چکن گنیا:کراچی میں ایک نیا وبائی بحران

52

کراچی، پاکستان کا سب سے بڑا اور صنعتی لحاظ سے اہم شہر، ایک مرتبہ پھر ایک نئی وبا چکن گنیا (Chikungunya) کی لپیٹ میں ہے۔ یہ شہر جو پہلے ہی بدانتظامی، نااہلی اور ناقص بنیادی ڈھانچے کا شکار ہے، اب چکن گنیا کے پھیلاؤ سے ایک نئی مشکل سے دوچار ہے۔ شہری بدانتظامی اور حکومتی نااہلی نے یہاں کے صحت سے متعلق مسائل اور صورتِ حال کو مزید خراب کردیا ہے۔ یہ مسئلہ اس حد تک بڑھ چکا ہے کہ سرکاری اسپتالوں میں روزانہ سیکڑوں مریض چکن گنیا کی علامات کے ساتھ رپورٹ ہورہے ہیں، اور مرض میں مبتلا افراد کی تعداد دن بدن بڑھ رہی ہے۔

چکن گنیا ایک وائرل بیماری ہے جو ایڈیز ایجپٹئی اور البوفیکٹس نامی مچھروں کے کاٹنے سے پھیلتی ہے۔

اس کی علامات عام طور پر مچھر کے کاٹنے کے چار سے آٹھ دن بعد ظاہر ہوتی ہیں، تاہم یہ دورانیہ دو سے بارہ دن تک بھی ہوسکتا ہے۔ وائرس خون میں اپنی زیادہ سے زیادہ مقدار تک علامات کے آغاز کے بعد پانچ سے سات دن تک موجود رہتا ہے، جسے ’’ویریمیا‘‘ کہا جاتا ہے۔ اس دوران متاثرہ شخص میں علامات ظاہر ہوتی ہیں اور مچھر کے کاٹنے سے وائرس دوسروں تک منتقل ہونے کا امکان ہوتا ہے۔

بیماری کی علامات میں تیز بخار، جوڑوں کا شدید درد، جسم پر سرخ دھبے، اور کبھی کبھار جوڑوں کا پھول جانا شامل ہیں۔ یہ درد اتنا شدید ہوتا ہے کہ بعض مریض چلنے پھرنے سے قاصر ہوجاتے ہیں۔ یہ مرض عموماً جان لیوا نہیں ہوتا اور شدید صورتوں میں بھی مہلک ہونے کے امکانات بہت کم ہوتے ہیں۔

اس بیماری کے اولین کیسز 1950ء کی دہائی میں تنزانیہ میں رپورٹ ہوئے تھے، لیکن بعد میں یہ مختلف خطوں میں پھیل گئی۔

چکن گنیا کا وائرس افریقہ میں سب سے پہلے دریافت ہوا تھا، اور یہ خطہ اس بیماری کا مرکز رہا ہے۔ اس کا پھیلاؤ مشرقی اور وسطی افریقہ کے مختلف ممالک میں ہوا، جن میں تنزانیہ، یوگینڈا، کینیا اور کانگو شامل ہیں۔ ان ممالک میں موسم گرما کے دوران مچھروں کی تعداد میں اضافہ ہوجاتا ہے، جس سے چکن گنیا وائرس کے پھیلاؤ میں تیزی آتی ہے۔

2000ء کی دہائی کے وسط میں چکن گنیا ایشیا کے کئی ممالک میں پھیلنا شروع ہوا، خاص طور پر ہندوستان، سری لنکا، پاکستان اور بنگلہ دیش میں۔ ان ممالک میں مچھروں کے پیدا ہونے کی صورتِ حال بہتر نہیں رہی، جس کے نتیجے میں چکن گنیا کے کیسز میں اضافہ ہوا۔

ماضی میں چکن گنیا نے ہندوستان کو بری طرح متاثر کیا۔ ملک کے جنوبی اور وسطی علاقوں میں شدید وبا پھیل گئی۔ ہندوستان میں اب بھی وقتاً فوقتاً چکن گنیا کے کیسز رپورٹ ہوتے ہیں، اور مچھروں کی روک تھام کے حوالے سے بڑے پیمانے پر اقدامات کیے گئے ہیں۔

یورپ میں چکن گنیا کا پھیلاؤ عمومی طور پر محدود رہا ہے، لیکن جنوبی یورپ کے کچھ علاقوں، خاص طور پر اٹلی میں 2007ء میں چکن گنیا کے کیسز رپورٹ ہوئے۔

امریکا میں چکن گنیا کا پہلا کیس 2014ء میں سامنے آیا جب یہ وائرس فلوریڈا میں آیا۔ فلوریڈا کے بعد دیگر ریاستوں میں بھی چکن گنیا کے کیسز رپورٹ ہوئے۔

کراچی جیسے بڑے شہروں میں چکن گنیا کے کیسز پہلے 2017ء میں بھی رپورٹ ہوئے ہیں۔

چکن گنیا افریقی زبان کا لفظ ہے جس کا مطلب ’’جھک جانا‘‘ ہے، کیونکہ اس بیماری میں مبتلا افراد شدید درد کی وجہ سے جھک کر چلتے ہیں۔ دنیا کے کئی ممالک میں یہ وائرس پھیل چکا ہے، مگر کراچی میں اس کا حالیہ پھیلاؤ زیادہ تشویش ناک ہے۔

کراچی میں چکن گنیا کا پھیلاؤ ستمبر 2024ء سے شدت اختیار چکا ہے۔ سرکاری اسپتالوں کے اعداد و شمار کے مطابق روزانہ کی بنیاد پر 500 سے 750 مریض چکن گنیا کی علامات کے ساتھ رپورٹ ہورہے ہیں۔ جن علاقوں میں سب سے زیادہ کیسز سامنے آرہے ہیں ان میں ضلع شرقی، وسطی اور جنوبی شامل ہیں۔ یہ صورتِ حال اس بات کا اشارہ ہے کہ شہری انتظامیہ اس وبا پر قابو پانے میں ناکام ہوچکی ہے۔

سرکاری اسپتالوں میں چکن گنیا کی تشخیص کے لیے پی سی آر ٹیسٹ کی سہولت دستیاب نہیں، اور یہ ٹیسٹ صرف نجی لیبارٹریوں میں 7 سے 8 ہزار روپے میں کیا جاتا ہے۔ معاشی مشکلات کی وجہ سے اکثر متاثرہ افراد یہ مہنگا ٹیسٹ کرانے سے قاصر ہیں، جس کی وجہ سے اس مرض کے درست اعداد و شمار مرتب کرنا مشکل ہوگیا ہے۔

کراچی کے بڑے سرکاری اور نجی اسپتالوں میں مریضوں کی تعداد غیر معمولی حد تک بڑھ چکی ہے۔ جناح اسپتال، سول اسپتال اور عباسی شہید اسپتال سمیت دیگر سرکاری اسپتالوں میں روزانہ کی بنیاد پر سیکڑوں مریض چکن گنیا کی علامات کے ساتھ آرہے ہیں۔ جناح اسپتال کی ڈپٹی ڈائریکٹر ڈاکٹر نوشین کے مطابق، گزشتہ ایک ماہ کے دوران 4 ہزار سے زائد مریض رپورٹ ہوچکے ہیں۔

عباسی شہید اسپتال میں بھی یومیہ 150 سے زائد مریض رپورٹ ہورہے ہیں، جبکہ دیگر سرکاری اسپتالوں جیسے لیاقت آباد، سعود آباد، نیو کراچی، اور قطر اسپتال میں بھی روزانہ درجنوں مریض آرہے ہیں۔ نجی اسپتالوں میں بھی مریضوں کی تعداد میں اضافہ ہورہا ہے، اور زیادہ تر مریض بخار اور جوڑوں کے درد کی شکایت کررہے ہیں۔

کراچی میں چکن گنیا کے پھیلاؤ کی سب سے بڑی وجہ مچھروں کی بہتات ہے۔ یہ خاص مچھر بارش اور مون سون کے بعد کھڑے پانی میں پیدا ہوتے ہیں، اور ناقص صفائی اور اسپرے مہم نہ ہونے کی وجہ سے ان کی تعداد میں اضافہ ہوجاتا ہے۔ شہر میں صفائی کی خراب صورتِ حال، پانی کی نکاسی کے ناقص انتظامات، اور اسپرے مہم نہ ہونے کی وجہ سے یہ مسئلہ مزید پیچیدہ ہوگیا ہے۔

حکومتی ادارے اس وبا پر قابو پانے میں ناکام نظر آرہے ہیں۔ سندھ کے سرکاری اسپتالوں میں چکن گنیا کی تشخیص کے لیے پی سی آر ٹیسٹ کی سہولت فراہم نہیں کی جارہی، جس کی وجہ سے مریضوں کے درست اعداد و شمار اکٹھے کرنا مشکل ہوچکا ہے۔ محکمہ صحت کی جانب سے فراہم کردہ معلومات بھی ناکافی ہیں، اور عوام کو درست معلومات تک رسائی حاصل نہیں ہے۔ اس صورتِ حال میں زیادہ تر لوگ ازخود بخار اور جوڑوں کے درد کی ادویہ لے کر علاج کرنے پر مجبور ہیں۔

محکمہ صحت کے ویکٹر بون ڈیزیز کے سربراہ ڈاکٹر مشتاق شاہ کے مطابق چکن گنیا اور ڈینگی وائرس دونوں ایڈیز مچھر کے کاٹنے سے پھیلتے ہیں، اور اس وقت چکن گنیا کے مریضوں کی تعداد ڈینگی کے مریضوں سے زیادہ ہوچکی ہے۔ انہوں نے دعویٰ کیا کہ پی سی آر ٹیسٹ کی تصدیق کے بعد 153 مریضوں میں چکن گنیا کی تشخیص ہوچکی ہے۔

ڈاؤ یونیورسٹی آف ہیلتھ سائنسز کے مولیکیولر پیتھالوجی کے سربراہ پروفیسر سعید خان کا ایک رپورٹر سے بات کرتے ہوئے کہنا تھا کہ چکن گنیا ایک وائرل انفیکشن ہے جو مچھروں کے ذریعے پھیلتا ہے۔ انہوں نے عوام کو مشورہ دیا کہ مچھروں سے بچاؤ کے لیے حفاظتی اقدامات کیے جائیں، جیسے کہ گھروں کی کھڑکیاں اور دروازے بند رکھنا، دستانے استعمال کرنا، اور پانی کھڑا ہونے والے مقامات کو ختم کرنا۔

چکن گنیا کے مرض میں مبتلا افراد نے حکومت پر الزام لگایا کہ مچھروں کی بہتات اور اسپرے مہم کی ناکامی چکن گنیا کے پھیلاؤ کی اہم وجوہات ہیں۔

چکن گنیا کے پھیلاؤ کو روکنے کے لیے فوری طور پر مؤثر اقدامات کی ضرورت ہے۔ صفائی کی ناقص صورتِ حال کو بہتر بنانا اور مچھروں کے خاتمے کے لیے اسپرے مہم کا آغاز ناگزیر ہے۔ عوام کو چکن گنیا کی علامات اور علاج کے بارے میں آگاہی فراہم کی جانی چاہیے، اور سرکاری اسپتالوں میں پی سی آر ٹیسٹ کی مفت سہولت ہونی چاہیے تاکہ مرض کی درست تشخیص ہوسکے۔

چکن گنیا کراچی میں ایک سنگین مسئلہ بن چکا ہے، اور اس وبا پر قابو پانے کے لیے فوری حکومتی اقدامات کی ضرورت ہے۔ صفائی کے ناقص انتظامات، مچھروں کی بہتات، اور حکومتی نااہلی نے اس وبا کو مزید سنگین بنادیا ہے۔ عوام کو بھی اس وبا سے بچاؤ کے لیے حفاظتی اقدامات کرنے چاہئیں تاکہ اس بیماری کے پھیلاؤ کو روکا جا سکے۔ اگر حکومتی ادارے اور درد رکھنے والی این جی اوز مل کر اقدامات کریں تو اس وبا پر قابو پایا جا سکتا ہے۔

حصہ