خوب صورت نین نقش، لمبے گھنگھریالے سیاہ بال اور دراز قد کی مہرو چاہے جانے کی حد تک پیاری… اس پر بات کرنے طریقہ اور ہنسنے کا سب سے جدا انداز… کھلکھلاتی تو دل چاہتا ہنستی رہے۔ پہننے اوڑھنے کا سلیقہ بھی خوب۔ ماں تو بار بار نظر اتارتی، بھائی بھی سارے لاڈ اٹھاتے اور باپ کی تو آنکھ کا تارا کہ بس نہ چلے اس کو ہمیشہ اپنے سامنے رکھے۔ مگر زمانے کی ریت یہی ہے، کتنا بھی چاہو بیٹیاں بیاہنی پڑتی ہیں، دل کے ٹکڑے کو جدا کرنا پڑتا ہے۔ مہرو بھی پرائی ہو گئی۔ ماں باپ نے نم آنکھوں کے ساتھ دعائوں کے سائے تلے رخصت کردیا۔
وجاہت بھی اپنے نام کی طرح حسین تھا، دونوں کی جوڑی کو بہت سراہا گیا۔ دونوں ہی اپنی اپنی جگہ بہت مسرور تھے۔ شادی کے بعد مہرو نے اپنے خوب صورت رویّے سے اپنی سسرال میں جلد ہی ایک مقام پیدا کرلیا۔ لیکن ایک مسئلہ جو اس نے محسوس کیا وہ یہاں کا حد سے زیادہ آزادانہ ماحول اور کھلا مذاق تھا۔ مہرو خود بھی بے تکلف ہنسی مذاق کرنے کی عادی تھی مگر بس اپنے بھائیوں کو ہی چھیڑتی، ستاتی تھی۔
سسرال کا ماحول تھوڑا الگ تھا۔ ساس سسر خاندان کے بڑے تھے، اس وجہ سے اُن کے دیگر رشتے داروں کا آنا جانا تقریباً روز کا ہی معمول تھا کیوں کہ سب قریب قریب ہی رہتے تھے۔ اس کے علاوہ خود وجاہت چار بھائیوں میں تیسرے نمبر پر تھا۔ مشترکہ خاندانی نظام اور اس پر اُوٹ پٹانگ واہیات مذاق، بے ہنگم قہقہے۔ اسے لگتا وہ کسی اور ہی ماحول میں آگئی ہے۔ جلد ہی اس کا دل اوب گیا۔ مگر وہ کسی طرح اس ماحول میں گھلنے ملنے کی پوری کوشش کررہی تھی۔
’’ارے بھابھی! جلدی آئیں، پیزا تیار ہے، جلدی جلدی برتن نکالیں۔‘‘ ارسلان نے بھاپ اڑاتا پیزا اوون سے نکالتے ہوئے مہرو کو آواز لگائی۔
مہرو جو کہ اُس کے باورچی خانے سے باہرآنے کا انتظار کررہی تھی، مجبوراً اُس کی موجودگی میں ہی باورچی خانے کے اندر جاکر برتن نکالنے لگی۔
’’بھابھی جلدی منہ کھولیں۔‘‘ وہ برتن نکال رہی تھی جب اچانک ارسلان نے پیچھے مڑ کر اس کو پیزا چکھانا چاہا۔
وہ بوکھلا گئی۔ ’’ارے ارے جلدی چکھیں، گر جائے گا۔‘‘ ارسلان کے مسلسل اصرار پر اُس نے پیزے کا ٹکڑا اپنے ہاتھ میں لے لیا۔
’’اچھا بنا ہے‘‘، اس نے اٹکتے ہوئے کہا، حالانکہ گرم گرم پیزا اُس وقت اس کی زبان جلا گیا تھا۔ جواباً ارسلان نے خوش ہوتے ہوئے سیٹی بجائی اور برتن نکلوانے میں اس کی مدد کرنے لگا۔ وہ جو باورچی خانے سے اس کے نکلنے کا انتظار کررہی تھی اب ٹھنڈی سانس بھر کر رہ گئی۔ وجاہت سے بات کرنا بے کار تھا، اس کا بھی اپنی ساری کزنز اور بھابھیوں، حتیٰ کہ چچا کی بہوئوں کے ساتھ بھی بہت کھلا مذاق تھا۔
اس دن وجاہت کے آنے کا وقت تھا، اُس نے اپنا حلیہ درست کیا، ہلکی سی لپ اسٹک، کاجل اور پرفیوم لگاکر تیار ہوگئی۔ وجاہت امی ابو کے پاس بیٹھے تھا، وہ کھانا لگانے کے لیے آئی کہ پیچھے سے کسی نے اس کی آنکھوں پر ہاتھ رکھ لیا۔ وہ پہچان سکتی تھی کہ یہ کسی مرد کے ہاتھ ہیں۔ وہ حد سے زیادہ کلس کر رہ گئی کہ اچانک ایک دم ملی جلی آوازیں گونجیں ’’سرپرائز‘‘۔
وہ پلٹی تو کھانے کی میز پر بڑا سا کیک اور پھول رکھے تھے اور وجاہت کی پوری فیملی سمیت دیگر قریبی رشتے دار بھی موجود تھے۔ اس کو خوش گوار احساس ہوا۔ سب نے اسے باری باری گلے لگایا لیکن جب مرد حضرات بھی اس سے ہاتھ ملانے کے لیے آگے بڑھے تو وہ گڑبڑا کر رہ گئی۔ اس نے ایک نظر وجاہت کی جانب دیکھا جو اطمینان سے اسے ہی دیکھ رہا تھا، اُس کو ایک دم گھٹن کا احساس ہونے لگا، وہ مروتاً بھی ہاتھ آگے نہ بڑھا سکی۔ ماحول میں ایک دَم سردمہری سی چھا گئی۔ سب کو اس کا مزاج خراب لگا۔ وجاہت کا بھی موڈ کچھ عجیب سا ہوگیا۔ مہرو نے بے دلی سے کیک کاٹا، تالیوں کی آواز میں اس نے سرگوشی سنی ’’بھابھی بہت بدلحاظ ہیں۔‘‘
اس نے آواز کا تعاقب کیا تو وجاہت کے چچا کے بیٹے اسے ہی گھور رہے تھے۔ اسے اُن کی نظریں اپنے آر پار گھستی نظر آئیں۔ اس نے کیک کاٹ کر سب سے معذرت کرتے ہوئے اپنے کمرے کی راہ لی۔
وہ جانتی تھی وجاہت اس سے ناراض ہوگا، اور ایسا ہوا بھی۔ وجاہت کمرے میں خراب موڈ کے ساتھ داخل ہوا۔ ’’تم جانتی ہو سب کی تمھارے بارے میں رائے ہے کہ تم بدمزاج ہو، ڈھنگ سے کسی سے بات نہیں کرتیں۔‘‘ سرد رویّے نے اسے اندر تک سے توڑ دیا تھا۔
’’مجھے پروا نہیں ہے‘‘، بھرائی ہوئی آواز پر وجاہت چونکا تھا۔ ’’مگر میں اپنی شرم و حیا پر اب اور سمجھوتہ نہیں کرسکتی، یہ سب میری اقدار کے خلاف ہے۔‘‘
’’کون سی اقدار…؟ یہ کہو تمھیں میرے گھر والوں یا میرے رشتے داروں کے خلوص پر شک ہے۔‘‘ وجاہت کے استفسار پر وہ اُن کے سامنے آکھڑی ہوئی ’’میں سب کے ساتھ گھل مل کر ہی رہنا چاہتی ہوں لیکن ہر رشتے کی اپنی ایک حد ہوتی ہے، میں نہیں چاہتی کہ ان حدود کو پار کیا جائے۔‘‘
’’کون کن حدود کو پار کررہا ہے؟ سارا مسئلہ تمہارے دماغ کا ہے، تم… ‘‘ وجاہت نے غصے میں ہاتھ میں پکڑے پھول بیڈ پر پٹختے ہوئے کہا ’’ضرورت سے زیادہ سوچتی ہو‘‘۔
’’ہاں سوچتی ہوں… میں مسلمان ہوں، مجھے اپنی حدود و قیود کا علم ہے، جو احکامات مجھ پر لاگو ہیں مجھے انھیں بجا لانے دیں۔‘‘ وہ سسک پڑی تھی۔ بلاشبہ اس کی سسکیاں وجاہت کے لیے تکلیف دہ تھیں۔
’’آپ جانتے ہیں میری تیاری، میرا پہننا، اوڑھنا سب صرف آپ کے لیے ہے، میں نے بہت کوشش کی کہ میں آپ کے گھر کے ماحول میں ڈھل سکوں، مگر یہ حد سے زیادہ بے باکی میرے لیے ناقابلِ برداشت ہے، اللہ پاک نے مجھے نایاب بنایا ہے۔ قیمتی اور ہر انمول چیز پر غلاف چڑھا ہوتا ہے مگر میں یہاں بے وقعت ہوگئی ہوں، مجھے اپنا آپ بے معنی لگنے لگا ہے۔‘‘
’’اچھا اب یوں رونا بند کرو، دیکھو شرم و حیا ہماری آنکھ میں ہونی چاہیے، ہمارے دل میں ہونی چاہیے۔‘‘
’’تو پھر ازواجِ مطہرات تو ہم سے زیادہ شرم و حیا کا پیکر تھیں، مگر انہوں نے بھی اپنے آپ کو چھپایا۔‘‘ وہ اپنے مؤقف پر قائم تھی۔
’’دیکھو! ہم کہاں اُن کی برابری کرسکتے ہیں!‘‘ وجاہت نے اٹکتے ہوئے کہا۔
’’لیکن کیا ہم کوشش کرنا بھی چھوڑ دیں؟‘‘ اس کے سوالیہ انداز نے وجاہت کو اندر سے جھنجھوڑ دیا تھا۔
’’تم یہ بتائو کہ کیا چاہتی ہو؟‘‘ وجاہت نے اس کی نم آنکھوں میں جھانکتے ہوئے پوچھا۔
’’میں چاہتی ہوں میرا سجنا سنورنا صرف آپ کے لیے ہو، کیا آپ مجھے حجاب کی اجازت دیں گے؟‘‘ اس نے مضبوط لہجے میں کہا۔
جواباً اس نے مہرو کے دونوں ہاتھ تھام لیے ’’دیکھو مہرو! بدلائو اچھا ہے مگر آہستہ آہستہ، تھوڑا ٹھیر کر۔ ہر چیز کو تھوڑا وقت دینا چاہیے، کہیں ایسا نہ ہو کہ ابھی یہ تمہارا جذباتی فیصلہ ہو۔‘‘ وجاہت نے اسے سمجھانا چاہا۔
’’نہیں وجاہت! میں نے بہت سوچ سمجھ کر یہ فیصلہ کیا ہے، حجاب ہی میں میرا وقار ہے اور اِن شاء اللہ آپ کے گھر والوں کو بھی اعتراض کا موقع نہیں ملے گا، نہ کوئی رشتہ کٹے گا اور نہ ہی کسی کا آنا جانا کم ہوگا، میں ساری ذمہ داریاں نبھائوں گی، بس اپنے دائرے میں رہ کر۔‘‘
مہرو کی ڈبڈباتی آنکھوں نے وجاہت کو بہت کچھ باور کروا دیا تھا اور اُس کو اپنی شریکِ حیات کے انتخاب پر فخر سا محسوس ہوا تھا، اور آج مہرو کو بھی اپنے قیمتی ہونے کا احساس ہوا تھا۔