ان مغربی تصورات کی فہرست جن سے دین کے بارے میں غلط فہمیاں اور گمراہیاں پیدا ہوتی ہیں

165

چالیس پچاس سال قبل تک مستشرقین کی طرف سے یا پادریوں کی طرف سے یا مغربی مفکرین کی طرف سے یا ہمارے یہاں جن لوگوں نے مغربی تعلیم تک حاصل کی تھی‘ ان کی طرف سے اسلام پر یا عمومی طور سے مذہب پر جو اعتراضات ہوتے تھے اور شکوک و شبہات ظاہر کیے جاتے ہیں وہ اعتراض کی حیثیت سے ہوتے تھے اور ان کی شکل واضح ہوتی تھی۔ اس لیے ان اعتراضات کو سمجھنا اور جواب دینا آسان تھا۔

لیکن اب مستشرقین نے‘ مغرب کے عام مفکروں نے‘ پھر ان کی تقلید میں ہمارے یہاں تجدد پسندوں نے ایک نیا طریقہ کار اختیار کیا ہے۔ یہ لوگ بظاہر اسام کی یا عمومی طور سے مذہب کی تعریف کرتے ہیں مگر مذب کا جو تصور ان کے ذہن میں ہوتا ہے وہ دراصل دین میں تحریف کے مترادف ہے۔ یہ سارے گروہ اپنی پوری کوشش اسی بات پر صرف کر رہے ہیں کہ اسی قسم کی مسخ شدہ تصورات رواج پا جائیں۔ عام آدمی ظاہری الفاظ پر جاتے ہیں اور ان تصورات کو قبول کر لیتے ہیں۔ یہ معاملہ صرف اسلام ہی کے ساتھ پیش نہیں آرہا‘ بلکہ مغرب اور مغرب زدہ لوگوں کی طرف سے یہ حملہ سارے مشرقی ادیان پر ہو رہا ہے۔ چنانچہ ہندوئوں کیتو عام طور سے یہ حالت ہوئی ہے کہ انہیں یاد نہیں رہا کہ ان کا دین کیا ہے۔ مغرب کی طرف سے آنے والی تفسیروں کو وہ آنکھیں بند کرکے قبول کرتے چلے گئے ہیں۔چنانچہ ہندوئوں میں خود ایسے مصنف پیدا ہو گئے ہیں جو ان ہی مغربی تفسیروں کو اصلی ویدانت کے نام سے پیش کرتے ہیں‘ مثلاً دویکانند‘ رادھا کشنن‘ یہاں تک کہ آرو بندو گھوش۔ ان ہندو مصنفوں کا اثر مسلمانوں نے بھی قبول کیا ہے۔

مستشرقین اور عام مغربی مفکرین کی طرف سے جو اسلام یا بنفسہ مذہب کے متعلق ایسے خیالات کی اشاعت ہو رہی ہے‘ اس میں بڑا دخل مغرب کی مسخ شدہ ذہنیت کا ہے جس کا سلسلہ پندرہویں صدی میں نشاۃ ثانیہ کی تحریک سے شروع ہوا تو بڑھتا ہی چلا جا رہا ہے اور اس طرح گمراہیوں کی شکلوں میں اضافہ ہوتا گیا ہے۔

یہاں گمراہیوں کی شکلوں میں اضافہ ہوتا گیا ہے۔

یہاں گمراہی کی جتنی شکلیں پیش کی جا رہی ہیں وہ ہمارے یہاں مسلمانوں میں بھی اتنی عام ہو گئی ہیں کہ ان کی سینکڑوں مثالیں اور شہادتیں روزانہ اخباروں سے جمع کی جاسکتی ہیں۔ یہ فہرست مرتب کرنے کے لیے آسانی کی خاطر ایک فرانسیسی کتاب Etides-sir.L.Hidousme سے مدد لی گئی ہے جو ایک فرانسیسی مسلمان عالم Guenon Rene (شیخ عبدالواحد یحییٰ) کے مضامین کا مجموعہ ہے۔ 1920ء سے لے کر 1950ء تک جو مشہور کتابیں ہندوئوں کے علوم کے متعلق مغربی زبانوں میں لکھی گئی ہیں ان پر وہ تبصرہ کرتے رہے ہیں اور غلطیاں گنواتے رہے ہیں۔ اس فہرست کو زیادہ مفید بنانے کے لیے شیخ عبدالواحد یحییٰ کی دوسری فرانسیسی کتابوں سے بھی مدد لی گئی ہے۔یہاں یہ عرض کر دینا غیر مناسب نہ ہوگا کہ بعض مستشرقین نے ایک نیا طریقہ کار اختیار کیا ہے‘ وہ علما اور مشائخ کے پاس استفادے کے لیے پہنچتے ہیں اور اپنے سوالات ایسے الفاظ میں پیش کرتے ہیں جن کا صحیح مفہوم اور پس منظر علما پوری طرح نہیں سمجھ سکتے۔ پھر وہ مستشرقین علما کے جوابات کو اپنی تائید کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ اس کی بین مثال فرانس کے مستشرق آن ری کوربیں (Henry Corbin) ہیں‘ جنہیں زمانہ حال کا سب سے بڑا متسشرق کہا جاتا ہے۔ وہ ہر مسئلے میں یہی دعویٰ کرتے ہیں کہ میں نے ایران کے علما اور مشائخ سے دریافت کر لیا ہے۔ اس طریقہ کار کی بدوہلت انہوںنے ایران میںاتنا رسوخ حاصل کر لیا ہے کہ تصوف اور معقولات کی کتابوں کی طباعت اور اشاعت کا کام ایران کی حکومت نے انہی کے سپرد کر دیا ہے۔ اسی طرح حضرات ابن عربیؒ کی نایاب کتابوں کی اشاعت اور ان سے متعلق تحقیق کا کام بھی انہی کے پاس گیا ہے۔ چنانچہ ایران اور مصر وغیرہ کے بہت سے نوجوان ان کی سرپرستی میںکام کر رہے ہیں اور ان کے خیالات کی اشاعت اسلامی ممالک میں کر رہے ہیں۔ ان صاحب کی تحقیقات کا ایک نمونہ یہ ہے کہ ان کے نزدیک حضرت ابن عربیؒ نے معرفت کا ذریعہ تخیل کو قرار دیا ہے۔

یہ واقعہ مثال کے طور پر پیش کیا گیا آگے گمراہیوں کی نئی شکلوں کی فہرست پیش کی جاتی ہے۔

-1یہ بات نہ سمجھنا کہ مذہب کے تین لازمی اجزا ہیں عقائد‘ عبادات اور اخلاقیات اور ان اجزا کی اہمیت بھی اسی ترتیب سے ہے۔ ان تین میں سے کسی ایک یا دو کو لے لینا اور باقی کو چھوڑ دینا۔

-2عقائد کو مذہب کا لازمی جزو نہ سمجھنا۔ (یہ ذہنیت پروٹسٹنٹ مذہب والوں نے پیدا کی ہے۔ خصوصاً انگلستان اور امریکہ کے لوگوں نے) اسلام کے عقائد کو بھیDogma کہنا۔ (یہ لفظ رومن کیتھلک عقائدکے لیے استعمال ہوتا ہے۔ اس فرقے میں پوپ کو ایک فرد کی حیثیت سے نہیں بلکہ اپنے منصب کے اعتبار سے اور اپنے مشیروں سے صلاح لینے کے بعد عقائد میں ترمیم اور اضافے کا حق حاصل ہے۔ اسی معنی میںعلما پر الزام لگایا جاتا ہے کہ وہ پادری بن کر بیٹھ گئے ہیں اور اسی معنی میں اسلامی عقائد کو بھی تحقیراً Dogma کہا جاتا ہے۔)

-3 یہ سمجھنا کہ عقائد میں وقتاً فوقتاً تبدیلی ہو سکتی ہے۔

-4 عقائد کو ضروری تو سمجھنا‘ مگر ساتھ ہی یہ بھی کہنا کہ عقائد میں صداقت نہیں ڈھونڈنی چاہیے کیوں کہ عقائد تو محض جذباتی تسکین کے لیے ہیں۔

-5 عقیدے کو محض جذباتی سمجھنا اور عقیدے کو ’’منجمد جذبہ‘‘ کہنا۔ کبھی تعریف کے لیے‘ کبھی تحقیر کے لیے۔

-6 عبادات کو محض رسوم سمجھنا اور رسوم ہی کی حیثیت سے قبول یا رد کرنا۔

-7 اخلاقیات کو مذہب کا لازمی جزو نہ سمجھنا۔

-8 اخلاقیات ہی کو پورا مذہب سمجھنا اور مذہب کو صرف ایک اخلاقی نظام کہنا۔ (اس خیال کی آج کل ہمارے یہاں بہت ترویج ہو رہی ہے۔)

-9 تصوف کو صرف و محض اخلاقی تربیت کا ذریعہ سمجھنا۔

-10 مذہب کو صف ایک معاشرتی ادارہ سمجھنا۔ مذہب کو معاشرے کی تنظیم کے ذرائع میں سے ایک ذریعہ کہنا۔

-11 یہ سمجھنا کہ خارجی اور مادّی ماحول کو بہتر بنانے سے آدمی ذہنی اور روحانی طور پر بھی ترقی کرتا ہے‘ بلکہ یہاں تک کہنا کہ مذہب کا مقصد ہی یہ ہے کہ ’’انسانی زندگی‘‘ (یعنی مادّی زندگی) کو بہتر بنائے۔

-12 مذہب کا مقصد ’’معاشرتی بہبودی‘‘ (Social Welfare) بتانا یا ’’قومی خدمت۔‘‘

-13 یہ کہنا کہ مذہب انسان کضے لیے ہے‘ انسان مذہب کے لیے نہیں۔

-14 یہ سمجھنا کہ مذہب کا مقصد ’’کردار کی تعمیر‘‘ ہے اور ’’کردار‘‘ سے وہ افعال و اعمال مراد لینا جو معاشرتی زندگی کے لیے مفید ہیں۔

-15 مذہب کو صرف جذباتی تسکین کا ذریعہ بتانا اور عقائد‘ عبادات اور اخلاقیات سب کو ثانوی چیز سمجھنا۔

-16 مذہب‘ خصوصاً تصوف کو انسانی ہمدردی یا ’’انسان دوستی‘‘ کا ایک طریقہ سمجھنا۔

-17 مذہب میں اشتراکی تصورات اور مساوات کا مغربی تصور داخل کرنا اور مساوات سے یہ مراد لینا کہ سارے انسان ہر حیثیت سے مساوی ہیں۔

-18 مذہب میں‘ خصوصاً تصوف میں تخیل کو بنیادی اہمیت دینا اور یہ سمجھنا کہ تصوف کے رموز تخیل کی پیداوار ہیں۔

-19 ’’آزاد خیالی‘‘ ، ’’آزاد اخلاقیات‘‘ اور ’’آزاد دینیات‘‘ کا رواج‘ جس کے پیچھے یہ مفروضہ ہے کہ مذہب یا اخلاقیات میں وحی کی ضرورت نہیں‘ انسانی عقل کی مدد سے عقائد تک تیار ہو سکتے ہیں اور اس طرح انسان کو عقائد میں ترمیم کا حق ہے۔

-20 عقائد اور مذہب کو ’’قدیم زمانے‘‘ کے انسان کے ناپختہ ذہن کا مظہر کہنا۔ (یہ خیال پہلے مذہب کی تحقیر کے لیے استعمال ہوتا تا۔ لیکن بیسویں صدی میں مذہب کی تحسین کے لیے بھی استعمال کیا گیا ہے۔)

-21 مذہب کو انسانی ذہن کی تخلیق سمجھنا‘ بلکہ یہ بھی کہنا کہ انسان کی ذہنی ترقی کے ساتھ مذہب بھی بدلتا رہتا ہے اور (نعوذباللہ) ’’خدا‘‘ یا ’’خدا کا تصور‘‘ بھی ارتقا پذیر چیز ہے۔

-22 ’’وسعت نظر‘‘ (Tolerace) اور ’’آزاد خیالی‘‘ کے اصول کی ماتحت غلط عقائد کو بھی وہی جگہ دینا جو صحیح عقائد کو حاصل ہونی چاہیے۔

-23 ’’اضافیت‘‘ ک یاصول کو ہر مذہبی اصول پر بھی عقائد کرنا اور یہ اصرار کرنا کہ ہر خیال میں صرف ’’اضافی صداقت‘‘ ہوتی ہے‘ ’’مستقل صداقت‘‘ نہیں ہوتی۔

-24 دین کو‘ خصوصاً تصوف کو فلسفہ سمجھنا۔

-25 مذہب اور خصوصاً تصوف کو محض جذبات کی چیز سمجھنا اور وجد و حال اور مکاشفات کو مذہب کا جوہر سمجھنا۔ اس سلسلے میں امریکہ کے فلسفی ولیم جیمز نے ’’مذہبی تجربہ‘‘ اور اس کی ’’انواع‘‘ کی جو اصطلاح رائج کی ہے اسی کو تمام دینی تصورات پر عائد کرنا۔

-26 عقلِ کلی کا انکار۔ صوفیا نے جو ’’دل‘‘ کی اصطلاح استعمال کی ہے اسے عام انسانی جذبات کے مترادف سمجھنا۔

-27عام آدمی اور اس کی سمجھ بوجھ کو ہر چیز کا معیار بنانا ار ان تمام دینی تصورات کا انکار جو عام آدمی کی سمجھ میں نہ آسکیں۔

-28 جزوی اور تجزیہ کرنے والی عقل کے ذریعے جو علم حاصل ہو سکتا ہے اس سے آگے کسی علم کو نہ ماننا اور عقل جزوی کے سوا کسی بلند تر ذریعہ علم کو قبول نہ کرنا اور اس طرح علم کے تصور کو مادیات کے علم تک محدود کر دنا۔ عقل پرستی۔

-29 عقل کلی اور عقل جزوی میں فرق نہ کرنا۔

-30 جو چیز سمجھ میں نہ آئے اسے ضعیف الاعتقادی اور توہم پرستی کہنا۔

-31 جو عقیدہ عقل جزوی کی گرفت میں نہ آسکے اسے رد کرنا یا اس کی عقلی تشریح کرنا۔

-32 احکام کی عقلی مصلحتیں ڈھونڈنا۔

-33 مادیت: مادی دنیا کو آخری حقیقت سمجھنا اور ہر چیز کو اسی پیمانے سے ناپنا۔ مذہب سے مادی فوائد کا مطالبہ کرنا۔

-34 محض مادیت نہیں بلکہ مادی ’’ترقی‘‘ کو ہر چیز کا معیار بنانا۔

-35 مادی’’ترقی‘‘ کا بنیادی معیار جسمانی راحت اور آسائش کو بنانا اور اس معنی میں یہ پوچھنا کہ مذہب نے دنیا کو کیا فائدہ پہنچایا ہے۔

-36 حسیاتی کائنات کو علم کا اوّلیں اور آخریں موضوع سمجھنا۔

-37 محض ’’واقعات‘‘ اور ’’مشاہدہ‘‘ یا ’’تجربہ‘‘ کو کسی خیال کی دلیل یا ثبوت سمجھنا اور مذہبی تصورات کو اسی معیار سے پرکھنا۔

-38 جو چیز نظر نہ آسکے یا محسوس نہ ہو سکے اس کا انکار۔

-39 معجزے اور کرامت کا انکار یا عقلی تاویل۔

-40 نظر کا جسم اور حسیات تک محدود ہوجانا۔

-41 محض جسمانی اور خاری کام کو انسان کی اعلیٰ ترین سرگرمی سمجھنا۔

-42 صرف اس کام یا عمل کو قابل قدر سمجھنا جس سے مادّی اور نظر آنے والے نتائج برآمد ہوں۔

-43 علم اور عمل یا فکر اور عمل کو ایک دوسرے کا مخالف اور متضاد سمجھنا۔

-44 عمل کو فکر یا علم سے برتر سمجھنا۔

-45 محض عمل برائے عمل یعنی خارجی حرکت کو بجائے خود گراں قدر سمجھنا۔

-46 ’’سکون‘‘ اور ’’حرکت‘‘ کے صرف خارجی اور جسمانی معنی سامنے رکھنا اور اس طرح بلا کسی شرط کے‘ حرکت کو سکون پر فوقیت دینا اور اس میں اتنا غلو کرنا کہ لفظ ’’حرکی‘‘ کو تحسین کے لیے اور ’’پُرسکون‘‘ کو تحقیر کے لیے استعمال کرنا۔ مثلاً یہ کہنا کہ اسلامDynamic مذہب تھا‘ مولویوں نے اسے Static بنا دیا۔

-47 مراقبہ‘ ذکر و فکر‘ بلکہ عبادات کو بھی ’’مجہولیت‘‘ کا لقب دینا۔

-48 حرکت پر ایسا اعتقاد رکھنا کہ ہر دینی چیز میں ’’رہبانیت‘‘ دیکھنا۔

-49 مذہب پر ذہنی اور مادّی جمود کا الزام لگانا۔(جاری ہے)

حصہ