کاروان زندگی،مولانا سید ابوالحسن علی ندوی

62

تیسری اور آخری قسط

دہلی سے پشاور تک فرنیٹر میل کے سیکنڈ کلاس میں سفر تھا۔ راستہ فرحت و انبساط کے ساتھ گزرا کسی درمیانی اسٹیشن سے جعفر شاہ صاحب بھی ساتھ ہو گئے۔ آدھی رات کو پشاور پہنچے تو اسٹیشن پر ارشد صاحب اپنے چند احباب کے ساتھ موجود تھے۔ ہمارا قیام ملک خدا بخش اسپیکر صوبہ سرحد اسمبلی کی کوٹھی پر ہوا۔ اگلے دن سیرت کے پہلے اجلاس میں تقریر ہوئی۔ اتفاق سے ہم دونوں کی تقریریں کچھ بنی نہیں۔ میں نے ایک ایسا موضوع اختیار کیا جو درسی اور علمی حلقوں کے لیے تو موزوں تھا لیکن عوام کے لیے نہیں۔ بہرحال مجھے اپنی تقریر کے نہ جمنے کا احساس تھا۔ قیام گاہ پر آیا تو میں نے خدا کے سامنے اپنے عجز اور نااہلیت کا اقرار کرتے ہوئے مدد چاہی۔ مجھ پر ایک اضطراری کیفیت طاری ہوئی جو اکثر رنگ لاتی ہے۔ دوسرے دن کا جلسہ اصل جلسہ تھا۔ اس دن دفاتر میں تعطیل کر دی گئی تھی اور ہزاروں کی تعداد میں شہر اور قرب و جوار کے مسلمان جلسے میں آئے تھے۔ غالباً سکندر مرزا بھی جو اس وقت کسی بڑے انتظامی عہدے پر مامور تھے‘ موجود تھے۔ سردارعبدالرب نشتر بھی تشریف رکھتے تھے۔ میں احتیاطاً سیرت پر ایک مضمون لکھ کر ساتھ لے گیا تھا لیکن ارشد صاحب نے فرمایا کہ عام طور پر لکھے ہوئے مضامین عوامی جلسوں میں نہیں جچتے اور لوگ انہیں صبر و سکون کے ساتھ نہیں سُن سکتے، چنانچہ میں نے تو تکلا علیٰ اللہ تقریر شروع کی جس کا مرکزی نقطہ بدر کی وہ دعائے رسولؐ تھی جس نے میدان جنگ کا نقشہ ہی بدل ڈالا تھا اور 313 کی اقلیت کو ایک ہزار کی اکثریت پر فتح عنایت فرمائی تھی اور وہ دُعا تھی ’’اے اللہ! اگر تو نے اس مٹھی بھر جماعت کی ہلاکت کا فیصلہ کر دیا تو پھر اس کے بعد تیرانام لیوا کوئی نہ ہو گا۔‘‘

مجھے معلوم نہیں کہ مجھ پر اُس وقت مضامین کا ورود کہاں سے ہو رہا تھا اور زبان میں طاقت کہاں سے آگئی تھی کہ میں خود اس کے زور میں بہہ رہا تھا اور مجمع بھی مسرور و سرشار تھا۔ بعض دیکھنے والوں نے بتایا کہ سردار عبدالرب نشتر چہرے پر رومال رکھے ہوئے تھے اور اُن کی آنکھوں سے آنسو جاری تھے۔ تقریر ختم ہوئی تو بہت سے پٹھان اٹھ کر سامنے آئے اور کہا ’’کیا حکم ہے؟‘‘

اس سفر کا سب سے بڑا تحفہ ارشد صاحب سے ملاقات تھی۔ میں اپنی زندگی میں جن چند آدمیوں سے متاثر ہوا اور جن میں ایسا اخلاص، فہم، دماغی توازن اور قوتِ عمل دیکھی ہے جو ہزاروں میں سے ایک میں ہوتی ہے، اُن میں ایک ارشد صاحب بھی تھے۔ میری تقریر نے پشاور میں ایک خاص دینی فضا پیدا کر دی تھی۔ جگہ جگہ اس کا چرچا تھا ، اس لیے مقرر کی بات کا وزن اور وقعت بڑھ گئی تھی۔ اس فضا سے فائدہ اُٹھاتے ہوئے میں نے تبلیغی طریقے کی دعوت دی۔ ایک نئی کالونی میں، جہاں ملازمین و عہدیدار رہتے تھے‘ صوبہ سرحد کا پہلا تبلیغی گشت ہوا اور یوں وہاں تبلیغی سلسلے کی بنیاد پڑ گئی۔

اگلے مہینے اپریل 1944ء میں ارشد صاحب مولانامحمد الیاس کی خدمت میں نظام الدین حاضر ہوئے۔ میں نے حضرت کو جو تعارفی عریضہ لکھا، اس میں یہ بامعنی فقرہ بھی تھا کہ ارشد صاحب صوبہ سرحد کے رجلِ رشید ہی نہیں بلکہ رجلِ ارشد بھی ہیں۔ ارشد صاحب کو بھی مولا نا محمد الیاس کی ذات اور تبلیغی کام سے ایسا گہرا تعلق ہوا کہ انہوں نے پہلے پشاور اور کلکتے میں اور پھر جاپان اور حجاز میں یہ کام بڑے سلیقے سے انجام دیا۔ جاپان میں تو اُن کے ہاتھوں قبول اسلام کا دروازہ کھل گیا تھا اور حجاز میں اس کام کا وقیع تعارف اور خواص کا رجوع ہوا۔ وہ اس سلسلے میں امریکہ بھی گئے۔ حکومت سعودیہ نے آٹو میٹک ٹیلی فون کی اسکیم منظور کی تو اس کے انچارج اور افسراعلیٰ کی حیثیت سے اُن کا انتخاب ہوا۔ اللہ کو کچھ اور منظور تھا۔ وہ 14شعبان 1383 ہجری کو مدینہ طیبہ سے پندرہویں کا روزہ رکھ کر روانہ ہوئے۔ جدہ کے قریب موٹر کار کو حادثہ پیش آیا جس میں وہ روزے اور احرام کی حالت میں جاں بحق ہوئے۔ حرم شریف میں ایک بڑی جماعت کے ساتھ نماز ہوئی اور جنت المعلیٰ میں شیخ العرب و العجم حاجی امداد اللہ مہاجر مکی اور حضرت مولانا رحمت اللہ کیرانوی کے پہلو میں آسودہ خاک ہوئے۔

’’یہ نصیب اللہ اکبر لوٹنے کی جائے ہے‘‘

میں نے پشاور کے اس سفر سے اپنے محبوب موضوع ’’سیرت سید احمد شہید‘‘ کے سلسلے میں بھی فائدہ اٹھانے کی کوشش کی۔ ارشد صاحب نے اس میں پورا تعاون کیا۔ میں پہلے اکوڑہ خٹک گیا جہاں سید صاحب کے جہاد کی بنیاد پڑی تھی اور پہلی جنگ کا تجربہ کیا گیا تھا۔ اکوڑہ خٹک سے شیدو ، صوابی، مانیری اور ضلع مردان کے کئی مقامات پر جانا ہوا جن کا سید صاحب کی تاریخ و تحریک سے گہرا تعلق تھا۔ ان میں سے ہم ہنڈ اور پنجتار کا خاص طور پر ذکر کرتے ہیں۔

ضلع مردان میں دریائے اٹک کے کنارے ہنڈ ایک بڑا قصبہ ہے جس کے متعلق مولانا عبید اللہ سندھی کا خیال ہے کہ محمود غزنوی نہیں سے دریائے ایک پار کر کے ہندوستان میں داخل مواتھا لیکن مؤرخوں نے غلطی سے اس کو بھٹنڈا لکھ دیا۔ سید صاحب کے زمانے میں یہاں سردار خادمی خاں کی حکومت تھی اور اُس نے دوسرے سرداروں کے ساتھ سید صاحب کے ہاتھ پر بیعت کی تھی اور شرعی نظام قبول کیا تھا لیکن بعد میں وہ منحرف ہو کر مخالفین کے ساتھ مل گیا۔ مجاہدین نے حضرت شاہ اسمعیل شہید کی قیادت میں اس پر فون کشی کی قلعہ بند مجاہدین کے قبضے میں آیا اور خادی خاں قتل ہوا۔

میں ہنڈ دیکھنا اور ضروری مقامات کی تصویریں اور نقشے لینا چاہتا تھا۔ اس کے لیے ارشد صاحب نے ایک نقشہ نویس بھی ہمارے ساتھ کر دیا تھا۔ ہم لوگ سیدھے ہنڈ کی مسجد میں پہنچے اور کسی ایسے شخص کے متعلق معلوم کیا جس سے کچھ تاریخی معلومات حاصل ہو سکیں۔ لوگ سردار خادی خاں کے خاندان کے ایک معزز فرد کو بلا لائے جو ریلوے دفاتر لاہور میں کسی عہدے پر تھے۔ انہوں نے پوچھا کہ آپ اتنی دور سے یہاں کس کام کے لیے آئے ہیں۔ میں نے کہا کہ مجھے تاریخی ذوق ہے اور میں یہاں کے حالات معلوم کرنا چاہتا ہوں۔ وہ بولے اتنی بات کے لیے تو کوئی اتنی دْور سے نہیں آتا، پھر کہنے لگے کہ لکھنو کے ایک صاحب ابوالحسن علی ندوی ہیں جنہوں نے ایک کتاب ’’سیرت سید احمد شہید‘‘ لکھی ہے اور اس میں ہمارے بزرگ سردار خادی خاں کے متعلق سخت الفاظ استعمال کیسے ہیں جو غلط فہمی پر مبنی ہیں۔ میں نے ٹالنے کے لیے کہا کہ لوگ کتابیں لکھتے ہی رہتے ہیں۔ اُس وقت انہوں نے میرا نام پوچھا نہ میں نے بتایا اور بات آئی گئی ہوگئی۔ انہوں نے ہمیں اپنا مہمان بنایا اور رات ہماری پُر تکلف دعوت کی۔ اگلے دن جب میں رخصت ہونے لگا تو میں نے بتایا کہ میں ہی ابوالحسن علی ندوی ہوں، اس پر وہ بڑے اخلاق سے ملے اور کہنے لگے کہ اب تک آپ انجاں بن کر ہمارے مہمان رہے۔ اب تعارف ہوا ہے تو کچھ وقت اور یہاں رہیے تاکہ ہمیں آپ کی میزبانی کا موقع ملے۔ انہوں نے یہ بات بڑے خلوص اور محبت سے کہی تھی مگر ہمارا پروگرام آگے کا بنا ہوا تھا ، اس لیے معذرت کر دی اور مانیری روانہ ہوگئے۔

مانیری سے میں نے پنجتار کا رخ کیا جو چار پانچ سال کہاں سید صاحب اور اُن کے عالی مرتبہ رفقا کا مستقر اور ان کی حال اور مجاہدانہ سرگرمیوں کا مرکز رہا۔ پنجتار جا کر بیعت سب سے زیادہ متاثر ہوئی۔ خاص طور پر جب ہم نے اُس مسجد میں قدم رکھا جہاں سید صاحب اُن کے رفقا اور مجاہدین باصفا نے برسوں نمازیں پڑھیں، اس کی فضا اپنی حرارت ایمانی سے گرم اور اس کی زمین اپنے اشکوں سے نم کی تو دل بے اختیار ایسا امام آیا اور طبیعت دعا کی طرف اس طرح متوجہ ہوئی کہ حرمین شریفین اور زندگی کی بعض مخصوص ساعتوں کے سوا کبھی اور کہیں اس کا تجربہ نہ ہوا۔ اگلے ہفتے یہاں سے بالا کوٹ روانگی ہوئی یہ اس کاروان ایمان و عزیمت کی آخری منزل تھی جس کا سفر ہمارے ہیں وطن رائے بریلی سے شروع ہوا تھا یہاں کی زمین کا ذرہ ذرہ ہیں عزیز تھا اور آنے والوں کو حضرت مرزا مظہر جان جاناں کی زبان میں پیام دیتا تھا کہ

یہ بلبلوں کا صبا مشہد مقدس ہے
قدم سنبھال کے رکھیو یہ تیرا باغ نہیں

واپسی پر میں پشاور اور لاہور سے ہوتے ہوئے دارالسلام پٹھان کوٹ پہنچا جہاں مولانا مودودی اور ان کے رفقا سے ملالہ ہوئی ، غالباً ایک شب و روز رہنا ہوا سہارنپور پہنچتے پہنچتے اس طویل سفر سے میں بہت تھک گیا تھا اور ایک دو روز نظام الدین مولانا محمد الیاس کی خدمت میں رہ کر اپنے مستقر پہنچنا چاہتا تھا کہ مولانا کا حکم پہنچا حیدرآباد سندھ میں ایک بڑا جلسہ ہونے والا ہے جس میں مولانا مفتی کفایت اللہ اور مولانا محمد طیب وغیرہ شرکت فرما رہے ہیں، اُس میں تمہاری شرکت انتہائی ضروری ہے۔ میرا بے اختیار جی چاہا کہ مولانا سے معذرت کر دوں لیکن اللہ نے ہمت و توفیق دی اور میں روانہ ہو گیا۔ جلسے میں ہمارے استاد الاستاد مولانا عبید اللہ صاحب سندھی بھی تشریف لائے جو جلا وطن تھے اور کانگریس کی پہلی وزارت کے زمانے میں مولانا آزاد کی مساعی سے ہندوستان آچکے تھے۔ مولانا سندھی، سید صاحب کے تعلق و نسبت سے مجھ سے بہت خوش تھے اور مجھ پر خصوصی شفقت فرماتے تھے۔ میں نے اس جلسے میں شرکت کی اور تقریر بھی کی۔ یہاں سے فارغ ہو کر میں گوٹھ پیر جھنڈا گیا جس سے حضرت سید صاحب اور اُن کے مجاہدین کا خاص تعلق رہا ہے۔ میں نے مرکز کا کتب خانہ بھی دیکھا۔ اس وقت پیر ضیاء الدین شاہ مند افروز تھے۔ انہوں نے بڑی شفقت فرمائی مولانا عبید اللہ صاحب وہیں مدرسے کے دارالاقامے کی بالائی منزل میں تقسیم تھے۔ پیرانہ سالی اور میرے بار بار عرض کرنے کے باوجود وہ روزانہ زینے کی طویل مسافت طے کر کے میرے پاس تشریف لاتے اور دیر تک بیٹھتے۔ مجھے اُن سے اُن کے سفر ہجرت اور قیام روس کی بعض ایسی باتیں معلوم ہو میں جو تاریخی اہمیت کی حامل تھیں۔

جون 1944ء کے شروع میں مولانا محمد الیاس سخت بیمار ہو گئے اور ان کی علالت آہستہ آہستہ تشویش ناک شکل اختیار کرگئی، چنانچہ میں طویل قیام کی نیت سے حاضر ہو گیا۔ اس زمانے میں مولانا ظفر احمد عثمانی کا بھی وہیں قیام تھا۔ بعد ازاں شیخ الحدیث مولانا محمد زکریا بھی تشریف لے آئے مولانا کی جدائی کا خطرہ قریب معلوم ہوتا تھا۔ مجھ سے کئی مرتبہ فرمایا کہ مجھے اپنے جانبر ہونے کی امید نہیں، یوں اللہ کی قدرت میں سب کچھ ہے وہ جو چاہے۔ ایک روز مغرب کی نماز کے بعد میری طلبی ہوئی نہایت شفقت سے سر پر ہاتھ رکھا اور پھر علوم نہیں۔ کس طرح اس ضعف کی حالت میں کہ چہرے کو حرکت دینی بھی مشکل تھی، سر اٹھا کر میری پیشانی کو بوسہ دیا اور تسلی کے الفاظ ادا فرماتے رہے۔ اس کے چار پانچ دن بعد بارہ اور تیرہ جولائی کی درمیانی شب میں وقت موعود آگیا اور اذان فجر سے پہلے جان ، جاں آفریں کے سپرد کر کے عمر بھر کا تھکا یہ مسافر کہ شاید ہی کبھی اطمینان کی نیند سویا ہو منزل پر پہنچ کر میٹھی نیند سو گیا۔ جون 1947ء کے اواخر میں شیخ الحدیث مولانا محمد زکریا کے مشورے سے یہ طے پایا کہ میں حج اور دعوت و تبلیغ کی نیت سے سفر حجاز کے لیے رختِ سفر باندھوں۔ میں نے اپنے ساتھ والدہ صاحبہ اور اہلیہ کو بھی لے جانے کا فیصلہ کیا حضرت شیخ الحدیث نے اپنی خداداد بصیرت اور وسیع تجربے کی بنا پر فیصلہ کیا کہ میرے ساتھ گھر کا کوئی ایسا فرد رفیق سفر ہونا چاہیے جو مجھے خانگی انتظامات سے فارغ رکھے اور میرا ہاتھ بٹائے تاکہ میں زیادہ سے زیادہ توجہ اپنے مقصد کی طرف دے سکوں۔ اس کے لیے میرے بڑے بھانجے مولوی سید محمد ثانی کا انتخاب ہوا جو میرے علمی و دینی کاموں میں پہلے ہی دست راست کی حیثیت رکھتے تھے۔ اس مختصر قافلے میں ایک اور عزیز ہستی کا اضافہ بھی ہو گیا اور وہ میری ہمشیرہ سیدہ امتہ اللہ مصنفہ نا و سفر (ترجمہ ریاض الضالین کی رات تھی۔

حج کی تمنا اور شوق کیوں تو ہر مسلمان کو ہوتا ہے لیکن سیرت کے مطالعے اور شغف، حدیث کے درس اور عربی زبان کے ناتے میری یہ دیرینہ آرزو تھی کہ حرمین کی حاضری دوں۔ مجھے یاد ہے کہ امین آباد سے اسٹیشن کی طرف تیزی سے بھاگتے ہوئے تانگے دیکھ کر دل میں اکثر ارمان اٹھتا کیا کوئی ایسا دن بھی آئے گا جب ہم بھی حج کے لیے اسٹیشن جارہے ہوں گے۔ آخر وہ دن آہی گیا کہ:

دن گنے جاتے تھے جس دن کے لیے

اُس وقت جنگ عظیم دوم کے بعد حج کا راستہ کھلے ایک ہی سال ہوا تھا ، اس لیے پر مٹ حاصل کرنا پڑتا تھا جو مل گیا تھا۔ بندرگاہ کے انتخاب کی آزادی تھی خواہ بمبئی سے جایا جائے خواہ کراچی سے کہ ابھی تقسیم نہیں ہوئی تھی۔ کچھ ہی دن پہلے نظام الدین میں حاجی عبد الجبار دہلوی سے تعارف ہوا تھا جو کراچی کے بڑے تجار میں سے تھے۔ اُن کی وجہ سے کراچی کا انتخاب کیا گیا۔ 26 جون کو لکھنؤ سے روانگی ہوئی۔ لاہور کے اسٹیشن پر کئی گھنٹے ٹھہر کر کراچی کے لیے گاڑی بدلی۔ فرقہ وارانہ فسادات اُس وقت شباب پر تھے کہ ملک تقسیم ہونے میں صرف ڈیڑھ مہینہ باقی رہ گیا تھا، اس لیے لاہور میں ہوتے ہوئے بھی حضرت مولانا احمد علی کی خدمت میں حاضر نہ ہو سکے۔ کراچی گیارہ دن قیام رہا اور حاجی عبدالجبار صاحب‘ اُن کے بھائی حاجی عبدالستار صاحب اور اُن کے صاحبزادوں اور اُن کے گھر والوں نے میزبانی اور مہمان نوازی میں کوئی کسر نہ اُٹھا رکھی۔

9 جولائی کو کراچی سے مغل لائن کے جہاز اسلامی سے جدہ سے روانگی ہوئی۔ ہم نے دو ٹکٹ فرسٹ کلاس کے خرید لیے تھے جن کی وجہ سے ایک پورے کیبن کی سہولتیں ہمیں حاصل ہو گئیں۔ ہمارے کیبن سے متصل ہی برطانوی قونصل جنرل متعینہ جدہ، شاہ جہاں امیر کبیر کا کیبن تھا جن سے تعارف میر غلام علی تالپور وزیرِ سندھ کی ایک دعوت میں ہو گیا تھا۔ اس سفر میں‘ میں نے اپنی ضعیف والدہ اور اُن کے ہمراہیوں کے لیے راحت و آرام کے ایسے غیبی انتظامات و واقعات دیکھے جو اللہ تعالیٰ کے لطف خاص کا نتیجہ معلوم ہوتے تھے۔

حصہ