مصنوعی ذہانت کی نئی دنیا : کیا مشین انسان سے زیادہ ذہین ہوجائے گی؟

88

مصنوعی ذہانت(Artificial Intelligence)یا AI ایک ٹیکنالوجی ہے جو کمپیوٹرز اور مشینوں کو انسانی ذہن کی طرح سوچنے، سیکھنے، سمجھنے اور عمل کرنے کی صلاحیت فراہم کرتی ہے۔ یہ سسٹمز مختلف طریقوں سے کام کرتے ہیں، جیسے نیورل نیٹ ورکس، مشین لرننگ، اور ڈیپ لرننگ۔

اے آئی کا مقصد معلومات کی پروسیسنگ کے ذریعے انسانی مسائل کا حل تلاش کرنا، جیسے خودکار نظاموں، چہرے کی شناخت، زبان کا ترجمہ، اور پیشین گوئی کرنا۔ اس کی ایپلی کیشنز میں صحت، کاروبار، تعلیم اور انٹرٹینمنٹ شامل ہیں، جہاں یہ کارکردگی کو بڑھانے اور انسانی محنت کو کم کرنے میں مددگار ثابت ہوتی ہے۔

مستقبل میں AI کی ترقی کے ساتھ اس کے اثرات اور ممکنہ خطرات پر بھی گفتگو کی جارہی ہے، خاص طور پر جب یہ انسانی ذہن کی صلاحیتوں کو پیچھے چھوڑنے لگے۔

مصنوعی ذہانت (AI) کے شعبے میں اہم پیش رفتوں کے باعث حالیہ دنوں میں مشینوں کے انسانوں سے زیادہ ذہین ہونے کے خدشات بڑھتے جارہے ہیں۔ بی بی سی کی رپورٹ کے مطابق سائنس دانوں جیفری ہنٹن اور جان ہاپ فیلڈ نے مشین لرننگ میں نمایاں خدمات کے باعث فزکس کا نوبیل انعام جیتا ہے۔

برطانوی-کینیڈین اکیڈمک ہنٹن نے، جنہیں اکثر ’’مصنوعی ذہانت کا گاڈ فادر‘‘ کہا جاتا ہے، اس ایوارڈ کو جیتنے پر حیرت کا اظہار کیا۔ 76 سالہ ہنٹن نے 2023ء میں گوگل سے استعفیٰ دے دیا تھا اور اُس وقت سے وہ مشینوں کی بڑھتی ہوئی ذہانت کے حوالے سے خبردار کررہے ہیں۔ رائل سویڈش اکیڈمی آف سائنسز کی جانب سے اسٹاک ہوم میں منعقدہ پریس کانفرنس کے دوران ہنٹن نے کہا ’’مجھے معلوم نہیں تھا کہ یہ ہونے والا ہے۔ میں بہت حیران ہوں۔‘‘

ہنٹن کے مطابق ان کی نیورل نیٹ ورکس سے متعلق تحقیق نے موجودہ AI نظام جیسے چیٹ جی پی ٹی کی بنیاد رکھی ہے۔ ان کا کہنا تھا ’’یہ صنعتی انقلاب کی طرح تھا، یعنی ہماری ذہنی صلاحیت کو بہتر کرنے کی کوشش، نہ کہ ہماری جسمانی صلاحیت کو‘‘۔ انہوں نے مزید کہا کہ اگر انہیں ماضی میں واپس جانے کا موقع ملے تو وہ اپنے کام کو دوبارہ بھی انجام دیں گے، لیکن انہیں خدشہ ہے کہ ایسے نظام بن سکتے ہیں جو ہم سے زیادہ ذہین ہوجائیں اور ہر چیز پر قابو پاسکیں۔

امریکا کی پرنسٹن یونیورسٹی کے پروفیسر 91 سالہ جان ہاپ فیلڈ نے بھی یہ ایوارڈ جو کہ مشترکہ ہے، جیت لیا ہے۔ ہاپ فیلڈ نے ایک ایسا نیٹ ورک ایجاد کیا ہے جو انسانی دماغ میں اعصابی نیٹ ورک کی نقل کرتا ہے۔ یہ نیٹ ورک نامکمل پیٹرنز کو دیکھ کر ان سے مماثلت رکھنے والے پیٹرنز کو تلاش کرتا ہے اور جملے مکمل کرتا ہے، بالکل اسی طرح جیسے انسانی دماغ کام کرتا ہے۔

نوبیل پرائز کمیٹی نے دونوں سائنس دانوں کا کام ہماری روزمرہ زندگی کا حصہ بنانے کی اہمیت کو سراہا ہے، جس میں چہرے کی شناخت اور مختلف زبانوں کا ترجمہ کرنے کی صلاحیت شامل ہے۔ تاہم، کمیٹی کی سربراہ ایلن منز نے خبردار کیا ہے کہ فزکس کی تیزی سے ترقی نے ہمارے مستقبل کے بارے میں تشویش پیدا کردی ہے۔

ہنٹن نے گوگل سے استعفیٰ دینے کی وجوہات میں AI چیٹ بوٹس کے کچھ خطرات کو ’’کافی خوفناک‘‘ قرار دیا تھا۔ انہوں نے بتایا تھا کہ ’’فی الحال، وہ ہم سے زیادہ ذہین نہیں لیکن مجھے لگتا ہے کہ وہ جلد ہم سے زیادہ ذہین ہوسکتے ہیں‘‘۔ ہنٹن کا کہنا تھا کہ AI میں انسانیت کے لیے بہت زیادہ صلاحیت موجود ہے، لیکن واضح ضابطوں اور حدود کے بغیر اس کی موجودہ ترقی پریشان کن ہے۔

بی بی سی کی رپورٹ کے مطابق ہنٹن نے نوبیل انعام جیتنے کے بعد بھی اپنی تشویش کا اظہار جاری رکھا ہے۔ انہوں نے کہا ’’یہ صرف بدترین قسم کا منظرنامہ ہے، ایک ڈراؤنے خواب جیسی صورتِ حال۔ مثال کے طور پر آپ تصور کرسکتے ہیں کہ کوئی بُرا شخص روبوٹ کو اپنے مقاصد طے کرنے کے لیے استعمال کرے۔‘‘

AI کے شعبے میں ہنٹن اور ہاپ فیلڈ کی تحقیقات نے نہ صرف تکنیکی ترقی کو فروغ دیا ہے بلکہ سماجی اور اخلاقی پہلوؤں پر بھی روشنی ڈالی ہے۔ AI کے استعمال سے مختلف صنعتوں میں انقلاب آیا ہے، جیسے کہ کلائمیٹ ماڈلز، سولر سیلز، اور طبی شعبے میں تصاویر کا جائزہ لینے کے لیے بنائی گئی ایپلی کیشنز۔ لیکن ساتھ ہی ساتھ AI کے غلط استعمال کے خدشات بھی بڑھتے جارہے ہیں، جو مستقبل میں انسانی معاشرے پر گہرے اثرات مرتب کرسکتے ہیں۔

مصنوعی ذہانت کی ترقی نے دنیا کو نئی راہیں دکھائی ہیں، لیکن اس کے ساتھ ہی اس کے ممکنہ خطرات بھی سامنے آرہے ہیں۔ جیفری ہنٹن اور جان ہاپ فیلڈ کے کام نے AI کی بنیاد رکھی ہے، لیکن ان کے خدشات ہمیں یہ سوچنے پر مجبور کرتے ہیں کہ ہمیں AI کی ترقی کو کس طرح قابو میں رکھنا چاہیے، تاکہ یہ انسانی فائدے کے لیے کام کرے نہ کہ نقصان کے لیے۔

حصہ