ان مغربی تصورات کی فہرست جن سے دین کے بارے میں غلط فہمیاں اور گمراہیاں پیدا ہوتی ہیں

49

قسط نمبر۔2

-50 بعض دفعہ مذہب کو اسی لیے پسند کرنا کہ اس کے ذریعے آدمی کو دنیا کے بکھیروں سے چھٹ جاتا ہے۔

-51 ہر دینی مسئلے کو انسانی نقطہ نظر سے دیکھنا بلکہ دین کو انسانی فکر کا نتیجہ سمجھنا اور جو چیزیں ماورائے انسان ہیں انہیں انسان کی سطح پر لانے کی کوشش۔

-52 سائنس اور دین میں اس طرح مطابقت پیدا کرنے کی کوشش کہ دین سائنس کے نظریوں کا تابع ہو جائے۔ سائنس کو آخری معیار بنانا۔

-53 فقہ کے احکام کو انسانی قوانین کی طرح سمجھنا۔

-54 یہ دعویٰ کرنا کہ دین ’’سیدھی سادی‘‘چیز ہے اور علما نے اسے پیچیدہ بنادیا ہے‘ دین میں ’’سادگی‘‘ پیدا کرنے کا دعویٰ۔

-55 دین میں تحریف کرنا اور پھر یہ دعویٰ کرنا کہ ہم ’’اصلی‘‘ دین کو دوبارہ زندہ کر رہے ہیں۔

-56 دین کے ہر عنصر کو تاریخی نقطہ نظر سے دیکھنا اور یہ سمجھنا کہ دینی ادارے‘ عقائد‘ ہر چیز تاریخ کے ساتھ بدلتی رہتی ہے۔

-57 محض تاریخی واقعات کی چھان بین کو ’’علم‘‘ اور ’’علمیت‘‘ سمجھنا اور اس طریقے سے دین کو سمجھنے کا دعویٰ کرنا۔

-58 تحقیق کو دینی اصولوں کے ماتحت نہ رکھنا‘ بلکہ تحقیق برائے تحقیق۔

-59 سائنس کے تجرباتی طریقے کو علم کا واحد طریقہ سمجھنا اور یہ یقین رکھنا کہ روحانی اور دینی امور کا علم بھی اسی طریقے سے حاصل ہو سکتا ہے۔

-60 محض تفصیلات پر تحقیق کرتے رہنا اور واقعاتی یا تاریخی تفصیلات اتنی تعداد میں جمع کرنا کہ حقیقت غائب ہو جائے۔

-61 یہ سمجھنا کہ مطلق اور مستقل صداقت اوّل تو ہوتی نہیں‘ اور اگر ہو بھی تو حتمی طور پر کبھی حاصل نہیں ہوسکتی۔ اس لیے مسلسل تحقیق ہونی چاہیے۔ اس کا نتیجہ ہے تلاش برائے تلاش۔

-62 یہ نظریہ کہ خالص علم کوئی چیز نہیں‘ بلکہ علم صرف وہ ہے جس کے ذریعے کوئی مادّی چیز بنائی جاسکے یعنی علم کو صرف ایجادات کا ذریعہ سمجھنا۔

-63 ’’مذہب کا تقابلی مطالعہ‘‘ یعنی مختلف مذاہب میں اختلاف یا مشابہت ڈھونڈنا بغیر کسی مقصد یا اصول کے۔

-64 ہر دین کے ہر پہلو میں دوسرے ملکوں‘ قوموں اور مذاہب کے اثرات تلاش کرنا۔ مثلاً یہ کہنا کہ مسلمانوں میں تصوف اور ایرانیوں یا ہندوئوں کے اثر سے آیا۔

-65 ’’تہذیب‘‘ (کلچر) یا ’’معاشرے‘‘ کو دین سے وسیع تر یا بلند تر سمجھنا اور دین کو تہذیب کا ایک جزو قرار دینا۔

-66 دینی کتابوں کا صرف ظاہری اور خارجی مطلب دیکھنا۔

-67 اپنی ذاتی رائے سے دین کی تفسیر کرنا اور تفسیر کا حق عام کر دینا۔

-68 دین کی چیزوں کو یورپ کے اداروں یا تصورات کے پیمانے سے ناپنا۔

-69 اسلامی تصورات کو عیسوی تصورات کے معیار سے جانچنا یا انہیں عیسوی تصورات کے سانچے میں ڈھالنا۔

-70 مشرقی اصطلاحات کا غلط مطلب لینا اور مغربی الفاظ کو مشرقی الفاظ کے مترادف سمجھنا۔

-71 یورپ اور ’’تہذیب‘‘ کو مترادف سمجھنا اور مغربی تہذیب کو معیار بنانا اور اسی معیار سے دین کو جانچنا۔

-72 دین کو ’’جدید‘‘ بنانے کی کوشش‘ یہاں تک کہ عقائد کو بھی۔

-73 یہ دعویٰ کرنا کہ شریعت موجودہ زمانے میں کام نہیں دے سکتی۔

-74 عقائد اور شرعی احکام اور عبادات کو نسلی‘ جغرافیائی یا تاریخی اثرات کے ماتحت رکھنا‘ اور یہ دعویٰ کرنا کہ یہ تصورات ایک خاص مقام اور ایک خاص وقت میں خارجی اثرات کے ماتحت پیدا ہوئے تھے اور صرف انہیں حالات سے مناسبت رکھتے ہیں۔

-75 عام آدمیوں کو سمجھانے کی خاطر عقائد اور خصوصاً تصوف کے رموز کو مسخ کرنا یا ایسی تفسیریں پیش کرنا جو مروجہ خیالات کے مطابق ہوں تاکہ لوگ سن کر خوش ہوں۔

-76 یونانی فلسفے کو دانش مندی کی معراج سمجھنا اور اسی کی رو سے ہر مذہب پر تنقید کرنا یا مذہبی تصورات کو یونانی فلسفے کے سانچے میں ڈھالنا۔

-77 دین اور دنیا کو یا تو بالکل الگ کر دینا یا دین کو دنیا کے تابع کرنا۔ یہ دوسرا رجحان آج کل زیادہ غالب ہے۔

-78 ’’نظریہ ارتقا‘‘ اور ’’ترقی‘‘ کے نظریے کو مذہب اور مذہبی تصورات پر بھی عائد کرنا بلکہ یہاں تک کہنا کہ نعوذباللہ ’’خدا‘’ بھی ’’ترقی‘‘ کر رہا ہے۔

-79 مختلف مذاہب کو ایک دوسرے میں گڈمڈ کرنا اور مختلف نوعیت کے تصورات لے کر انہیں اپنی مرضی کے مطابق ایک جگہ جمع کرنا۔

-80 دین کو ’’فلسفہ مثالیت‘‘ کی ایک قسم سمجھنا۔ اس فلسفے کا ماحصل یہ ہے کہ حقیقت مادّی اشیا میں نہیں ہوتی‘ بلکہ ان کے پیچھے جو ’’تصور‘‘ ہے اس میں ہوتی ہے۔ مگر یہ تصور کہاں ہے اور کس کے ذہن میں ہے‘ اس کا کوئی واضح جواب ایسے فلسفی نہیں دیتے۔ ’’عالم مثال‘‘ کا جو تصور ہمارے یہاں ہے اسے بھی یہ لوگ نہیں مانتے۔ ’’تصور‘‘ یا ’’خیال‘‘ کو غیر مادّی کہتے ہیں‘ مگر ہمارے معنوں میں روح کے بھی قائل نہیں ہیں اس لیے دراصل یہ فلسفہ بھی مادّیت ہی کی ایک قسم ہے۔

-81 مغرب کے ہر مفکر کے پاس ایک الگ فلسفہ ہوتا ہے جسے ایک ممتاز ’’نظام‘‘ کہا جاتا ہے۔ اس لیے مغربی لوگ اور مغرب زدہ لوگ دین میں بھی ’’فکری نظام‘‘ دیکھتے ہیں۔ مثلاً ان کے نزدیک تصوف ایک ’’فکری نظام‘‘ ہے جس کا شریعت سے تعلق نہیں بلکہ اسی معنی میں حضرت امام ابو حنیفہؒ کا ایک نظام بتایا جاتا ہے اور حضرت امام شافعیؒ کا ’’ایک نظام۔‘‘

-82 ’’فطرت پرستی‘‘ یعنی مادّے یا نظام فطرت کو سب سے بڑی حقیقت سمجھنا اور اس کے سوا کسی چیز کو حقیقت نہ سمجھنا۔ اس رجحان کے بہت سے شاخسانے ہیں۔

-83 حالانکہ ’’فطرت‘‘ کی دنیا تبدیلیوں کی دنیا ہے مگر اسے مستقل اور اٹل حقیقت سمجھنا اور دین کو سمجھنے کے لیے ’’فطرت‘‘ اور فطرت کے قوانین کو معیار بنانا۔

-84 جو حقائق ’’فطرت‘‘ سے اوپر ہیں انہیں ’’فطری‘‘ بنانے کی کوشش یعنی فوق الفطرت حقائق کے بارے میں ’’فطرت‘‘ کے اصول استعمال کرنا۔

-85 یہاں تک کہ جو حقائق مابعد الطبٰعی ہیں انہیں حیایاتی حقائق بنا کے دکھانا۔ مثلاً روح کو مادّے میں سے نکالنا۔ ’’اعیان‘‘ کو جان دار اجسام کے خلیوں میں ڈھونڈنا۔

-86 تمام حقائق کو مادّیات اور جسمانیات میں تبدیل کرنا۔ مثلاً عالم مثال اور مادّی عالم یا جسمانی عالم کو ایک سمجھنا۔

-87 روحانی حقائق کو نفسیات کی شکل دینا۔ خصوصاً تصوف کو نفسیات کی ایک قسم سمجھنا اور سلوک کے طریقوں کو ذہنی معالجے کا ایک طریقہ بنانا۔

-88 ’’وجدان‘‘ کے اصلی معنی نہ سمجھنا‘ بلکہ برگساں کے نظریات کے زیر اثر ’’وجدان‘‘ کو ایک ایسی صلاحیت خیال کرنا جو جبلت یعنی جسمانی اور عضویاتی عوامل سے پیدا ہوتی ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ عقل جزوی کو رد کرکے اس سے اوپر عقل کلی کی طرف نہ جانا‘ بلکہ نیچے جسمانیات میں اتر جانا۔ (کہا جاتا ہے کہ آج کل فلسفہ اور سائنس مادّیت اور عقلیت پرستی کے خلاف ہو گیا ہے اور روحانیت کا قائل ہے‘ اس کافی الاصل مطلب یہ ہے۔) اکثر ’’دل‘‘ کے بھی یہی معنی سمجھے جاتے ہیں۔

-89 دیکارت (Descartes) کے فلسفے سے جو ذہنیت سترہویں صدی کے درمیان شروع ہوئی ہے اس کے اثرات کے ماتحت روح اور مادّے یا روح اور جسم کو ایک دوسرے سے بالکل الگ سمجھنا۔

-90 سب سے زیادہ تو برگساں کے اثر سے اور پھر دوسرے فلسفیوں مثلاً وائٹ ہیڈ کے اثر سے‘ ایک ’’زندگی کا یا حیات کا مذہب‘‘ (Religion of Life) نکلا ہے۔ اس میں ’’قوت حیات‘‘ کو حقیقت عظمیٰ سمجھا جاتا ہے۔ اصلی مذہب کو بھی اسی رنگ میں ڈھالنے کی شدید کوششیں ہو رہی ہیں اور نعوذ باللہ ’’خدا‘‘ کو بھی قوت حیات کے مترادف سمجھا جاتا ہے۔ برگساں نے اس قوت کا نام Elan Vital رکھا ہے۔ چنانچہ بعض لوگ ’’خدا‘‘ کے اندر اس قوت کا سب سے عظیم مظہر دیکھتے ہیں۔ نعوذباللہ‘ بعض لوگ کہتے ہیں کہ پرانے لوگ چونکہ اس وقت حیات کی صحیح نوعیت سمجھنے سے قاصر تھے‘ اس لیے خدا کا نام ایجاد کر لیا۔ یہ فلسفہ بھی ’’فطرت پرستی‘‘ کی ایک شاخ ہے۔ اسلام کو بھی یہی شکل دینے کی کوشش ہوئی ہے اور ہو رہی ہے۔

-91 برگساں ہی کے اثر سے یہ فلسفہ پیدا ہوا ہے کہ حقیقت عظمیٰ جامد اور ساکن نہیں بلکہ حرکت میں ہے اور ہر وقت تغیر پذیر ہے اور کائنات کا سارا کارخانہ اسی کی شانِ تغیر کا مظہر ہے۔ اس فلسفے کا نام Philosophy of Becoming ہے یعنی ’’فلسفہ شدن‘‘ جو نظریہ حقیقت کو ساکن یا قائم سمجھے اسے Philosophy of Being ’’فلسفہ بودن‘‘ کہا جاتا ہے۔ برگساں کے اس فلسفے کی رو سے بھی اسلام کی تفسیر ہو رہی ہے۔

-92 اسی فلسفے سے ملحق حیاتیاتی نقطۂ نظر ہے۔ یعنی ہر چیز‘ یہاں تک کہ عقائد تک کی تشریح حیاتیات کی رو سے کرنا۔ جبلت کو ہر انسانی سرگرمی‘ یہاں تک کہ مذہب کا بھی ماخذ سمجھنا۔ اس قسم کے بہت سے فلسفے ایک ساتھ رائج ہیں۔ مگر اس کی تازہ ترین شکل فرانسیسی پادری اور سائنس دان Teihard de Chardin تائی آرو شاردیں کے نظریات ہیں۔ وہ کہتا ہے کہ جس طرح بھاپ زمین سے اٹھتی ہے تو فضا میں بادل بن جاتے ہیں‘ اسی طرح خیالات انسانوں کے ذہن میں پیدا ہوتے ہیں تو ان سے بھی ایک لطیف جوہر نکل کے فضا میں جمع ہوتا چلا جاتا ہے۔ پھر ان لطیف بادلوں کے فیض سے انسانوں کے ذہن میں اور نئے خیالات پیدا ہوتے ہیں۔ اس طرح انسان ذہنی ارتقا کی منزلیں طے کرتا چلا جا رہا ہے۔ بلکہ انسان کے ساتھ ساتھ خدا کا بھی ارتقا ہو رہا ہے۔ نعوذباللہ غرض اس شخص نے مذہب کے اعلیٰ ترین حقائق کو حیاتیاتی اور طبعی چیز بنا دیا ہے۔

-93 روحانی فیوض کو تسلیم کرنا‘ مگر انہیں برقی یا مقناطیسی طاقت سمجھنا۔

-94 دینی اداروں اور تصورات کو بھی معاشیاتی عوامل کے تابع سمجھنا۔ مارکسیت کا اثر۔

-95 عمرانیات اور اجتماعیات کی رو سے دین کا مطالعہ‘ مذہب کو بھی ایک عمرانی ادارہ سمجھنا‘ اور مذہب کو بھی رسم و رواج کی سطح پر رکھنا۔

-96 جس طرح معاشرتی یا سیاسی اداروں کی ’’تنظیم‘‘ ہوتی ہے‘ اسی طرح کی ’’تنظیم‘‘ سمجھنا‘ خصوصاً تصوف کے سلسلوں کو ’’تنظیم‘‘ یا ’’نظام‘‘ قرار دینا۔

-97 دینی معاملات میں کسی نہ کسی قسم کی سیاست کے نقطہ نظر سے فیصلے کرنا۔

-98 مقدس کتابوں سے سائنس کے اصول ماخذ کرنے کی کوشش کرنا۔

-99 کسی نہ کسی نظریہ کائنات (Cosmology) کو دین کا لازمی جزو سمجھنا اور اس حقیقت سے بے خبر رہنا کہ ہر مذہب میں کم و بیش نظریہ کائنات کی حیثیت ثانوی رہی ہے اگر کوئی خاص نظریہ کائنات غلط قرار پا گیا ہے تو جس مذہب سے اس کا ظاہری تعلق رہا ہے اسے بھی محض اسی بنا پر باطل قرار دینا۔

-100 مغربی مفکر اور جس قسم کا ’’تصوف‘‘ مغرب میں رائج رہا ہے وہ عالم مثال سے آگے نہیں جاتا۔ اس لیے اسلامی تصوف کو بھی یہیںتک محدود سمجھنا بلکہ اس سے آگے کسی درجے کا تصور تک ذہن میں نہ ہونا۔ چنانچہ اسلامی تصوف کو مغرب کی Mysticism کی طرح کی چیز سمجھنا جس کی آخری حد مکاشفات ہیں۔(جاری ہے)

حصہ