کاروان زندگی مولانا سید ابوالحسن علی ندوی

117

دوسری قسط

کوئٹہ ایک دن ٹھہر کر ہم لوگ فورٹ سنڈیمن پہنچے جو ایک فوجی چھاؤنی تھی اور قندھار کے رخ پر افغانی سرحد کے قریب واقع تھی۔ وہاں ایک اسکول میں حاجی عبدالواحد صاحب ہیڈ ماسٹر تھے۔ اُن سے ملاقات ہوئی اور یہ طے پایا کہ پہلے اہم دینی مرکزوں کا دورہ کیا جائے اور جہاں کہیں کوئی اجتماعی اور تنظیمی پیمانے پر دینی کام ہو رہا ہے، اُسے مؤثر تر اور مفید تر بنایا جائے، اُس سے تعاون کیا جائے اور انہیں زمانے کے جدید تقاضوں کے مطابق کام کرنے پر آمادہ کیا جائے اور ان باتوں کے لیے سہارنپور دیوبند، تھانہ بھون ، رائے پور اور نظام الدین دہلی کے مرکزوں کے دورے کا پروگرام بنایا گیا۔

چند ماہ پیشتر مولانا مودودی کا ایک بڑا مؤثر مضمون مولانا محمد الیاس کی تحریک و دعوت پر ترجمان القرآن میں ’’ایک اہم دینی تحریک‘‘ کے عنوان سے نکل چکا تھا۔ میں نے اسے بار بار پڑھا۔ یاد آتا ہے کہ جب مجھے پرچہ ملا تو میں دارالعلوم سے جو سڑک یونیورسٹی کی طرف جاتی ہے، اُس پر پرچہ کھولے ہوئے ایک استغراق کی حالت میں یہ مضمون پڑھ رہا تھا اور مجھے آنے جانے والی سواریوں کا بھی ہوش نہ تھا۔ مولانا خود بھی بستی نظام الدین اور میوات گئے تھے۔ وہاں سے واپس آکر انہوں نے اپنے چند مشوروں کے ساتھ اس اہم دینی جدوجہد کا تعارف کرایا تھا اور اور اُس کے بارے میں اپنے گہرے تاثرات کا اظہار کیا تھا ہم لوگ اس مضمون کو پڑھ کر بہت متاثر ہوئے تھے اور سب سے پہلے اُدھر ہی جانے کا سوچ رہے تھے۔

1939ء کی آخری تاریخیں تھیں کہ ہم تین دوستوں مولانانعمانی‘ حاجی عبدالواحد اور میں نے ضلع سہارنپور اور دہلی کے دورے کا پروگرام بنا یا۔ ہم پہلے سہارنپور گئے اور کچھ دیر وہاں ٹھہر کر مولانا عبد القادر رائے پوری کی خدمت میں حاضر ہونے کے لیے رائے پور کا رُخ کیا۔ ہم لوگ پانچ میل کی مسافت پیادہ پا طے کر کے خانقاہ میں اُس وقت پہنچے جب حضرت کھانے سے فارغ ہو چکے تھے اور آرام کے لیے تشریف لے جانے والے تھے۔ حضرت نے ہم لوگوں کا پُرتپاک خیر مقدم فرمایا اور بڑی گرم جوشی اور بزرگانہ شفقت سے ملے۔ جب ہم لوگوں نے اپنے عزائم کا ذکر کیا تو اپنی معذوری اور ضعیف العمری کے باوجود دعا کی اور ہر ممکن تعاون کا اطمینان دلایا۔ لیکن مشورہ یہ دیا کہ پہلے ہم لوگ نظام الدین جا کر حضرت مولانا محمد الیاس سے ملیں اور اُن کا عظیم الشان تبلیغی کام دیکھیں اور اگر شرحِ صدر ہو تو اس میں شریک بھی ہوں۔

ہم لوگ رائے پور سے بڑے اچھے تاثرات لے کر آئے۔ مولانا عبد القادر رائے پوری کی حالات زمانہ سے مکمل باخبری، سیاسی فہم و فراست، دینی و دنیوی جامعیت اور جذبہ عمل نے اس خانقاہ میں سنوسی خانقاہوں کی جھلک پیدا کر رکھی تھی اور اُن کی بزرگانہ شفقت، تواضع اور مسافر نوازی نے مشائخ سلف کے اخلاق کریمانہ کی یاد تازہ کر دی تھی۔

مولانا محمد الیاس کا تذکرہ میں نے سب سے پہلے اپنے ایک بزرگ سید محمد علیل سے سنا تھا لیکن ملاقات جنوری 1940ء کی ابتدائی تاریخوں میں مقدر تھی۔ مولانا نعمانی، حاجی عبدالواحد اور میں رائے پور سے لوٹتے ہوئے نظام الدین دہلی کی بنگلے والی مسجد میں پہنچے جہاں مولانا کا قیام تھا۔ معلوم ہوا کہ مولانا کسی تبلیغی جلسے میں تشریف لے گئے ہیں۔ ہم لوگ انتظار کی کوفت سے دوچار نہ ہونے پائے تھے کہ مولانا آن پہنچے اور تعارف ہونے پر اس شفقت اور گرم جوشی سے ملے جیسے برسوں کی جان پہچان تھی یا انتظار ہی میں تھے۔ خاص طور پر جب ان کو معلوم ہوا کہ میں سیرت سید احمد شہید کا مصنف ہوں اور میرا صاحب سیرت سے خاندانی تعلق ہے تو شفقت و محبت میں اور اضافہ ہوا۔ پہلی ملاقات کے باوجود کہیں سے بھی کوئی اجنبیت اور اپنے مرتبے کا احساس نہیں ہوتا تھا۔ دوسرے دن صبح کی مجلس میں بھی وہی دل نوازی کی شان تھی۔ ایک مرتبہ مسجد کے بالائی حصے میں جہاں میں ٹھہرا ہوا تھا، مولانا چائے کی ایک پیالی ہاتھ میں لیے تشریف لائے اور میری طرف پیالی بڑھاتے ہوئے فرمایا : مولانا ! ابھی تک ہم لوگ حضرت سید صاحب کی تجدید کے سائے ہی میں ہیں۔ میری روانگی کے وقت مولانا نے ایسی طویل اور اثر میں ڈوبی دُعا کی جس سے دل و دماغ متاثر ہوئے اور دوبارہ اور جلد حاضری کا عزم پختہ ہوا۔ میں لکھنؤ واپس آگیا لیکن دل کا عجیب حال تھا۔

اس سفر میں ہم نے جو سب سے حیرت انگیز چیز دیکھی اور جس پر ہمیں لازوال مسرت ہوئی، وہ میوات کے علاقے میں حضرت مولانامحمد الیاس کا تبلیغی کام تھا۔ ہم نے جو کچھ اپنی آنکھوں سے دیکھا وہ بیسویں صدی عیسوی کا منظر نہ تھا بلکہ پہلی صدی ہجری کا نقشہ معلوم ہوتا تھا۔ ہم نے قرنِ اوّل کے نو مسلموں کے جذبے اور تبلیغی ذوق و شوق کے جو قصے سیرت اور تاریخ اسلام میں پڑھے تھے، اُن کا ایک نمونہ ضلع گوڑ گاؤں کی جامع مسجد اور قصبہ نوح اور شاہ پور کی گلیوں میں دیکھا۔ واقعہ یہ ہے کہ یہ چشتی درویش اور مجددی عالم بستی نظام الدین میں حضرت نظام الدین اولیا کے پہلو میں بیٹھ کر حضرت خواجہ معین الدین چشتی کی اشاعت اسلام اور حضرت مجدد سرہندی اور حضرت شہید رائے بریلوی کی حفاظت اسلام کی سنت زندہ کر رہا تھا۔

مولانا مودودی سے میری دوسری ملاقات اُس وقت ہوئی جب وہ اس کمیٹی میں شرکت کے لیے تشریف لائے جو اسلامی دستور کا خاکہ تیار کرنے کے لیے نواب صاحب چھتاری کی دعوت پر ندوۃ العلما میں بلائی گئی تھی۔ وہ 4 یا 5 جنوری 1941ء کو لکھنو پہنچے اور ندوہ کے مہمان خانے میں قیام کیا ہیں اب جماعت کا با قاعدہ رکن بن گیا اور لکھنو کی جماعت کا ذمہ دار بھی قرار پایا۔ میں نے جماعت کے اُس جلسے میں بھی شرکت کی جو فروری 1942ء میں لاہور میں منعقد ہوا اور جس میں مولانا کی تحریروں اور بعض خیالات سے اختلاف اور اس مخالفت کی بنا پر جو ہندوستان کے بعض مشاہیر علما اور اہل قلم نے شروع کر رکھتی تھی، یہ مسئلہ در پیش تھا کہ مولانا فی الحال جماعت کی امارت سے سبک دوشی اختیار کرلیں اور مولانا امین احسن صاحب کو امیر منتخب کیا جائے۔

رائے شماری ہوئی تو میرا ووٹ مولانا مودودی صاحب کے حق میں تھا اور اس کی بنیاد یہ تھی کہ جماعت کا وجود مولانا کی تحریروں کے اثر سے عمل میں آیا ہے اور اُس کی وابستگی اور انتساب بدستور انہی کی طرف رہے گا۔ جماعت کی دوسری مجلس انتظامیہ میں میری شرکت اکتوبر 1942ء میں دہلی میں ہوئی، اس موقع پر میں مولانا کے ساتھ علی گڑھ بھی گیا اور ایک دن اولڈ بوائز لاج میں ہم دونوں کا قیام رہا۔ میں نے یونیورسٹی کے حلقے میں مولانا کی مقبولیت کا اندازہ کیا جو اُس وقت کے حالات اور مسلمان نوجوانوں کی ذہنی بے چینی اور روحانی پیاس کا عین تقاضا تھا۔

بعد ازاں جماعت سے علحدگی کے لمحات بھی آئے لیکن میں ان حدود تک کبھی نہ پہنچ سکا جہاں مولانا کے شدید ناقد پہنچے۔ مجھے اب بھی اُن کے بہت سے ذہنی کمالات وخیالات کی قدر ہے اور میں اُن کی بہت سی چیزوں کو تعلیم یافتہ نو جوانوں کے لیے مفید اور چشم کش سمجھتا ہوں اور اُن کے مطالعے کا مشورہ دیتا ہوں لیکن اُس وقت میری ذہنی کشمکش بڑھتی گئی یہاں تک کہ خود میں نے مولانا کو اطلاع دی اور انہوں نے مجھے یکسو ہو جانے کا مشورہ دیا۔ علحدگی کے بعد بھی میرے تعلقات دو قدیم شریف دوستوں کے سے تعلقات تھے جن میں بنیادی خیالات کا اختلاف اور طریق کار کا فرق پایا جاتا تھا میرا جب پاکستان کاسفر ہوتا تو ان سے ملتا اور ہم میں سے ہر ایک دوسرے سے اکرام و احترام کا معاملہ کرتا۔

1944ء میں میرے دل میں ایک ایسی کتاب عربی میں لکھنے کی شدید آرزو پیدا ہوئی جس میں یہ دکھایا گیا ہو کہ مسلمانوں کے زوال سے پورے عالمِ انسانی پر کیا اثر پڑا۔ اُن کے عروج سے انسانیت، تمدن اور اقوام و ملل کو کیا ملا اور اُن کے انحطاط و تنزیل سے انہوں نے کیا کھویا۔ اس کے لیے زیادہ وسیع و عمیق مطالعے اور زیادہ تجربہ کار قلم کی ضرورت تھی۔ میرے جیسے مبتدی شخص کے لیے اس موضوع پر لکھنا ایک جراتِ رندانہ یا ادائے قلندرانہ سے کم نہ تھا لیکن انسانی کوششیں اور کاوشیں جو توفیق الٰہی سے کبھی کبھی غیر معمولی طریقے پر کامیاب اور مقبول ہو جاتی ہیں۔ ہمیشہ منطق اور ریاضی کے تابع نہیں ہوتیں۔

مجوزہ کتاب میں سب سے پہلے اس امر کی ضرورت تھی کہ اسلام سے پہلے کی اہمیت عالمیہ کا پورا نقشہ پیش کیا جائے جو اس کے اعتقادی، اخلاقی، اجتماعی، معاشرتی اور سیاسی پہلوؤں پر حاوی ہو تاکہ معلوم ہو کہ انسانیت عالمگیر پیمانے پر کس پستی بلکہ خودکشی اور خود سوزی کی منزل تک پہنچ گئی تھی اور اسلام کا ظاہر کن نامساعد حالات اور کس تاریک ماحول میں ہوا۔ اس سلسلے میں جب مطالعہ شروع کیا تو اندازہ ہوا کہ عالمی جاہلیت پر کہیں یکجا مواد ان زبانوں میں نہیں ملتا جن سے مجھے کم و بیش واقفیت تھی۔ یہ مواد علیحدہ علیحدہ ملکوں کی تاریخ پر لکھی گئی بیسیوں کتابوں، ہزاروں صفحات اور کئی زبانوں میں منتشر تھا، چنانچہ مجھے ایک نئے سفر کا آغاز کرنا پڑا جس کی منزلیں پہلے سے معلوم نہیں تھیں لیکن توفیق الٰہی سے وہ منزلیں ملتی چلی گئیں جن کی مجھے ضرورت تھی۔ اس سلسلے میں امیر الدولہ لائبریری لکھنو کے انگریزی ذخیرے‘ مولانا عبدالماجد دریا بادی کے ذاتی کتب خانے اور سب سے بڑھ کر حاجی عبد الوہاب صاحب دہلوی کی مہتم بالشان لائبریری کی جدید ترین عربی مطبوعات سے بڑی مدد ملی جن سے استفادے کا موقع مجھے 1947ء میں قیام مکہ معظمہ کے دوران میں ملا۔ اس طرح عصر جاہلی کے تحت میرے پاس اتنا اثاثہ جمع ہو گیا جو اس وقت تک کسی کتاب کی ترتیب کے سلسلے میں یکجا نہ ہوا تھا۔

کتاب کے مسودے کی تکمیل کا سلسلہ 1947ء تک جاری رہا اور جب وہ مکمل ہو گیا تو طباعتی دشواریاں پیش آئیں۔ میں اُس وقت تک باہر نہیں گیا تھا اور مصر کے اشاعتی مرکزوں سے میرے کوئی روابط نہ تھے۔ اسی زمانے میں مجھے حجاز کا سفر در پیش آیا۔ اُس وقت حرم مکی کے خطیب و امام ایک مصری عالم شیخ محمد عبد الرزاق حمزہ تھے جو وسیع النظر عالم تھے اور جدید مطبوعات پر اُن کی گہری نظر تھی۔ میں اُن کے پاس اکثر اُٹھتا بیٹھتا تھا میں نے انہیں کتاب کا مسودہ دکھایا۔ انہوں نے اس کا مطالعہ کیا ، پسند فرمایا اور چھپوانے کی تاکید کی۔

اس زمانے میں افریقہ کے ایک تاجر یہاں آئے ہوئے تھے۔ میں جا کر اُن سے ملا۔ کتاب کا تعارف کرایا اور اسے شائع کرنے کی ضرورت ظاہر کی۔ ہر چند وہ ذی علم تھے لیکن زمانے کے جدید تقاضوں سے زیادہ واقف نہ تھے، اس لیے انہوں نے پانچ سو روپے کی رقم عنایت فرمائی جو طباعتی مصارف کے مقابلے میں بالکل حقیر تھی۔ میں نے قبول تو کر لی مگر بہت دل شکستہ ہوا۔ ہم لوگوں کا جہاں قیام تھا، اُس کا راستہ حرم شریف سے ہو کر جاتا تھا۔ میرا وضو تھا، میں سیدھا حرم شریف گیا اور اسی دل شکستگی کے عالم میں ملتزم پر اس کتاب کی طباعت کے سامان ہونے اور قبولیت کی دُعا کی۔ اس دُعا ہی کا اثر تھا کہ اللہ تعالیٰ نے اس کی طباعت کا غیب سے بہتر سامان پیدا کیا اور اسے وہ مقبولیت عطا کی جو میری کسی اور تصنیف کو حاصل نہیں ہوئی۔ مجھے اللہ تعالیٰ کی طرف سے یہ رہنمائی ملی کہ اس کتاب ما ذَاخَسَر العالم بِاخِطَاطِ المسلِمِینَ کی اشاعت کے لیے میری نظر انتخاب ڈاکٹر احمد امین کے تصنیفی و اشاعتی مرکز قاہرہ پر پڑی جسے مصر میں وہ مقام حاصل تھا جو ہمارے ہاں دارالمصنفین اعظم گڑھ کو ہے۔ میں نے اُن سے مراسلت شروع کی اور کتاب کے مضامین کی فہرست بھی بھیجی۔ انہوں نے مجھ سے دریافت کیا کہ آپ نے اجنبی ماخذوں سے کہاں تک استفادہ کیا ہے اور یہ کتاب صرف مولویانہ اور داعیانہ ہے یا مؤرخانہ اور محققانہ بھی؟ اس کے جواب میں‘ میں نے انگریزی مآخذ کی فہرست اور اس کے مسودے کی ایک نقل بھیج دی۔ کچھ عرصہ بعد اُن کا خط ملا کہ آپ کی کتاب زبان اور مواد کے لحاظ سے مکمل ہے اور ہماری کمیٹی نے اس کی طباعت کا فیصلہ کر لیا ہے۔ مجھے یاد ہے کہ میری زندگی میں چند روز جو انتہائی مسرت کے گزرے ہیں، اُن میں سے ایک وہ بھی تھا جب اُن کا یہ خط مجھے ملا۔

میں 1951ء میں مصر گیا تو یہ کتاب چھپ کر وہاں کے علمی و دینی حلقوں میں خوب پھیل چکی تھی اور میرے تعارف کے لیے اتنا کافی سمجھا جاتا تھا کہ یہ مَاذَا خَسرَ العَالَمْ بِاخطَاطِ المسلمین کے مصنف ہیں۔ اُس وقت اخوان المسلمین کی تحریک پر پابندی تھی۔ شیخ حسن البنا مرحوم کی شہادت ہو چکی تھی۔ اخوان کے دل مجروح تھے۔ اس کتاب کو پڑھ کر جس میں امام شہید کے خیالات و مقاصد کا عکس نظر آتا تھا، اُن کو بڑی تقویت اور تسکین حاصل ہوئی اور انہوں نے اسے ہاتھوں ہاتھ لیا حتیٰ کہ یہ کتاب مصر کی جیلوں میں بھی پہنچی اور پڑھی گئی جہاں ہزاروں اخوانی قید تھے۔

مارچ 1944ء میں مجھے مجلسِ سیرت پشاور کے سیکرٹری عبدالرشید ارشد صاحب کا خط ملا۔ مجلسِ سیرت کے سالانہ جلسے میں شرکت کی دعوت دیتے ہوئے اُنہوں نے لکھا تھا کہ صوبہ سرحد اور پشاور سے آپ کے خاندانی روابط بھی ہیں اور یہ حضرت سید احمد شہید کی تحریک اور مجاہدانہ سرگرمیوں کی جولاں گاہ بھی رہا ہے، اس لیے آپ کو اس بار یہاں آنا چاہیے۔ خط میں یہ بھی تحریر تھا کہ عام طور پر اس جلسے کے لیے مولانا شبیر احمد عثمانی اور مولانا قاری محمد طیب کو دعوت دی جاتی رہی ہے لیکن اس برس کمیٹی نے فیصلہ کیا ہے کہ دو ندوی فضلا کو مدعو کیا جائے۔ ایک آپ اور دوسرے مولانا محمد جعفر شاہ پھلواروی۔ معلوم نہیں کیا بات تھی کہ یہ خط پڑھ کر میں نے خاص طرح کی مسرت محسوس کی اور اپنی منظوری کی اطلاع دے دی۔(جاری ہے)

حصہ