’’سنو! بچوں کے کپڑے لینے ہوں گے‘ ہر کپڑا کہیں نہ کہیں سے پھٹ رہا ہے… اب تو کپڑا بھی اتنا پائیدار نہیں ہوتا‘ ایک ہی سال میں خراب ہوجاتا ہے۔‘‘ صامعہ نے صہیب کے کان میں بات ڈال ہی دی۔ کتنے دن سے ہمت جمع کررہی تھی۔
’’ہوں…ہوں…کرتا ہوں کچھ۔ بجلی کا بل بھی تو اتنا زیادہ آیا ہے، حالانکہ ہم تو اے سی بھی نہیں چلاتے، پھر بھی۔‘‘
صہیب ایک نجی فرم میں تھا‘ اس کی تنخواہ اچھی تھی لیکن چار بچوں کا ساتھ… ان کی تعلیم۔ بچے بہت اعلیٰ اسکولوں میں نہیں پڑھتے تھے لیکن پھر بھی فیس، وین کا کرایہ، کتابیں اور آئے روز کچھ نہ کچھ اسکول والے بھی منگواتے رہتے۔ پھر مہنگائی عروج پر کہ دال‘ سبزی بھی مہنگی۔ گوشت کی شکل بس مہینے دو مہینے بعد دیکھتے۔
صامعہ بہت صابر عورت تھی، کبھی شوہر سے بے جا فرمائش نہ کرتی، لیکن سچ تو یہ ہے کہ عورت ہونے کے ناتے دل تو چاہتا تھا کہ جب سیل لگے تو خوب صورت لباس وہ بھی خریدے، لیکن اخراجات اور میاں کی جیب اس کی اجازت نہ دیتی۔ سو من مار لیتی۔ اپنے لیے تو جیسے تیسے صبر کیا لیکن بچے بڑے ہورہے تھے، اُن کے پاس تو ڈھنگ کے کپڑے ہونے چاہئیں، سو دبی آواز میں شوہر سے کہا، کیوں کہ جانتی تھی پھر وہ رات بھر سوئے گا نہیں اور سگریٹ کے ایندھن سے اپنا جگر پھونکتا رہے گا۔
’’سر! مجھے کچھ پیسے ایڈوانس چاہئیں، بچوں کی دو مہینے کی اکٹھی فیس جمع کروانی ہے اور بجلی، گیس کے بل بھی بھرنے ہیں۔‘‘اس نے باس سے التجا کی۔
’’پچھلے مہینے بھی تم نے کمپنی سے لون لیا تھا۔‘‘باس نے گویا یاد کروایا۔
’’جی سر! میرے والد گاؤں میں ہوتے ہیں، ان کی ہڈی ٹوٹ گئی تھی تو اسپتال اور دواؤں کی وجہ سے…‘‘ صہیب نے سر جھکا کے وجہ بتائی۔
صہیب اب اوور ٹائم بھی لگاتا۔ رات دیر سے گھر آتا تو بچوں کو سوتے ہوئے دیکھتا۔ بیوی کو کیا ٹائم دیتا! تھکن سے چُور تکیے پہ سر رکھتے ہی سوجاتا۔ قرض اتارنے کے لیے اسے پہلے سے دوگنی محنت کرنی تھی۔ دن بہ دن اُس کی صحت خراب رہنے لگی۔ صامعہ کا کھلا کھلا چہرہ اب مرجھانے لگا تھا۔ وہ اپنی عمر سے دوگنی لگتی۔ رب کے سوا کوئی آسرا نہ تھا، جائے نماز پہ بیٹھی روتی رہتی۔
’’اللہ تُو رازق ہے، ہمارے حالات بدل دے میرے مالک!‘‘ روز یہی کہتی مگر حالات جوں کے توں۔
دروازے پہ بیل بجی، پوچھا ’’کون ہے؟‘‘
’’جی دروازہ کھولیں، میں آپ کی نئی پڑوسن ہوں۔‘‘ باریک سی آواز آئی۔
’’السلام علیکم، آئیے۔‘‘صامعہ نے دروازہ کھول کر آنے والی خاتون کو اندر بلایا۔
’’میرا نام شہلا ہے، میں آپ کے برابر والے گھر میں شفٹ ہوئی ہوں، بہت دن سے آپ کی طرف آنے کا سوچ رہی تھی، بس گھر سیٹ کرکے آج کچھ فراغت ہوئی۔‘‘ شہلا نے مسکراتے ہوئے اپنا تعارف کروایا۔
صامعہ سن کم رہی تھی، سوچ زیادہ رہی تھی کہ آنے والی مہمان کی تواضع کس چیز سے کرے۔ گرمی میں چائے کون پیتا ہے! اور گھر میں ٹھنڈے کے نام پر محض ٹھنڈا پانی ہی تھا۔
’’آپ بھی اپنے بارے میں بتائیں۔‘‘ شہلا نے دوستانہ انداز میں کہا۔
’’جی میں ابھی آئی…‘‘ کہہ کر اٹھنے لگی تو شہلا نے ہاتھ پکڑ کر بٹھا لیا۔
’’میں بس تھوڑی دیر ملنے کے لیے آئی ہوں، آپ کچھ تکلف نہ کیجیے گا، سادہ پانی لائیے میرا گلا خراب ہے، سو جوس وغیرہ کچھ نہیں لے سکتی۔‘‘ شہلا نے اس کی مشکل آسان کی۔
صامعہ کو شہلا اچھی لگی۔ سادہ مزاج سی شہلا اس کے لیے گھٹن زدہ ماحول میں تازہ ہوا کا جھونکا تھی۔ آنا جانا رہا تو دوستی بھی ہوگئی۔ شہلا اس کے حالات سے کچھ کچھ واقف ہوچکی تھی، اسے تسلی دیتی، اس کا حوصلہ بڑھاتی۔
’’شہلا بہن! کوئی وظیفہ ہے تو بتادیں کہ ہمارے حالات اچھے ہوجائیں، میرے شوہر اتنی محنت کرتے ہیں اس کے باوجود تنگی دور نہیں ہوتی۔‘‘ صامعہ بہت اداس تھی۔
’’دیکھو صامعہ! حالات محض وظیفوں سے نہیں بدلتے، اس کے لیے خود بھی کوشش کرنی پڑتی ہے۔‘‘ شہلا نے اسے غور سے دیکھا اور سمجھایا۔
’’کیا مطلب… میں کیا کروں؟‘‘سامعہ نے حیرانی سے پوچھا۔
’’انتخاب بدلو۔‘‘ شہلا نے مسکراتے ہوئے کہا۔
’’میں سمجھی نہیں۔‘‘صامعہ الجھن کا شکار ہوئی۔
’’اچھا یہ بتاؤ کہ یہ سب مہنگائی، یہ حالات کس کے پیدا کیے ہوئے ہیں؟ کیا ایسا نہیں کہ ہم نے ایسے حکمران چنے جو خوفِ خدا نہیں رکھتے؟ جن کا مقصد محض اقتدار کا حصول اور وہ بھی اپنے عیش و عشرت کے لیے ہے… غریب عوام جائیں بھاڑ میں۔ کیا ہم نے انہیں منتخب نہیں کیا؟‘‘ شہلا نے پوچھا۔
سامعہ کو یاد آیا کہ پچھلی بار الیکشن ہوئے تو اُن کے خاندان کے ایک صاحب الیکشن میں کھڑے ہوئے اور سب نے جوش و خروش سے ان کی انتخابی مہم چلائی تھی اور صہیب نے بھی ان کا بھرپور ساتھ دیا تھا۔ لیکن منتخب ہوتے ہی وہ صاحب ایسے غائب ہوئے کہ کبھی اپنے غریب رشتے داروں کا حال تک نہ پوچھا، اور جنھوں نے دعوے کیے تھے کہ مہنگائی ختم ہوگی، عوام کے حقوق کی حفاظت ہوگی، خوش حالی آئے گی، وہ وعدے شاید انہوں نے محض اپنی ذات کے لیے کیے تھے۔ خوشحالی تو آئی تھی مگر خود اُن کے وارے نیارے ہوئے تھے، عوام تو اسی طرح بدحالی کا شکار تھے، بلکہ پہلے سے بھی زیادہ برے حالات تھے۔
’’کیا سوچ رہی ہو؟‘‘شہلا نے گویا اسے نیند سے جگایا۔
’’شہلا! لیکن کس کا ساتھ دیں؟ سب ایک ہی تھیلی کے چٹے بٹے ہیں، سب کو بس اپنا ہی مفاد عزیز ہے۔‘‘ سامعہ نے ناگواری سے کہا۔
’’ایسا نہیں ہے سامعہ! یاد کرو کوئی ایسا بھی ہوگا جس نے بہت اپنائیت سے اللہ رب العزت سے جوڑا ہوگا، جس نے اسلامی ریاست کے قیام کا وعدہ کیا ہوگا۔ کیوں کہ ہماری بقا اسلامی قوانین کے نفاذ میں ہی ہے۔ کوئی ایسا ہوگا جس نے بار بار غیر اسلامی آئین کے خلاف آواز اٹھائی ہوگی…کوئی مردِ مجاہد…کیا کچھ ذہن میں آتا ہے؟‘‘ شہلا نے زور دیتے ہوئے کہا۔
صامعہ کو یاد آیا، وہ باوقار سے حضرت جو اُن کے محلے میں ہی رہتے تھے، جن کے اخلاق کی سارا محلہ گواہی دیتا تھا، جب شدید بارش میں اس کے گھر میں پانی آگیا تھا تو انہوں نے اسے اور اس کے بچوں کو اپنے گھر میں پناہ دی تھی اور پانی نکالنے میں صہیب کی مدد کی تھی… اور ان کی بیگم ہر ہفتے قرآن کلاس کی دعوت دینے آتیں اور اس بہانے بچوں کے لیے کبھی بسکٹ اور پھل بھی دے جاتیں۔ وہ اس کے حال سے واقف تھیں، اس کی ہمت بھی بڑھاتیں۔ وہ صاحب بھی الیکشن میں کھڑے ہوئے مگر صہیب نے کہا کہ اگر برادری کے فرد کا ساتھ نہ دیا تو ناراضیاں پیدا ہوسکتی ہیں… اور آج اس خاندان کو ان کا کوئی خیال ہی نہیں جن کی ناراضی سے بچنے کے لیے انہوں نے غلط فرد کا انتخاب کیا۔ اس کی آنکھوں میں آنسو آگئے۔
’’تم ٹھیک کہتی ہو، جو اللہ کا نیک بندہ تھا ہم نے اُس کے بجائے ایک ایسے شخص کا انتخاب کیا جس کی زندگی ہمارے سامنے تھی، جسے کوئی خوفِ خدا نہیں۔‘‘ صامعہ شرمندہ سی تھی۔
’’بالکل یہی بات ہے کہ ہم اللہ کا نام لینے والوں کو چھوڑ کر طاغوت کے غلاموں کا انتخاب کرلیں تو کیا اللہ ناراض نہ ہوگا؟ یہ مہنگائی اور پریشانیاں ہمارے اپنے اعمال کا نتیجہ ہیں، ورنہ رازق تو اللہ ہی کی ذات ہے، مگر یہ ہماری آزمائش ہے۔ ہم اللہ کے نظام کے قیام میں ساتھ دینے کے بجائے ظاہری چمک دمک کے پیچھے بھاگتے ہیں اور پھر رونا روتے ہیں کہ ہماری حق تلفی ہورہی ہے۔ ہماری جان، ہمارے مال محفوظ نہیں۔ جب سارے اختیارات ہم خود چوروں اور لٹیروں کے ہاتھوں میں دے دیں تو پھر رونا کیسا؟ ہم نے تو خود اپنے ہاتھوں اپنی تباہی کا سامان کیا ہے۔‘‘ شہلا نے دکھ سے کہا۔
’’ابھی بھی کچھ نہیں بگڑا، ہمیں ان لوگوں کا ساتھ دینا چاہیے جو اپنے رات دن کا آرام پسِ پشت ڈال کر ہمارے لیے سڑکوں پر نکل آئے ہیں، جو اللہ کے نظام کے قیام اور امتِ مسلمہ کے لیے جدوجہد کررہے ہیں۔ کیا تم ساتھ دو گی؟‘‘ شہلا نے اپنائیت سے پوچھا۔
’’ہاں میں اپنے اور اپنے بچوں کے حقوق کے تحفظ کے لیے، اُن کے بہتر مستقبل کے لیے اللہ کے دین پر چلنے والوں کا ساتھ دوں گی اور یہی میرا انتخاب ہے۔‘‘اس نے ایک نئے عزم کے ساتھ جواب دیا اور دروازے پر کھڑے صہیب نے جو یہ تمام گفتگو سن رہا تھا، مسکرا کے اس کی تائید کی۔