’’آپ کو کیا ہوگیا ہے؟ ان ننھے ننھے بچوں کو لے کر آپ جائیں گے وہ بھی اس بھگدڑ میں! ایسی جگہوں پر معصوم بچوں کا بھلا کیا کام؟ ان کے ذہنوں پر ایسے نفسیاتی خون خرابے اور جنگ و جدل والی باتیں ڈالنے سے کچھ نہیں ملے گا… جانا ہے تو اکیلے چلے جائیں، یہ طریقہ مجھے سمجھ نہیں آرہا۔‘‘ صائمہ انتہائی پریشان ہوکر اپنے میاں کو فلسطین کی ریلی میں جانے سے روکتے ہوئے کہنے لگی تو سرور صاحب نے کہا:
’’دیکھو، یہ ننھے ضرور ہیں لیکن آج ہی وہ وقت ہے کہ ہم ان کو مضبوط بنائیں۔‘‘
’’آپ ابھی ایسی باتیں مت کریں، بچوں کو اس طرح کی باتیں نہیں بتائی جاتیں، آپ میری بات کو سمجھنے کی کوشش کریں۔‘‘
’’میں کیا سمجھوں؟ میں صرف یہ جانتا ہوں کہ آج میں ان کے خمیر، ان کے خون میں یہ بات ڈال سکتا ہوں، کل کو اگر میں نہیں ہوا تو میں چاہتا ہوں یہ بھی اسی تحریک کا حصہ بنیں، اسی تحریک کے ساتھ ہوں۔‘‘
’’بے شک آپ کی بات بالکل ٹھیک ہے، مگر آپ خود بتائیں وہاں پر کیا کام ہے ان کا؟آپ میری بات کیوں نہیں سمجھ رہے؟‘‘
’’میں نے کہہ دیا، تم بحث نہ کرو۔‘‘
’’اچھا ٹھیک ہے، آپ کی مرضی۔ میری اولاد تو ہے ہی نہیں، میں تو ان کی ماں نہیں دشمن ہوں، لیکن آپ میری بات پر ذرا غور کریں کہ کل کو اللہ نہ کرے کوئی حادثہ ہوگیا تو ان کو کہاں لے کر بھاگیں گے؟‘‘صائمہ خفگی سے بولی۔
’’دیکھو، مجھے خود بتاؤ کہ جو معصوم اولادیں بے یار و مددگار، اپنے ماں باپ کے بنا، کٹے پھٹے جسموں کے ساتھ ہمارے دینِ حق کے لیے کھڑی ہوئی ہیں ان کے ماں باپ ہار نہیں مان رہے، وہ بچے ہار نہیں مان رہے، تو آج کیا ہم صرف روڈ پر جا کے ان کے لیے کھڑے بھی نہیں ہو سکتے… محض کسی حادثے کے ڈر سے!‘‘
’’لیکن آپ یقین کریں میرا دل نہیں مانتا، میرے دل میں اب گنجائش نہیں۔ میں مانتی ہوں کہ وہ امت کے بچے ہیں، وہ امت کے لیے داعی بن کر کھڑے ہوئے ہیں، لیکن میرے دل میں اتنی طاقت نہیں۔‘‘ صائمہ روہانسی ہوگئی۔
سرور صاحب نے اس کے کندھوں پہ ہاتھ رکھ کے اسے بٹھایا اورکہا ’’میں یہی تو سمجھا رہا ہوں صائمہ! کہ ان کو اور اپنے آپ کو اس چیز کے لیے سمجھاؤ کہ جہاد مومن کی پہچان ہے، اس پر فرض ہے۔ آج ہم ان کو جہاد کی اہمیت سمجھائیں گے تو کل کو یہ جوان ہوکر ایسے جذبے رکھیں گے۔‘‘
صائمہ کندھوں سے ہاتھ ہٹا کر بولی ’’آپ کو کس نے اس طرح کی پٹی پڑھا دی ہے، سمجھ سے بالاتر ہے۔ پہلے محض آپ جانے کی بات کرتے تھے، اب بچوں کو لے کے جانے کا خمار آپ کو کیوں چڑھ گیا ہے؟ میں ایک ماں ہوں۔‘‘
’’تم ایک ماں ہو… تبھی تم سے کہہ رہا ہوں کہ ماں اپنے بچے کو جو سمجھا سکتی ہے وہ ایک باپ نہیں سمجھا سکتا۔ اپنے لختِ جگروں کو جنت کے لیے تیار کرو، تم سمجھو اس بات کو۔ میں یہ نہیں کہہ رہا کہ ان کو تلوار تھما دو، میں صرف یہ کہہ رہا ہوں کہ انہیں جہاد کی ترغیب دو، انہیں سمجھاؤ کہ جہاد ضروری ہے اور کوئی بات نہیں۔‘‘
صائمہ بہت پریشان تھی۔ اُس کی سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ اپنے میاں کو کس طرح روکے، اپنے بچوں کو کس طرح بچائے؟ وہ اس پریشانی میں روتے روتے سو گئی۔
صبح اٹھی تو سرور صاحب نے کہا ’’دوپہر میں جانا ہے تین بجے، بچوں کو تیار کردینا۔‘‘
صائمہ رات کی بحث سے اندازہ کر چکی تھی کہ اب ان کو روکا نہیں جا سکتا۔ اللہ اللہ کرکے بہرحال اس نے بچوں کو میاں کے ساتھ روانہ کیا۔ ان کے جاتے ہی صائمہ نے حاجات کے نفل مانے اور صدقہ نکالا۔ وہ کشمکش میں انتظار کرتی رہی کہ کب بچے آئیں اور کب اس کی سانس بحال ہو۔
بچوں کے آنے کے بعد صائمہ نے عبداللہ کو بے تحاشا پیار کیا اور پوچھا ’’تم نے اور عائشہ نے تنگ تو نہیں کیا بابا کو؟‘‘
عبداللہ نے کہا ’’مما! اتنا مزا آیا، آپ بھی ہمارے ساتھ چلتیں وہاں۔ ہم نے جھنڈا لہرا لہرا کر کہا ’’تیرا میرا رشتہ کیا… لا الٰہ الا اللہ‘‘ میں تو اتنا چیخ کر کہہ رہا تھا کہ مزا آگیا اور ہمیں بابا کے دوستوں نے بہت ساری چیزیں کھلائیں۔ ہم جھنڈا لہرا کر بائیک پر خوب گھومے… اور پتا ہے وہاں پر ہمیں انہوں نے بتایا کہ فلسطین کے بھائی ہمارے بھائی ہیں۔ مما! کیا ہمارے بھائی اتنی دور بھی ہوسکتے ہیں؟‘‘
صائمہ ٹکٹکی باندھ کر گم ذہن کے ساتھ عبداللہ کو دیکھنے لگی۔ وہ واقعی سوچنے پر مجبور ہوگئی تھی کہ ’’تیرا میرا رشتہ کیا… لا الٰہ الا اللہ‘‘ کا مطلب کیا ہے۔ اب اسے بتانا تھا کہ ہاں اتنی دور بھی ہمارے بھائی بستے ہیں جن کے درد ہمارے ہی درد ہیں۔