تیرا میرا رشہ کیا لَا إِلَٰهَ إِلَّا ٱللَّٰ

117

یہ آیت پوری دنیا کے مسلمانوں کو ایک ملّت قرار دیتی ہے، جس کی بنیاد کلمۂ توحید لا الٰہ الااللہ محمد الرسول اللہ ہے۔ شرق تا غرب، شمال تا جنوب دنیا کا ہر انسان رنگ و نسل، زبان و ثقافت سے ماورا ملّتِ واحدہ ہے جو کلمہ لا الٰہ الااللہ کا پڑھنے والا ہے۔ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’ ہرمسلمان ایک دوسرے کا بھائی ہے۔‘‘

آپؐ نے اپنی مٹھی بند کرکے فرمایا ’’تمام مسلمان جسدِ واحد کی مانند ہیں۔ جب جسم کے کسی ایک حصے میں درد ہوتا ہے تو سارا جسم درد محسوس کرتا ہے۔‘‘

آپؐ نے فرمایا ’’جو میری امت کے معاملات سے بے تعلق رہا وہ مجھ سے نہیں۔‘‘ آج مسلم دنیا اس لیے کفر کی جارحیت کا شکار ہے کہ مسلمانانِ عالم اختلافات کا شکار ہیں۔

حجۃ الوداع کے خطبے میں ارشادِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ہے:

’’لوگو! آج کے بعد کسی عربی کو کسی عجمی پر، کسی گورے کو کسی کالے پر، کسی دولت مند کو کسی غریب پر کوئی فوقیت حاصل نہیں۔ میں اس طرح کے تمام تعصبات پر مبنی بڑائی کے دعووں کو اپنے پیروں تلے روندتا ہوں۔‘‘ پھر آپؐ نے یہ آیت پڑھی۔ ان اکرمکم عند اللّٰہ اتقا کم۔ (اللہ کی نظر میں وہی سب سے پسندیدہ اور عزت والا ہے جو سب سے زیادہ اللہ سے ڈرنے والا ہے۔)

مگر کئی صدیوں سے طاغوتی طاقتوں نے مسلمانوں کو مختلف فرقوں، مسلکوں، رنگ و نسل اور زبان کی بنیاد پر تقسیم کرکے آپس میں دست و گریباں کررکھا ہے جس سے مسلمانوں کی ہوا اکھڑ چکی ہے۔

مسلمانوں کی تمام تر شکست و ریخت کی بنیادی وجہ آپس کے اختلافات ہیں۔ تاریخ اس بات کی شاہد ہے کہ مسلمان اُس وقت کافروں کے ہاتھوں ذلیل و خوار ہوئے جب وہ آپسی اختلافات کا شکار ہوئے۔ سقوطِ غرناطہ سے لے سقوطِ ڈھاکہ تک تمام سانحات کی ایک جیسی کہانی ہے۔ لیکن اس کے باوجود کلمے کا رشتہ اٹوٹ ہے۔ یہی وجہ ہے کہ دنیا کے کسی خطے میں جب کوئی مسلمان کسی شعبۂ زندگی میں نمایاں کامیابی حاصل کرتا ہے تو پوری امت خوشی مناتی ہے۔ 28 مئی 1998ء کو جب پاکستان نے بھارت کے 4 ایٹمی دھماکوں کے جواب میں 6 ایٹمی دھماکے کیے تو پوری مسلم دنیا میں خوشی کی لہر دوڑ گئی۔ آج غزہ، کشمیر، شام، عراق، برما اور بھارت کے مسلمانوں پر ہونے والے مظالم کے درد سے سوادِ اعظم اسلامیہ دل گرفتہ ہے، یہ تو مسلمان حکمرانوں اور جرنیلوں کی بے حسی اور بے غیرتی ہے کہ یہود و نصاریٰ اور ہنود مسلمانوں پر مظالم ڈھا رہے ہیں۔

کلمۂ طیبہ کا کرشمہ تھا جس نے جنگِ بدر میں تمام حقیقی رشتوں کو کاٹ کر رکھ دیا۔ ابوعبیدہ بن الجراح رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو ’’امین الامت‘‘ کا خطاب منجانب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم، اس لیے ملا کہ آپ نے اپنے کافر باپ کو اپنے ہاتھوں سے جہنم واصل کیا۔ حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اپنے ماموں کو قتل کیا۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے چچا حضرت عباسؓ قیدی بنے۔

اسلام میں رشتہ صرف اور صرف کلمے کا رشتہ ہے۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:’’ایمان والو! اپنے باپوں اور بھائیوں کو بھی اپنا رفیق نہ بناؤ اگر وہ کفر کو ایمان پر ترجیح دیں، اور جو ایسا کرے گا وہ ظالم ہے۔‘‘ (سورۃ التوبہ)

اللہ تعالیٰ نے حضرت نوح علیہ السلام کو اپنے ڈوبتے بیٹے کو بچانے سے اس لیے منع کردیا کہ وہ کافر تھا۔ ابراہیم علیہ السلام کے والد، نوح علیہ السلام کی بیوی… سب اس لیے اللہ کے غضب کا نشانہ بنے کہ وہ کافر تھے۔

آدم علیہ السلام سے لے کر حضور پاک صلی اللہ علیہ وسلم تک سب نے ایک ہی کلمے یعنی لا الٰہ الااللہ کی جانب لوگوں کو بلایا۔ تمام ایمان والوں کا حقیقی رشتہ کلمے کا ہے، باقی تمام رشتے اُس وقت ختم ہوجاتے ہیں جب کلمہ درمیان سے ہٹ جاتا ہے یا ہٹادیا جاتا ہے۔

یہ کلمے کا ہی رشتہ تھا کہ جب راجا داہر کی قید سے ایک مسلمان بیٹی نے حجاج بن یوسف کو اپنی مصیبتوں کا حال لکھا تو حجاج بن یوسف نے بلا تاخیر اپنے جواں سال بھتیجے محمد بن قاسم کو سندھ پر لشکر کشی کا حکم دیا اور قیدیوں کو رہائی دلائی۔ یہی نہیں، داہر کا دیبل تباہ ہوا اور سندھ ’’بابل الاسلام‘‘ بنا۔ جب ایک عیسائی نے روم کے بازار میں ایک مسلمان بہن کو تھپڑ مارا اور یہ خبر بغداد کے خلیفہ کو ملی تو روم پر چڑھائی ہوگئی اور مجرم کیفرِ کردار تک پہنچا۔

مگر یہ رشتہ کمزور ہوا تو تاتاریوں کی یلغار کا مقابلہ کرنے والے جلال الدین خوارزم کی مدد کو نہ بغداد کا خلیفہ آیا اور نہ کوئی مسلم حکمران پہنچا۔ سقوطِ غرناطہ، بغداد، دکن، بنگال، دہلی اور ڈھاکہ کے وقت تمام مسلم دنیا خاموش تماشائی بنی رہی اور کشتوں کے پشتے لگتے رہے۔ ترک خلافت کے خاتمے کے وقت مسلمانانِ ہند کے سوا کسی نے احتجاج کیا اور نہ ساتھ دیا۔ آج ایک بار پھر ہماری آنکھوں کے سامنے دنیا کے 57 آزاد مسلم ممالک کے ہوتے ہوئے فلسطین، کشمیر، برما اور ہندوستان میں مسلمانوں کا لہو بہہ رہا ہے مگر مسلمان حکمران صرف مذمتی قراردادیں پاس کرکے رہ جاتے ہیں۔ سب اپنی آنکھوں سے اسرائیل کی درندگی اور غزہ کے مسلمانوں کی نسل کُشی دیکھ رہے ہیں۔

اپنی تہذیب کی لاش پہ رونے والا بھی کوئی نہیں
سب کے ہونٹوں پہ ہے یہ صدا اب یہ میت اٹھائے گا کون

اس کے باوجود اس کلمے کی حرارت رکھنے والے ہزاروں نوجوان اپنے مظلوم بھائی، بہنوں کی مدد کے لیے پوری دنیا سے تمام رکاوٹوں کے باوجود سفر کرتے ہیں اور اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کرتے ہیں۔ یہ ڈاکٹر اور مجاہدین کسی بھی بارڈر کو خاطر میں لائے بغیر پوری دنیا کے ظالموں کو ہر محاذ پر للکار رہے ہیں۔

پاکستان کی تخلیق میں اگر یہ نعرہ نہ ہوتا کہ ’’پاکستان کا مطلب کیا، لاالٰہ الااللہ‘‘ تو پاکستان ہرگز نہیں بنتا۔ اسی نعرے کی گونج تھی کہ چترال کی وادیوں سے لے کر خلیجِ بنگال، اور بولان کے صحرا سے لے کر راس کماری کے ساحلوں تک مسلمان متحد ہو کر پاکستان بنانے میں کامیاب ہوئے، مگر جب کلمے کا رشتہ کمزور ہوا تو استحصالی قوتوں کی من مانی، استحصال اور اپنوں اور غیروں کی سازشوں سے پاکستان دولخت ہوگیا اور بنگلہ دیش بن گیا۔

آج اہلِ بنگلہ دیش کے دلوں میں ایک بار پھر کلمے کی محبت والی چنگاری شعلہ بن رہی ہے اور دنیا نے ایسا انقلاب دیکھا جس کا تصور کوئی سیاسی پنڈت نہیں کرسکتا تھا۔ آج بنگلہ دیش کے مسلمانوں کو یہ احساس ہوگیا ہے کہ ہمارا حقیقی دوست اور بہی خواہ پاکستان ہی ہے، جس نام پر ظالم حسینہ واجد لوگوں کو ماورائے قانون تختۂ دار پر لٹکا دیا کرتی تھی آج وہی نعرہ انقلاب کا ذریعہ بنا۔

’’آمی کے تومی کے رضاکار رضاکار…‘‘ ہاں یہ وہی رضاکار تھے جو دفاعِ پاکستان کے لیے 1971ء میں اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کررہے تھے۔ آج ان رضاکاروں کی اولاد بنگلہ دیش میں انقلاب لائی، بچھڑے ہوئے ایک بار پھر کلمے کی بنیاد پر مل رہے ہیں۔ بابائے قوم قائداعظم محمد علی جناح 11 ستمبر کو بنگلہ دیش کے گلی کوچوں میں پھر سے یاد کیے جارہے تھے۔

مٹا دیا مرے ساقی نے عالمِ من و تُو
پلا کے مجھ کو مئے لا الٰہ الا ہو
( علامہ اقبال)

اس کلمے میں مقناطیسی کشش ہے جو شرق تا غرب، شمال تا جنوب تمام مسلمانوں کو باہم یکجا کر دیتی ہے۔ اس کلمے میں ایسا نعرہ ہے جسے سن کر دل باغ باغ ہو جاتا ہے۔ ’‘لاشرقیہ لاغربیہ… اسلامیہ اسلامیہ۔‘‘یہ کلمہ برہنہ تلوار کی طرح ہے جو ہر اُس رشتے کو کاٹ کر رکھ دیتا ہے جو اس سے انحراف یا بغاوت کرتا ہے۔ علامہ اقبال کی نظم خودی کے چند اشعار:

خودی کا سرِ نہاں لا الٰہ الا اللہ
خودی ہے تیغ فساں لا الٰہ الا اللہ
یہ دور اپنے براہیمؑ کی تلاش میں ہے
صنم کدہ ہے جہاں لا الٰہ الا اللہ
کیا ہے تُو نے متاعِ غرور کا سودا
فریبِ سود و زیاں لا الٰہ الا اللہ
یہ مال و دولتِ دنیا یہ رشتہ و پیوند
بتانِ وہم و گماں لا الٰہ الا اللہ
یہ نغمہ فصلِ گُل و لالہ کا نہیں پابند
بہار ہو کہ خزاں لا الٰہ الا اللہ

یہ چند اشعار دورِ انتشار میں تریاق کا کام دیں گے اگر مسلمانان عالمِ اس کو ہرزِ جاں بنالیں۔

حصہ