سوشل میڈیا پر پنجاب کالج کا شور

120

پوسٹ ٹرتھ پالیٹکس :
پوسٹ ٹرتھ پالیٹکس پولیٹیکل سائنس کی اصطلاح ہے۔اِس سے مراد وہ خاص حالات بھی لیے جاتے ہیں کہ جن میں معروضی حقائق کی بجائے جذبات سیاسی فیصلوں کی تشکیل کا سبب بنتے ہیں۔ برطانیہ میں بریگزٹ مہم کے دوران، غلط اور مبالغہ آمیز دعوے سوشل میڈیا پر پھیلائے گئے، جیسے کہ یورپی یونین کو فنڈنگ کے بارے میں غیر حقیقت پسندانہ دعوے۔اسی طرح امریکی صدارتی انتخابات (2016) میں ڈونلڈ ٹرمپ کی مہم میں سوشل میڈیا پر جعلی خبریں اور سازشی نظریات بڑے پیمانے پر پھیلائے گئے، جنہیں سچ مان کر ووٹرز نے قبول بھی کیا، بھارتی الیکشن میں مودی کی کامیابی کو بھی اسی تناظر میں استعمال کیا گیا۔ عمران خان پاکستان کے ضمن میں سوشل میڈیا کی پوسٹ ٹرتھ پالیٹکس کی انتہائی اہم مثال میں شامل ہیں۔ ویسے اگر کوئی سوال کرلے کہ ان مثالوں سے تو یہ ثابت ہوتا ہے کہ لوگ ’جھوٹ پرکیسا عمل کرتے ہیں؟‘ تو یہ غلط نہ ہوگا۔ مگر ہم جانتے ہیں کہ مغرب اصطلاحات کی ایسی خوش نما چادرچڑھاتا ہے کہ حقیقت ویسے ہی چھپ جاتی ہے، جیسے یہاں ’جھوٹ‘ کا نام ’پوسٹ ٹرتھ ‘ رکھ دیا گیا۔ جس کے بظاہر لفظی معانی ہیں ’’سچائی کے بعد‘‘۔ ویسے نظری اعتبار سے دیکھا جائے دیکھا جائے تو سچائی کے بعد جھوٹ ہی ہوتا ہے۔ اس ہفتے لاہور کے پوش علاقے گلبرگ میں واقع پنجاب گروپ آف کالجز کے لڑکیوں کے کیمپس میں ایک طالبہ کے ساتھ زیادتی کی خبر کو ایسے انداز سے پھیلایا گیا کہ پنجاب کا منظر ہی یک لخت تبدیل ہوگیا۔پاکستان ہی نہیں بھارتی و عالمی میڈیا پر یہ خبر ایسے نشر ہوئی کہ خود اْن اداروں پر سوال اْٹھتا ہے کہ کیسے ’مبینہ‘ کے نام پر ایک یکسر جھوٹا واقعہ رپورٹ کرتے رہے۔ کیا عوام نے بھی حقیقت اور حقائق کو مدنظر رکھنے کے بجائے جذبات کا اظہار ایک ایسی حد تک کیا جو سوشل میڈیا ڈسکورس میں آنے والی خبر کا لازمی نتیجہ کہلائے گا۔ ویسے ہم جانتے ہیں کہ لوگ سوشل میڈیا پر ایسے ہی اظہار کرتے ہیں۔

پوسٹ ٹروتھیے :
معروف کالم نگارآصف محمود لکھتے ہیں کہ ’’پاکستان کے پوسٹ ٹروتھیے جھوٹ اور دجال کے سفیر بن چکے ہیں۔ معاشرے کو ہمہ وقت ہیجان اور اضطراب سے دوچار کر کے رکھا ہوا ہے۔ پانچ دن ہو گئے یہ لوگ اب تک کیوں نہیں بتا رہے بچی کون تھی؟ نام کیا تھا؟ کلاس کون سی تھی؟ داخل کس اسپتال میں ہوئی؟‘‘ عاصم اللہ بخش کہتے ہیں کہ ’’جس میں 100 فیصد فیک نیوز کو بذریعہ سوشل میڈیا حقیقت ثابت کرنے اور اس کے نتیجہ میں سماجی اُبال اور اس سے کسی بڑی گڑبڑ جیسے کہ خانہ جنگی یا امن و امان کا مکمل بحران پیدا کردینے کے امکان کا جائزہ لینا مقصود ہے۔‘‘

ایک رائے یہ بھی ہے کہ پاکستان کو ایک بار پھر ’’سماجی تحرک‘‘ کے ’’خطرناک تجربے‘‘ سے گزارا گیا ہے کہ دیکھا جائے کہ لوگوں میں اب بھی ردِ عمل کی صلاحیت ہے کہ نہیں؟ مگر میں کہتا ہوں کہ اس کی ضرورت نہیں تھی کیوں کہ ’’ناموس رسالت‘‘ کے معاملے پر ابھی ہم نے اگست، ستمبر میں واقعات کی ایسی ترتیب دیکھ لی ہے جو مکمل سچائی پر مبنی تھی۔ ناموس رسالت تو واقعی بہت بڑا معاملہ ہے۔ ہم تو ابھی ایک صوبے میں ’قوم پرستی‘ کے عنوان سے بھی لوگوں کو نکلا ہوا دیکھ رہے ہیں۔تو اس ہولناک تجربے کی پریشانی کیسی ؟

پنجاب کالج جیسے بڑے گروپ کا اس کے لیے انتخاب، بہت منظم سوشل میڈیا مہم اور اس میں بڑھتی تیزی بہت اہم معاملہ ہے۔ پنجاب مردانہ و زنانہ پولیس ہی نہیں وزیر اعلیٰ کا بھی بہت واضح مؤقف سامنے آچکا ہے کہ ’’ایسا کوئی واقعہ نہ کسی نے رپورٹ کیا ہے۔ سینکڑوں طلبہ احتجاج کر رہے ہیں مگر کوئی ایک بھی اس اس واقعے کا گواہ، مدعی یا کوئی نشان یا کوئی سراغ دینے کو نہیں تیار۔ کسی ذریعے سے اس واقعے کی تصدیق ہی نہیں ہو رہی۔ یہ سراسر جھوٹ پر کھڑا واقعہ ہے۔ ‘‘

معاملہ پیچیدہ کیوں ہے؟
معاملہ پیچیدہ اس لیے ہے کہ عملاً ریاست کے لیے اس واقعے کو چھپانا بالکل ممکن ہے۔ رائج الوقت صحافتی طریقہ کار پر بھی یہ واقعہ فٹ نہیں بیٹھ رہا۔جو چیزیں وقوع کے نہ ہونے پر دلالت کرتی ہیں اُن کو میڈیا کی رسائی نہیں دی جا رہی۔ جب واقعہ ہوا ہی نہیں تو پھر کالج کیمپس کی رجسٹریشن بغیر تحقیق کیوں منسوخی کی گئی؟ سب حکومتی تسلیوں اور یقین دہانیوں کے باوجود احتجاج کا دائرہ پھیلتا ہوا لاہور سے اسلام آباد چلا گیا۔

طالبہ کے ساتھ زیادتی کو لے کر سوشل میڈیا پر ایسا ایسا مواد تشکیل دیا گیا کہ جس سے انتہائی عجیب صورت حال پیدا ہوگئی۔ یوٹیوبرز کی بھی خوب چاندی ہوگئی، دھڑا دھڑ تبصرے، تجزیے۔ یہ حقیقت ہے کہ کالج کا مالک میاں عامر محمود ایک بڑے میڈیا گروپ کا بھی مالک ہے‘ اس لیے میڈیا کی جانب داری کا سوال اٹھایا جا سکتا ہے‘ مگر میڈیا کے درمیان مسابقت بھی حقیقت ہے۔ اگر کالج کی جگہ بحریہ ٹائون یا کے الیکٹرک ہوتا‘ یا یہ واقعہ امریکن، برطانوی، فرانسیسی ایمبیسی میں ہواہوتا تو بات سمجھ میں آتی ہے کہ میڈیا ہی نہیں بلکہ پوری ریاست اس واقعے کو چھپانے کے لیے نکل آتا، مگر یہ تو محض پنجاب کالج ہے اور مبینہ ملزم ایک گارڈ اور وین ڈرائیور ہے۔ 9 ستمبر2020 کو لاہور موٹر وے پر ہی رات کو فرانسیسی نژاد پاکستانی خاتون کے ساتھ زیادتی کا واقعہ تو آپ کو یاد ہوگا؟ جس میں ملوث مجرموں کو حیرت انگیز طور پر سزائے موت دے دی گئی۔ یہی نہیں 7 سالہ ’زینب‘ کا کیس رپورٹ ہوا ہے، دسیوں اس سے زیادہ گھنائونے ہائی پروفائل کیسز رپورٹ ہوتے رہتے ہیں۔ اسلام آباد میں ایاز امیر کے بیٹے سمیت کئی کیسز ہیں۔ مگر یہ عجیب کیس ہے کہ نہ متاثرہ لڑکی اور نہ ہی اس کے کوئی گھر والے سامنے آئے ہیں۔

متاثرہ کی تلاش :
اس واقعے کو اب پورا ہفتہ بھر ہوچکا ہے مگر ابھی تک متاثرہ طالبہ، اس کے والدین یا کوئی اور شناخت سامنے ہی نہیں آرہی۔ لڑکی کی کسی قسم کی کوئی معلومات سامنے نہیں۔ جس گارڈ کو ملوث بتایا گیا، اُس کو بغیر کسی ایف آئی آر کے گرفتار بھی کرلیا گیا ہے۔ یہ بات ٹھیک ہے ایک گارڈ واقعہ کے دن سے غائب تھا جسے پولیس سرگودھا سے پکڑ لائی۔ اس گارڈ نے بھی اس واقعے سے لاعلمی کا اظہار کیا اور اپنی چھٹی کو عمومی چھٹی قرار دیا ہے۔ کالج میں لگے کیمروں کے بارے میں طالبات کا بیان انتہائی حیران کن ہے کہ ’’انتظامیہ نے ڈیٹا ڈیلیٹ کردیا۔‘‘ وزیر تعلیم نے بھی میڈیا سے یہی کہا کہ وڈیو ڈیلیٹ کی گئی ہے بعد میں وزیر اعلیٰ کے مؤقف کے بعد وہ بھی مکر گئے۔ دوسری جانب سی سی ٹی وی کیمروں کا ڈیٹا جو پولیس نے دیکھا ہے اُس میں پولیس کا کہنا یہ ہے کہ ایساکوئی نشان بھی نہیں ملا۔ اَب مزید حیران کن بات اس کیس کی یہ ہے کہ بڑے سے بڑے دھماکوں کی سی سی ٹی وی تصاویر میڈیا کو جاری کر دی جاتی ہیں مگر یہ سادہ سی فوٹیج ابھی تک جاری نہیں کی گئی۔ البتہ یہ ضرور ہوا کہ اس واقعے کو انسٹاگرام اکائونٹ پر شیئر کرنے والے ضرور گرفتار ہوئے ہیں اور ان پر عوام کو بھڑکانے کا الزام لگایا گیا ہے جس کو گرفتار کیا ہے‘ اُس کی شناخت وزیر اعلیٰ نے اپنے سوشل میڈیا سے جاری کی، مگر پولیس کی تحقیقات کوئی بھی جاری نہیں کر رہا۔ اگر ایسی کوئی لڑکی نہیں ہے یا جس طالبہ کی جانب اشارہ کیا جا رہا ہے‘ اُس کو سامنے کیوں نہیں لایا گیا؟جب کچھ ہوا ہی نہیں تو بدنامی کیسی؟

با اثرکون:
پولیس کہتی ہے کہ ہمارے پاس کوئی پرچہ کٹوانے نہیں آیا ، طلبہ کہتے ہیں کہ اُس کے گھر والوں کو بلیک میل کیا جا رہا ہے کہ ’’کہیں رپورٹ نہ کرو۔‘‘ لڑکی کی مستقبل اور عزت کا معاملہ اُٹھا کر لڑکی کی شناخت چھپائی جا رہی ہے۔ عجیب عجیب وڈیوز سوشل میڈیا پر ڈال کر کہانیاں بنائی جا رہی ہیں، کوئی اپنی شناخت کے ساتھ سامنے آنے کو تیار نہیں۔ لوگ پُر تشدد مظاہرے کر رہے ہیں، ہر مائیک کو دیکھ کر چہرے پر ماسک سجا کر انٹرویو دے رہے ہیں مگر پرچہ کٹوانے نہیں آرہے۔لڑکی کا پوچھو تو کہتے ہیں کہ ’’لڑکی کی عزت کی خاطر‘‘ نہیں بتا رہے تو بھئی پھر معاملہ حل کیسے ہوگا؟

جہاں تک یہ سوال ہے کہ کالج کی ساکھ خراب ہوگی اور داخلوں کا مسئلہ ہوگا تو یہ فی زمانہ کیسے کوئی بہت وزنی بات سمجھی جا سکتی ہے، وہ بھی ایک گارڈ کی قیمت پر اور ایسے وین ڈرائیور پر جو کالج کا ملازم ہی نہیں۔ دیکھاجائے تو پنجاب کالج کی اس جھوٹے الزام سے بھی اتنی بدنامی ہوچکی ہے کہ غیرت مند والدین وہی کریں گے جو ان کو کرنا ہے، باقی جس کو نہیں ماننا وہ نہیں ماننے والا۔

یہ تشدد کیوں محسوس نہیں ہوتا:
اعلیٰ تعلیم یافتہ طلبہ کی جانب سے اِن پرتشدد مظاہروں میں ایک معصوم جان بھی چلی گئی۔گجرات میں تو یہ مظاہرے اِس حد تک گئے کہ پنجاب کالج کے مقامی کیمپس کے 50 سالہ گارڈ اظہر حسین کی جان بھی لے لی گئی۔ گجرات پولیس نے 185 افراد کے خلاف قتل کا مقدمہ درج کیا‘ 92 گرفتار کیے۔ وہاں ایک طالب علم بھی اِس وقت شدید زخمی حالت میں زیر علاج ہے۔ یہ طالب علم پولیس گرفتاری سے بچ کر بھاگ رہا تھا کہ ایکسیڈنٹ ہوگیا۔ طلبہ اتنے زیادہ پُر تشدد کیسے ہوگئے؟ اَب تک لاہور میں 30 کے قریب گرفتاریاں ہو چکی ہیں۔ پنجاب کالج کیمپس و دیگر کی کروڑوں روپے کی املاک نذر آتش کی جا چکی ہیں۔ لالہ موسیٰ میں 200 افراد کے خلاف مقدمہ در ج ہوا ہے، 46 ناموں کے ساتھ جنہوں نے کھاریاں کیمپس پر حملہ کیا۔ منڈی بہاء الدین اور جہلم سمیت جہاں‘ جہاں پنجاب کالج کے کیمپس ہیں وہاں بھرپور حملے اور لوٹ مار کی گئی۔ دوسری طرف پنجاب کالج کے مختلف کیمپس (سرگودھا، سمندری) کے طلبہ بھی اپنے کالج کے تحفظ کے لیے احتجاج کرنے نکل آئے۔ پنجاب حکومت نے جمعے کو اپنے نوٹیفیکیشن میں بغیر کوئی وجہ تحریر کیے صوبے بھر کے اسکولوں، کالجوں اور جامعات کو بند کرنے کا حکم دے کر مزید سوال اٹھا دیے۔274 افراد پر صرف ایک شالامار کالج مظاہر ے کا پرچہ کاٹا گیاہے۔ 4 پولیس والے طلبہ کے تشدد سے زخمی ہوئے۔ پنجاب کے شہروںمیں پھیلنے والا اس تشدد کو صوبائی حکومت نے سیاسی رنگ اور سیاسی بدلہ لینے کی سازش قراردیا ہے۔

یہ بات نوٹ کریں کہ یہ قطعاً کوئی مذہبی گروہ نہیں تھے‘ نہ یہ کسی مدرسے کے طلبہ تھے‘ نہ اِن کو کسی مذہبی جماعت نے اُکسایا تھا‘ نہ یہ کسی مذہبی جماعت کے زیر اثر تھے۔ اس کے باوجود سارے لنڈے کے لبرل، سیکولر مفکرین کو سانپ سونگھ گیا ہے۔ یہ مظاہرے کسی بھی نہاد میں مذہبی نہیںہیں، اگر تو جھوٹی خبر پر ہیں تو بھی نہیں، بقول پنجاب حکومت اگر سیاسی ہیں تو بھی مذہبی دائرے میں نہیں آتے‘ جو مذہبی نہیں وہ لازمی سیکولر ہے۔ تو ان سب مظاہروں پر جو کہ پڑھے لکھے باشعور طلبہ کر رہے ہیں کہیں سے کوئی آواز کیوں سنائی نہیں دے رہی ؟ یعنی یہ طے ہوا کہ مذہب کو جان بوجھ کر نشانہ بنانا ایک نہایت گندی و غلیظ عادت ہے ان سب کی۔

زیادتیوں پر زیادتیاں:
پنجاب کالج میں کچھ ہوا یا نہیں‘ جنسی ہیجان کیوں بڑھ رہا ہے؟ یہ ہے سب سے بڑی حقیقت۔ سوشل میڈیا پر اس دورا ن اسکولوں، کالجوںاور یونیورسٹیوں کے مختلف فنکشن کی وہ شرم ناک وڈیوز شیئر کی جاتی رہیں جن میں مخلوط ڈانس اور انتہائی شرمناک حرکات پر مشتمل سرگرمیاں شامل تھیں۔ یہ بیانیہ دیاگیاکہ ان تعلیمی اداروں میں یہی کچھ جب کرایا جائے گا تو یہی نتائج ہوں گے۔ اس میں کوئی تجزیہ غلط نہیں۔ پاکستان کی کئی نجی جامعات ایسی سرگرمیوں کی تشہیر سے ہی ایسیا آزادانہ اختلاط والے ماحول کی وجہ سے ہی گاہگ (طلبہ) کو کھینچ کرلاتی ہیں۔ اس لیے یہ تعلیمی ادارے بہرحال منشیات سمیت تمام منکرات کا ایک ایسا گڑھ بن چکے ہیں کہ معروف سوشل میڈیا ایکٹیوسٹ ’آزاد چائے والا‘ نے وڈیو بناکر سمجھایا کہ پاکستانی جامعات اس قابل نہیں کہ اپنی بیٹیوں کو بھیجا جائے۔ میڈیا کی زہر افشانی پر جتنی بات کریں کم ہے۔

اس کے ایک اور پہلو سے جواب کے لیے گزشتہ دنوں اقوام متحدہ کی رپورٹ پر بھی ایک نظر ڈال لیں۔ اقوام متحدہ نے 18سال سے کم عمر 37 کروڑ خواتین و بچوں کے ساتھ جنسی زیادتیوں کا تخمینہ پیش کردیا۔ دنیا بھر میں لبرل اقدار، مذہب بے زاری اور جنسی آوارگی کے یہ بھیانک نتائج ہیں جنہیں قابل قبول بنانے کی مہم جاری ہے۔ یہ ہے وہ ننگی تہذیب، لادین نظریات پر ترتیب دیے گئے معاشرے کا بھیانک چہرہ۔ اقوام متحدہ بھی صرف رپورٹ شائع کر سکتا ہے‘ دنیا کی کوئی طاقت نہیںجو ’تصورِ آزادی۔ تصورِ حقوق‘ کے بے لگام گھوڑے کو لگام ڈال سکے۔ پاکستان میں بھی زیادتیوں کا ایسا ہی شور مچا ہوا ہے۔ سب کو مریض سے مسئلہ ہے ‘ اصل مرض اور اُس کی وجوہات کو ختم کرنے کی طرف کوئی جانے کی ہمت نہیں کرتا۔

حصہ