’’ تمھیں کیسے معلوم ہوا کہ میری مادری زبان سندھی ہے۔‘‘
گورنمنٹ گرلز ہائرسیکنڈری اسکول ،خیرپورمیرس کی آٹھویں جماعت کی طالبہ ام کلثوم نے گاجر کا حلوہ کھانے میں مصروف غلام سکینہ کو گھورتے ہوئے کہا۔
’’’’ ادی۔۔۔ خدیجہ نے تمھارا ’’ پاکستانی ادب کے معمار‘‘ نامی کتاب کے تبصرے کو پڑھا تھا ۔ جو تم نے انڈس کاٹیج لائبریری کے قائم کردہ کتب خانے میں پڑھی تھی۔‘‘
غلام سکینہ نے اپنے چشمے کو سیدھا کرتے ہوئے جواب دیا۔
’’مجھے تم سے یہ امید نہیں تھی خدیجہ۔۔۔۔‘‘ام کلثوم نے خدیجہ کی جانب قدم بڑھائے۔
’’واہ۔۔۔بھئی ۔۔۔واہ۔۔۔ہمیں کہتی ہو کہ انگریزی کیوں پڑھتے ہو؟ یہ تو غیروں کی زبان ہے ۔اورخود مزے سے اردو، انگریزی اورسندھی میں کتب پڑھتی ہو؟ کیا یہ1973کے تناظر میں درست عمل ہے۔‘‘
نٹ کھٹ سی خدیجہ نے دلیری سے کہا تو ام کلثوم کے بڑھتے قدم رک گئے۔
’’ کتاب پڑھو اور پڑھائو۔۔۔۔۔یو ں سب کتب خانے میں شور نہ مچائو۔۔۔‘‘ سیدہ فاطمہ زہرہ نے دور سے آواز لگائی۔
’’سیدہ صغرہ بتول! تمھاری ہی کمی ہے، تم کیوں دور کھڑی ہو؟تم بھی آگ لگانے کو آئو۔‘‘سیدہ نتاشا نے حسب معمول بچپن کی سہیلی کو چھیڑا۔
سیدہ مجیدہ، زینب،سیدہ ثانیہ زہرا،زہرہ بتول،مناہل ، ماریہ ، نیہابتول،سمعیہ،سیدہ سعدیہ جیلانی، ام فروااوربسمہ بتول نے غصے سے تیز آواز میں بولنے والی لڑکیوں کی طرف دیکھا تو وہ سب خاموش ہوگئیں۔
’’ یہ کتب خانہ ہے، یہاں خاموش رہ کر پڑھا جاتا ہے۔۔۔آئی سمجھ۔۔۔۔‘‘حفصہ سومرو نے اچانک بیان جاری کیا۔
عنابیہ، رحمت فاطمہ، آصفہ اوریشحا نور نے حفصہ سومرو کومنہ پر انگلی رکھ کر خاموش ہونے کا اشارہ کیا تو ام کلثوم، غلام سکینہ اورخدیجہ تیزی سے کتب خانے کی الماری میں سے کتب اوررسائل نکالنے لگیں۔ام کلثوم نے ستمبر2024میں شائع ہونے والی عالمی ادیب اطفال اردو ڈائریکٹری، غلام سکینہ نے سہ ماہی باغیچہ اطفال کا ’’ اسکول نمبر‘‘، خدیجہ نے سہ ماہی سرائے اردو کا’’ ادیب نمبر‘‘ اٹھایا اورآرام دہ کرسی پر بیٹھ کر پڑھنے لگیں۔
انھوں نے سوچ لیا تھا کہ آئندہ کتب خانے میں شور نہیں کرنا ہے کہ جس طرح مسجد میں عبادت کے لیے جاتے ہیں اسی طرح کتب خانے میں علم کے متلاشی رخ کرتے ہیں۔دل ہی دل میں تینوں سہیلیوں نے حفصہ سومرو کو ننھی استانی کا خطاب دے دیا تھا جس نے انھیں کچھ سمجھانے کی کوشش کی تھی۔