غزوہ احزاب تک…
حضرت عمرو بن العاص کفر و شرک کی ان آگ برساتی ہوئی صفوں میں شامل تھے جن کو اسلام دشمنی کی آگ بڑی تیزی سے دوزخ کے آتش فشاں کی طرف کھینچے لیے جا رہی تھی۔ اس وقت تک ان کو یقین تھا کہ اسلام کو مٹایا جا سکتا ہے۔ اسلام کو مٹایا جائے۔ ان کی رگوں میں دوڑتا ہوا جوان خون اس وقت تک ان انسانوں کے خلاف بری طرح کھول رہا تھا جن کا واحد جرم یہ تھا کہ وہ ایک خداہی کو اپنا خدا مانتے ہیں… لیکن…
اس آگ بھری نفرت کے پس منظر میں…
نفرت و سفاکی سے پتھرائے ہوئے سینے میں…
ایک خاموش مگر بے حد عظیم انقلاب بھی سویا ہوا تھا۔ یہ فطرت صالحہ کی وہ طوفانی قوت تھی جو نفرت اور تعصب کی فولادی چٹانوں کو توڑتی پھوڑتی ہوئی آخر کار باہر اہل ہی پڑتی ہے اور اس طوفان خوابیدہ کو ان کی سوچ برابر جگانے کی کوشش کر رہی تھی۔
سوچ!
مسلسل لگا تار سوچ !!
یہ اسلام کی زبر دست اخلاقی طاقت تھی جس نے عمرو بن العاص جیسے دشمن اسلام کو بھی کچھ سوچنے پر مجبور کر دیا تھا۔
وہ دیکھ چکے تھے کہ کس طرح تین سو ساٹھ بتوں کے پجاریوں میں مکے کا ایک بالکل تنہا انسانؐ انتہائی بے سرو سامانی کے عالم میں اس انوکھے پیغام کے ساتھ اٹھا کہ ’’ ایک اکیلے خدا کے سوا اور کوئی خدا ہرگز نہیں‘‘۔
یہ پیغام اس جامد اور تاریک فضا میں انوکھا ہی تو تھا جو بے شمار فرضی خداؤں اور خود ساختہ دیوتاؤں کی خیالی کہانیاں دامن میں سمیٹے ادھر سے ادھر تک،شرق سے غرب تک چھائی ہوئی تھی۔
مگر انھوں نے دیکھا کہ شروع میں جو پیغام محض ایک دیوانگی سمجھا گیا۔ کس طرح ایک سنجیدہ خطرہ اور ایک عالمی انقلاب کی دھمک بنتا چلا گیا، کس طرح اس پر قہقہے لگانے والوں نے تیوریاں چڑھانی شروع کیں، انگلیاں اٹھانے والوں نے آستینیں سونت کر تلواریں اٹھا لیں۔ لیکن پھر کس طرح ظلم و قہرمانیت کے اس طوفان بلا میں اسلام کا سفینہ تھپیڑے کھا کھا کر اس طوفان عظیم کا سینہ چیرتا چلا گیا۔ کس طرح بے رحمانہ حملوں اور ظالمانہ یلغاروں کی زد پر آئے ہوئے سینے اور سر ’’ایک خدا‘‘ کے نام پر والہانہ دھڑکتے اور ’’ایک خدا‘‘ کی چوکھٹ سے لپٹے رہے۔ کفر و شرک نے ظلم پر ظلم ڈھائے مگر اسلام نے صبر کی حیرت ناک طاقت سے ہر ظلم کا خاموش جواب دیا۔ لوگوں کو سرخ شعلوں کی چادر پر لٹایا گیا اور اسلام نے صبر کیا۔ آگ میں زنجیریں تپائی گئیں اور انسانی جسموں کے ننگے گوشت پر کس ڈالی گئیں مگر اسلام نے صبر کیا، زنجیروں میں جکڑ جکڑ کر زندہ انسانوں کو دہکتے ہوئے سنگ ریزوں اور ریت پر مردار جانور کی طرح گھسیٹا گیا مگر اسلام نے صبر کیا، چٹائیوں میں لوگوں کو بند کر کے مشکیں کی گئیں اور پھر دھواں کر کے دم گھونٹ ڈالنے کا وحشیانہ کھیل کھیلا گیا مگر اسلام نے صبر کیا، عورتوں کو ظلم کی چکی میں پیس ڈالا گیا اور ان کی شرم گاہوں میں خنجر گھونپے گئے مگر اسلام نے صبر سے ہر کیا۔
صبر!… محض مبر!!…
نہ کسی ظالم کا ہاتھ پکڑا گیا، نہ کسی قاتل کو گالی دی گئی۔ وہاں تو ظلم و استبداد سے فگار سینوں سے بس ایک ہی آواز اٹھتی سنائی دے رہی تھی وہ یہ کہ :
’’ساری دنیا، ساری کائنات کا خدا ایک ہے۔
سارے انسان ایک خدا کے بندے اور آپس میں بالکل سگے بھائی ہیں۔ اس لیے کہ سب آدمؑ کے بیٹے ہیں اور آدمؑ مٹی سے بنائے گئے تھے۔ کسی بھی انسان کو یہ حق نہیں کہ وہ اپنے ہی جیسے انسان کو ذلیل و تباہ کرے۔ کسی بندے کو یہ روا نہیں کہ خود بھی بندہ ہی ہوتے ہوئے دو دن کی زندگی میں ’’خدا‘‘ بننے کی کوشش کرے‘‘۔
ہاں …
عمرو بن العاص یہ منظر دیکھ چکے تھے۔
لیکن ابھی ان کے اندر سویا ہوا ’’انسان‘‘ بس اس حد تک جاگ سکا تھا کہ اسلام کی عظیم اخلاقی طاقت ان کو ایک زبر دست معجزے کی طرح رہ رہ کر چونکا رہی تھی۔ اس طاقت کی بے کراں سچائی کو ابھی تک پا نہیں سکے تھے۔ ابھی تک خدا کا انکار کرنے والوں اور خدا کی خدائی میں دوسروں کو ساجھی قرار دینے والوں کی مادی طاقت پر ان کا ایمان لرز کر زمین پر ڈھیر نہیں ہو سکا تھا۔ ابھی وہ یہ سمجھے ہوئے تھے کہ تین سو ساٹھ بتوں کے پجاری ’’ایک خدا‘‘ کے ان مٹھی بھر بندوں کو مٹا ڈالنے پر اتر آئے تو چشم زدن میں ان کا صفایا کر کے رکھ دیں گے۔ کفر و شرک کے پاس بے شمار آدمی بھی تھے اور آگ اور لوہے کی زبردست طاقت بھی اور آتش و آہن کی اس بھیانک طغیانی کو رو روکنے کے لیے اسلام کے پاس جو کچھ تھا۔ وہ بس مٹھی بھر انسانوں کا گوشت پوست تھا، چند ٹوٹی پھوٹی تلواریں تھیں، بھوکے پیاسے معدے تھے اور پھٹے پرانے کپڑوں کے تار تھے۔
عمرو بن العاص مادی طاقت کی قہرمانیت پر بھروسہ کر کے کفر و شرک کی ان صفوں میں شامل ہوئے جو ہاتھوں اور ہتھیاروں سے ’’سچائی‘‘ کو تباہ کرنے کے لیے روانہ ہوئی تھیں۔ وہ جنگ بدر، جنگ احد اور جنگ احزاب کے میدانوں تک اسلام کو صفحہ ہستی سے مٹا دینے کے جنون میں گرجتے، کڑکتے اور بجلیاں گراتے ہوئے گئے۔
لیکن ؟…
لیکن انھوں نے یہاں پہنچ کر وہ چیز دیکھی جس کو دیکھ دیکھ کر اس دنیا میں فرط حیرت سے نہ جانے کتنی آنکھیں پھٹ چکی ہیں ! اب تک انھوں نے دنیا میں جو دو چیزیں دیکھی تھیں۔ وہ مظلوموں کی پتلی گردنیں اور ظالموں کی آہنی کلائیاں ہی تھیں لیکن یہاں پہنچ کر انھیں مسلمانوں کے سر پر وہ تیسری چیز بھی نظر آئی جسے ’’خدا کا ہاتھ‘‘ کہتے ہیں۔ ایک دکھائی نہ دینے والا طاقت ور تریں، مہربان ترین ہاتھ !!… کہ جو جب بھی کسی کے سر پر رکھا گیا، پھر کوئی طاقت اس کا بال بھی بیکا نہ کر سکی اور جو جب بھی کسی مغرور گردن کی طرف بڑھ گیا تو پھر کوئی قوت اس گردن کو ٹوٹنے سے نہ بچا سکی۔
انھوں نے سر کی آنکھوں سے یہ تاریخی منظر دیکھا کہ مکے کے ان گنت ہاتھ اور فولادی ہتھیار’’ مدینے‘‘ کی اکیلی سچائی کو مٹانے میں حیرت ناک طور پر ناکام رہے ہیں۔ ان مٹھی بھر فاقہ کشوں کے سینوں میں نہ جانے کیا چیز بھری ہوئی تھی کہ سینکڑوں ہزاروں پلے ہوئے مضبوط جسم ان کے آگے نہ ٹھر سکے!۔ جنگ بدر اور جنگ احد کے بعد عمرو بن العاص یہ دیکھ کر سخت حیران تھے کہ کفر نہ مغلوب ہو کر اسلام کو مٹا سکا اور نہ غالب آکر! جنگ بدر میں تو تین سو تیرہ بے سروسامان انسانوں نے محض خدا کی غیبی مدد سے ایک ہزار آہن پوش سکے والوں کو شکست فاش ہی دے دی تھی مگر جنگ احد میں اسلام ایک بار غالب آکر دوسری بار کچھ مسلمانوں کی لغزش سے مغلوب بھی ہوا۔ مگر کفر کی طاقت خدا کے رسولؐ اور خدا کے غلاموں کو بری طرح گھائل کر دینے کے بعد بھی اسلام کو نیست و نابود کرنے سے عاجز ہی رہی۔
لیکن یہ سب کچھ دیکھ چکنے کے بعد،ابھی تک عمرو بن العاص اس دھو کے میں مبتلا تھے کہ اگر جزیرہ نمائے عرب کے پورے کفر کی طاقت مرتکز ہو کر دھاوابول دے تو اسلام اس یلغار کی تاب نہ لا سکے گا۔
اور …
جب عرب کی تمام کافرانہ طاقتیں غزوۂ احزاب میں24 ہزار کا دل بادل لیے ہوئے مدینے کی طرف جھپٹ رہی تھی تو عمرو بن العاص بھی اسلام پر آخری فیصلہ کن وار کرنے کے لیے ان کے ساتھ بڑھتے جا رہے تھے مگر جنگ کے اس ہولناک ترین محاذ پر بھی انھیں اسلام کے سر پر خدا کا وہی ہاتھ صاف نظر آیا!، انھوں نے دیکھا کہ اس قدر بے پناہ لاؤ لشکر کے ساتھ جو حملہ کیا گیا وہ مسلمانوں کے اوپر ٹوٹ پڑنے کی حسرت بھی نہ نکال سکا اور خود بخود پسپا ہو گیا!، ایک خندق کی دو مخالف سمتوں میں اللہ کے غلام اور اللہ کے باغی کھڑے تھے کہ ایک عجیب و غریب آندھی اٹھی جو مسلمانوں کی سمت میں نرم اور معمولی ہوا تھی۔ مگر کفر کی سمت میں ایک لرزہ خیز طوفان اور میں آندھی ان24 ہزار انسانوں کو انتہائی بدحواسی کے عالم میں اسی طرف اڑا کر لے گئی جدھر سے وہ سب امنڈ امنڈ کر آئے تھے۔ اپنی آرزوؤں اور ارادوں کے لاشے کاندھے پر اٹھائے وہ دور تک پسپا ہوتے چلے گئے۔
یہ وہ آخری جنگ تھی جس میں عمرو بن العاص نے خدا اور اس کے رسولؐ کے خلاف ہتھیار اٹھائے تھے اور یہی وہ تاریخی موڑ تھا جہاں اسلام کے خلاف اٹھی ہوئی ان کی ننگی تلوار ہمیشہ کے لیے ان کے ہاتھ سے چھوٹ گری! حیرت ناک مناظر نے ان کے دیدہ و دل کے وہ بند دریچے کھول دیئے جن کی راہ سے انجام زندگی کی فکر سچائی کی تلاش بن کر آدمی کے اندر داخل ہوتی ہے۔
محاذ جنگ سے وہ ایک ایسی کھوئی کھوئی کیفیت میں سر جھکائے ہوئے پلٹے جیسے ان کا دل کہیں اور ہو اور جسم کہیں اور یہ بات ایک سوالیہ نشان بن کر ان کے دل و دماغ میں ابھرتی چلی گئی کہ اگر اسلام ایک صداقت نہیں ہے تو پھر وہ اس قدر سخت جاں کیوں ہے؟ یہ کیفیت، یہ استغراق یہ محویت بڑھتی ہی چلی گئی۔ جذبات و خیالات کی جو آندھی ان کے اندر ہی اندر شور برپا کر رہی تھی۔ اب وہ ’’شور‘‘ دوسروں کے کانوں تک پہنچنے لگا۔ ان کی روح کی بے چینی ، ان کی آنکھوں اور ان کے چہرے سے ابل ابل کر دوسروں کے مشاہدے پر گرنے لگی اور مکے کے کافروں کا دل یہ سوچ کر وہک سے رہ گیا کہ کیا اسلام کا ’’جادو‘‘ عمرو بن العاص پربھی چل گیا ہے !؟
آخر ایک دن اہل مکہ کا ایک نمائندہ صورت حال کا سراغ لگانے کے لیے ان کے دروازے پر آہی پہنچا۔
’’ کیا قصہ ہے ؟‘‘ فکر و تشویش بھرے لہجے میں اس شخص نے سوال کیا۔ ’’ہم دیکھتے ہیں کہ تم اکثر کھوئے کھوئے سے رہنے لگے ہو!، کیا اسلام…‘‘
’’ ٹھہر جاؤ ‘‘ عمرو بن العاص نے مداخلت کی۔ ’’میں تم سے ایک بات پوچھوںگا‘‘۔
’’کیا؟‘‘۔
’’بتاؤ کیا ہم کے والے حق پر ہیں یا فارس و روم والے؟‘‘۔
فارس و روم اس وقت کی دو عظیم ترین، طاقت ور ترین سلطنتیں تھیں۔ اس شخص نے ان دو سلطنتوں کا نام سنا تو ان کی زبردست شان و شوکت اس کی آنکھوں میں بھر گئی، مگر پھر فورا ًہی اس کو احساس ہوا کہ عمرو بن العاص نے اس وقت مادی شان و شوکت کی بات نہیں پوچھی تھی بلکہ سوال یہ کیا جا رہا تھا کہ حق اور سچائی پر کون ہے؟ اس شخص نے ایک جھر جھری سی لی اور بولا :
’’حق پر ہم لوگ ہیں !‘‘
’’اچھا! …اب ذرا یہ بھی بتا دو کہ دنیا کے عیش و آرام ان کو حاصل ہیں یا ہم کو ؟‘‘
’’وہ … وہ تو ان کو ہی حاصل ہیں! قریشی نمائندے نے گفتگو کے اس موڑ پر قدرے چونکتے ہوئے کہا۔
’’تو پھر ہماری حق پرستی ہمارے کس کام آئے گی آخر ؟‘‘
عمرو بن العاص نے درد بھرا طنز کیا۔ ’’ اس دنیا میں تو ہم حق پر ہوتے ہوئے بھی ان لوگوں سے زیادہ تنگ دست اور پریشان حال رہے جو باطل پر ہیں اور کسی دوسری دنیا کی اور اس کے انعامات کی ہمیں کوئی توقع نہیں، اس لیے کہ اس دنیا کے بعد کسی اور دنیا کا وجود ہمارے عقیدے میں ہے ہی نہیں ‘‘۔
سوال کا یہ زاویہ بجلی کی طرح قریشی نمائندے کے دل و دماغ پر گرا، وہ گم کم رہ گیا اور عمرو کا چہرہ تکنے لگا!
دونوں مخاطب ایک دوسرے کی آنکھوں میں سے ایک دوسرے کے باطن میں جھاکنے کی عمیق کوشش کر رہے تھے۔ عمرو بن العاص نے اس ماحول سے پورا فائدہ اٹھاتے ہوئے اس شخص کی ذہنی بیچارگی پر حقیقت کا آخری وار کیا۔
’’ اس لحاظ سے‘‘ انہوں نے کہا: ’’محمدؐ کی یہ تعلیم کتنی جان دار ہے کہ اس دنیا کے بعد ایک دنیا اور بھی ہے۔ اس زندگی کے بعد ایک دائمی زندگی اور بھی ہے جہاں صرف اہل حق کامیاب ہوں گے اور اہل باطل ناکام۔ جہاں ہر نیکی کا پورا انعام ملے گا اور ہر بدی کی قرار واقعی سزا … جہاں …‘‘
قریشی یہ الفاظ سننے کی تاب نہ لا سکا، تیزی سے اٹھا اور نظروں سے اوجھل ہو گیا وہ جسے سینکڑوں بتوں سے پیار تھا مگر ’’ایک خدا‘‘ کے ذکر سے نفرت، وہ بھلا عمرو بن العاص کے منہ سے محمدؐ نام سن بھی کیسے سکتا تھا۔ وہ شرک زدہ انسانوں کے جن گروہوں سے تعلق رکھتا تھا ان کی حق دشمنی نے تو ان کی عقل و خرد کو وہاں تک پہنچا دیا تھا جہاں دیوانگی بھی انسان پر قبضے لگاتی ہے۔ یہ کیسے ممکن تھا کہ ٹھنڈے دل سے وہ محمدؐ کی تعلیم کی مقبولیت پر غور کرنے کو تیار ہوتے!۔ عمرو بن العاص نے اس تعلیم پر کیوں غور کیا ؟۔ محض اتنا بھی خدا ان کے دشمنوں کو گوارا نہ تھا۔ ایک انتقام آمیز رد عمل شروع ہو گیا۔ گلی گلی، گھر گھر میں ان کے خلاف زہرناک تبصرے ہونے لگے۔ ان زہرناک تبصروں کی مار سے بچنے کے لیے عمرو بن العاص نے ایک اور تدبیر سوچی۔ انھوں نے کفر کے اچھے دماغوں کو جمع کیا اور اپنی تدابیر ان کے سامنے رکھ کر ان کے جذبات کے دھارے کا رخ پھیر دیا۔
’’”خدا کی قسم !‘‘ عمرو بن العاص نے اعلان کیا۔ خدا کی قسم! تم لوگ خوب سمجھ لو کہ محمدؐ کی آواز تمام مخالف آوازوں کو ایک دن دبا کر رکھ دے گی۔ یہ ایسی بات ہے جس میں بحث کی کوئی گنجائش نہیں،جو اٹل ہے اور فیصلہ کن !‘‘
یہ سنتے ہی لوگوں کی تیوریاں یکایک چڑھ گئیں اور خون آشام نظروں کے گرم گرم تیر چلنے لگے۔
’’لیکن میری ایک رائے ہے‘‘۔ عمرو بن العاص نے اس طوفان کو مخاطب کیا۔ ’’بشرطیکہ تم لوگ سننا پسند کرو‘‘۔
(جاری ہے)