پاکستان میں بڑھتے ذہنی امراض

109

ذہنی صحت کی بہتری کیسے ممکن ہے؟

ذہنی صحت ایک ایسا موضوع ہے جس پر اکثر ہمارے معاشرے میں توجہ نہیں دی جاتی۔ ہم جسمانی بیماریوں کا علاج تو فوراً کرواتے ہیں، لیکن جب بات ذہنی مسائل کی ہو، تو اسے معمولی سمجھ کر نظرانداز کردیا جاتا ہے، حالانکہ جیسے جسمانی بیماریاں ہماری زندگی پر اثرانداز ہوتی ہیں، اسی طرح ذہنی بیماریاں بھی ہماری روزمرہ کی زندگی، تعلقات، اور کام کرنے کی صلاحیت پر گہرے اثرات مرتب کرتی ہیں۔

آج کے تیز رفتار اور دباؤ سے بھرے ماحول میں ذہنی دباؤ، بے چینی اور ڈپریشن جیسے مسائل عام ہوتے جارہے ہیں، اگر ان کا علاج بروقت نہ ہو تو یہ چھوٹے مسائل سنگین بیماریوں میں تبدیل ہوسکتے ہیں۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ لوگ اکثر ذہنی صحت کے مسائل کو ایک کمزوری کے طور پر دیکھتے ہیں اور مدد لینے میں ہچکچاتے ہیں۔

عالمی یوم ذہنی صحت ہر سال 10 اکتوبر کو منایا جاتا ہے تاکہ دنیا بھر میں ذہنی صحت کے مسائل پر شعور اجاگر کیا جا سکے اور لوگوں کو اس بارے میں آگاہی فراہم کی جائے کہ ذہنی صحت کتنی اہمیت رکھتی ہے۔ اس دن کا مقصد نہ صرف ذہنی بیماریوں کے علاج کو فروغ دینا بلکہ ایک ایسے ماحول کی تشکیل کرنا ہے جہاں ہر شخص ذہنی سکون اور اعتماد کے ساتھ زندگی گزار سکے۔

ذہنی صحت کا مطلب صرف بیماری کی عدم موجودگی نہیں، بلکہ یہ ایک ایسی حالت ہے جس میں انسان اپنے جذبات کو قابو میں رکھتا ہے، مشکلات کا سامنا کرتا ہے، معاشرتی زندگی میں مثبت کردار ادا کرتا ہے اور روزمرہ کی زندگی کے مسائل سے مؤثر طور پر نمٹنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ عالمی ادارۂ صحت (WHO) کے مطابق ذہنی صحت جسمانی صحت جتنی ہی اہم ہے کیونکہ دونوں ایک دوسرے سے جڑے ہوتے ہیں۔

ذہنی صحت کے مسائل عام طور پر جذباتی اور نفسیاتی دبائو، خوف، اضطراب اور ڈپریشن کی شکل میں ظاہر ہوتے ہیں۔ تحقیق کے مطابق دنیا بھر میں تقریباً ایک ارب افراد کسی نہ کسی ذہنی مسئلے کا شکار ہیں، اور ہر سال 800,000 سے زیادہ افراد خودکشی کرتے ہیں۔ یہ تعداد کم نہیں ہے بلکہ ایک بڑا مسئلہ ہے جو صحت کے نظام میں موجود کمزوریوں کے ساتھ سماجی رویوں کا بھی عکاس ہے۔

ویسے تو ہمارے یہاں دیگر مسائل بھی ہیں، لیکن ذہنی صحت کے مسائل کو اکثر نظرانداز کیا جاتا ہے۔ یہاں ذہنی بیماریوں کو معاشرتی داغ کے طور پر دیکھا جاتا ہے، اور ہمارا رویہ ایسے لوگوں کے ساتھ عجیب سا ہوجاتا ہے جس کی وجہ سے مریض علاج کے بجائے خاموشی سے تکلیف برداشت کرتے ہیں۔ خاص طور پر نوجوانوں میں خودکشی کی شرح بڑھ رہی ہے، مگر اس کے باوجود ذہنی صحت پر بات کرنے کو معیوب سمجھا جاتا ہے۔

وزارتِ صحت کی جانب سے قومی اسمبلی میں پیش کیے گئے اعداد و شمار میں بتایا گیا ہے کہ پاکستان میں8 کروڑ افراد نفسیاتی مسائل کا شکار ہیں۔

ایک اندازے کے مطابق پاکستان میں 50 ملین سے زائد افراد ڈپریشن اور اینگزائٹی جیسے ذہنی امراض سے متاثر ہیں، لیکن ملک میں ماہرینِ نفسیات اور سائیکاٹرسٹ کی تعداد بہت کم ہے۔ صرف چند بڑے شہروں میں علاج کی سہولیات موجود ہیں جبکہ دیہی علاقوں میں ذہنی بیماریوں کا علاج تقریباً نہ ہونے کے برابر ہے۔

اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ذہنی بیماریوں کی وجوہات کیا ہیں اور کیوں ہمارے معاشرے میں یہ تیزی سے بڑھتی جارہی ہیں؟

اس کا ایک جواب تو یہ ہے کہ اس کی کئی وجوہات ہوسکتی ہیں، جن میں معاشی دباؤ، بے روزگاری، قرض کا بوجھ اور مہنگائی شامل ہیں، جنہوں نے لوگوں کو ذہنی دبائو میں مبتلا کررکھا ہے۔ اسی طرح سماجی تناؤ، معاشرتی دبائو اور دوسرے لوگوں کی توقعات بھی ذہنی دبائوکا باعث بنتی ہیں۔ ازدواجی تعلقات میں کشیدگی، خاندان میں جھگڑے اور سماجی تنہائی بھی ذہنی امراض کی بڑی وجوہات ہیں۔

اب کیونکہ ہم ڈیجیٹل دور میں جی رہے ہیں، اس لیے ٹیکنالوجی اور سوشل میڈیا کا اثر بھی ہے۔ سوشل میڈیا کے ذریعے خود کا موازنہ دوسروں سے کرنا بھی ذہنی مسائل کا باعث بن رہا ہے۔ اپنے آپ کو نمایاں کرکے پیش کرنا، دوسروں کی کامیابی سے اپنے اندر جلنا،کڑھنا، اپنے سے زیادہ حیثیت والے لوگوں سے متاثر ہونا، اُن جیسا بننے کی کوشش کرنا اور پھر پریشان ہونا… یہ سب اہم وجوہات اس میں شامل ہیں۔ خاص طور پر نوجوان نسل میں یہ بیماری تیزی سے پھیل رہی ہے، اور سوشل میڈیا تو ایک نارمل آدمی کو بھی ذہنی مریض کے طور پر پیش کررہا ہے۔ بسا اوقات کوئی بعض باتیں ایسی سوشل میڈیا میں شیئر کرتا ہے جس کا آپ کو یقین نہیں آتا کہ آپ کا کوئی جاننے والا بھی ایسا کرسکتاہے! اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ وہ کسی بھی وجہ سے ذہنی طور پر ڈسٹرب یا خلفشار کا شکارہوجاتا ہے اور سوشل میڈیا سے اس کی بیماری کا اظہار ہوجاتا ہے۔

ذہنی صحت کی خرابی کی وجہ سے صرف فرد متاثر نہیں ہوتا، بلکہ پوری معاشرت پر اس کا اثر پڑتا ہے۔ جب کسی فرد کی ذہنی صحت متاثر ہوتی ہے تو اس کے اثرات اس کے خاندان، دوستوں، دفتر، کاروبار یعنی کام کی جگہ تک پہنچ سکتے ہیں۔

ایک فرد کی ذہنی صحت کے مسائل خاندان کے دیگر افراد پر بھی منفی اثر ڈال سکتے ہیں۔ یہ تناؤ، جھگڑے اور رشتوں میں کشیدگی کا باعث بن سکتے ہیں، جس سے خاندان کے اندر ذہنی صحت کے مزید مسائل جنم لیتے ہیں۔ بعض اوقات ذہنی صحت کے مسائل افراد کو جرم کی طرف مائل کرسکتے ہیں یا ان کی خود کو نقصان پہنچانے کی کوششوں میں اضافہ کرسکتے ہیں۔

اب ذہنی صحت کے مسائل تو ہمارے معاشرے میں موجود ہیں اور یہ ایک حقیقت ہے۔ سوال یہ ہے کہ ذہنی صحت کے مسائل کو کم کرنے کے لیے کیا اقدامات ہوسکتے ہیں؟

اس کے لیے سب سے اہم تو یہ ہے کہ لوگوں میں ذہنی صحت کے بارے میں شعور بڑھانے کے لیے آگاہی مہمات کا انعقاد کیا جائے، تاکہ لوگ ذہنی بیماریوں کو سمجھ سکیں اور ان کے علاج کے لیے مدد حاصل کرنے سے نہ ہچکچائیں۔

ذہنی صحت کا خیال رکھنا صرف علاج تک محدود نہیں ہے بلکہ اس میں پیشگی اقدامات اور علاج کے بعد کی دیکھ بھال بھی شامل ہے،لیکن اس کے ساتھ ساتھ پیشگی اقدامات بھی کیے جاسکتے ہیں۔

اپنی زندگی کی منصوبہ بندی کرنا اور مقصد مقرر کرنا ذہنی سکون کے لیے مددگار ثابت ہوسکتا ہے۔ افراد کو اپنی صلاحیتوں اور خواہشات کے مطابق اپنے مقاصد طے کرنے چاہئیں۔

جسمانی اور ذہنی صحت کے درمیان تعلق کو مدنظر رکھتے ہوئے صحت مند غذا، مناسب نیند، اور ورزش کو روزمرہ کی زندگی کا حصہ بنانا ضروری ہے۔

اس کے علاج میں کئی مختلف طریقے شامل ہیں، جن میں دواؤں کا استعمال، نفسیاتی علاج، اور سماجی تعاون شامل ہیں۔

کچھ ذہنی بیماریوں میں ادویہ کی ضرورت ہوتی ہے، جیسے کہ اینٹی ڈپریسنٹس یا اینٹی اینگزائٹی دوائیں۔ یہ دوائیں علامات کو کم کرنے میں مددگار ثابت ہوسکتی ہیں۔ اسی طرح سائبریٹرک تھراپی یا سوشل سپورٹ تھراپی کو ذہنی صحت کے مسائل کے علاج میں مؤثر سمجھا جاتا ہے۔ یہ افراد کو اپنے جذبات کو سمجھنے، مسائل کو حل کرنے کی مہارتیں سیکھنے اور خوداعتمادی بڑھانے میں مدد فراہم کرتی ہیں۔

اس پس منظر میں اہم بات یہ ہے کہ نوجوان نسل میں ذہنی صحت کے مسائل خاص طور پر تشویش ناک ہیں، کیونکہ یہ عمر تعلیمی اور پیشہ ورانہ مستقبل کی بنیاد رکھتی ہے۔ سوشل میڈیا، تعلیمی دباؤ، اور مستقبل کے بارے میں بے یقینی نوجوانوں میں ذہنی صحت کے مسائل کو بڑھا سکتی ہے۔ اس ضمن میں والدین کو چاہیے کہ وہ اپنے بچوں کے ساتھ کھل کر بات کریں، ان کی ذہنی صحت کے بارے میں آگاہ رہیں اور ضرورت پڑنے پر ماہرین سے مدد حاصل کریں۔

کھیل اور تفریحی سرگرمیاں نوجوانوں کی ذہنی صحت کو بہتر بنا سکتی ہیں۔ یہ نہ صرف جسمانی صحت کے لیے فائدہ مند ہیں بلکہ ذہنی سکون بھی فراہم کرتی ہیں۔

اسلام ذہنی اور جسمانی صحت کو یکساں اہمیت دیتا ہے۔ قرآن و سنت میں صبر، شکر اور دعا کو ذہنی سکون کا ذریعہ قرار دیا گیا ہے۔ اس کے علاوہ نماز، ذکر اور دعا کے ذریعے انسان اپنے رب سے روحانی رابطہ قائم کرتا ہے، جو ذہنی پریشانیوں کو کم کرنے میں مدد دیتا ہے۔

عالمی یوم ذہنی صحت ہمیں یاد دلاتا ہے کہ ذہنی صحت کا خیال رکھنا کسی بھی فرد اور معاشرے کی مجموعی بہتری کے لیے ضروری ہے۔ ہمیں اپنے اردگرد کے لوگوں کی مدد کرنے، ان کی بات سننے اور ذہنی صحت کے مسائل پر کھل کر بات کرنے کی ضرورت ہے تاکہ ایک مضبوط اور ذہنی طور پر صحت مند معاشرہ تشکیل دیا جا سکے۔

یہ صرف ہماری ذاتی ذمہ داری نہیں، بلکہ ایک اجتماعی ذمہ داری بھی ہے کہ ہم ایک صحت مند معاشرے کی تشکیل میں اپنا حصہ ڈالیں جہاں ہر فرد کو ذہنی سکون اور خوشی حاصل ہو۔

حصہ