نار سے نور تک

47

(دوسرا اور آخری حصہ)

’’کیا…؟‘‘ کچھ لوگ غرائے۔ ان کی آوازوں میں شعلے کانپ رہے تھے۔

’’میری رائے ہے کہ ہم لوگ حبشہ جا کر سکونت اختیار کریں۔ اگر محمدؐ کی فتح ہو گئی تو ہم لوگ حبشہ کے عیسائی بادشاہ نجاشی کی سلطنت ہی میں رہ پڑیں گے۔ کیوں کہ محمدؐ کی ماتحتی میں رہنے کے مقابلے میں ہمیں نجاشی کی غلامی میں رہنا زیادہ پسند ہے اور … اگر ہماری قوم غالب آگئی تو پھر کوئی بات ہی نہیں۔ ہنستے کھیلتے اپنے گھروں میں آبسیں گے‘‘۔

محمدؐ کے بارے میں اس قسم کی باتیں سن کر لوگ عمرو بن العاص کے متعلق از سر نو غور کرنے لگے!۔ ان کے متعلق انھیں جو شکوک و شبہات ہو رہے تھے۔ اس انداز گفتگو نے ان سب کا کر صاف کر دیا اور غیظ و غضب کے بادل چھٹنے لگے۔ مختلف آوازیں آنا شروع ہو گئیں۔

’’تجویز بری نہیں…‘‘
’’یہ منصوبہ بہت معقول معلوم ہوتا ہے‘‘۔

’’ عمرو بن العاص بہت ذہین آدمی ہیں اور انھیں یہ بات خوب ہی سوجھی ہے‘‘۔

سفر حبشہ کی تیاریاں شروع ہو گئیں۔ خدا کے عذاب کو دعوت دینے والے لوگ نجاشی کی رضا حاصل کرنے کی تدبیریں سوچنے لگے۔ طے پایا کہ اس کو عرب کا بہترین چمڑہ تحفہ کے طور پر دیا جائے تاکہ وہ ہم سے خوش ہو سکے۔ قافلہ روانہ ہو گیا۔ کفر بھی آج وطن سے ہجرت کر رہا تھا۔ اسلام نے بھی کل اس وطن سے ہجرت کی تھی لیکن ایک ہجرت کا مقصد خدا سے بھاگنا تھا،اور دوسری ہجرت کا مقصد خدا کی طرف بھاگنا تھا! ایک ہی عمل کے باطن میں کتنا ہولناک فرق ہو سکتا ہے !!

آخر یہ قافلہ حبشہ میں داخل ہو گیا لیکن ٹھیک اسی وقت انھوں نے دیکھا کہ حضرت عمرو بن امیہ ضمری جن کو حضورؐ نے نجاشی کے پاس ایک خصوصی پیغام دے کر بھیجا تھا۔ نجاشی کے یہاں سے واپس آ رہے ہیں۔ مکے والوں نے ان کی صورت دیکھی تو آنکھوں میں خون اتر آیا، جن مسلمانوں سے دور بھاگ کر وہ یہاں آئے تھے۔ یہاں بھی ان کا کچھ عمل دخل دیکھنا ان کے لیے ایک جاں گداز مرحلہ تھا۔ لیکن وہ کر بھی کیا سکتے تھے!، یہ مکہ نہیں حبشہ تھا!، یہ نجاشی کی سلطنت تھی جس نے عیسائی ہونے کے باوجود مکہ کے مظلوم مسلمانوں کو سب سے پہلے پناہ دی تھی اور اسی لیے خدا نے ان کے سینے کو اسلام کی سچائی قبول کرنے کے لیے کھول دیا تھا۔

’’ میرے ذہن میں ایک تدبیر آ رہی ہے!‘‘ عمرو بن العاص نے اپنے بپھرے ہوئے ساتھیوں سے سرگوشی کی۔
’’کیا؟ …‘‘ غصہ سے گھٹی گھٹی آواز آئی۔

’’کل‘‘عمرو بن العاص نے سنجیدگی کے ساتھ کہا۔ ’’ہم لوگ نجاشی کے دربار میں جائیں، آداب شاہی دل و جان سے بجالائیں اور پھر یہ چمڑہ اس کی خدمت میں نذر کریں۔ اس کے بعد اگر وہ ہم سے خوش ہو جائے تو ہم یہ درخواست پیش کریں کہ ہمیں اس قاصد کا سر اتارنے کی اجازت دی جائے۔ سوچو! یہ سرہماری قوم کے لیے کیسا شان دار تحفہ ہو گا!‘‘۔

’’ہوں!‘‘ لوگ سانپ کی طرح پھنکارتے ہوئے بولے۔ ایسا ہی ہونا چاہئے۔ایسا ہی کرنا چاہئے‘‘۔

اگلے دن ایسا ہی کیا بھی گیا!

عمرو بن العاص نجاشی کے دربار میں داخل ہو رہے تھے۔ داخلے کے وقت آداب شاہی کا پورا لحاظ رکھا گیا۔ سجدہ بھی کیا اور قصیدہ سرائی بھی کی۔ مسافر نواز خلیق بادشاہ بڑے اخلاق سے پیش آیا۔

اپنے ملک سے ہمارے لیے کوئی تحفہ لائے ہو؟ بادشاہ نے خوشی کا اظہار کرتے ہوئے بے تکلفی سے سوال کیا۔

’’جی ہاں…عالی جاہا!!‘‘ عمرو بن العاص کا چہرہ اس سوال سے کھل اٹھا اور انھوں نے وہ قیمتی چمڑہ نذر کر دیا۔ بادشاہ جو پہلے ہی اخلاقی طور پر خوش تھا۔ یہ تحفہ پاکر اور بھی زیادہ مائل بہ کرم نظر آنے لگا۔

’’اے بلند مرتبہ ہستی !‘‘ عمرو بن العاص نے اس شاہی موڈ سے فائدہ اٹھاتے ہوئے ڈرتے ڈرتے کہا ’’محمدؐ کا جو آدمی ابھی ابھی آپ کے یہاں سے نکلا ہے وہ ہم پردیسیوں کا پرانا دشمن ہے۔ ان سب لوگوں سے ہماری دشمنی چل رہی ہے۔ کیا عالی جاہ، ہمیں یہ اجازت مرحمت فرمائیں گے کہ ہم اس سے انتقام لے لیں‘‘۔

یکایک نجاشی کے چہرے کا رنگ بدل گیا، مسکراتے ہوئے چہرے کی جگہ ایک شعلہ جوالہ نے لے لی اور انتہائی نفرت و بیزاری کے ساتھ اس نے اپنا منہ پیٹ لیا۔

عمرو بن العاص نے یہ کیفیت دیکھی نہ تو محسوس کیا کہ یہ سوال کر کے انہوں نے ایک ہولناک غلطی کی ہے۔ ان کے پاؤں تلے کی زمین کھسکنے لگی۔

’’ عالی جاہا!‘‘ کمال ادب و نیاز کے ساتھ عمرو بن العاص جلدی سے پکار اٹھے۔ ’’اگر مجھے یہ خبر ہوتی کہ ہماری یہ درخواست اس قدر ناگوار خاطر ہو گی تو میں ہرگز اس کے تصور کی بھی جرأت نہ کرتا میں آپ سے‘‘۔

’’ تم !… تم یہ چاہتے ہو‘‘۔ زخم خوردہ جلال کے ساتھ نجاشی نے ان کی بات کاٹتے ہوئے کہا کہ ’’میں ایسے شخص کا قاصد تمہارے حوالے کردوں جس کے پاس وہی عظیم فرشتہ آتا ہے جو موسیٰ کے پاس آیا کرتا تھا؟‘‘

’’ کیا… کیا… وہ ہستی ایسی ہی ہے…اے بادشاہ ؟ عمرو بن العاص سراپا حیرت بنے ہوئے پکار اٹھے۔

’’”خدا کی قسم!‘‘ شاہ حبشہ محمدؐ کی عقیدت سے سرشار ہوتے ہوئے بولا: ’’خدا کی قسم! وہ حق پر ہے۔ وہ تمام مخالفوں پر ٹھیک اسی طرح چھا جائے گا جس طرح موسیٰ فرعون اور اس کے لاؤ لشکر پر چھا گئے تھے۔ میرا کہا مانو! اس کے ہاتھ میں اپنا ہاتھ دے دو‘‘۔

محمدؐ کے بارے میں یہ ایک بادشاہ کے الفاظ تھے۔ ایک بادشاہ جس کی رگوں میں عیسائی خون تھا مگر جس کے دل میں اسلام کی روشنی نے چراغاں کر دیا تھا۔ اسلام کی صداقت پر یہ ایک بڑی ہی بے لوث ، بڑی ہی وزنی گواہی تھی۔ کیسے ممکن تھا کہ عمرو بن العاص جیسا آدمی نجاشی کی اس طوفانی عقیدت کے ساتھ بہتا نہ چلا جاتا!، اب تک انھوں نے اپنے طور پر جو کچھ دیکھا اور سوچا تھا وہ تمام واقعات اور تمام جذبات و خیالات اس طوفانی شوق کے ساتھ شامل ہو گئے۔ ان کے اندر اور باہر ایک زبردست ہلچل مچی۔ اب ان کے سامنے نہ مکہ تھا نہ قریشی کفار کا غیظ و غضب ، نہ نجاشی اور اس کی رضا طلبی کا جذبہ، بلکہ محض ’’اسلام‘‘ اور اس کی صداقت کا یقین کامل تھا۔ محمدؐ کی ایمان افروز شخصیت تھی اور خدائے واحد کا بیکراں جمال و جلال تھا۔ ان کے خون میں ایک زبردست سنسنی ہوئی۔ دل کی دھڑکنیں سر سے ٹکرانے لگیں۔ آنکھوں میں وہ آنسو جھلملائے جو کفر کی سیاہ رات کو دھو کر ایران کی صبح درخشاں طلوع کرتے ہیں۔ ان کی زندگی نے ایک بے قرار جست کی اور ایک ہی بے قرار جست میں کفر سے ایمان تک کے لامتناہی فاصلے طے کر لیے۔

’’لائیے… اپنا ہاتھ لائیے !!‘‘ شدت جذبات کی والہانہ شیخ ان کے ہونٹوں سے نکلی‘‘۔اے بادشاہ! میں ابھی اور اسی وقت آپ کے ہاتھ پر خدا اور محمدؐ سے عہد وفا کرنا چاہتا ہوں ‘‘۔

دو نوجوان انسان دو مختلف سمتوں سے مدینے کی طرف چلے جا رہے تھے!

دونوں کی منزل ایک ہی سچائی تھی۔

وہی سچائی جس کو کبھی مٹا دینے کے وہ دونوں ہی دیوانہ وار کوشاں رہ چکے تھے۔ آج وہی سچائی ان کی زندگی تھی۔ ان کی زندگی کا حاصل تھی۔ ان کی آرزوؤں کی آخری منزل تھی۔ ہاں آج اسی کو اپنے سینے سے لگانے کے لیے وہ فرط شوق سے آنکھوں اور سر کے بل چلے آ رہے تھے۔ کل تک انھوں نے محمدؐ پر دار کیے تھے مگر آج محمدؐ کی نگاہوں کا حسین وار سننے کے لیے ان کے سینے تھے کہ کھلے ہوئے تھے اور دل تھے کہ شدت شوق میں سینوں سے نکلے جا رہے تھے۔

اللہ اکبر !… یہ کتنا عظیم انقلاب تھا!!

دونوں نے ایک دوسرے کی طرف دیکھا اور… دیکھتے رہ گئے۔

’’کون؟ … خالد بن ولید !!؟‘‘ عمرو بن العاص پکار اٹھے۔

’’عمرو بن العاص…تم !!‘‘ خالد کے منہ سے نکلا۔

دونوں ایک دوسرے کی آنکھوں میں ایک ہی جذبہ دل کی تحریر پڑھ رہے تھے۔ دونوں طرف ایک ہی انقلاب کے دو سویرے روشن تھے۔

’’ کہاں کا قصد ہے۔ اے خالد ؟‘‘ سوز میں ڈوبی ہوئی آواز عمرو بن العاص کے منہ سے نکلی۔

’’خدا کی قسم ! کیا ہی خوب حسن انقلاب ہے!‘‘ خالد ابن ولید کی روح کی پکار سنائی دی۔ ’’خدا کی قسم! یہ شخص یقینا پیغمبر ہے، یقیناً پیمبر ہے۔ آؤ جلدآؤ!…ہم اسلام قبول کر لیں ! …آخر … آخر کب تک…؟

’’اے خالد!‘‘ عمرو بن العاص خوشی سے بے تاب ہو کر بولے :’’ارے میں تو عزم سفر میرا بھی ہے۔ آؤ! تیز چلیں!… تیز!!… بہت تیز !!… بہت تیز!!!‘‘۔

اور…

پھر وہ دونوں اس ہستی کی بارگاہ میں والہانہ داخل ہوئے جس کی دھاک کے آگے بادشاہوں کے تاج و تخت لرز اٹھتے تھے مگر جس کے عجز و اخلاق کا یہ عالم تھا کہ وہ اپنے غریب و نادار ساتھیوں میں بھی پاؤں پھیلا کر نہیں بیٹھتا تھا جس کی عظمت کی کیفیت یہ تھی کہ کشور کشاؤں اور سورماؤں کی پر شوق آنکھیں بھی اس کی طرف اٹھتی تھیں تو احساس عظمت سے جھک جھک جاتی تھی مگر جس کی دلربائی اور جاں نوازی کا یہ عالم تھا کہ گوشہ چشم سے دیکھنے کا اس کا شرمیلا انداز اس کے جاں نواز تبسم کے ساتھ مل جاتا تھا تو اجنبی سے اجنبی شخص کی روح بھی پکار اٹھتی تھی۔

’’ یہ تو میرے ہیں !… اور مجھے ہی سب سے زیادہ چاہتے ہیں‘‘۔ پہلے حضرت خالد بن ولید نے حضورؐ کے ہاتھوں میں ہاتھ دے کر اعلان کیا۔

’’ میں… ہاں میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا اور کوئی معبود نہیں اور میں گواہی دیتا ہوں کہ محمدؐ اللہ کے بندے اور اس کے رسول ہیں‘‘۔

خالد بن ولید کا یہ رجز توحید… یہ شہادت حق کا نعرہ اپنی زبر دست گونج کے ساتھ عمرو بن العاص کے سینے میں اترتا چلا گیا۔ وہ جذبات شوق سے لرزتے ہوئے اٹھے۔ اپنا بے قرار ہاتھ حضورؐ کی طرف بڑھایا اور حضورؐ نے اپنا ہاتھ ان کی طرف بڑھا دیا۔ لیکن یکایک ایک اس سے بھی عجیب چیز واقع ہوئی۔ اچانک عمرو بن العاص نے اپنا بڑھا بڑھایا ہاتھ کھینچ لیا تھا!

’’یہ کیا؟… اے عمرو بن العاص !!‘‘ آنحضرت نے فرمایا اور عمرو بن العاص کی طرف گہری نظر ڈالی۔ آپ ؐنے ملاحظہ فرمایا کہ وہ ایک عجیب کیفیت میں تھے۔ ایک عظیم اضطراب ، ایک جاں گداز شرم ان کے بشرے سے ٹپک رہی تھی۔ جیسے اب تک انھوں نے اسلام کو مٹانے کے لیے دور کفر میں جو ’’جرم‘‘ کیے تھے وہ سب کے سب انھیں ایک ساتھ یاد آ رہے تھے اور تڑپ رہے تھے۔ جیسے زندگی کا جو قدم آخرت بنانے کی سمت میں اٹھ رہا تھا، بے چین تھا کہ ماضی کی سیاہ کاریوں کو بھی آنسوؤں میں غرق کر دے۔

’’ میرا ماضی مجھے تڑپا رہا ہے حضورؐ! عمرو بن العاص نے گڑ گڑاتے ہوئے کہا:

’’ جب میں اسلام کا دشمن تھا تو اس کو مٹانے کے لیے میں نے کوئی کسر نہ چھوڑی تھی۔ آج میں’’اسلام‘‘ سے عشق رکھتا ہوں، میں بیعت کرنا چاہتا ہوں، میں بیعت کروں گا حضورؐ !… لیکن… لیکن میں اس سیاہ کارانہ ماضی کو کہاں لے جاؤں۔ اے آقا!… میرے دور کفر کے گناہ!… اے خدا کے رسولؐ !… کیاوہ سب معاف ہو سکتے ہیں … کیا …‘‘

’’ اے عمرو ‘‘ رسول اللہ نے اپنے کشتہ انفعال کو بہترین تسلی دی۔’’ بیعت کر لو… اسلام اپنے قبل کے سارے گناہوں کو ڈھا دیتا ہے اور خدا کی راہ میں ترک وطن سے بھی پچھلے سارے گناہ معاف ہو جاتے ہیں‘‘۔

ایک بالکل نئی اور بے داغ زندگی کا یہ پیغام سنتے ہی عمرو بن العاص بے تابانہ جھکے، آگے بڑھے اور پھر کبھی پیچھے نہیں ہٹے۔ حضورؐ کے مقدس ہاتھ میں اپنا ہاتھ دے کر وہ اللہ کے قدموں میں سجدہ ریز ہو گئے۔ ایک سجدہ جو پھر کبھی ختم نہ ہوا۔ ایک عہد وفا جو پھر کبھی نہ ٹوٹا۔ اس سجدہ شوق اور اس عہد جاں شاری پر انھوں نے اپنے خون حیات کا آخری قطرہ تک نچوڑ دیا اور زندگی کا آخری سانس تک اسی یقین پر نثار کر دیا کہ :

’’خدا کے سوا کوئی معبود نہیں… اور محمدؐ خدا کے رسول ہیں‘‘۔

یہ ایمان کی فطرت تھی کہ دور کفر کے گناہ بھی سینے میں زہر یلے کانٹوں کی طرح کھٹکنے لگتے تھے۔

آج بھی ’’ایمان‘‘ کی فطرت میں ہونی چاہئے۔ کم سے کم اتنی تو ہوئی ہی چاہئے کہ دور ایمان کی سیہ کاریوں کا منظر ایک سیاہ بھیانک رات سے بھی زیادہ بھیانک محسوس ہو اور تڑپا ڈالے۔

اس لیے کہ فطرت کبھی بدلتی نہیں ہے۔
فطرت کبھی بدل نہیں سکتی۔

تو آخر ہم کیوں اور کیسے بدل گئے۔ اگر ہمارے سینوں میں بھی وہی ایمان ہے ؟؟

اگر یہ بھی ’’ ایمان‘‘ ہے تو کون سا ایمان ہے جو ایک شک سے بھی زیادہ بے جان اور کمزور ہو ؟ جس بل میں ہمیں سانپ کا شبہ ہوتا ہے۔ ہم اس میں ہاتھ نہیں ڈالتے۔ جس کھنڈر میں ہمیں خزانے کی امید ہوتی ہے بے خوف و خطر جان کی بازی لگا کر اس کے اندر گھس جاتے ہیں مگر جنت پر ہمارا ایمان ہم میں اتنا بھی جوش نہیں پیدا کرتا اور جہنم پر ؟ پر ہمارا ایمان ہمیں جہنم میں ہاتھ ڈالنے سے اتنا بھی نہیں روکتا !! ہائے ہم…

اور … ہمارا اصرار پھر بھی یہی ہے کہ یہ ایمان بھی یقیناًوہی ’’ایمان ہے جو خالد بن ولید کے دل سے ابلا اور عمرو بن العاص کی روح سے امنڈا تھا۔ کاش گناہوں سے سیاہ چہرہ لیے ہوئے اللہ کو منہ دکھانے کے دن سے پہلے وہ دن آجائے جب ہم یہ سوچنے کے لیے بے چین ہوں کہ یہ ایمان ہے یا ایمان کا ایک دھوکا؟ ہم ’’مسلمان‘‘ ہیں یا کافر… یا کفر و ایمان کے درمیان لٹکے ہوئے وہ منافق جن کے لیے دوزخ نہیں، دوزخ کی سب سے نچلی تہہ ہے!

حصہ