جرائم کی نرسریاں

165

جس طرح بیماری پھیلنے کی وجوہات جگہ جگہ گندگی، فضائی، آبی، کیمیائی اور شور کی آلودگیوں کے ساتھ ناقص اور مضر صحت غذائیں ہوتی ہیں جو افراد اور آبادیوں کو نہ صرف بیمار کردیتی ہیں بلکہ اس سے بعض اوقات صحت کے ناقابلِ اصلاح حالات پیدا ہوجاتے ہیں جس کے سدباب کے لیے عوام دوست حکومتیں اپنے سالانہ بجٹ سے خطیر رقم خرچ کرتی ہیں۔ اسی طرح جرائم انسانی معاشرے کا ایسا ناسور ہیں جو ملک کی بنیادوں کو کھوکھلا کردیتے ہیں۔ جب سے دنیا آباد ہے، جرم اور سزا کی کشمکش جاری ہے۔ کیا دنیا نے کبھی اس طرح کا معاشرہ دیکھا ہے جہاں جرم اور مجرم کا دور دور تک کوئی پتا نہیں تھا؟ تو اس کا جواب ’’ہاں‘‘ میں ہے، جس کی تفصیل آگے موجود ہے۔

یہ معاشرہ اُس وقت قائم ہوا جب امیرالمومنین حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ امانت دار، مخلص، خوفِ خدا رکھنے والے اور اعلیٰ درجے کے انصاف پرور خلیفہ تھے۔ یہی وجہ ہے کہ رعایا بھی ان کی تقلید کرتی تھی۔ انصاف پروری میں کوئی طبقاتی تقسیم نہیں تھی۔ ہر ایک کے لیے یکساں انصاف تھا۔ آپؓ کہا کرتے تھے کہ ’’دریائے فرات کے کنارے اگر ایک کتا بھی بھوکا مر جائے گا تو قیامت کے دن اللہ تعالیٰ عمر سے پرسش کرے گا۔‘‘ عوام کی جان، مال، عزت اور آبرو کی حفاظت اور روٹی، کپڑا، مکان، صحت و تعلیم اور ’سب کے لیے انصاف‘ حکومتِ وقت کی ذمہ داری تھی، اور جب جب حکمرانوں نے یہ رویہ اپنایا، چاہے وہ مسلم ہوں یا غیر مسلم، جرائم اور مجرم سر نہیں اٹھا سکے۔

اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’وہ قومیں تباہ ہوجاتی ہیں جو عدل وانصاف میں طبقاتی رویہ اپناتی ہیں۔‘‘ آپؐ نے فرمایا ’’کافر کی حکومت اگر انصاف پر مبنی ہے تو قائم رہے گی، مگر مسلمان کی حکومت اگر انصاف پر مبنی نہیں ہے تو قائم نہیں رہ سکتی۔‘‘

انسان کی پرورش کے تین دائرے ہیں۔ ایک انسان بچپن، جوانی اور بڑھاپے سے گزر کر اس دنیا سے چلا جاتا ہے۔ پہلا دائرہ ماں کی گود اور باپ و خاندان کا ہے جہاں انسان کی نشوونما ہوتی ہے۔ اگر یہ دائرہ دینی، اخلاقی اور تہذیبی تربیت سے لاپروائی برتے تو بچہ بڑا ہوکر جرم کی دنیا آباد کرتا ہے۔

ارشادِ باری تعالیٰ ہے ’’اے لوگو جو ایمان لائے ہو! بچاؤ اپنے آپ کو اور اپنے اہل وعیال کو جہنم کی اس آگ سے، جس کا ایندھن پتھر اور انسان ہوں گے۔ جس پر تندخو فرشتے متمکن ہیں، جو اللہ کے حکم کی ذرا سی بھی نافرمانی نہیں کرتے اور وہی کرتے ہیں جو اُن کو کہا جاتا ہے۔‘‘ (التحریم)

اس آیتِ مبارکہ کی روشنی میں یہ بات اظہر من الشمس ہے کہ اگر والدین اولاد کی پرورش میں کوتاہی کرتے ہیں تو ان کو بگڑنے سے کوئی نہیں روک سکتا، اور دورِ جدید کا یہ المیہ ہے کہ والدین اولاد کی تربیت میں غفلت کے مرتکب ہورہے ہیں۔

دوسرا دائرہ تعلیم گاہ ہے جہاں اصل روح و معنی سے ماورا تعلیم صرف اور صرف رزق کمانے کے لیے دی جاتی ہے اور وہ بھی ناقص طریقے سے۔ تیسری دنیا کی تعلیم گاہوں میں امتحان لینے والے ادارے سے لے کر ممتحن تک طالب علموں کی نقل کرنے میں نہ صرف معاونت کرتے ہیں بلکہ باضابطہ نقل مافیا وجود رکھتے ہیں۔ لہٰذا اس طرح سند حاصل کرنے والے لوگ ریاست کے تمام اداروں میں نہ صرف اپنی ذمہ داریوں سے کوتاہی کے مرتکب ہوتے ہیں بلکہ بدعنوانی اور رشوت سے جرائم کو فروغ دیتے ہیں۔ حالانکہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’رشوت دینے والا اور رشوت لینے والا دونوں جہنمی ہیں۔‘‘

آج کل تو یہ مثل مشہور ہے کہ ’’لے کے رشوت پھنس گیا ہے… دے کے رشوت چھوٹ جا‘‘۔

پاکستان میں نیب کا ادارہ یہ کام بہ خوبی کرتا ہے۔ اربوں روپے کا گھپلا کرنے والے ’’پلی بارگین‘‘ کے نام پر کروڑوں روپے دے کر آزاد ہوجاتے ہیں۔

تیسرا دائرہ معاشرہ ہے جو زندگی کے مختلف شعبوں سے تعلق رکھتا ہے۔ اس میں عدلیہ، مقننہ، انتظامیہ، پولیس اور فوج کے ساتھ ساتھ دیگر دفاعی ادارے شامل ہیں۔ اس کے علاوہ معاشرے کے قابلِ ذکر اور قابلِ احترام افراد ہیں جو ملک اور قوم کی ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتے ہیں۔ مذہبی و دینی پیشوا، اساتذہ، ڈاکٹر اور دانشورانِ قوم۔

اگر ہم باری باری ان کا جائزہ لیں تو پتا چلتا ہے کہ عدلیہ عدل و انصاف فراہم کرنے میں مکمل طور پر ناکام ہوچکی ہے جس کی وجہ سے ہر سطح کے جرائم کرنے والے مجرمین بے خوف جرم کا ارتکاب کرتے ہیں۔ عدل و انصاف کی فراہمی میں بینچ اور بار کے ساتھ پولیس کا بنیادی کردار ہے، مگر افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ یہ ایک ایسا مثلث بن چکا ہے جو قانون اور انصاف کی بالادستی قائم کرنے کے بجائے قانون توڑنے میں مجرموں کا معاون و مددگار ہے۔ کیوں کہ زر پرستی اور خودغرضی نے سب کو اندھا کردیا ہے۔

’’مقننہ‘‘ جسے پارلیمنٹ کہتے ہیں، جو ہر ملک میں دو ناموں سے موجود ہے۔ ہندوستان میں لوک سبھا اور راجیہ سبھا، پاکستان میں قومی اسمبلی اور سینیٹ جہاں عوام کے منتخب نمائندے قانون سازی کے ذریعے ملک کا انتظام و انصرام چلاتے ہیں۔ مگر اسے ستم ظریفی کہیں یا عوام کے ساتھ دھوکا… کہ یہ ادارے قانون تو بناتے ہیں مگر یہ صرف غریبوں اور کمزوروں کے لیے ہوتا ہے۔ یہ نمائندے ان تمام قوانین کی پکڑ سے آزاد ہوتے ہیں۔ بھارت کی سپریم کورٹ نے تو یہ تک کہہ دیا کہ ہمارے ایوانِ اقتدار میں تیس چالیس فیصد لوگ مجرمانہ سرگرمیوں میں ملوث ہیں اور مجرمانہ پس منظر رکھتے ہیں۔ یہی حال پاکستان کے ایوانوں کا ہے جہاں زیادہ تر لوگ اسی قماش کے ہیں۔ یہ مالی بدعنوانی سے لے کر ہر طرح کے جرائم کی سرپرستی کرتے ہیں۔ بڑے بڑے اسمگلرز اور مافیا کے لوگ ان کی سرپرستی میں کام کرتے ہیں۔ یہ ملکی دولت غیر قانونی طریقے سے بیرونی ممالک کے بینکوں میں جمع کرتے ہیں اور ملکی معیشت کو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچاتے ہیں۔ یہ اپنے سیاسی مخالفین کو نہ صرف پیشہ ور قاتلوں کے ذریعے قتل کراتے ہیں بلکہ پولیس اور انتظامیہ کے دیگر اداروں کو اپنے سیاسی اور ذاتی مفادات کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ اقربا پروری کے ذریعے میرٹ اور صلاحیت کو قتل کرتے ہیں جس سے باصلاحیت، اعلیٰ تعلیم یافتہ نوجوانوں میں مایوسی پھیلتی ہے اور وہ دل برداشتہ ہوکر جرائم کا ارتکاب کرتے ہیں۔ آج ان ملکوں میں جو سیاسی افراتفری ہے اس کی بنیادی وجہ یہی ناانصافی ہے۔ حال ہی میں بنگلہ دیش میں طلبہ کی شورش اور حسینہ واجد کی حکومت کے خاتمے کا سبب یہی آمرانہ انداز، اقربا پروری اور ناانصافی تھی۔

ہندوستان، پاکستان اور بنگلہ دیش کے بارے میں یہ حقیقت ہے کہ کسی بھی دفتر میں کوئی کام بغیر رشوت دیے ممکن نہیں۔ انتظامیہ اور رشوت ہم نام بن چکے ہیں، لہٰذا جائز کام سے زیادہ لوگ ناجائز کام رشوت کے ذریعے کراتے ہیں۔ بڑے بڑے ٹھیکے رشوت کے ذریعے حاصل کرکے غیر معیاری کام کیے جاتے ہیں۔ تمام ریاستوں میں چیک اینڈ بیلنس کے ادارے قائم ہیں مگر ان اداروں کے افسران رشوت لے کر ہر غلط کام کی اجازت دے دیتے ہیں۔ جعلی دوائیں، مضر صحت خوراک، ناقص تعمیرات سب انتظامی سرپرستی میں انجام پاتا ہے۔

پولیس عوام کی محافظ اور قانون نافذ کرنے کے لیے ہے۔ مگر پولیس کا نام سنتے ہی ہر خاص و عام کی ٹانگیں کانپنے لگتی ہیں۔ اگر پولیس اپنے فرائضِ منصبی درست طریقے سے انجام دے تو جرم کا دور دور تک کوئی پتا نہ ہو۔ پولیس مجرموں کو پکڑتی ہے اور مقدمات میں اس طرح کی کمزور شقیں ڈالتی ہے کہ چند دنوں کے بعد مجرم جیل سے باہر ہوتا ہے اور عدالتی کارروائی کی طوالت اور گواہوں کی عدم موجودگی کی وجہ سے مجرم آزاد ہوجاتے ہیں۔ حتیٰ کہ اب تو بڑے بڑے مجرم جیلوں میں بیٹھ کر اپنا گینگ چلاتے ہیں۔ جیل میں اصلاح کرنے کے بجائے جرم کو پروان چڑھایا جاتا ہے۔

اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے جب حاتم طائی کے بیٹے عدی بن حاتم ملنے کے لیے آئے تو اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے بیٹھنے کے لیے اپنی چادر بچھا دی۔ عدی بن حاتم کو حیرت ہوئی کہ ایک شکست خوردہ شخص کے لیے سرور عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی چادر بچھا دی! یاد رہے کہ آپ اُس وقت تک مسلمان نہیں ہوئے تھے۔ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ان کو دیکھ کر مسکرائے اور بشارت دی کہ ’’عدی تم لمبی عمر پاؤگے۔ عدی تم دیکھوگے کہ مدینہ والے اتنے خوش حال ہوجائیں گے کہ سونے کی تھیلیاں لے کر گھومیں گے اور کوئی لینے والا نہیں ہوگا۔ عدی ایک ایسا پُرامن دور آنے والا ہے کہ صنعا سے حضرموت تک عورت تنہا سفر کرے گی اور اس کو اللہ کے سوا کسی کا ڈر نہیں ہوگا۔‘‘ یہ تمام بشارتیں حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے دورِ خلافت میں پوری ہوئیں۔

عدل و انصاف کی حالت یہ ہے کہ ہزاروں مقدمات عدالتوں میں زیر التوا ہیں اور سائلین کے مر جانے کے بعد بھی فیصلہ نہیں ہوپاتا۔ ایسا بھی واقعہ پاکستان کی عدالتی تاریخ میں ہوا کہ دو بھائیوں کو ہائی کورٹ سے موت کی سزا سنائی گئی اور انہوں نے سپریم کورٹ میں اپیل کی، اور برسوں گزر جانے کے بعد سپریم کورٹ نے انہیں بری کیا جب کہ وہ تختۂ دار پر چڑھا دیے گئے تھے۔ ایک روٹی چور برسوں جیل میں چکی پیستا ہے جب کہ ملک کو کنگال کرنے والے بڑے بڑے عہدوں پر براجمان ہیں۔

اب آخر میں جرائم کی نرسری نہیں بلکہ اس بڑے کارخانے کی بات جو ہر بچے، جوان اور بوڑھے کے ہاتھوں میں موجود ہے۔ جس کو اسمارٹ فون کی صورت میں ہم دیکھ رہے ہیں۔ اس آلے کے ذریعے کون سا جرم ہے جو پروان نہیں چڑھ رہا؟ مالیاتی غبن ہو، آن لائن کاروبار کا گھپلا ہو یا جنسی بے راہ روی کا سیلاب۔ اس جنسی بے راہ روی نے سماج میں ایسے جنسی درندے پیدا کردیے ہیں کہ قبروں سے مُردہ لڑکیوں کی لاش نکال کر درندگی کی جارہی ہے۔ تازہ کیس ہے کہ کراچی میں ایک ایڈووکیٹ کی تین سال کی بچی کو دو گھر بعد کے پڑوسی نے زیادتی کے بعد قتل کیا۔ دہلی تو دنیا میں ’’ریپ سٹی‘‘ کے نام سے مشہور ہے۔ بچوں کی پورن وڈیوز کا کاروبار ایک سیلاب ہے جو رکنے کا نام ہی نہیں لے رہا۔ قومِ لوطؑ کے عبرت ناک انجام کو دیکھیں یا فرانس کے نومنتخب ہم جنس پرست صدر کا استقبال کریں۔ بہرحال سوشل میڈیا منافع بخش جرائم کی فیکٹری بن چکا ہے، یہاں ٹک ٹاکر فحاشی پھیلا کر اس لیے مال کما رہے ہیں کہ ان کے ہزاروں کی تعداد میں followers ہیں۔ مختصر یہ کہ دنیا اب بوڑھی ہوکر لب گور ہونے جارہی ہے۔ برا ہو اس ہوائی ٹیکنالوجی کا، جس نے انسان کو شیطانیت، درندگی اور حیوانیت سے بھی نیچے گرا دیا ہے۔ اللہ ہمارے دین و ایمان کی حفاظت فرمائے، آمین۔

حصہ