وقت کی ضرورت

203

جماعت اسلامی از اول تا آخر ایک دینی و فکری تحریک ہے جس کی عمارت اس کی تنظیم اور تربیتی نظام پر کھڑی ہے۔ اقامت دین کی تحریک ہونے کی وجہ سے بدرجۂ اولیٰ یہ اس کی ذمہ داری قرارپاتی ہے کہ جو لوگ اس کے ساتھ چل رہے ہیں، ان کے تزکیۂ نفس کے لیے اور زندگی کے تمام گوشوں کو روشن اور منور رکھنے اور انھیں اندھیروں سے بچانے کے لیے ان کی تربیت کاخصوصی اہتمام و انتظام کرے۔ انبیاے کرام ؑکا مشن بھی اصلاً تزکیۂ نفس ہی تھا اور اسلامی تحریکیں معاشرے کے اندر جو انقلاب لانا چاہتی ہیں اس کا مقصود بھی یہی ہے۔اگرچہ اجتماعی دائرے کا انقلاب زندگی کے تمام دائروں پر محیط ہوتاہے لیکن یہ اس وقت تک ممکن نہیں ہے جب تک فرد کی اصلاح ، اور اس کے اندر انقلابیت، یعنی ایثارو قربانی اور اپنے آپ کی نفی کرتے ہوئے معاشرے کا اثبات کرنے کی صلاحیت موجود نہ ہو۔ اسلامی تحریکیں معاشرے کے اندر نئے انسان اور رویے پیدا کرتی ہیں، پرانے انسانوں کے ہیولے سے نئے انسان جنم لیتے ہیں،اور ان نئے انسانوں سے ایک نیا معاشرہ ترتیب و تشکیل پاتا ہے۔

پرانے انسان سے نئے انسان کیسے وجود میں آتے ہیں؟ اس کی سب سے بہترین مثال تو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے اسوہ اور صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے کردار سے سامنے آتی ہے۔ حضرت عمرفاروق ؓ کے قبول اسلام کا واقعہ تو مشہور و معروف ہے کہ کس طرح گھر سے نعوذباللہ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کے قتل کے ارادے سے نکلتے ہیں مگر آیات قرآنی کی تلاوت سنتے ہی دل کی دنیا تبدیل ہو جاتی ہے۔ اسی طرح حضرت عمرو بن العاصؓ فرماتے ہیں کہ میری زندگی کے دو ادوار ہیں۔ ایک وہ دورکہ جس میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کانام تک سننا بھی گوارا نہ تھا، اور حضوؐرکا نام سننا بھی طبیعت پر بوجھ تھا،کبھی کبھی جس کو اتارنے کو دل چاہتا تھا، جب کہ دوسرا دور وہ ہے کہ جس میں میری محبوب ترین ہستی اگر کوئی تھی تو وہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات گرامی تھی۔ آںحضور صلی اللہ علیہ وسلم کی ہر نشست میں شریک ہوتا تھا اور قدرے فاصلے پر بیٹھتا تھا ۔ کبھی آپؐ کو آنکھ بھر کے دیکھا نہ جی بھر کے، اس لیے کہ نگاہیں آپؐ کے چہرے پر ٹھیرتی ہی نہ تھیں ۔ اگر کوئی مجھ سے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے چہرۂ مبارک کے بارے میںپوچھے تو میںنہیں بتاسکتا۔ ایک اور صحابیِ رسولؐ ارشاد فرماتے ہیں کہ میں حالت ِجاہلیت میںقریش کو کوستا تھا کہ انھوں نے آپؐ کے لیے سب آزمایشیں تو کھڑی کیں لیکن جوکام کرناتھا وہ توکیا ہی نہیں، چنانچہ اپنے گھر سے اس ارادے سے نکلا کہ آپؐ پر حملہ آور ہوجاؤں۔ گھر سے نکلا تودیکھا کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم طواف میں مصروف ہیں۔ بس موقعے کو غنیمت جانا اورخود بھی طواف میں شریک ہوگیا اور اس انتظار میں رہا کہ مناسب موقع اور وقت ہاتھ آئے توآپؐ پر وار کروں ۔اسی اثنا میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے دیکھا تو آواز دے کر اپنے پاس بلایا۔ قریب پہنچا تو دریافت کیا کہ تمھارا کیا ارادہ ہے؟ یہ سنتے ہی میرے پیروں تلے سے زمین نکل گئی کہ شاید آپؐ کومعلوم ہوگیا ہے کہ میں کس ارادے سے آیا ہوں؟ لیکن اس کے باوجود میں نے عرض کیا کہ طواف کر رہاہوں، اور کوئی دوسراارادہ نہیں ہے۔ یہ سن کر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم مسکرائے اور اپنا دایاں ہاتھ میرے سینے پر رکھا اور ابھی ہاتھ آپؐ نے اٹھایا نہ تھا کہ دل و دماغ کے تمام بندھن کھل گئے اور اسلام کی سیدھی اور شفاف شاہراہ مجھے نظر آنے لگی۔ لمحوں میں تزکیے کی وہ کیفیت حاصل ہو گئی جو ناقابل یقین ہے۔

اس طرح کے کئی دوسرے واقعات اس بات کا پتا دیتے ہیںکہ معاشرے میں ہمیشہ ایسے انسان موجود رہیں گے جو لمحوں کے اندر اپنا پورا تزکیہ کرنے کی صلاحیت سے آراستہ و پیراستہ ہوں گے۔ معاشرے کے اندر جولوگ دعوت دین کا فریضہ انجام دیتے ہیں، یہ بات ان کے پیش نظر رہنی چاہیے کہ میدانِ دعوت میںایسے لوگ بھی ملیں گے جن پر آپ برسہا برس کام کریں گے مگر وہ آپ کا ساتھ نہ دیں گے، اور ایسے لوگ بھی ملیں گے جو لمحوں کے اندراس راہ کے راہی بن جائیں گے۔

تزکیۂ نفس اور تعمیر ِسیرت:
انسان اضدادکے مجموعے کا نام ہے۔ نیکی کے جذبات کا ایک سمندر ہے جو اس کے اندر پنہاں ہے اوربدی کا ایک طوفان ہے جو اس کے اندر پناہ لیے ہوئے ہے۔ وہی انسان ہے جو نہایت خونخوار ہے اور انتقام لینے پر آئے تو سیکڑوں لوگوں کو لقمۂ اجل بنادیتا ہے، اور وہی انسان ہے جو انسانوں کی ہمدردی میں بڑے بڑے دریا اور سمندر عبور کرلیتا ہے۔ ایک ہی انسان کے اندر کئی کئی انسان موجود ہیں۔ ایک ہی انسان کئی کئی کشتیوں میں سوار، کئی کئی منزلوں کی طرف گامزن اور رواں دواں ہے ۔ان تضادات کو رفع کرنا، اسے یکسوئی اور طمانیت کی دولت سے مالا مال کرنا، اور اپنے رب سے رجوع کرنے کی دعوت دینا، فی الحقیقت تربیت ہے، تزکیۂ نفس ہے، تعمیر سیرت ہے، کردار سازی ہے ۔ اسلامی تحریکیں اپنی معیت میں چلنے والے انسانوں کی زندگی تبدیل کرنے کے لیے اس طرح کوشاں ہوتی ہیں کہ واقعی ان کی سیرت و کردار ، رویے، طور طریقے ،ذہن و فکر کے سانچے ،نکتہ ہاے نظراور زاویہ ہاے نگاہ بدل جاتے ہیں اور ایک نیا انسان وجود میں آجاتا ہے ۔

نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے جس طریقے سے لوگوں کومخاطب کیا، ساتھ ملایا ، ہم نوا بنایا، وہ ہمارے لیے تو لَقَدْ کَانَ لَکُمْ فِیْ رَسُوْلِ اللّٰہِ اُسْوَۃٌ حَسَنَۃٌ کے مصداق بہترین نمونہ ہے مگرقرآن پاک کا بھی بڑا اہم رول ہے۔ اسی لیے یزکیہم سے پہلے تلاوتِ آیات کی بات آئی ہے۔ تلاوتِ آیات کا بلاشبہ یہ مفہوم بھی ہے کہ قرآن پاک کو خوش الحانی کے ساتھ پڑھا اور حفظ کیا جائے، لیکن تلاوتِ آیات وہ مطلوب ہے جو دل کے اندر اُتر جائے اور جس کے نتیجے میں عقائد کی اصلاح ہو، رویے تبدیل ہوں، اعمال کے اندر تبدیلی واقع ہو، اور زندگی اور اس کی ترجیحات بدل جائیں۔ جس قرآن کو پڑھنے کے نتیجے میں آدمی نہ بدلے اور’ خود بدلتے نہیں، قرآں کو بدل دیتے ہیں‘ کا عنوان بن جائے، ظاہر ہے کہ وہ تزکیہ اور تربیت کی تعریف میں نہیں آتا۔ قرآن پاک کے ساتھ ایک خاص قسم کے شغف کی ضرورت ہے جس کی مثال حضورنبی اکرمؐ کے اسوے میں موجود ہے۔

حضرت عبداللہ بن مسعود ؓروایت کرتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اپنی مسجد میں تشریف لائے، منبر پر تشریف فرماہوئے ، اور فرمایاعبداللہ مجھے قرآن سناؤ۔ میں قدرے حیران ہوا اورسوال کیا کہ حضوؐر قرآن پاک تو آپؐ پر نازل ہوا ہے، آپؐ کے ذریعے سے ہم تک پہنچا ہے ، آپؐ سے ہم نے سنا اور سمجھا ہے، میںبھلاآپؐ کوکیا قرآن سناؤں گا؟آپؐ نے فرمایا کہ نہیں عبداللہ! آج تو یہ جی چاہتا ہے کہ کوئی سنائے، اور میں سنوں۔حضرت عبداللہ بن مسعودؓنے سورۃالنساء کی تلاو ت شرو ع کی، جب اس آیت پر پہنچے کہ فَکَیْفَ اِذَاجِئْنَا مِنْ کُلِّ اُمَّۃٍم بِشَھِیْدٍ وَّ جِئْنَا بِکَ عَلٰی ھٰٓؤُلَآئِ شَھِیْدًاo (النساء۴:۴۱) ’’پھر سوچو کہ اس وقت یہ کیا کریں گے جب ہم ہر امت میں سے ایک گواہ لائیں گے اور ان لوگوں پر تمھیں گواہ کی حیثیت سے کھڑا کریں گے‘‘، تواسی دوران میں حضرت عبداللہ بن مسعودؓ کواندازہ ہوا کہ جیسے آپؐ ہاتھ کے اشارے سے روک رہے ہیں اور فرما رہے ہیں کہ عبداللہ ٹھیر جائو۔ حضرت عبداللہ بن مسعودؓنے سراُٹھا کردیکھا تو نبی اکرمؐ زارو قطار رو رہے ہیں ، اور جواب دہی کے احساس سے ریش مبارک اور آنکھیں آنسوؤں سے تر ہیں ۔

ایک اور حدیث میں آتا ہے کہ نبی اکرمؐ تہجد کے وقت حالتِ قیام میں تھے، جب سورۂ ابراہیم کی اس آیت پر پہنچے: رَبِّ اِنَّھُنَّ اَضْلَلْنَ کَثِیْرًا مِّنَ النَّاسِ ج فَمَنْ تَبِعَنِیْ فَاِنَّہٗ مِنِّیْ وَمَنْ عَصَانِیْ فَاِنَّکَ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ o(ابراہیم ۱۴:۳۶) ’’پروردگار ان بتوں نے بہتوں کو گمراہی میں ڈالا ہے (ممکن ہے کہ میری اولاد کو بھی یہ گمراہ کر دیں، لہٰذا ان میں سے جو) میرے طریقے پر چلے وہ میرا ہے اور جو میرے خلاف طریقہ اختیار کرے تو یقینا تُو درگزر کرنے والا مہربان ہے‘‘، تواس آیت پر رک گئے اور پڑھتے جاتے تھے، روتے جاتے تھے تاآںکہ اللہ تعالیٰ نے جبریل ؑامین کو بھیجا ۔ انھوں نے آکر سوال کیا کہ کیا ماجرا ہے ؟ آپؐ فرماتے ہیں کہ حضرت ابراہیم ؑ نے تو اپنی اُمت کے لیے سب کچھ مانگ لیا،جو گناہ گار ہیں، ان کو مغفرت کے حوالے کر دیا جو اطاعت شعار ہیں ان کے لیے وعدے کا ذکر کیا ہے۔ان کی دعا کو پڑھتا ہوں تو اپنی امت کا خیال اور احساس مجھے ستاتا اور ڈراتا ہے۔ حضرت جبریل ؑواپس جاتے ہیں اور پھریہ خوش خبری لے کر واپس آتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ آپؐ کو بھی اپنی امت کے حوالے سے حضرت ابراہیم ؑ کی طرح مطمئن اور خوش کر دے گا۔ نبی اکرمؐ کے اسوے سے معلوم ہوتا ہے کہ قرآن پاک سے شغف کا معنی اورمفہوم کیا ہے؟ اس سے تعلق کیسے جوڑا جائے، کیسے بڑھایا اور برقرار رکھا جائے؟ آیات کے مفہوم سے کس طرح آشنا ہوا جائے، اور ان کے اندر جو حکم پنہاں ہے، اپنے آپ کو اس کا مصداق کیسے بنایا جائے۔

اسی طرح قرآن مجید نے ہدایت کی ہے کہ انقلاب ِامامت جیسے عظیم کام کی انجام دہی کے لیے ضروری ہے کہ صبر اور نماز سے مدد حاصل کی جائے، وَاسْتَعِیْنُوْا بِالصَّبْرِ وَالصَّلٰوۃِ (البقرہ۲:۴۵)۔ اسلامی تحریک کا ہر کارکن نماز کے ساتھ ایسا رشتہ استوار کرے کہ جس کے نتیجے میں نماز باجماعت پڑھنے کی ویسی حرص پیدا ہو جائے جیسے دولت و شہرت اور دنیاکی حرص ہوتی ہے اور انسان اس کے لیے پاگل ہو کر ہر جائز و ناجائزاورصحیح و غلط کام کر گزرتاہے ۔ نماز باجماعت پڑھنے کی حرص پیدا ہوگی تو طبیعتوں کے اندرسے اضمحلال دُور ہوگا، سکینت اور سکون کی کیفیت پیدا ہوگی اور ایک نیا انسان وجود میں آئے گا۔اسی طرح صبرکا معاملہ ہے۔اپنی پوری زندگی میںحق کواپنانا اور جسم و جان کو اس پر لگا دینا صبر ہے۔ حق کے معاملے میں اگرآدمی خود کسی الجھاؤ میں مبتلاہوجائے اور’ کہیں ایسا نہ ہوجائے کہیں ویسا نہ ہوجائے‘ کی گردان کرنے لگے تو وہ خود بھی کمزور پڑجاتا ہے اوراپنے اردگرد فضا کوبھی مسموم کرتا ہے۔

حصہ