نہیں کوئی ایسا۔۔۔۔

98

جس نے بھی اس کے ہاں بچے کی پیدائش کا سنا، ایسا تاثر ضرور دیا جس سے یہ خبر خوشی سے زیادہ عجیب ہی لگی۔ جو زبان میں محتاط رہے اُن کی آنکھیں اور معنی خیز مسکراہٹ بولی۔ جو زبان پر گرفت نہ رکھتے تھے، انہوں نے لیلیٰ فاروق کو اپنے اپنے مزاج کے بظاہر پُرمزاح تبصروں سے نوازا، یہ اور بات ہے کہ 43 برس کی لیلیٰ فاروق بخوبی ہر تبصرے کا مفہوم سمجھ رہی تھی، چاہے وہ خاموش اشارہ تھا یا سنائی دیتا فقرہ۔ بہرحال ایک مشترکہ مؤقف یہی تھا کہ ڈھلتی عمر کی لیلیٰ فاروق کو دو بچوں کی ’’گرینی‘‘ ہوتے کچھ تو حیا کرنی تھی۔

’’اتنی مضحکہ خیزی کی فاروق احمد اور اس کی بیوی سے امید نہ تھی۔‘‘

اکیس سال کے بیٹے نے بھی دوسرے شہر کے ہاسٹل سے آکر خوب ناک بھوں چڑھاکر گلابی چادر میں لپٹی اس لجلجی لگتی مخلوق کو دیکھا جس کا نام پپا نے مروہ فاروق رکھا تھا اور جسے مما مستقل ماروی کہہ رہی تھیں۔ ’’ہونہہ خوا مخواہ کے چونچلے۔‘‘ وہ آواز اندر ہی دباتا ہٹ گیا۔ بہن نے اسے بہت پہلے نئی صورتِ حال کا بتادیا تھا، جسے سن کر اسے دھچکا لگا اور پھر اشتعال ابھرا جس سے نمٹنے پر خاصی توانائی لگانی پڑی۔ سمسٹر کی چھٹیوں پر بھی گھر نہ آیا حالانکہ تین سال سے آخری پرچہ دیتے ہی وہ ہر قیمت پر ٹکٹ کٹاکر اڑان بھرتا گھر پہنچ جاتا۔ اب کے نہ آیا تو ماں کی بے قراری بڑھ گئی، اور آیا تو کیسے آیا!

اجنبی بن کر!
فاصلے پیدا کرتا!
سرد رویّے کے ساتھ

’’نانا ابو کہہ رہے ہیں بھائی کی شباہت ہے ماروی میں۔‘‘ لیلیٰ نے بیٹے سے بات کرنا چاہی مگر وہ لب بھینچے رہا۔ قریب کھڑی ماں نے جوان بیٹے کے انداز سے تھکن اپنے اندر جمتی محسوس کی اور آنکھ کی نمی رگڑ ڈالی ’’فاروق احمد! تم نے مجھے کس آزمائش میں ڈال دیا۔

کاش میں بھی اتنا چکنا گھڑا ہوتی جیسے تم ہو۔‘‘ آزردہ سی لیلی نے قریب رکھے بے آواز جلتے بجھتے سیل فون کو دیکھتے خاموش شکوہ کیا۔ کمرے میں اب وہ تھی اور ماروی۔ اسکرین پر ستارے چمک رہے تھے۔

یہ اس کی پہلوٹھی کی شادی شدہ بیٹی کا نمبر تھا۔ خالی آنکھوں سے فون دیکھتی وہ بستر کی جانب بڑھی اور سر تکیے پر رکھ دیا۔ اسی بیٹی نے پورے نو ماہ ماں کی ہمت ٹوٹنے نہ دی تھی، ساتھ تو فاروق احمد نے بھی کبھی نہ چھوڑا لیکن لیلیٰ کو سترہ برس بعد خاندان میں کسی نئے اضافے کے فیصلے سے شدید اختلاف تھا، سب سے چھوٹی اولاد بھی گیارہویں جماعت میں آچکی تھی، ایسے میں لیلیٰ آنے والے مسائل اور معاشرتی دباؤ سے برافروختہ تھی۔ چاہے اس کو ختم کرنے کی قیمت اس کی اپنی جان کے لیے مہلک بتائی گئی لیکن وہ اس قصے کو بڑھانا ہی نہیں چاہتی تھی، اور فاروق احمد اس کو مکانا نہیں چاہتے تھے، انہیں ایک اور بیٹے کی ہمیشہ ہی تمنا رہی تھی، اس خواہش کا اظہار ایک عمر تک وہ اتنا کرچکے تھے کہ لیلیٰ کو خود بھی اس خواہش سے اُنسیت ہوچکی تھی۔ لیکن اتنی عمر کو پہنچ کر اس اُنسیت سے وہ دست بردار ہوچلی تھی۔ بڑی بیٹی کی شادی کو تین برس بیت چکے تھے، وہ جڑواں بیٹوں کی ماں تھی۔ لیلیٰ فاروق کی توجہ فطری طور پر نواسوں کی جانب منتقل ہوچکی تھی، اپنے ہاں بچے کا تصور اسے ایک حماقت سے زیادہ نہ لگا۔

’’امی! جب مجھے سسرال کا خوف نہیں تو آپ کیوں پریشان ہیں؟ اولاد ہے آپ کی، گناہ تو نہیں۔‘‘ ہراساں سی ماں کو سنبھالتی وہ ایک ماں تھی۔

بائیس برس، تینتالیس برس کی ڈھال بن چکے تھے۔ لیلیٰ فاروق نے اکلوتے بیٹے اور چھوٹی بیٹی کو سوچا اور لرز گئی۔ یہ مرحلہ بھی ڈھال نے اپنے ذمہ لیا اور ماں کو پُرسکون رکھنا چاہا۔

’’زندگی بہتر تھی اگر یہ سب نہ ہوتا۔‘‘ لیلیٰ فاروق نے پورے نو ماہ متوقع مسائل سے نبرد آزما ہوتے بارہا سوچا۔ چھوٹی بیٹی ماں سے کھنچی کھنچی رہنے لگی تھی، بیٹا مہینوں گھر نہ آیا۔ احباب کے تاثرات، مراسم داروں کے فرمودات وہی تھے جن کا پہلے سے اندازہ تھا۔ شاید وہ خود بھی ایسا ہی ردِعمل دکھاتی اگر معاملہ کسی اور کا ہوتا۔

قدرت بہت بار ہمارے سامنے ہمارے کہے الفاظ لا کھڑے کرتی ہے، کیا ہی اچھا ہو کہ انسان پہچان کر سدھار کی جانب بڑھ جائے۔ برسوں قبل اس نے خاندان میں ایسے ہی کسی معاملے کے لیے کہا تھا ’’عمر کا نہیں تو معاشرے کا ہی لحاظ کیا ہوتا، ہر شوق ہر وقت پورا نہیں کیا جاتا۔‘‘ کہا غائبانہ تھا، اس میں طنز سے زیادہ خوامخواہ کی جھنجھلاہٹ تھی، جیسے یہ براہِ راست اس کو متاثر کررہا ہو۔ اب کائنات سے ان احساسات کی گونج لیلیٰ فاروق کو پہنچ رہی تھی۔

مروہ فاروق بھی ماں کی برداشت کا پرچہ بناکر بھیجی گئی تھی۔ پرچے کے مشکل ترین سوالات وقت کے ساتھ ساتھ بڑھتے ہی گئے۔

بچی بہت روتی اور وہ بھی خوب گلا پھاڑ کر۔ نہ جانے صوتی توانائی رونے کے لیے کہاں سے میسر ہوجایا کرتی! ماں سنبھالتے اور باپ کے ساتھ طبیبوں کے چکر لگاتے نڈھال ہوجاتی۔ ’’وقت کے ساتھ صحیح ہوجائے گی۔‘‘ رونے کی حد تک رہتا تو بھی تشویش نہ ہوتی، لیکن رونے کی شدید کیفیت کے ساتھ اس کا جسم جھٹکے دیتا۔ وقت کے ساتھ یہ تبدیلی ہوئی کہ بہن بھائی کے لیے مروہ فاروق رقیب سی بن گئی جس نے ان کے گھر کو صحرا سا بنا ڈالا تھا۔ مروہ گندمی رنگت والے خاندان میں پورسلین سے بنی گڑیا سی تھی، لیکن روتے وقت آوازیں، چہرے، تاثرات، غذا… اسے کچھ بھی نہیں بہلا پاتا۔ اطباء خدشہ ظاہر کرتے کہ مروہ کسی اندرونی کمزوری کے ساتھ پیدا ہوئی بچی ہے۔ گھر میں اس گڑیا کی آوازیں ارتعاش پیدا کرتی لگتیں۔ جب وہ چپ ہوتی تو زمین پر طوفان کے بعد کے آثار لیلیٰ پر ہوتے۔ فاروق احمد جی جان سے مروہ کو سنبھالنے میں لیلیٰ کا ساتھ دیتے، مددگار لڑکی بھی مستقل مروہ کے کام کاج کے لیے رکھ لی گئی، لیکن گھر والے دن بہ دن ایک دوسرے سے فاصلے پر ہوتے چلے گئے۔ وہ گھر جہاں لیلیٰ فاروق کے ہاتھ کے لگے پودے، پھل پھول لہلہاتے تھے، وہ توجہ کی کمی سے مرجھاتے چلے گئے، جہاں والدین اور جوان بچے ہنستے، خوش گپیاں کرتے زندگی سے حوصلے کشید کرتے وہاں بس پورسلین کی گڑیا نے توانائیوں کا سارا رخ اپنی جانب کرلیا۔

ہاتھ پیر بھی گڑیا کے زیادہ نہ چلتے۔ ماں کا دل جو اس کی ہر جنبش پر غور کرتا، سہمنے لگا۔ مزید کوئی ناخوش گوار خبر سننے کی اس میں ہمت نہ تھی۔

فاروق احمد کو بارہا اپنے فیصلے پر پچھتاوا ہوتا، لیکن اب کیا فائدہ! شاداب سی لیلیٰ فاروق مروہ کی پیدائش کے دو سال بعد نچڑ کر رہ گئی تھی، چھوٹی بیٹی 19 سال کی ہوگئی تھی، وہ اچھے بھلے رشتوں کو مسترد کردیتی، اس کے ماں باپ سے شکوے شادی سے بے زاری میں بدل چکے تھے۔

’’مما! آپ اور پپا دونوں نے صرف اپنا سوچا، اگر اپنے تین بڑے بچوں کا بھی سوچا ہوتا تو ہماری زندگی میں یہ مصیبت نہ ہوتی۔‘‘ دل میں ابھرتے شکوے کے ساتھ شہد کی رنگت والی آنکھیں چھلک گئیں۔‘‘

وہ ایک سہ پہر کالج سے کسی کامیابی پر تمغا لے کر لوٹی تو ماروی کے رونے کی آوازیں گھر میں گونج رہی تھیں، اور ماں جس کے گلے لگ کر اسے خبر سنانی تھی، بچی کو سنبھالنے کی ناکام کوشش میں مصروف تھی۔ پہلے تو اس نے ماں کو ترس سے اور پھر اداسی سے دیکھتے بے نیازی تان لی۔

فاروق احمد بے بسی سے دیکھتے اور لیلیٰ کو تو سوچنے کا بھی موقع نہ ملتا، ماروی ہر دن پیچیدہ گتھی لگتی۔ اگر وہ ماں نہ ہوتی تو شاید اس سے بے گانہ ہوجاتی، لیکن ماں اور باپ اولاد کی محبت اپنے خون سے نکال ہی نہیں سکتے، سو لیلی فاروق بھی اپنی تھکتی روح اور مضمحل جسم کے ساتھ رب کی ڈالی اس ذمہ داری کو نبھانے کی کوشش میں تھی۔ بڑی بیٹی بھی کم ہی آتی، اس کے میاں کا خیال تھا کہ ایب نارمل بچے کے اثرات ان کے بچوں کی صحت پر اثر انداز ہوسکتے ہیں۔ بلاشبہ وہ خوب صورت اور متحرک بچے تھے۔ لیلیٰ کا بڑا دل چاہتا کہ وہ اپنے نواسوں کے ساتھ ہنستا مسکراتا وقت گزارے، ان کے لاڈ اٹھائے، ان کی معصوم حرکات پر دل کھول کر خوش ہو، لیکن یہ سب کب ممکن ہوگا، اور ہوگا بھی یا نہیں؟ وہ یہ نہ جانتی تھی۔ اُسے لگتا وہ ماروی اور فاروق کے ساتھ کسی اور سیارے پر بھیج دی گئی ہے جہاں وہ باقی رشتوں، محبتوں سے کٹ چکی ہے۔

زندگی اس گھر میں ماروی کے ہونے سے یکسر تبدیل ہوچکی تھی۔ ایک عمومی سی اکتوبر کی شام تھی، جب ماروی فاروق خلافِ معمول سوئی ہوئی تھی، لیلیٰ نے چونک کر گھر کو ایسے دیکھا جیسے کوئی اجنبی ہو، ہر چیز اس کے لیے نیا منظر ہو۔ چوبیس گھنٹے موجود مددگار خادمہ گھر کے کسی گوشے میں بیٹھی املی ٹافیاں بھر بھر کر بے فکری سے کھاتی گنگنا رہی تھی، کل اس کی ماں پوری تھیلی اس کو دے گئی تھی۔ پچھلے ماہ اس نے ماروی کی نرس کی دی گئی ٹافی کا کاغذ ماں کو دے کر فرمائش کی تھی کہ وہ آئندہ تنخواہ لینے آئے تو یہ یاد سے لائے۔ ماں اس بچی کی فرمائش کیسے نہ یاد رکھتی جس کو وہ ہر رات یاد کرکے سوتی، جس کا بچپن گھر سے دور اس کے بال بچوں کے دو وقت کھانے کا بوجھ اٹھانے میں مددگار تھا۔

وہ ہر بار ماں سے سرگوشی کرتی کہ اس کو کہیں اور لے جائے کام پر، اس روتی بچی کے رونے سے اس کا سر درد کرتا ہے۔ اور ماں ہر بار اسے پچکارتے ہوئے کہتی کہ ’’رب سوہنا بندوں سے محبت کرتا ہے، سو اسے بھی بچی کو خوشی خوشی سنبھالنا چاہیے تاکہ رب سوہنا اس سے محبت کرے۔‘‘

لڑکی ماں کی بات سن کر کچھ بولنا چاہتی لیکن ماں خاطر میں لائے بنا بیگم لیلیٰ فاروق کے دیے نوٹوں کو اپنی طرف سے محفوظ جگہ پر رکھنے کے لیے جانے کو اٹھ جاتی۔ ’’جھلی جانتی نہیں کہ اتنے پیسے مشکل اولاد کے دیتی ہے ماں، ورنہ اس سے آدھی رقم میں کوئی اور مل جاتا۔‘‘ سوچ اس کے دماغ میں آتی اور اپنی ناراض بیٹی کو سینے سے لگا کر بھینچتی اٹھ جاتی۔

’’امی! دیکھنا میں بھاگ جائوں گی کسی دن، میرا سر دکھتا ہے، ابو کو بھی بتا دینا۔‘‘بارہ برس کی خادمہ بھی سال بھر بعد مروہ فاروق سے بے زار ہوچکی تھی۔ جاتی ہوئی ماں نے اس کی بات سن کر پلٹ کر شعلہ بار آنکھوں سے دیکھا اور دل چاہنے کے باوجود اس کو تھپڑ نہ جڑا، ورنہ بات تو اس نے ایسی ہی کی تھی کہ اس کو ایسا مارا جائے کہ بھاگنے کا لفظ ہی بھول جائے۔

سوچوں اور فکروں میں الجھی ماں گھر سے نکل کر نیم کے درخت تلے کھڑے میاں کے پاس پہنچی، جس نے سب سے پہلے پوچھا ’’منی کیسی تھی، میرا پوچھا اس نے؟‘‘

ماں نے اثبات میں سر ہلاتے بیٹی کی تنخواہ کے نوٹ پکڑاتے، میاں کو بازو سے پکڑ کر کھینچا جو اس بند گیٹ کو دیکھ رہا تھا جہاں اس کی بیٹی تھی، اس کی رانی۔ اسے ڈر تھا کہ باپ ہمیشہ کی طرح جذباتی ہوکر بیٹی کو واپس نہ لے آئے۔ پچھلے دو برسوں سے وہ یہی کرتا آرہا تھا، بیٹی یاد آتی تو لڑ جھگڑ کر آجر سے معاہدہ ختم کرکے گھر لے آتا اور پھر بیٹی کی تنخواہ بنا سخت زندگی کرخت ترین بن جاتی۔ مشقت سے ہانپتا باپ سر جھکا کر بیٹی کو بھیجنے کو تیار ہوجاتا اور پھر کچھ عرصے بعد جذباتی ہوکر واپس لے آتا۔ کئی بار ایسا ہوچکا تھا، لیکن اب کی بار اس کے پھیپھڑوں کا علاج ہونا تھا، ماں کو بچوں کا باپ اور اپنے سر کا تاج بچانا تھا، سو وہ اسے کھینچتے گیٹ سے دور لے گئی۔ لیلیٰ فاروق کو میاں کی جذباتی کیفیت کے قصے اس نے بڑھا چڑھا کر سنا کر میاں کا داخلہ گھر میں ممنوع کروا دیا تھا۔ بے چارہ باپ نم دیدہ کھانستا، بیوی کے ساتھ واپسی کے رستے پر چل پڑا۔

ناانصافی کے نظام کی اذیتیں جان لیوا ہوتی ہیں۔ جب تک انسان ظلم دور کرنے کے لیے اجتماعی طور پر اکٹھی کوشش نہیں کرتے، پسنا ہی مقدر بن جاتا ہے۔

گیٹ کی جھری سے آنکھ لگا کر بیٹی نے دور ہوتے ماں باپ کو دیکھا اور افسردہ ہوگئی۔

’’ابو کو میری فکر نہیں ہے اب۔‘‘ املی کی ٹافی کا پیکٹ اس نے زور سے دونوں ہاتھوں سے بھینچا اور بے زاری سے اپنے نام کی پکار سنتے گردن موڑی، مروہ کے رونے کی آتی آواز اس کو بے زار کررہی تھی، بس نہ چلتا کہ وہ اس کو چٹکی بھرتے چیختی ’’چُوووووپ!‘‘

مروہ بہت پیاری تھی لیکن مسئلہ یہی تھا کہ وہ بے جان گڑیا نہ تھی، اس کا زیادہ تر وقت اگر وہ جاگ رہی ہوتی تو بدترین انداز میں روتے گزرتا۔ روتے ہوئے کئی بار سانس کئی سیکنڈز کے لیے رک جاتا، جلد رنگ بدلنے لگتی اور ماں کے سوا سب کو لگتا شاید آزمائش کے دن ختم ہوا چاہتے ہیں۔ لیکن وہ چودہ ماہ کی ہوگئی اور زندہ رہی۔ نارمل ہوتی تو ہر ایک اسے خوب چاہتا، وہ سب بھی جو اسے ’’سزائے رب‘‘ کہتے، سخت آزمائش کہہ کر فاصلے پر رہتے، بڑھاپے کی کمزور اولاد کہہ کر پہچانتے وہ سب مروہ فاروق کے حُسن کو دیکھ کر متاثر ضرور ہوتے، لیکن اسے نہ تیس کی نہ تیرہ کی، صرف تین کی محبت نصیب تھی: ماں، باپ اور تیسری وہ۔

وہ کون؟ وہ نرس تھی جو مروہ کے ننھے جسم کے حصوں کی مالش کرنے آتی جو روتے ہوئے اکڑ جاتے اور پھر گھنٹوں ان میں سختی جمی رہتی۔ اسپتال سے بلائی اس نرس کے اپنے دو بچے معذور تھے جن کی معذوری نے اسے ’’خاص نرس‘‘ بنادیا تھا، اس کے ہاتھوں میں قدرت نے جیسے جادو بھر دیا تھا، جو مالش کے مختلف آلات اور دواؤں کے ساتھ مل کر خوب کام کرتا۔

اس کی ہتھیلیوں کے مساج سے جسم کی تنی، منجمد رگیں نرم پڑجاتیں۔ اسپتال نے اس کے جادوئی ہاتھوں کی بدولت اس کے معذور بچوں کو اپنے شعبۂ اطفال میں مستقل جگہ دے رکھی تھی۔ وہ اس مددگار لڑکی کو پری کہہ کر بلاتی، اس کا نام کرن تھا لیکن جب اسے نرس ’’پری‘‘ کہتی تو وہ خوش ہوجاتی۔

نرس کو رب نے بڑا خاص بنایا تھا، اسے انسانوں کے کام آنے کا شوق تھا، پری کے لیے بھی لیلیٰ فاروق کے گھر رکنا اس نرس کی وجہ ہی سے ممکن ہوا، ورنہ اگر ماں نہ لے کر جاتی تو وہ طے کر چکی تھی کہ لیلیٰ کو اتنا تنگ کرے گی کہ وہ خود اسے گھر سے نکال دے۔

سرد ترین شام تھی جب لیلیٰ فاروق نے گلابی کمبل میں سوئی ماروی کو اسپتال کے شعبۂ اطفال میں تین دن کے لیے داخل کرایا، کیوں کہ اس دوران چھوٹی کے نکاح کی تقریب تھی۔ لڑکا فاروق کے دوست کا بیٹا تھا، اس کی دوسری شادی تھی۔ پہلی بارات والے دن سجی ہوئی گاڑی روک کر ڈاکوؤں نے لوٹ مار شروع کی تو دلہن کا دہشت سے دل ہی بند ہوگیا۔

دوسری شادی کے لیے فاروق کے ہاں رشتہ دیا تو وہ لڑکی جو کسی سے شادی پر راضی نہ ہوتی تھی، اس رشتے کے لیے تیار تھی۔ فاروق نے حیرت سے بیٹی کو دیکھا جس نے اس سے بہتر رشتے کو پچھلے ماہ ہی منع کیا تھا۔

وہ چاہتے تو باپ کے اختیارات استعمال کرکے اس رشتے کو منع کرسکتے تھے، لیکن انہیں اندازہ تھا کہ گھر کا ماحول مروہ کے بعد جس درجے پر تبدیل ہوچکا ہے اس میں اختیارات کا توازن بھی بگڑ چکا ہے۔ اس لیے لیلیٰ اور فاروق نے بیٹی کے انتخاب پر ہاں کردی۔

لڑکا بیرون ملک فلم انڈسٹری کے تیکنکی عملے میں تھا۔ کاغذات کے لیے نکاح پہلے ہونا تھا۔ دونوں نے تقریب سے ایک دن قبل اور بعد بھی مروہ کی نگہداشت کے لیے اسپتال مناسب سمجھا۔ وہ اپنی نرس سے بھی بہت مانوس تھی، سہمے دلوں کے ساتھ ماں باپ نے دوسری اولاد کی خوشیوں کے لیے مروہ فاروق کو گھر سے بھیج دیا۔

مروہ گھر سے گئی تو بھی اجنبیت جو والدین اور بچوں میں جگہ بنا چکی تھی، وہ ختم نہ ہوئی۔ اتنے مختصر عرصے میں تقریب کے دنوں میں اس کا ختم ہونا ممکن بھی نہ تھا، ہاں بس یہ ہوا کہ بچے ماں باپ سے تقریب کے معاملات پر گفتگو کرسکے۔ یہ بھی بہت مدت بعد ہوا۔ لیلیٰ کی آنکھیں بعد نکاح فیملی فوٹو کے وقت بھیگنے لگیں تو بیٹے کی بھنویں تننے لگیں۔ اسے لگا ماں ان کے ساتھ ہوتے ہوئے بھی رنجیدہ ہے۔ بڑی دقت سے اپنے آپ کو سنبھالتے وہ مسکراتے تصویر بنوانے میں کامیاب ہوگئی۔

تقریب کے اگلے دن گھر میں بے انتہا مصروفیت تھی لیکن لیلیٰ فاروق اپنے میاں کے ساتھ سارے کام مؤخر کرتے اسپتال پہنچ گئی۔ نرس جیسے ہی مروہ کو لے کر آئی تو لیلیٰ نے ایسے لپک کر بیٹی کو لیا جیسے اس کے بنا وہ ادھوری ہو۔ والہانہ انداز سے اسے گلے لگاتے وہ نہ جانے کیوں رونے لگی۔

’’میری ماروی!’’

فاروق اور نرس اسے اور ماروی کو سنبھالنے لگے۔ وہ بچی کو واپس گھر لے جانا چاہتی تھی، لیکن فاروق نے اسے بہ مشکل راضی کیا کہ آج گھر پر بہت کام ہونے کی وجہ سے ماروی کا گھر میں نہ ہونا ہی بہتر ہے۔

’’ہمارے اور بھی بچے ہیں لیلیٰ! مروہ ہماری اکلوتی اولاد نہیں۔ ہمیں اپنے گھر کو اجڑنے سے بچانا ہے۔‘‘ وہ گاڑی میں وقفے وقفے سے سسکی لیتی بیوی کو چپ کراتے بولے تو وہ ان کو دیکھ کر رہ گئی۔

وہ کہنا چاہتی تھی ’’ان سب پریشانیوں کے آپ ہی ذمہ دار ہیں، میں نے تو…‘‘ لیکن اس میں کچھ کہنے سننے کی تاب ہی نہ تھی۔

وہ لیلیٰ کو کیا بتاتے کہ زندگی مروہ کے آنے سے کربِ مستقل بن چکی ہے، ان کے باقی بچے بھی ان سے دور ہوچکے ہیں۔ لہٰذا اب مروہ کے لیے ری ہیبلیٹیشن سینٹر میں رہنا ہی آخری حل ہے۔ اب وہ کبھی اسے گھر نہیں لائیں گے کیوں کہ قدرت نے اسے اپنے باقی بہن بھائی جیسا نہیں پیدا کیا۔

’’لیلیٰ فاروق! تمہیں اور مجھے یہ برداشت کرنا ہوگا۔‘‘

ان کے جانے کے بعد نرس نے مروہ کو گلے لگاتے سرگوشی کی ’’میری ننھی! تم میری بیٹی ہو۔‘‘

وہ مروہ کو بوسے دیتی نہال تھی۔ اس کے گلے میں جھولتی صلیب مروہ کی مٹھی میں بند ہوگئی۔

حصہ