بیٹی

68

’’ارے واہ واہ… پھر بیٹی! تیسری بیٹی! ہاہا… ہا۔ دل خوش کردیا تُو نے رضو، دل خوش کردیا۔‘‘ کرمو کو تیسری بیٹی کی پیدائش پر خوشی سے دیوانہ ہوتے دیکھ کر رضو حیران رہ گئی۔

’’کرمو! بیٹا ہوتا تو اچھا ہوتا، ہمارے بڑھاپے کا سہارا ہوتا۔‘‘ رضو نے کہا تو اس نے کہا:

’’نہیں سمجھے گی تُو، ابھی نہیں سمجھے گی… کم عقل ہے نا، بیٹی ہوتی ہے ہمارے جیسوں کا سہارا… بیٹا نہیں ہوتا۔‘‘

’’پتا نہیں کیسی باتیں کرتا ہے تُو کرمو! ساری دنیا بیٹوں کے لیے ترستی ہے اور تُو بیٹیوں پر خوش ہوتا ہے، جھلا ہوگیا ہے۔‘‘

’’دیکھ رضو! پوری بستی میں دیکھ لے، کس کا مرد کما رہا ہے۔ اور جو مرد کما بھی رہے ہیں اُن سے کس کی پوری پڑ رہی ہے؟ زیادہ سے زیادہ گھر کا کرایہ نکل آتا ہے۔ اور تُو کماتی ہے، ہماری اجو بھی ابھی دس سال کی ہے آٹھ دس ہزار تو مل ہی جاتے ہیں، عاشی کو بھی اپنا اسکول کا خرچا مل ہی جاتا ہے نا، ابھی یہ ہماری بیٹی آٹھ دس سال کی ہوجائے گی تو اتنا تو کمانے ہی لگے گی کہ اپنا خرچا اٹھا لے، اور پھر کپڑے لتے بھی مفت کے مل جاتے ہیں اور رمضان المبارک کی کمائی الگ… لڑکوں کو تو بس ساری کمائی اپنے پاس ہی رکھ لینی ہے یا اُڑا دینی ہے، تو اب تُو ہی بتا بیٹا اچھا ہے یا بیٹی؟‘‘

کرمو نہ جانے کیا کیا بولے جارہا تھا، رضو کو بالکل سمجھ نہیں آرہا تھا۔ وہ اپنی بیٹیوں کو بہت لاڈ سے رکھتا، اُن کو اسکول میں بھی داخل کرایا… پھر دونوں بڑی بیٹیوں نے بھی ماں کے ساتھ کام پر جانا شروع کردیا تھا اور ان کو بھی اچھے پیسے ملنے لگے تھے۔ گھر کے حالات بہت سے گھروں سے بہتر تھے۔ اب رضوکی بھی سمجھ میں آرہا تھا کہ کرموکو بیٹی ہونے پر کیوں خوشی ہوئی تھی۔ کرمو ابھی تک کام پر جاتا تھا، وہ ایک گھر میں ڈرائیوری کرتا تھا۔ وہ جانتا تھا کہ آج کل امیر لوگوں کے کیا چونچلے ہیں، اسی لیے اس نے رضو کو کہنا شروع کردیا تھا کہ بچیوں کو پارلر کا کام بھی سکھاؤ، اس میں بہت کمائی ہے۔

رضو خاموشی سے بیٹیوں کی کمائی سے اُن کی شادیوں کے لیے بھی پیسے جوڑ جوڑ کر رکھ رہی تھی، کچھ پیسے وہ کرمو کو بھی دے دیتی۔ آٹھ جماعتیں پڑھ کر ایک بیٹی نے پارلر کا کام سیکھ لیا تھا تو اب اس کو پیسے بھی زیادہ ملنے لگے تھے۔ دوسری نے بھی مہندی لگانا سیکھ لی تھی، وہ دونوں پارلر میں نوکری کے ساتھ ساتھ گھروں میں جاکر بھی پارلر کا کام کرنے لگی تھیں۔ شبو کو بھی اسکول میں داخل کرا دیا تھا، وہاں سے واپس آکر وہ پھر اماں کے ساتھ کام پر چلی جاتی۔

اب کرمو جو تھوڑا بہت کام کرتا تھا وہ بھی اس نے چھوڑ دیا تھا، وہ رضوکو بھی کہتا کہ کام چھوڑ دے، گھر بیٹھ کر آرام کر۔ مگر رضو چاہتی تھی کہ بیٹیوں کی وقت پر شادی کردے۔

اس بات پر کرمو سخت برہم ہوجاتا، کہتا ’’ہم کیوں کریں ان کی شادی؟ تاکہ ان کے شوہر ان کی کمائی کھائیں، ہم کیوں فائدہ نہ اٹھائیں؟‘‘

رضو اپنی طرف سے کوشش کرتی رہتی کہ کسی طرح اس کی بیٹیوں کی شادی ہوجائے مگر کرمو ہر مرتبہ ہی روڑے اٹکا دیتا، لیکن اللہ تعالیٰ نے اس کی بیٹیوں کے جوڑ بھی بنائے ہی تھے۔ جب کرمو کی بہن نے اس کے آگے اپنے بیٹے کا رشتہ رکھا تو وہ انکار نہ کرسکا، اور یوں بڑی بیٹی کی شادی ہوگئی جس پر رضو نے سُکھ کا سانس لیا۔ بیٹیاں اپنے گھر کی ہوجائیں تو مائیں بھی پُرسکون ہوجاتی ہیں، اور شکر تھا کہ اس کا داماد بھی کام سے جی نہیں چراتا تھا۔ پھر دوسری بیٹی کے لیے کرمو کے بھائی کے بیٹے کا رشتہ آیا، تب بھی اس کو ہاں کرتے ہی بنی۔ لیکن اس نے سوچ لیا تھا کہ اب تیسری بیٹی کی تو شادی بالکل نہیں کرے گا۔ مگر اب رضو مطمئن تھی کہ جب اللہ تعالیٰ نے دو کی شادی کرا دی تو تیسری کی بھی وہی کرائے گا، اور اس نے سوچ لیا تھا کہ وہ کام نہیں چھوڑے گی تاکہ گھر کا دانہ پانی چلتا رہے۔

حصہ