یہ ہے کہ جن لوگوں نے اپنے بچپن کے دن دیہی ماحول میں گزارے ہوں وہ تناؤ کی صورت حال جیسے تقریر کرتے وقت کم دباؤ محسوس کرتے ہیں ان لوگوں کے مقابلے میں جو شہروں میں بڑے ہوئے تھے۔ یہ اس وقت بھی سچ ثابت ہوا جب سائنس دانوں نے دیگر عوامل جیسے ان کی سماجی و اقتصادی حیثیت کو کنٹرول کیا۔

اس کے طویل مدتی صحت کے لیے سنگین اثرات ہو سکتے ہیں، کیونکہ دائمی جسمانی سوزش کئی صورتوں میں ظاہر ہو سکتی ہے۔

مثال کے طور پر یہ ڈپریشن کے خطرے کو بڑھا سکتی ہے۔ اس تحقیقاتی مکالے کو تحریر کرنے میں شریک لوری کہتے ہیں کہ ’جو لوگ شہروں میں بڑے ہوئے ہیں وہ اپنی سوزش کے لحاظ سے چلتے پھرتے ’ٹائم بم‘ کی طرح ہیں۔‘

ڈرامائی اثرات
جیسا کہ ’پرانے دوستوں کے مفروضے‘ کی توثیق کرنے والے نتائج سامنے آنا شروع ہوئے، کچھ محققین نے مخصوص حیاتیات کی شناخت کرنا شروع کر دی ہے جو ان فوائد کے ذمہ دار ہو سکتے ہیں، اور جن طریقوں سے یہ تبدیلیاں آتی ہیں۔لوری خاص طور پر مائکوبیکٹیریم ویکی میں دلچسپی رکھتے ہیں، جو اکثر مٹی میں پایا جا سکتا ہے. جب چوہوں کو ایم ویکی کا سامنا کرنا پڑتا ہے تو وہ ریگولیٹری ٹی خلیوں کی بہتر سرگرمی دکھاتے ہیں۔ جیسا کہ نام سے پتا چلتا ہے مدافعتی سرگرمی پر قابو پانے میں مدد ملتی ہے جس میں سوزش کے ردعمل بھی شامل ہیں۔

اس کے بعد ایسا لگتا ہے کہ وہ تناؤ والے واقعات کے لیے زیادہ لچکدار ہیں جیسا کسی دوسرے زیادہ جارحانہ ماؤس کے ساتھ ممکنہ محاذ آرائی۔ لوری کہتے ہیں کہ ’ہم آخری انجکشن کے ایک ماہ بعد بھی تناؤ کی لچک پر بہت ڈرامائی اثرات دیکھتے ہیں۔‘ یقینا ، چوہے انسانی بچوں کی طرح نہیں ہیں، لیکن یہ اس کردار کے بارے میں کچھ اشارے پیش کرتا ہے جو کچھ مائکروجنزم ادا کرسکتے ہیں۔

کچھ سائنس دانوں نے ’ہیلمنتھس‘ کے کردار کے بارے میں بھی کافی جوش و خروش کا اظہار کیا ہے۔ مٹی میں رہنے والے کیڑوں جیسے راؤنڈ ورم جو بڑے پیمانے پر معتدل مدافعتی ردعمل کی وجہ سے جسموں میں متحرک ہوتے ہیں۔ وہ لوگ جو ہیلمنتھس سے متاثر ہوئے ہیں ان میں آنتوں کی سوزش کی بیماریوں کا خطرہ کم ہوتا ہے۔

انسان دوست بیکٹیریا کی ابتدائی فوائد کی اہمیت کو دیکھتے ہوئے بہت سے سائنسدان مداخلت کے فوائد کی تحقیقات کر رہے ہیں جو بچپن میں فطرت کے ساتھ زیادہ سے زیادہ رابطے کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں۔ اس کے نفسیاتی فوائد کو دیکھتے ہوئے بہت سے ڈے کیئر مراکز اور سکول پہلے ہی فطرت کے ساتھ زیادہ سے زیادہ رابطے کی حوصلہ افزائی کر رہے ہیں۔

باقاعدگی سے کھلی جگہوں پر چہل قدمی اور مٹی کے باورچی خانے کی تعمیر کے ساتھ جو بچوں کو گندگی میں کھیلنے کی ترغیب دیتے ہیں۔

مارلیسا موڈینا کہتے ہیں کہ بہت سی نرسریوں اور سکولوں میں یہ شعور بڑھ رہا ہے کہ بچوں کے پاس کھیلنے کے لیے کم کھلی جگہیں ہیں۔‘ مارلیسا موڈینا ایک آرکیٹیکٹ ہیں جو سکولوں کی عمارتوں کے ڈیزائن بنانے میں مہارت رکھتے ہیں۔

’ہم ان سرگرمیوں کو دوبارہ متعارف کرانے کے طریقوں کی تلاش کر رہے ہیں جو تقریبا 50 سال پہلے تک، بچوں کے روزمرہ تجربات میں آتے تھے۔

موڈینا کا کہنا ہے کہ کھلی جگہوں پر کھیلوں میں زیادہ دلچسپی شمالی یورپ میں شروع ہوئی، لیکن اب یہ بہت سے دوسرے ممالک میں پھیل رہا ہے۔ سب سے حیران کْن بات یہ ہے کہ فطرت سے حاصل ہونے والے جراثیم تناؤ پر ہمارے جسم کا ردِ عمل بھی معتدل رکھتے ہیں۔(بشکریہ۔ ماہنامہ مرحباصحت)

حصہ