مہک کا راز

56

یہ سارے انتظامات ان کے لیے خوشی اور حیرت کا باعث تھے۔
رات بھر کی بھرپور نیند لیکر جب وہ بیدار ہوئے تو نہا دھو کر اسی عمارت کے ایک ڈائینگ حال میں ان کے لیے پر تکلف ناشتہ موجود تھا۔

تینوں ناشتے سے فارغ ہو کر باہر جانے کے لیے نکلے تو ایک شخص نے آکر بتایا کہ وہ آپ کا ڈرائیور ہے اور اگر آپ حکم کریں تو وہ پارکنگ ایریا سے گاڑی لے آئے۔

کمال نے کہا ٹھیک ہے، تم گاڑی لے آؤ، ہم اپنے ہمراہ ضروری سامان لے کر نیچے آتے ہیں۔

ضروری سامان لے کر جب وہ نیچے اترے تو گیٹ کے سامنے ہی گاڑی کو موجود پایا۔

ڈرائیور تو ظاہر ہے ہر جگہ سے واقف ہی ہوگا لیکن ان کو بھی یہاں کی لوکیشن بھیج دی گئی تھی۔ تینوں نے جہاں جہاں جانے کا پروگرام بنایا تھا اس کو پوائنٹ آؤٹ کر لیا تھا۔ خاص طور سے وہ جگہ جس کے متعلق یہ بتایا گیا تھا کہ اس جگہ مقتول کو قتل کیا گیا ہے، اس کو انہوں نے خاص طور سے مارک کر لیا تھا۔

ایک طالبِ علمانہ دورے کی شکل دینے کے لیے ضروری تھا کہ کئی جگہ رک کر لوگوں سے ملاقات کی جاتی۔ اس لیے انھوں نے جگہ جگہ رک کر کام کرنے والوں سے رک کر بات چیت بھی کی۔ سوالات کو کچھ اس انداز میں ترتیب دیا تھا کہ لوگ خود بخود یہ بتانے پر مجبور ہو جائیں کہ یہاں کوئی قتل بھی ہوا تھا اور ایسا ہی ہوا بھی۔

بات سے بات نکلی تو فاطمہ نے سوال کیا کہ یہ قتل کس نے کیا تھا۔

اس پر ایسا لگا کہ جیسے ملازمین کچھ غمگین سے ہو گئے ہوں۔

صاحب جی! کیا پوچھتے ہیں۔ ان میں سے ایک مزارع بولا۔ ساتھ ہی اس کی آنکھوں سے آنسوؤں کے کچھ قطرے بھی چھلک پڑے۔ جس نے بھی اسے قتل کیا وہ ایک بہت ہی نیک اور شریف انسان تھا۔ گوکہ ہم میں سے کسی نے بھی اسے قتل کرتے نہیں دیکھا لیکن وہ نہ جانے کیوں خود سے یہ چیختا چلاتا نظر آیا کہ ہائے یہ میں نے کیا کیا۔ بس وہ ہر جگہ یہی شور مچاتا نظر آیا۔ لوگ پوچھتے کہ آخر ہوا کیا تو وہ یہی دہائی دیتا کہ اللہ اسے معاف کرے۔ میں نے فلاں شخص کو قتل کردیا ہے۔ ہائے وہ ایک غریب کسان تھا۔ یہ مجھ سے کیا ہوا۔ کیوں میری عقل ماری گئی۔ کیوں میں نے خنجر اٹھایا اور اس کے سینے کے اندر تک اتار دیا۔ بس پھر کیا تھا، ہر جانب ایک ہل چل مچ گئی۔ مجبوراً اسے گرفتا کرنا پڑا۔ صاحب جی! وہ بہت ہی شریف اور نیک انسان تھا لیکن کیا معلوم کب شریف انسان شیطان بن جائے۔ زمیندار بھی اس کی بات پر یقین کرنے کے لیے تیار نہیں تھا لیکن اس کا بیان کہیں بھی نہیں بدلہ۔ اس کا یہی کہنا تھا کہ جو بھی ہوا ہوگیا لیکن اب وہ چاہتا ہے کہ جو بھی قتل کی سزا ہے وہ اسے اسی دنیا میں مل جائے۔

وہ بتاتا گیا اور سب اس کی بات غمزدہ انداز میں سنتے رہے۔

گاڑی میں بیٹھ کر تینوں نے ڈرائیور سے پوچھا کہ کیا وہ اس مقام سے واقف ہے جہاں کوئی قتل ہوا تھا۔ اس نے کہا وہ واقف تو ہے لیکن کہیں ایسا نہ ہو کہ چودھری ایاز علی ناراض نہ ہو جائیں۔ یہاں آنے سے پہلے ان کے علم میں یہ بات آ چکی تھی کہ اس زمین کے مالک کا نام ایاز علی ہے۔ ڈرائیور کی منہ سے چودھری ایاز علی کا نام سن کر تینوں نے انجان بنتے ہوئے کہا کہ کیا یہ نام ان ہی زمیندار کا ہے جن کی زمینوں پر ہم آئے ہوئے ہیں۔ ہم تو صرف چودھری صاحب چودھری صاحب ہی کہہ کہہ کر مخاطب کرتے رہے ہیں۔

ڈرائیور نے اقرا رمیں گردن ہلاتے ہوئے کہا کہ جی ان ہی کا نام ایاز علی ہے۔

تینوں نے کہا کہ تم فکر نہ کر، اگر وہ خفا ہوئے بھی تو اس میں ہم تمہارا نام نہیں آنے دیں گے۔

ڈرائیور نیم دلی کے ساتھ راضی ہو گیا۔

ویسے تو تینوں کو علم ہی تھا کہ کونسا راستہ اس مقام تک لے جاتا ہے لیکن وہ اس بات کو ظاہر نہیں کرنا چاہتے تھے کہ ان کے پاس ہر راستے کا نقشہ موجود تھا اور وہ ان زمینوں کے چپے چپے پر بنا کسی گائیڈ کے جا سکتے تھے۔ یہ تو اچھا ہوا تھا کہ قتل کی بات کام کرنے والوں کے منہ سے خود ہی نکل گئی جس کی وجہ سے ایک بہت بڑی مشکل آسان ہو گئی ورنہ ممکن تھا کہ وہ گاڑی اس جانب موڑنے کا از خود کہتے تو ڈرائیور کو شک گرز جاتا کہ یہ طالبعلم اپنے اسائیمنٹ کے لیے آئے ہیں یا کسی خاص مقصد کے لیے۔

ڈرائیور نے گاڑی ٹھیک اس جگہ پر روک دی جہاں کہا گیا تھا کہ اس مقام پر غریب کسان کو قتل کیا گیا تھا۔ چاروں جانب اینٹیں لگادی گئیں تھیں، چونا بھی چاروں جانب دائرے کی شکل لگا دیا گیا تھا۔

جمال کی ٹیم نے اتر کر اس جگہ کا معائنہ کیا، خفیہ کیمروں سے بہت سی تصاویر بھی حاصل کیں۔ یہ کیمرے ایسے تھے جن کو ہاتھ میں لینے کی ضرورت نہیں تھی، ان سے ویڈیوز بھی بنائی جا سکتی تھیں اور اسنیپ شاٹ بھی لیے جا سکتے تھے اور یہ سب رسٹ واچز پر لگے مختلف بٹن سے کیا جا سکتا تھا۔ یہ سب تصاویر اور ویڈیوز براہِ راست ان کے گھروں میں موجود کمپیوٹرز کی ہارڈ دسکوں میں محفوظ ہوجانے کی صلاحیت بھی رکھتے تھے۔ یہ سب اشیا ان کو خفیہ کے اعلیٰ اداروں کی جانب سے تحفے میں دی گئیں تھیں۔ یہ رسٹ واچز، جو کہ کیمروں کے لیے ریموٹ کنٹرول کا کام کرتی تھیں، ان میں یہ گنجائش بھی رکھی گئی تھی کہ اگر ان کو کسی بھی قسم کا کوئی خطرہ محسوس ہو تو یہ خطرے کی نوعیت کے مطابق کی بورڈ کی کیز میں سے کوئی بھی کی یا کئی کیز بیک وقت دبا کر فوری مدد بھی طلب کر سکتے ہیں۔ یہ سہولت اس سے پہلے کی مہمات میں ان کو نہیں دی گئی تھی جس سے جمال اور اس کی ٹیم کو یہ اندازہ لگانا کوئی زیادہ مشکل نہیں تھا کہ پچھلی مہمات سے کہیں زیادہ اس مہم میں ہر قسم کے خطرات موجود ہیں اس لیے وہ کوئی ایسا قدم نہیں اٹھانا چاہتے تھے جو ان کے لیے کسی مشکل کا سبب بنے۔

پروگرام کے مطابق فاطمہ نے کمال ہوشیاری سے کام لیتے ہوئے زمین پر سے ریت کے وہ نمونے حاصل کر رلیے جس پر مقتول کے خون کے نشانات ابھی تک نظر آ رہے تھے۔ (جاری ہے)

حصہ