مرتضٰی آٹھ سال کا بچہ تھا۔ وہ تیسری جماعت میں پڑھتا تھا۔ وہ بہت پیارا سا بچہ تھا۔ سارے گھر والے اس سے بہت پیار کرتے تھے۔ کبھی اس کی نانی اماں آجاتی تو بہت خوش ہو جاتا۔ نانی جان اسے بہت پیار کرتی تھی۔ بڑوں کی ۔خدمت کرتا، اور بہت ہی فرمانبردار بچہ تھا۔ پڑھائی بہت دل لگا کر کرتا۔ موبائل سے دور رہتا۔ کلاس میں ہمیشہ پوزیشن حاصل کرتا تھا۔
اسکول سے آکر اپنی والدہ کو پریشان نہیں کرتا، بلکہ اپنا کام خود کرنا پسند کرتا تھا۔ وہ اسکول سے آکر سب سے پہلے گھر والوں کو سلام کرتا، پھر جوتے اتار کر اسے اپنی جگہ پر رکھتا، نہا دھو کر صاف کپڑے پہنتا اور یونیفارم کو اپنی جگہ پر ترتیب سے رکھتا، پھر ظہر کی نماز پڑھتا،اور کھانا کھا کر سو جاتا، اٹھ کر ہوم ورک کرتا، پھر عصر کی نماز پڑھتا، اور اپنے محلے کے میدان میں کرکٹ کھیلنے جاتا، دن میں تو دھوپ اور گرمی کی وجہ سے میدان خالی رہتا تھا ۔مرتضی کا روز شام کو کھیلنے جانے کا معمول تھا۔ کبھی کبھی دوپہر کے وقت ضد کرتا کہ مجھے میدان میں جانا ہے امی اسے روز سمجھایا کرتی تھی کہ دوپہر میں گرمی کی وجہ سے تمہاری طبیعت خراب نہ ہو جائے اس لیے تم دوپہر میں مت جایا کرو۔ کھیل سے واپسی پہ آکر سیدھا مسجد چلے جاتا، گھر جا کر شام کا ناشتہ کرتا ، گھر والوں کے ساتھ وقت گزارتا اور کھانا کھا کر، عشاء کی نماز پڑھ کر سو جاتا۔
دوسرے دن دوپہر میں مرتضی کو بالکل نیند نہیں آرہی تھی اور میدان میں کھیلنے کا بہت دل چاہ رہا تھا۔ میدان کی دیوار بنانے کے لیے بہت ساری بجری لا کر ڈلی ہوئی تھی۔ مرتضی کو اس میں کھیلنے کا بہت ہی زیادہ شوق ہو رہا تھا۔ شیطان کے بہکاوے پر وہ چھپکے سے اور اپنے والدین کی اجازت کے بغیر میدان چلا گیا۔ اس وقت امی اور دادی بھی سو رہی تھی۔ موقع کا فائدہ اٹھاتے ہوئے وہ وہاں سے نکل گیا اور بجری کے اندر کھیلنے لگا۔ میدان میں وہ اکیلا تھا۔ سناٹا چھایا ہوا تھا۔ دھوپ بھی بہت تیز تھی۔ گرمی کی وجہ سے پسینہ بہہ رہا تھا۔ پیاس بھی لگ رہی تھی۔ دور سے گولا گنڈا بیچنے والا وہاں پہنچ گیا۔ گولا گنڈے والے نے قریب آ کر کہا: “بیٹا تم یہ کڑک دھوپ میں کیا کر رہے۔ ہو تمہیں پانی پینا ہے؟” مرتضی نے کہا: “انکل پانی پلا دیں” گولا گنڈے والے نے پانی کی بوتل دی اور کہنے لگے پی لو بیٹا پی لو۔ وہ پانی پیتے ہی بے ہوش ہو گیا۔ اچانک اس کی امی کی آنکھ کھلی اور دیکھا کہ دروازہ کھلا ہے تو فورا باہر کی طرف دیکھا تو ایک آدمی مرتضی کو گود میں لے کر بھاگ رہا تھا۔ امی باہر نکل کر شور مچانے لگی۔ شور سن کر لوگ جمع ہو گئے۔ سب نے مل کر گولے گنڈے والے کی خوب پٹائی کی۔ فوراً پولیس کو فون کر کے بلایا اور اس کو گرفتار کروایا۔ جب مرتضیٰ کی انکھ کھلی تو وہ ہسپتال میں بستر پر لیٹا ہوا تھا۔ مرتضی اپنی امی سے معافی مانگ رہا تھا۔ دادا اور دادی نے خوب پیار کیا اور کہا:” دیکھو بیٹا جو بچے بڑوں کی اجازت کے بغیر کام کرتے ہیں وہ کبھی کامیاب نہیں ہوتے۔ شیطان کے بہکاوے میں کبھی بھی کامیاب نہیں ہوتے۔ ماں باپ کا کہنا مانو۔
’’اے بھولے بھالے بچوں
کہنا بڑوں کا مانو
ماں باپ اور بڑوں کا
کہنا نہ جس نے مانا
ممکن نہیں جہاں میں
عزت سے اس کا رہنا
اگر چاہتے ہو عزت
کہنا بڑوں کا مانو”