سرخ جھنڈا

95

ٹرین تیز رفتاری سے اپنا سفر طے کر رہی تھی۔ لڈّن اپنے سیٹ پر خاموش بیٹھا سوچوں میں غرق تھا۔ اسے یہ خوف کھائے جا رہا تھا کہ اگر ٹکٹ چیک کرنے والا ڈبّے میں آگیا تو ایسا نہ ہو کہ اسے جیل کی ہوا کھانی پڑ جائے۔ لڈّن اپنی فطرت سے مجبور تھا۔ جیسا کہ آپ کو معلوم ہے کہ یہ وہی شخص ہے جو جیب کاٹنے کا ماہر ہے۔ موقع ملنے پر چھوٹی موٹی چوری بھی کر لیتا ہے اور اپنے اس بدقماش پیشے کو اپنا فن سمجھتا ہے۔ لڈّن بغیر ٹکٹ سفر کر رہا تھا۔ زندگی میں آج پہلی بار اسے ٹرین پر سفر کرنے کا اتفاق ہوا تھا۔

اسے اسلام آباد دیکھنے کا بڑا اشتیاق تھا۔ اس نے لوگوں سے سن رکھا تھا کہ اسلام آباد پاکستان کا دارالحکومت ہے لہٰذا یہ شہر بہت صاف ستھرا ہے، وہاں کے لوگ مہذب ہیں‘ وہاں ٹریفک کا نظام بہت اچھا ہے، سڑکیں شاندار ہیں۔ کراچی کی طرح کھنڈر نما نہ تو سڑکیں ہیں اور نہ ہی اُبلتے ہوئے گٹر۔ پڑھے لکھے لوگوں کی تعداد زیادہ ہے اس لیے ہر شخص قانون کی پاسداری کرتا ہے۔ قانون وہاں پر سخت ہے۔

بات ہو رہی تھی کہ لڈّن کو اسلام آباد دیکھنے کا بہت اشتیاق تھا، لہٰذا وہ اسلام آباد کے لیے محوِ سفر تھا۔ ٹرین ملتان اسٹیشن پر رکی۔ پلیٹ فارم پر ایک جمّ ِغفیر تھا ۔نعرے بازیاں عروج پر تھیں’’ہماری مانگیں پوری ہوں‘‘… ’’انقلاب زندہ باد‘‘ ہر شخص کے ہاتھ میں سرخ جھنڈا تھا۔ لوگ بہت جذباتی نظر آرہے تھے۔ ابھی ملتان کے مسافر ڈبے سے اترنے بھی نہیں پائے تھے کہ پارٹی کے افراد اندھا دھند ڈبے میں گھسنے لگے۔ سارے ڈبے ان انقلابیوں سے کھچا کھچ بھر گئے۔ ایک انقلابی کسی طرح لڈّن کے برابر میں گھس کر بیٹھ گیا ۔لڈن نے ازراہِ ہمدردی اس سے پوچھ لیا کہ’’تم لوگ کون ہو اور کہاں جا رہے ہو؟‘‘

جواب ملا ’’ہم لوگ جذباتی پارٹی سے تعلق رکھتے ہیں اور اسلام آباد جا رہے ہیں تاکہ وہاں وزیرِاعظم ہاؤس کے سامنے دھرنا دیں اور اپنی مانگیں پوری کرا سکیں ۔ہم پر بہت ظلم ہو رہا ہے ہم ظلم کے خلاف آواز اٹھائیں گے۔‘‘

دورانِ گفتگو لڈّن نے دریافت کیا کہ’’تم لوگوں نے ٹکٹ تو ضرور لیے ہوں گے؟‘‘

جواب ملا ’’ہمیں ٹکٹ کی بھلا کیا ضرورت‘ بس یہ سرخ جھنڈا ہی ہمارے لیے کافی ہے‘ یہی ہمارا ٹکٹ ہے اس کے ہوتے ہوئے کوئی ہم سے ٹکٹ کا مطالبہ کرنے کی ہمت بھی نہیں کر سکتا۔‘‘

لڈّن چوں کہ ٹکٹ نہ ہونے کی وجہ سے خوف زدہ تھا اس لیے اس نے سوچا کہ اگر ہمارے ہاتھ میں بھی سرخ جھنڈا ہو تو ہم بھی اسٹیشن سے باہر آرام سے عزّت کے ساتھ نکل سکتے ہیں۔ لڈّن نے برابر میں بیٹھے ایک انقلابی بھائی سے دریافت کیا کہ ’’کیا ہمیں بھی ایک سرخ جھنڈا مل سکتا ہے تاکہ ہم بھی آپ کی تحریک کا حصّہ بن سکیں؟‘‘

جواب ملا ’’ہاں… ہاں کیوں نہیں‘ یہ تو ہمارے لیے خوشی کی بات ہے۔‘‘ اور لڈّن کو ایک سرخ جھنڈا پکڑا دیا۔

اسلام آباد پہنچنے میں ابھی کافی وقت درکار تھا پارٹی کی طرف سے کھانے پینے کا بہترین انتظام تھا چوں کہ لڈّن کے ہاتھ میں بھی سرخ جھنڈا تھا اور بظاہر وہ بھی پارٹی کا رکن شمار کیا جا رہا تھا لہٰذا سارے راستے خوب عیش میں گزرے۔ ملتانی چھولے اور ملتانی حلوے سے خوب خاطر داری کی گئی۔ لڈّن ویسے بھی مفت خورا تھا اس کے مزے آگئے۔ دورانِ گفتگو لڈّن کو بتایا گیا کہ ان کی پارٹی کے لوگ اپنا حق حاصل کرنے کے لیے آخری وقت تک جنگ کرتے رہیں گے وہ دھرنا اس وقت تک جاری رکھیں گے جب تک ان کے مطالبات تسلیم نہ کر لیے جائیں۔

لڈّن ان لوگوں کے اخلاق اور مہمان نوازی سے بہت متاثر ہوا اور اس نے ارادہ کر لیا کہ وہ بھی ان کے ساتھ دھرنے میں ضرور حصہ لے گا اور ہو سکتا ہے واپسی پر ملتان بھی رُکے، ایسے اچھے لوگ بھلا کہاں بار بار ملتے ہیں۔

ٹرین اسلام آباد پہنچ گئی‘ جذباتی پارٹی کے کارکن سرخ جھنڈا ہاتھ میں لیے پلیٹ فارم پر نعرے بازی کرتے ہوئے باہر گیٹ کی جانب بڑھتے رہے‘ کسی کا بھی ٹکٹ چیک نہیں کیا گیا۔ سب اطمینان سے گیٹ کے باہر آگئے۔ لڈّن اپنی ذہانت پر اپنے آپ کو داد دے رہا تھا کہ کس عقل مندی سے سرخ جھنڈا حاصل کر کے بغیر ٹکٹ وہ اسلام آباد پہنچ گیا۔ اب تو اسلام آباد کی سیر کرنے میں بھی خوب مزا آئے گا اگر ٹرین کا ٹکٹ خرید کر سیر کرتے تو شاید اتنا لطف نہ آتا۔

اسٹیشن گیٹ کے باہر کا منظر ہی کچھ اور تھا…
’منتظر تھی ایک طوفانِ بلا ان کے لیے‘

ہزاروں کی تعداد میں پولیس والے مع بندوق اور ڈنڈوں کے ان محبّانِ وطن کے استقبال کے لیے مستعد کھڑے تھے۔ پولیس کی نظروں میں یہ احتجاجی دہشت گرد کی فہرست میں شامل تھے۔ پکڑ دھکڑ شروع ہو گئی مجمع میں بھگدڑ مچ گئی ۔کچھ نے بھاگنے کی کوشش کی جو کامیاب ہو گئے باقی پکڑے گئے۔ ان بدنصیبوں میں سرخ جھنڈا ہاتھ میں لیے لڈّن شریف بھی تھے۔ پہلے ڈنڈوں سے ضیافت کی گئی بعدازاں پولیس کی گاڑیوں میں بٹھا کر باحفاظت تھانے پہنچا دیے گئے۔ لڈّن کے لیے پولیس تھانے میں رات گزارنے کا یہ پہلا اتفاق تھا، رات کیا تھی شیطان کی آنت تھی، کسی طرح گزر کے نہ دے، سونے پہ سہاگہ مچھروں کی یلغار اور پھر کچھ کھائے پیے بغیر رات گزارنی لڈّن کے لیے کسی عذاب سے کم نہ تھی۔

’مارا دیارِ غیر میں مجھ کو وطن سے دور‘ اسے کراچی شدّت سے یاد آرہا تھا۔
اگلے روز سارے گرفتار شدگان عدالت میں پیش کیے گئے۔ لڈّن بھی ان میں شامل تھا۔ جج نے ان دہشت گردوں کے خلاف اپنا فیصلہ سنا دیا۔ ہر دہشت گرد کو دو سال قیدِ با مشقت کی سزا سنائی گئی۔ لڈّن اڈیالہ جیل میں قیدی نمبر 212 کا بلّہ لگائے اپنی قسمت کو رو رہا ہے۔

’نہ کھاتے گیہوں نکلتے نہ خلد سے باہر‘ نہ اسلام آباد جانے کا ارادہ کرتے نہ ہی اس مصیبت میں گرفتار ہوتے۔ اب لڈّن جیل میں بیٹھا خیالوں میں اسلام آباد کی سیر کر رہا ہے۔

حصہ