حضرت بلالؓ بن رباح مسلمان ہونے سے پہلے محض ایک حبشی غلام ہی تو تھے۔ ایک بے حیثیت وجود جس کی دکھ بھری زندگی اس وقت تک ہر لحاظ سے ایک سیاہ رات تھی۔ انسانی غلامی کے اس دور میں ان کے پاس کچھ نہیں تھا۔ کچھ بھی تو نہیں!
سراپا اخلاص و وفاداری …
ہمہ تن بیچارگی و بے کسی…
متاع دنیا اور دولت ظاہری سے یک سر خالی ہاتھ !
مگر یہ بات اس وقت تک کی ہے۔ جب تک وہ ایک آدمی کے غلام تھے۔ امیہ بن خلف جیسا کافر و مشرک ان کے اوپر آقائی کر رہا تھا۔ جس کی آقائیت بلال بن رباح کو دو روٹیوں اور دو چیتھڑوں کے عوض ان سے ان کی ساری انسانیت کے شرف خرید لینا چاہتی تھی لیکن یہ المیہ کوئی نئی بات نہیں۔ باطل کی آقائی نے تو ہمیشہ یہی کھیل کھیلا ہے۔ ہمیشہ یہی کھیل کھیلتی رہے گی۔ خدا فراموش انسانی غلامی کی رسم نے خدا کے بندوں کو اسی طرح لوٹا ہے۔ ہمیشہ اسی طرح لوٹا ہے۔
زندگی کے اس خون چکاں دور میں بلالؓ نے محمدؐ کی نئی آواز سنی۔
’’خدا کے سوا کوئی اور خدا نہیں‘‘۔
کرب غلامی سے گھائل روح کو اس آواز نے چونکا دیا۔ جھنجھوڑ ڈالا۔ انھیں پہلی بار اس حقیقت کا سنسنی خیز احساس ہوا کہ آقا امیہ بن خلف اور غلام بلال بن رباح دونوں برابر ہیں۔ دونوں غلام ہیں، ایک ہی خدا کے غلام !
اس احساس حقیقت نے بلال کی روح میں ایک طرف عبودیت کا سوز بیکراں بھر دیا۔ دوسری طرف غیرت انسانیت کے شعلے کوٹ دیئے۔ یہ آواز یقین و ایمان کی برقی لہر کی طرح آئی۔ ان کے قلب و روح میں سرایت کر گئی اور ٹھیک اس وقت جب وہ اپنے خدا کے قدموں پر جھک رہے تھے ان کے جسم و جاں بندوں کی بندگی اور غلاموں کی غلامی سے ہمیشہ ہمیشہ کے لیے بے زار اور آزاد ہو رہے تھے۔ سر سے پاؤں تک غلامی کی آہنی زنجیروں میں جکڑا ہوا انسان بے اختیار پکار اٹھا اور ’’غلامی‘‘ کی تمام زنجیریں چھن چھنا کر ٹوٹ گریں۔
’’خدا کے سوا کوئی اور خدا ہے ہی نہیں… نہیں ہے… ہرگز نہیںہے…‘‘
اور …
اسی دم وہ آدمی جو ایک حبشی غلام تھا ان لوگوں کے لیے ’’سیدنا بلال‘‘ ہو گیا جن کے سینے روشن اور آنکھیں بھیگی بھیگی تھیں۔
’’خدا کے سوا اور کوئی خدا نہیں!‘‘
ہائے یہ الفاظ … یہ چند الفاظ !!
کیا یہ محض چند کھو کھلے لفظ ہیں جو زبان کی چند جنبشوں سے بن جاتے اور ہوا کے ایک جھونکے سے تحلیل ہو کر فنا ہو جاتے ہیں؟ اگر واقعی ایسا ہی ہوتا تو پھر ایسا کبھی نہ ہو تا کہ ان الفاظ پر خون حیات کا ایک ایک قطرہ ٹپکا دینے، دل کی ایک ایک دھڑکن لٹا دینے اور عمر کا آخری سانس تک نذر کر دینے کے بعد بھی ان الفاظ کو منہ سے نکالنے والے یہ کہتے ہوئے دنیا سے جاتے کہ ہم سے ان الفاظ کا حق ادا نہیں ہوا۔ کیسے ہوش باختہ ہیں وہ دیوانے جو اس خوفناک دھوکے کے سہارے جینا چاہتے ہیں کہ ہمیں بس اتنا کہنے پر ہی چھوڑ دیا جائے گا کہ ’’ہم ایمان لے آئے‘‘ اور ہمیں کسی آزمائش میں ڈالا نہ جائے گا!
بلالؓ نے یوں نہیں سوچا تھا۔ انھوں نے بستر پر لیٹ کر نہیں جان ہتھیلی پر رکھ کر یہ کلمہ پڑھا تھا اور اسی لیے ان کو خدا نے خوب خوب ہی آزمایا اور پھر اس کے بعد خوب ہی نوازا بھی۔
’’حبشی غلام‘‘ کے بجائے ’’سیدنا بلال‘‘ بننے سے پہلے۔ اس سے پہلے کہ جنت یہ آرزو کرتی کہ اس مشت خاک کے قدم میرے فرش لالہ و گل پر پڑیں۔ بلالؓ کو سالہا سال تک انسانی عقوبت کے کانٹوں پر گھسیٹا گیا اور شعلہ بار ریت میں ڈال ڈال کر بے رحمی کی ٹھوکروں سے روندا گیا۔ یقیناً یہ ایک بہت ہی بڑی عقوبت تھی۔ مگر اس سے بھی بڑی تھی وہ ایک گھٹی گھٹی چیخ جو اس وقت بھی بلالؓ کے خشک اور جلتے ہوئے ہونٹوں سے بلند ہوتی تھی۔ جب مظلم و جور کی مسلسل یلغار میں ان کی زندگی کی جاں کنی سکرات موت سے بھی آگے نکل جاتی تھی۔
’’ خدا ایک ہے… مجھے مار ڈالو مگر خدا ایک ہے… احد… وحدہ،لا شریک !‘‘
ظلم و ستم کے ان مسلسل زلزلوں میں بلال کو تہ و بالا ہوتا ہوا دیکھ کر کوئی یہ بھی تصور نہ کر سکتا تھا کہ یہ جان لیوا عقوبت ان کو جیتا بھی چھوڑ سکے گی۔ پھر یہ کوئی کیسے تصور کرتا کہ جس ظالم آقا کے ہاتھ دن دہاڑے کے کی سڑکوں پر بلالؓ کا گلا گھونٹ ڈالنے کی قدرت رکھتے ہیں۔ اس ’’آقا‘‘ کو ایک دن اپنے اسی غلام کے ہاتھوں خاک و خون میں تڑپنا ہو گا!، اور درندگی کے طوفان میں اسی ’’غلام‘‘ کی کھٹی گھٹی میں آواز ایک دن خانہ کعبہ کی چھت سے اذان کا رجز بن کر اٹھے گی تو خدا کے عرش کو چھولے گی۔
بھلا کون تصور کر سکتا تھا!
مگر خدا کی قسم!… واقعات یوں ہی پیش آئے۔ حالات و امکانات کے علی الرغم پیش آئے۔ حالات و امکانات کی بساط الٹ گئی اور خدا کی تقدیر نے تاریخ کے چوراہے پر کھڑے ہو کر ثابت کیا کہ بلالؓ اسی خدا کا غلام ہے جو خدا جس بات کا ارادہ کر لے تو پھر وہ ہو کر ہی رہتی ہے۔
کفر و اسلام کی پہلی ہی جنگ میں خدا نے امیہ بن خلف کی گردن کو بلالؓ کی تلوار کے حوالے کر دیا تھا اور فتح مکہ کی عہد آفرین مہم میں محمدؐ عربی اور بلالؓ حبشی ایک ہی ناقہ پر ایک ساتھ سوار تھے اور جب بڑے بڑے مومن کعبہ میں فاتحانہ داخل ہوئے تو کعبہ کی چھت سے پہلی اذان بلند کرانے کے لیے اللہ کی رحمت اور محمدؐ کی نظر اسی سیاہ فام حبشی غلام کو سرخ و سفید ان گنت چہروں کے درمیان ڈھونڈتی پھر رہی تھی۔ کفر و شرک نے جس بلالؓ کو قدموں سے روند ڈالنے کی کوشش کی تھی۔ اسلام نے اسی بلالؓ۔ اس حبشی غلام کو سیدنا بلالؓ بنا کر اٹھایا۔ کعبے کی چھت تک پہنچایا اور اس کے سیاہ ہونٹوں کو اس فخر عظیم کے لیے چن لیا کہ کعبے کی پہلی اذان انھیں پر ایک شعلہ نور بن کر لرزے۔ ایک موج نور بن کر پھوٹے اور ہمیشہ کے لیے فضاؤں اور سینوں میں رواں دواں رہے۔ آج بھی جب روح کے غرفے سے پرانی یادوں کی نسیم قلب و ذہن کی وادیوں میں داخل ہوتی ہے تو ایک نغمہ نور نس نس میں بکھرتا چلا جاتا ہے جس کا سرمدی آہنگ دل کی دھڑکنوں میں جذب ہو کر احساس دلاتا ہے کہ بلالؓ کی صدائے اذان شرق سے غرب تک جوئے رواں کی طرح بہہ رہی ہے۔ بہہ رہی ہے اور بہتی رہے گی۔ وہ فقط ایک صدا نہیں تھی، لفظوں میں ڈھلی ہوئی روح بلال تھی جو رہتی دنیا تک فضائے بسیط میں چمکتی رہے گی۔
کیسے تھے وہ لوگ جنھوں نے جی اور جان سے حق و صداقت کی قیمت پہچانی! ہمیشہ ہمیشہ خوشی سے جینے کے لیے اس دنیا۔ ہاں اس دنیا میں سکتے رہنا بھی ان کے لیے ایک کھیل تھا۔ انھیں تو آزمائش کی سنگلاخ گھاٹیوں سے جنت کے باغوں کی خوشبو آئی تھی۔ اپنے اشک و خون کی طغیانی میں اس یقین کے سہارے تھپیڑے کھا کھا کر وہ مسکر ا سکتے تھے کہ اس طغیانی کے اس پار ایک ساحل مراد بھی ہے۔ جہاں خدا اور خدا کی جنت نہ جانے کب سے ان کے منتظر و مشتاق ہیں۔
اور کیسے ہیں وہ لوگ جو خدا کی جنت کو مفت میں حاصل کرنے کی آرزو بھی اس طرح نہیں کرتے جس طرح سچ مچ کسی چیز کی آرزو کی جاتی ہے!…‘‘