دانش گاہ اقبال کے تحت گزشتہ ہفتے ایک مذاکرہ بعنوان ’’عشقِ رسول اور اقبال منعقد کیا گیا جس کی صدارت پروفیسر خواجہ قمرالحسن نے کی۔ ڈاکٹر محمد اقبال قادری مہمان خصوصی اور زیب اذکار مہمان اعزازی تھے۔ ڈاکٹر عابد شیروانی ایڈووکیٹ نے نظامت کے فرائض انجام دینے کے ساتھ ساتھ خطبۂ استقبالیہ میں کہا کہ ہم علامہ اقبال کے نظریات کی اشاعت کرنے والوں میں شامل ہیں ہم چاہتے ہیں ان کے اشعار پڑھے بھی جائیں اور ہماری محفل میں اقبالیات پر بھی بات کی جائے۔ آج ہم نے اقبال کے ایک مصرع پر طرحی مشاعرہ بھی رکھا ہے یہ مصرعہ کچھ اس طرح ہیں ’’قوتِ عشق سے ہر پست کو بالا کر دے‘‘ علامہ اقبال ایک عظیم مفکرِ پاکستان ہیں کہ جنہوں نے مسلمانانِ ہند میں آزادی کی تحریک پیدا کی اور پاکستان کا خواب دیکھا جس کو قائد اعظم کی سربراہی میں مکمل کیا گیا۔ وہ چاہتے تھے کہ تمام مسلمان ایک صف میں کھڑے ہو جائیں اور اپنے دشمنوں کا مقابلہ کریں۔ علامہ اقبال نے عشقِ رسولؐ پر قلم اٹھایا۔
پروگرام کا آغاز لئیق حسن نعمانی نے تلاوت کلام مجید سے کیا اور نعت رسولؐ بھی پیش کی۔ شاہد اقبال نے کہا کہ علامہ اقبال ہمارے رہبر ہیں‘ ان کا کہنا ہے کہ
’’کی محمدؐ سے وفا تو نے تو ہم تیرے ہیں
یہ جہاں چیز ہے کیا لوح و قلم تیرے ہیں‘‘
اللہ کے رسولؐ کی اتباع میں ہماری دنیاوی اور دنیوی ترقی ہے۔ علامہ اقبال کا سارا کلام اصلاح معاشرے کا استعارہ ہے‘ انہوں نے قدم قدم پر عشقِ رسول کا پرچار کیا ہے۔
خورشید احمد نے کہاکہ ہم اسلامی تعلیمات پر مکمل عمل کرنے سے گریزاں ہیں‘ ہمارے اندر بے شمار دنیاوی چیزیں در آئی ہیں جس کی وجہ سے عالمِ اسلام کمزور ہوتا جا رہا ہے‘ ہم مصلحت پسندی کا شکار ہو چکے ہیں‘ ہمارے نزدیک علامہ اقبال کی شاعری مسلمانوں کی اصلاح کا راستہ ہے۔ میر حسن علی امام نے کہا کہ علامہ اقبال نے مشرقی اقدار کی ترویج و اشاعت میں اہم کردار ادا کیا ہے‘ وہ مسلمانوں کے اندر ایمانی قوت پیدا کرنا چاہتے تھے‘ انہوں نے وطنیت کا نظریہ بھی پیش کیا۔ ان کا کہنا ہے کہ وطن کی حدیں تو مغرب نے طے کیں مسلمانوںکے لیے سارا جہاں ایک وطن ہے۔
افتخار ملک ایڈووکیٹ نے کہا کہ علامہ اقبال جدید علوم سے آراستہ تھے اور اسلامی نظریات کے بھی اہم مفکر تھے۔ ان کا کلام عارفانہ اور تصوف پر مبنی ہے‘ ہر شعر ہمیں دعوتِ فکر دیتا ہے ان کی شاعری غنائیت سے بھرپور ہے‘ ان کے ہاں زندگی رواں دواں ہے۔انہوں نے زندگی کے تمام شعبوں پر قلم اٹھایا ہے‘ وہ مسلمانوں کی زبوں حالی پر دل گرفتہ رہتے تھے‘ ان کی خواہش تھی کہ اسلام کا بول بالا ہو‘ مسلمان کی طاقت مضبوط ہو‘ ساری دنیا کے مسلمان متحد ہو جائیں‘ ہندوستان کے مسلمانوں کو غلامی سے آزادی مل جائے‘ وہ عشق رسول میں ڈوبے ہوئے اشعار کہنے کے ساتھ ساتھ مسلمانوں کو خواب غفلت سے جگاتے رہتے تھے‘ ان کی شاعری کا ایک اہم محور عشق رسول ہے۔ زیب اذکار نے کہا کہ جس محفل میں رسالت مابؐ کا ذکر ہوتا ہے وہاں اللہ کی رحمتیں نازل ہوتی ہیں۔ آج عابد شیروانی نے عشق رسولؐ پر مذاکرہ رکھا ہے جو کہ خوش آئند ہے۔ ہر مسلمان کی خواہش ہے کہ وہ عشق رسول سے سرشار ہوکیوں کہ اللہ کے رسولؐ سے محبت ہی ہمارا ایمان ہے۔ ہمارا ایمان ہے کہ حضرت محمد مصطفی خاتم الرسولؐ ہیں‘ اب کسی پیغمبر کی ضرورت نہیں ہے۔ قرآن و سنت ہمارے لیے مشعل راہ ہے۔
ڈاکٹر محمد احمد قادری نے کہا کہ اسوۂ رسول کو مدرسوںکے نصاب کے علاوہ اسکولوں میں بھی لازمی مضمون قرار دیا جائے۔ انگریزی تعلیم کے ساتھ ساتھ ہم اپنے بچوںکو اسلامی تعلیمات سے بھی روشناس کرائیں‘ اردو بھی پڑھائیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ عشق رسول ہی میں ہماری بقا ہے‘ ہماری بھلائی اسی میں ہے کہ ہم عشقِ رسول میں ڈوب جائیں‘ ہمارا کوئی کام سنت و قرآن کے منافی نہیں ہونا چاہیے۔ جن ممالک میں اسلامی دستور نافذ ہے وہاںکے رہنے والے امن و سکون سے ہیں کیوں کہ اسلامی نظام تمام معاشرتی اقدار اور سیاسی دستاتیر سے بہتر ہے۔ اللہ کے رسولؐ پر جو بھی وحی آئی وہ قرآن کا حصہ ہے۔ قرآن کی حفاظت اللہ کی ذمہ داری ہے، عشق رسول میں اپنی جان و مال قربان کرنا عین اسلامی ہے۔ صحابہ کرامؓ کا جذبۂ عشق رسول سے سبق سیکھنا چاہیے جب تک ہم عشق رسولؐ کو نہیں اپنائیں گے‘ ہم مسلمان نہیں ہوسکتے۔
پروفیسر قمرالحسن نے کہا کہ علامہ اقبال عظیم مفکر اور محقق تھے‘ انہوں نے اسلام کی خدمت کی‘ مسلمانوںکو بیدار کیا ہے‘ ان کے نزدیک ساری دنیا کے مسلمان آپس میں بھائی بھائی ہیںجبکہ ہم آج بے شمار اکائیوں میں تقسیم در تقسیم ہو رہے ہیں۔ جب تک مسلمان متحد رہے انہوں نے دنیا پر حکومت کی اور جب مسلمانوں نے عشقِ رسول سے رُوگردانی کی تو ساری دنیا میںانہیں رسوائیوں کا سامنا کرنا پڑا۔ آج اسرائیل گیارہ ماہ سے غزہ میں بمباری کر رہا ہے لیکن عالمِ اسلام خاموش تماشائی ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ علامہ اقبال کے تمام اشعار عشق رسول سے مرصع ہیں‘ وہ چاہتے تھے کہ اسلام کا بول بالا ہو اور مسلمانوں کو مکمل طور پر آزادی نصیب ہو۔
مذاکرے کے بعد طرحی مشاعرہ ہوا جس کی صدارت پروفیسر ڈاکٹر شاداب احسانی نے کی‘ پروفیسر رقیہ سبحان مہمان خصوصی تھیں‘ ان دونوں مسند نشینوں نے اپنا کلام سنایا اس کے بعد افتخار ملک ایڈووکیٹ‘ زیب اذکار‘ راقم الحروف ڈاکٹر نثار‘ اختر ہاشمی‘ شاعر علی شاعر‘ نورالدین نور‘ ڈاکٹر رانا خالد محمود‘ الحاج نجمی‘ خواجہ رحمت اللہ جری‘ ہما اعظمی‘ حمیدہ کشش‘ ثمرین ندیم ثمر‘ ذوالفقار حیدر پرواز‘ کشور عروج‘ ایوب الحسن‘ حنا سجاول اور صدف بنت اظہار نے اپنا کلام نذر سامعین کیا۔ کشور عروج نے کلماتِ تشکر ادا کیے ان کا کہنا تھا کہ وہ دانشِ گاہ اقبال میں شرکت پر تمام سامعین‘ مقررین اور شعرائے کرام کا شکریہ ادا کرتی ہیں اور امید ہے کہ وہ آئندہ بھی ہمارے ساتھ تعاون کریں گے۔