زاویہ نظر

64

ہماری زندگی میں کئی تجربات ایسے آتے ہیں جب ہم کسی بات پر ڈٹ جاتے ہیں‘ پھر بحث و مباحثہ کرنے لگتے ہیں کہ میرا موقف ٹھیک ہے مگر کچھ لمحات، ایام کے بعد ہمیں یہ احساس ہوتا ہے کہ واقعی میں اس بحث میں غلط تھا یا تکرار کرنے والے کا بھی موقف ٹھیک تھا۔ اسے ہم سائنس کی زبان میں Xenophobia کہتے ہیں اور اس شخص کو Xenophobic کہتے ہیں جو دوسروں کی رائے سنے بغیر خود کو برتر سمجھتا ہے یا دوسری قوم قبیلے کے اشخاص کو خود سے بدتر سمجھتا ہے۔ آپ میں سے سب کے ساتھ کبھی نہ کبھی ایسا ضرور ہوا ہوگا کہ کوئی موضوع زیرِ بحث آیا ہو سامنے‘ والا بھی اپنے موقف کو ثابت کر رہا ہو اور آپ بھی۔ یہ ایک بہترین دماغ کی مشق بھی ہے مگر ہمارے اردگرد لوگ اس مشق کو اپنے اور دوسرے کے لیے سیکھنے سکھانے سے ہٹ کر لڑائی جھگڑے تک لے آتے ہیں جو محض عدم برداشت کی وجہ سے ہوتا ہے۔

اس فعل میں برداشت کا مادہ ہونا بہت ضروری ہے سائنس اس بات کو ثابت کر چکی ہے کہ تکرار علم کی پھیلاؤ کا سبب ہے۔ مگر افسوس کے ساتھ تکرار میں آخر حد تک ادب کے تمام تقاضے قائم ودائم رکھے جاتے ہیں مگر ہمارے ہاں فورا سے دوسرے کے کم علم، جاہل، گنوار ہونے کی ڈگری جاری کر دی جاتی ہے۔ اُس کی بات کا تمسخر بنایا جاتا ہے۔ کچھ وقت‘ کچھ لمحات کے بعد یہ ثابت بھی ہو جاتا ہے کہ فلاں بندہ ٹھیک کہہ رہا تھا‘ اس کا بیانیہ درست تھا۔ مگر کچھ جاہلیت کے متلاشی لوگ پھر بھی اس بات پر آئیں بائیں شائیں کرتے نظر آتے ہیں اپنے بچوں کو ہمیں مثبت تکرار ضرور سکھانی ہوگی مگر یاد رہے دوسرے کی رائے(دنیاوی لحاظ سے ) کا احترام کرنا اس کو سننا اس کو Space دینا گفتار کا پورا موقع دینا یہ بھی ضروری ہے۔ اس عنصر کی کمی نہ صرف طلباء میں بلکہ اساتذہ میں افسران میں حتٰی کہ والدین میں بھی پائی جاتی ہے آپ جب بھی کسی بحث کے ارد گرد آئیں تو کئی بار یہ سوچیں کہ سامنے والا بھی ٹھیک ہو سکتا ہے۔اس زاویہ سے سوچ کر دیکھیں جس سے سامنے والا بیان کرنا چاہ رہا ہے۔ کسی حد تک معاملات اسی وقت حل ہوجاتے ہیں دل بڑا کرنے سے دوسرے کو عزت دینے سے اپنی غلطی مان لینے سے ذرا سا پیچھے ہٹ جانے سے نہ صرف آپ بہت ساری ذہنی پریشانیوں سے دور ہوتے ہیں بلکہ معاشرے میں ایک محبت اور بھائی چارے کی فضا بھی قائم ہوگی۔

آج کی تحریر خاص ان لوگوں کے لیے جو ڈٹ جاتے ہیں کم علم ہوتے ہوئے مطالعہ نہ ہونے کے برابر ہوتے ہوئے ان اساتذہ کے لیے جو سہل ہوجاتے ہیں کہ جو میرا اندازِ بیان تھا بس اس پر آخری لکیر ہے ان طلبہ کے لیے جو اپنے ساتھیوں سے تکرار کر بیٹھتے ہیں‘ اُن افسران کے لیے جنہیں نچلے طبقے کی ہر بات غیر مدلل لگتی ہے۔ یقین جانیں کبھی کبھی افسر کے آگے نوکر بھی ٹھیک ہوتا ہے مگر افسر اناپرستی اور اپنی کم گریڈ کی وجہ سے بیچارہ غلط بن جاتا ہے۔ یقین مانیں کبھی کبھی شاگرد بھی ٹھیک بیانی کر رہا ہوتا ہے مگر چوں کہ میں بڑا ہوں‘ استاد اپنی غلطی ماننے کو توہین سمجھتے ہیں۔ کبھی کبھی بچہ ٹھیک کہہ رہا ہوتا ہے مگر باپ کو احساس بھی کچھ دن بات ہی ہوتا ہے۔

لہٰذا ہمیں چاہیے کہ اپنی بحث میں ایک روم ایک سپیس لازمی چھوڑیں جہاں ہم یہ سوچ سکیں کہ سامنے والا بھی ٹھیک ہو سکتا ہے بہت سارے معاملات بہت ساری پریشانیاں بہت سارے بے معنی جھگڑے اسی وقت بھی زمیں بوس ہوسکتے ہیں۔ بلڈ پریشر کے 50 فیصد مریض اوردماغی مریض محض اس لیے اس اسٹیج کو پہنچ گئے کہ تکرار برائے تکرار کرتے تھے۔ ہمیشہ اپنا موقف ثابت کرنے کی کوشش کی۔ ظاہری بیماریوں کے ساتھ ساتھ نہ جانے کتنے حقوق العباد کے بھی مقروض ہوئے۔ ہمیں چاہیے کہ اس مختصر زندگی کو ہنس کھیل کر گزاریں کہ ’’نہ جانے کس گلی اس زندگی کی شام ہوجائے‘‘ اور ہم اپنے سفر ِ حقیقی کی جانب چل پڑیں۔

حصہ