آخر شب کے ہم سفر

69

’’ماموں جان کو واقعی مجھ سے محبت تھی۔ لیکن میری ذہانت وغیرہ کے علاوہ ماموں جان میرا اتنا خیال رکھتے تھے اس کی غالباً ایک وجہ اور بھی تھی‘‘۔ ریحان نے سوچتے ہوئے کہا۔ ’’ان کے والد نواب نور الزماں پرانے ٹائپ کے جابر اور مطلق العنان زمیندار تھے، ماموں جان، قمر الزماں، ان کے برعکس ایک جدید انسان ہیں اور نیک دل۔ ان کو یہ احساس تھا کہ ان کے والد نے اپنی بے زبان بھتیجی کے ساتھ ہر طرح سے بڑی بے انصافی کی، وہ مجھے اپنا داماد بنا کر تلافی کرنا چاہتے تھے۔ اس کے علاوہ… اس کے علاوہ…‘‘ وہ یک لخت چپ ہوگیا۔

اُدما ہمہ تن گوش اسے دیکھتی رہیں‘‘۔ اس کے علاوہ کیا رونو…؟‘‘

ریحان نے سر اُٹھا کر اسے دیکھا۔ ’’مجھے یہ بھی اندازہ ہے کہ ماموں جان امی کو بے حد پسند کرتے تھے۔ انہیں بچپن سے اپنی بنتِ عم ہی سے محبت تھی۔ اور اگر ان کا بس چلتا تو وہ کشٹیہ کی رئیس زادی کے بجائے امی سے شادی کرتے…‘‘

’’زندگی… واقعی کتنی عجیب چیز ہے…‘‘ ادما نے آہستہ سے کہا۔ ’’اور تمہاری امی بھی نواب قمر الزماں کو پسند کرتی تھیں؟‘‘

’’یقیناً‘‘۔
’’اور کسی نے ان سے نہ پوچھا کہ ان کے دل پر کیا گزری ہوگی‘‘۔
’’نہیں۔ کسی نے ان سے نہیں پوچھا۔ اور نہ انہوں نے کسی کو بتایا۔ وہ مرتے دم تک پتی ورتا بی بی رہیں۔ آخر دم تک شوہر کی خوشنودی حاصل کرنے کی کوشش میں لگی رہیں‘‘۔
’’بنگالی عورت…!‘‘
’’ہاں۔ بنگالی عورت! ہندوستانی عورت!!‘‘۔
’’وہ کبھی ارجمند منزل آتی تھیں؟‘‘

’’بہت کم۔ کسی خاندانی تقریب کے لیے کبھی کبھار آجاتی تھیں اور ماموں جان ان کی خاطر مدارت میں دوڑے دوڑے پھرتے تھے۔ جاتے وقت دستور سے زیادہ تحفے تحائف ان کے ساتھ کرتے، مگر وہ سب کچھ یہیں چھوڑ جاتیں۔ کیونکہ ابا دولت مند سسرال کا ایک پیسہ لینے کے روادار نہ تھے۔ اور امی نے ساری عمر اُن کا یہ حکم مانا‘‘۔

’’شی مَسٹ ہیوبین اے گریٹ وومن‘‘۔
’’شی واز‘‘۔

اب بارش تھم چکی تھی، اور باغ کی ابر آلود فضا بیحد خوشگوار معلوم ہورہی تھی۔ ریحان نے گھڑی پر نظر ڈالی اور جلدی جلدی داستان ختم کرنا چاہی۔

’’جب میرے ولایت جانے کا پروگرام بنا تو امی نے چاہا کہ اپنے زیورات جو بینک میں محفوظ تھے فروخت کرکے میرے ولایت کے خرچ کا انتظام کریں۔ ماموں جان نے ابا کو تو یہ پٹی پڑھائی کہ مجھے سرکاری وظیفہ مل گیا ہے۔ اور امی سے چپکے سے کہا بی بی تم زیور اپنی بیٹی کے جہیز کے لیے رکھو۔ میں اپنے بھانجے کو جو مجھے نیئر کی طرح عزیز ہے، اپنے روپے سے لندن بھیج رہا ہوں، امی کو معلوم تھا کہ ماموں جان کا ارادہ جہاں آراء کو مجھ سے بیاہ دینے کا ہے۔ وہ بے چاری بے حد مسرور تھیں۔ وہ اپنے شوہر کی ضد کی وجہ سے ساری عمر تنگدستی میں گزار چکی تھیں۔ انہیں اب خوشی تھی کہ اس رشتے سے ان کے غریب بیٹے کی زندگی بن جائے گی‘‘۔

’’تمہاری امی کے پاس بہت گہنے تھے؟‘‘۔ اُدما نے خالص عورتوں کی سی دلچسپی سے پوچھا۔

ریحان نے ایک بار تعجب سے اس پر نظر ڈالی۔ ’’کہہ تو چکا ہوں، ان کی والدہ کے زیور تھے جو ان تایا نے بینک میں رکھوا دیئے تھے۔ وہ ہیرے جواہرات جو امی کو ملنے چاہئیں تھے۔ ان پر ان کی والدہ کے انتقال کے بعد بیگم نور الزماں ان کی تائی پہلے ہی قبضہ کرچکی تھیں۔

’’چنانچہ میں ماموں جان کے خرچ پر لندن گیا۔ وہاں سے لوٹ کر آیا تو یہاں شادی کی تیاریاں ہورہی تھیں۔ مجھے ہار پھول پہنائے گئے۔ ارجمند منزل میں زور دار دعوت ہوئی۔ شونا پور پہنچا تو سارا گائوں گھاٹ پر استقبال کے لیے موجود تھا۔ صرف امی نہیں تھیں۔ جن کو میری آمد کا سب سے زیادہ انتظار تھا۔ وہ سال بھر پہلے مرچکی تھیں۔ ابا نے جمعہ گھر میں جا کر شکرانے کی نماز پڑھی۔ چوپال میں گانے کی محفل ہوئی۔ بیاتیوں نے فوراً میرے گیت بنائے۔ میں گائوں والوں کے لیے ایک عجوبہ روزگار ہستی بن چکا تھا۔ جب میں ڈھاکے واپس آیا… (تم تو ابھی لندن میں تھیں۔ یہاں کیا کیا ہنگامے رہے میرے ساتھ) تو شادی کی تاریخ طے ہوچکی تھی۔ ماموں جان نے مجھے گلے لگا کر سر پر ہاتھ پھیر کر مجھ سے کہا کہ شادی کے بعد میں ان کا پاٹ کا کاروبار اپنے ذمہ لے لوں۔ وہ اپنے کتب خانے کی میز پر زمینداری کے کاغذات اور رجسٹر کھولے بیٹھے تھے۔ میری رہائش کے لیے بالائی منزل کے کمرے آراستہ کئے جاچکے تھے۔ ہر چیز پہلے سے طے شدہ تھی۔

’’تب میں نے ان کو اطلاع دی کہ میں کمیونسٹ پارٹی آف انڈیاکا ممبر ہوچکا ہوں۔ یہ سن کر ان پر بجلی سی گر پڑی‘‘۔

’’آئی ڈونٹ بلیم ہم…‘‘ ادما نے کہا۔

’’مجھے ان کو صدمہ پہنچاتے ہوئے بڑا دُکھ ہوا۔ مگر میں نے نرمی سے ان سے کہا کہ میں نہ ڈپٹی مجسٹریٹ بننے کا ارادہ رکھتا ہوں نہ ان کا خانہ داماد بن کر ان کی ریاست سنبھالوں گا۔ بلکہ میں جہاں آراء کو لے جا کر اپنے پھونس کے مکان میں رکھوں گا۔ آخر آپ کی بہن بھی تو اسی محل سے رخصت ہو کر میرے باپ کے جھونپڑے میں گئی تھیں۔

’’ماموں جان بھونچکے ہو کر مجھے تکنے لگے۔ پھر غم و غصے سے تھر تھر کانپے۔ انہیں یقین نہ آیا کہ یہ میں کہہ رہا ہوں۔ میں نے ان کو پارٹی کارڈ دکھایا۔ اور رسان سے سمجھانے کی کوشش کی کہ میں نے کیوں یہ راستہ اپنے لیے منتخب کیا ہے‘‘۔

’’عمر بھر میں پہلی بار میں نے ان کو طیش کے عالم میں دیکھا۔ وہ یک لخت اپنے مرحوم چغادری باپ کی تصویر بن گئے، انہوں نے گرج کر کہا۔ نمک حرام، احسان فراموش، کسان کی اولاد، ملّانے کا چھوکرا، تیرا مستقبل میں نے سنوارا، ورنہ آج ہل چلا رہا ہوتا، دھان کے گٹھے ڈھو رہا ہوتا۔ مکتب میں بچے پڑھا رہا ہوتا بدبخت۔

’’میں نے دبی زبان سے کہا۔ ’’دھان کے گٹھے تو میں اب ڈھوئوں گا ماموں جان!‘‘

’’مگر وہ اسی طرح گرجتے برستے رہے۔ اور مجھے خیال آیا کہ میرے نانا جان مرحوم کے لکھے ہوئے اسی قسم کے میلو ڈرامیٹک ناٹک، پچاس برس قبل ارجمند منزل کے جلسہ گھر میں اسٹیج کئے جاتے ہوں گے۔ کون کہتا ہے ہمارا ہندوستانی تھیٹر زندگی کی صحیح عکاسی نہیں کرتا۔

’’تین دن تک گھر میں ہنگامہ ہوتا رہا۔ ماموں جان نے ہر طرح مجھے سمجھایا۔ روئے گائے، گرجے برسے، اپنی عزت کا، اپنی لڑکی کی زندگی کا واسطہ دیا‘‘۔

’’آپ اس کے روادارہیں کہ آپ کی لڑکی گھٹ گھٹ کر مرجائے، مگر آپ اس کا ہاتھ ایک کمیونسٹ کے ہاتھ میں نہ دیں گے‘‘۔ میں نے کہا۔

’’دہریہ، کنگال، باغی، جیلوں میں سڑے گا۔ مارا مارا پھرے گا۔ روپوشی اور سر پر انعام۔ اور اور وہ …(سچ پوچھو ادما۔ جب وہ یہ سب کہہ رہے تھے تو مجھے ان پر پیار آگیا۔) میں اپنی نازوں میں پلی بچی تیرے پلّے باندھ کر اس کی قسمت پھوڑدوں۔

’’غرضیکہ نہ وہ مانے، نہ میں مانا، ممانی جان کو اختلاجِ قلب کے دورے پڑنے لگے۔ گائودی سا مجھ سے کترانے لگا۔ ماموں جان نے اس کو حکم دے دیا تھا کہ مجھ سے بات نہ کرے۔ شادی کی تیاریاں منسوخ ہوئیں۔ ارجمند منزل پر بڑا بھیانک سناٹا چھا گیا۔

’’ماموں جان نے ایسا بندوبست کیا کہ شادی کی تیاریوں کی یا رشتہ ٹوٹنے کی خبر ارجمند منزل سے باہر نہ نکلے۔ ویسے بھی اس وقت تک ماموں جان نے اپنے اس ارادے کا تذکرہ ممانی اور میری امی کے علاوہ کسی سے نہیں کیا تھا۔ زمینداروں کے ہاں شادی بیاہ کے معاملات میں بہت رازداری برتی جاتی ہے۔ ورنہ کٹنیاں اور مشاطائیں اور مخالف زمینداروں کے حالی موالی رشتہ تڑواتے ہیں اور جانے کیا کیا کہا ہے۔ اور یہاں جہاں آرا کے اپنے ماموں یعنی کشتیہ کے رئیس اعظم اپنے بھدیسل صاحبزادے کے لیے تلے بیٹھے تھے۔ بہرحال ڈھاکہ میں اس میلوڈرامہ کی خبر زیادہ نہیں پھیلی۔ جہاں آرا خود حد سے زیادہ شرمیلی اور تھوڑی سی گُھنّی لڑکی تھی۔ اس نے بھی اسکول یا کالج میں میرا تذکرہ کسی سے نہ کیا تھا۔ اسی وجہ سے دیپالی کو اتنے برسوں اس کے ساتھ پڑھنے اور اس کی دوستی کے باوجود یہ بات معلوم نہ ہوئی۔

’’بھئی میں سمجھتا ہوں، اب لنچ بھی یہیں منگوالو، میرا تو داستانِ امیر حمزہ سناتے سناتے حلق سوکھ گیا‘‘۔

’’کہئے جائو۔ میں پانی منگواتی ہوں‘‘۔

’’بس میں حسب سابق اپنے پرانے کمرے میں ٹھہرا ہوا تھا۔جہاں آرا کا خیال کرکے میرا دل کٹ جاتا۔ وہ میری لندن سے واپسی کے بعد دستور کے مطابق مجھ سے سخت پردہ کررہی تھی۔ بلکہ وہ مایوں بیٹھ چکی تھی۔ جب یہ ٹریجڈی ہوئی اس کی دونوں بہنیں بوکھلائی بوکھلائی میرے پاس پہنچیں۔ آپا روتے روتے نیم جان ہوگئی ہیں۔ آپا کی آنکھیں سوج گئی ہیں۔ آپا ان تین دنوں میں آدھی بھی نہیں رہیں۔ کہاں وہ دلہن بننے کے لئے مایوں بیٹھی تھیں اور کہاں یہ خوفناک المیہ۔ رونو بھائی۔ خدا کے لیے آپا کو مرنے نہ دیجئے۔ یہ سب سن سن کر میرے حواس باختہ ہوجاتے۔

’’چوتھی رات میرا آخری فیصلہ سننے کے بعد کہ میں اپنی سیاسی زندگی ہرگز ترک نہیں کردوں گا۔ ماموں جان نے مجھ سے کہا تو آج سے ارجمند منزل کے دروازے تمہارے اوپر بند ہیں۔ اتنا کہہ کر وہ پھوٹ پھوٹ کر رونے لگے۔

’’چند منٹ بعد انہوں نے… بڑے چالاک ہیں میرے قمر ماموں… جذباتی بلیک میل کے لیے ایک چال چلی۔ اس وقت مجھے ایسا خیال ہوا۔ مگر اب سوچتا ہوں کہ وہ خلوص اور صدق دل سے ایسا کہہ رہے تھے، مگر جوانی کی اکڑ اور اپنے اصول پرستی کے زعم میں ہم یہ نہیں سمجھ پاتے کہ ہمارے بزرگوں کے بھی جذبات ہیں۔ ان کی اندرونی جذباتی زندگی ہے۔ انہوں نے بھی شکستہ دلی کا سامنا کیا ہے۔

ماموں جان مجھ سے کہنے لگے۔ ملیحہ مرگئی، تم اس کی نشانی تھے۔ تم نے بھی میرے ساتھ یہ کیا۔ اتنا کہہ کر وہ اپنی کرسی پر سے اٹھے اور کمرے کے باہر چلے گئے۔

امی کے مرنے کا غم تازہ تھا۔ میں بھی بڑی مشکل سے آنسو ضبط کرکے اپنے کمرے میں واپس آیا۔ پھر میں نے اپنا سامان باندھنا شروع کیا۔ اور انجم آرا کو بلا کر اس سے کہا اپنی آپا سے کہو رات کو باہر تالاب پر آجائیں۔ مجھے ان سے بے حد ضروری بات کرنی ہے۔ انجم آرا کا چہرہ کھل اٹھا۔ وہ فوراً اوپر دوڑی گئی۔

’’رات کو جہاں آرا مجھے تالاب کے کنارے ملی۔ میں نے تین سال بعد اسے دیکھا۔ تین سال تک میں اسے لندن سے خط لکھتا رہا تھا۔ اس کے متعلق سوچتا رہا تھا۔ مگر زیادہ نہیں۔ مجھے معلوم تھا وہ میری ہونے والی ہے۔ اس لیے مجھے اس کے لیے کوئی خاص اضطراب نہیں محسوس ہوتا تھا۔ مجھے اس سے محبت تھی۔ مگر کوئی جنوں خیز عشق نہیں تھا۔ ہو نہیں سکتا تھا۔ بچپن سے ہم اکٹھے پلے بڑھے تھے۔ وہ میرے لیے ایک پرسکون سی چیز تھی۔ مجھے ہمیشہ یہ معلوم رہتا تھا کہ میں دنیا میں جہاں کہیں بھی ہوں کسی حالت میں ہوں کیسی کٹھن مسافت طے کرکے لوٹوں وہ سایہ دار درخت اور میٹھے پانی کے کنویں کی طرح میری منتظر ہوگی۔ اور اب وہ میرے سامنے موجود تھی۔ میری امی کی طرح پتی ورتا کی ایک اور تصویر۔ میں اس کے سامنے گونگا سا ہوگیا۔ وہ تالاب کی سیڑھی پر بیٹھ گئی۔ انجم آرا، اختر آرا اور مالا ملازمہ پہرے پر ادھر ادھر چوکس تھیں۔ اگر ماموں جان کو اس ملاقات کا علم ہوجاتا تو نہ جانے وہ ہم دونوں کا کیا حشر کرتے خیر۔ تو میں نے اس سے کہا وہ خاموشی سے میرے ساتھ چلی چلے‘‘۔

’’تم لڑکیوں کو بھگا کر لے جانے کی تجویز کرنے میں بہت ایکسپرٹ معلوم ہوتے ہو!‘‘۔ ادما نے بات کاٹی۔

’’میں نے اس سے کہا، میرے ساتھ جھونپڑوں میں رہے۔ روکھی سوکھی کھائے اور یہ یاد رکھے کہ وہ نواب فخر الزماں چودھری کے نواسے کی نہیں بلکہ مولوی برہان الدین احمد کاشتکار کے لڑکے کی بیوی ہے‘‘۔

’’بالکل ایسی ہی بات تمہارے ابا نے تمہاری امی سے کہی تھی‘‘۔ ادما نے کہا۔

’’ہاں۔ عجیب بات ہے نا۔ بہرحال۔ مگر جہاں آرا میں اپنے والد سے اتنی بڑی بغاوت کی ہمت نہ تھی۔ وہ بیٹھی ہچکیوں سے روتی رہی، اور میں اسے اسی طرح روتا چھوڑ کر ہمیشہ کے لیے ارجمند منزل سے باہر آگیا۔

’’چند روز بعد ہی مجھے انڈر گرائونڈ ہونا پڑا۔ اور وہ سارا قصہ خواب و خیال ہوگیا‘‘۔

’’اور اس کے فوراً بعد تم نے ایک اور خواب دیکھنا شروع کردیا۔ واہ رے مرد کی ذات‘‘۔

’’اب اجازت ہے؟ دوپہر ہوگئی‘‘۔

’’ابھی نہیں۔ تمہاری بہن پڑھ رہی ہے؟‘‘

(جاری ہے)

حصہ